دکھی عورت

In افسانے
December 01, 2021
دکھی عورت

افسانہ:دکھی عورت
مصنف:گوہر ارشد

شام کا موسم آسماں سے بارش کے قطرے وقفے وقفے سے زمیں کی طرف آتے دکھائی پڑرہے تھے۔بارش کی وجہ سے آسماں پر تاریکی وقت سے پہلے چھانی شروع ہو گئی تھی۔ہوائیں کافی تیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تن من کو چھو کر گزر رہی تھی۔یہ ہوائیں بھی بارش کی وجہ سے اتنی پر کیف تھی۔ویسے تو شہروں کے اندر گرمی کس قدر ہوتی ہے؟یہ کس سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔

گملے میں گلاب سرخ اور ہرے رنگ کے جن پر تتلیوں روز آتی،کچھ دیر ادھر ادھر گھومتی پھولوں کے لمس کے بعد اپنی راہوں پر نکل جاتی۔عشرت کے ساتھ ان کا خصوصی لگاؤ تھا۔شاید اس کو بھی وہ اک پھول ہی سمجھ رہی تھی؟؟اصل میں اس کی وجہ یہ بھی تھی” کہ اس کو سفید اور گلابی رنگ بہت پسند تھا،اور تتلیاں تو ان رنگوں کی دیوانی ہوتی ہیں”۔اس کے ہاتھ حد سے زیادہ ملائم جلد کی رنگت اتنی سفید کے اس کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا جیسے برف سے ڈھکے کسی پہاڑ کو دیکھا جا رہا ہو۔خاص طور پر شام کے وقت اس کے اردگرد تتلیوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ ان کو جس پھول کی تلاش تھی وہ ان کو مل گیا ہو۔کچھ تتلیاں اس کے ہاتھوں پر ہوتی تو کچھ اس کے سفید سوٹ پر۔۔۔۔بعض دفعہ تو مجھے ایسا لگتا کہ تتلیاں اصل پھولوں کو بھول گئی ہیں؟؟میرا نام نوشان ہے،عشرت میری خالہ کی بیٹی ۔میرے ماں باپ بچپن میں ہی جب میری عمر دس سال تھی۔اک بس کے حادثے میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔بہت محبت اور پیار سے رکھا انھوں نے مجھے ،جس دن بس کا حادثہ ہوا،صبح کے وقت ماں کا وہ محبت بھر لہجہ میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا،میرے ماتھے کو چوم کر رو کر رخصت کیا،شاید ان کو اندازہ ہو گیا تھا؟کہ مجھ سے ان کی آخری ملاقات ہے،ابو نے صبح جگایا تو کافی دیر باتیں کی،آج ان کی بات کچھ عجیب سی تھی،وہ اپنے کسی رشتہ دار کو دیکھنے ہسپتال جا رہے تھے،کہ بس کا حادثہ ہوا،اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ابدی جہاں میں کوچ کر گئے,میں سکول میں تھا۔

ابو معمولی سے اک آفس میں کلرک تھے،ان کی ساری زندگی کی کمائی ہمارا پیٹ پالنے میں اور اک مکان کی تعمیر میں گزر گئی۔میں سکول سے گھر پہنچا،تو دونوں مردہ حالت میں میرے سامنے موجود تھے۔میں کافی دیر ان کو دیکھ کر روتا رہا،ابو کا اک بھائی۔جو دو بڑی فیکٹریاں کا مالک تھا،وہ عام لوگوں کا بہت خیال رکھتا لیکن ہمیں سوائے طعنوں کے اس سے کبھی کچھ نہیں ملا۔آج وہ بھی جھوٹی ہمدردی دکھانے وہاں موجود تھا۔اور بھی بہت سے لوگ مگر کسی کو میرے درد کا احساس تک نہ تھا،کہ میں کون سی آگ میں جل رہا ہوں۔سب اپنی اپنی باتوں میں مشغول تھے،وہاں پر عشرت کی امی یعنی میری خالہ بھی موجود تھی۔خالہ کی دو بیٹیاں تھی،عشرت اور ناہید۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرو! پھر اک کمرے میں جا کر سو گیا۔شام تک کفن دفن کے بعد میں جاگا تو ہر طرف خاموشی تھی۔خالہ اور کو چھوڑ کر سب اپنے اپنے گھر جا چکے تھے۔رات کو ہلکا کھانا کھانے کے بعد میں سو گیا۔

چونکہ خالہ گاؤں میں رہتی تھی۔تو انھوں نے سویرے چھ بجے والی گاڑی پر جانا تھا۔انھوں نے مجھے بہت بولا کہ میں ان کے ساتھ گاؤں چلوں،لیکن میں نے انکار کر دیا۔جس کے بعد وہ ناراض ہو کر چلی گئی۔مجھے میری غلطی کا احساس بہت جلد ہوا لیکن وقت گزار چکا تھا۔دوپہر کے وقت باہر سڑک پر نکلا تو اک پانچ سال کا بچہ روڈ پر کھیلتا نظر آیا دوسری طرف سے اک گاڑی تیزی سے اس کی طرف آتی دکھائی دی۔۔۔۔۔۔ میں بھاگ کر اس کے پاس گیا۔اس کو سڑک سے اک کنارے پر کیا۔اتنے میں اس کے والد گاڑی میں آگئے۔انھوں نے بچہ کو بچاتے مجھے دیکھ لیا تھا۔وہ بہت خوش ہوئے۔میرے بارے میں پوچھا تو میں نے سب بتا دیا۔۔۔۔وہ کافی افسردہ ہو گئے.مجھے ساتھ لیا اور اپنے گھر لے گئے۔ان کا اور ہمارا گھر قریب قریب تھا۔پہلے میں کبھی ان سے نہیں ملا تھا۔وہ بولے کہ آج کے بعد تم ہمارے ساتھ رہوں گئے۔وہ آنٹی بہت اچھی تھی۔انھوں نے مجھے بہت پیار دیا۔جب میں تھوڑا بڑا ہوا تو اپنے ہی آفس میں مجھے نوکری دے دی۔میں نے تعلیم بھی جاری رکھی اور ساتھ میں کام بھی۔ان ہی کی بدولت میں اک خوشحال زندگی گزارنے کے قابل ہوا۔آج میرے پاس اللہ کے فضل سے اپنی گاڑی اور وہ سب ہے جو اک عام انسانی زندگی کی ضرورت ہوتا ہے۔عشرت کی اور میری شادی کو تین سال ہو چکے ہیں۔آج تک مجھے اس کے خفا رہنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔وہ اکثر کہا کرتی ہے کہ آپ اک عورت کے دکھ کو کبھی سمجھ نہیں سکتے؟؟؟

اپنے معمول کے مطابق شام کے وقت لوگوں اپنے گھروں کی طرف رواں دواں،کچھ گاڑیوں پر تو کچھ پیدل،پرندے کا معمولی شور روز کی بات ہے۔ کھڑکی میں کھڑی عشرت بڑے غور سے سڑک پر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتی۔آج وہ ایک سال کے بعد اپنے گھر جا رہی تھی،لیکن اس کے چہرے پر پہلے کی نسبتاً زیادہ اداسی تھی۔مجھے لگا شاید وہ گاوں میں جانے کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے۔وقت نہیں گزار رہا اس لیے پریشان ہے۔میں نے پوچھا کہ کچھ مسئلہ ہے؟؟؟تو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی نہیں تو ویسے ہی طبعیت بوجھل ہو رہی ہے۔اتنا کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔دوسرے دن کا آغاز بہت شاندار ہوا۔ہم دونوں اس کے گاؤں کے لیے نکلے۔راستے بھر اس کا مزاج بہت خوشگوار رہا۔ہنستے ہنستے باتوں میں سارا سفر کیسا گزارا پتا ہی نہیں چلا؟؟اس کے گھر اس کی امی اور بہن دروازے پر ہمارا انتظار کر رہی تھی۔اس کی بہن کے ہاں دو بیٹیاں تھی۔جن کے نام رابیہ اور علینا.۔ہم جس دوپہر کے وقت وہاں پہنچے۔سورج اپنے پورے تپاک سے موجود تھا،گرمی تو تھی مگر شہر کی گرمی کے آگے اس کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ان کا گھر عام گاؤں والوں کی نسبت کافی بڑا تھا۔اس کے ابو خاندانی جاگیردار تو نہیں تھے۔لیکن اپنی محنت اور لگن سے اپنا نام محلہ کے عزت دار لوگوں میں بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔گھر کا صحن مختلف طرح کے پھولوں سے بھرا پڑا تھا۔صحن میں لگی بیلیں گملوں سے نکل کر گھر کی دیوار اور چھت پر پوری یکسوئی سے اوپر چڑھ رہی تھی۔گھر بڑا ہونے کے باوجود بہت صاف ستھرا تھا۔وہ پورے گھر کا کام خود کرتی کبھی بھی تھکن کا گلہ نہیں کیا۔وہ اکثر یہ اپنی بیٹیوں کو نصیحت کرتی “کہ انسان کو اپنا کام خود کرنا چاہیے،بے وجہ لوگوں سے امیدیں وابستہ کرنا اچھی بات نہیں”۔

آج چونکہ عشرت کافی عرصے کے بعد گھر آئی،تو اس کی ماں سمیت اس کی بہن اور بچیاں بہت خوش تھی۔عشرت سے میری شادی کو تین سال گزارنے کے باوجود ہمارے اولاد نہ تھی۔ڈاکڑ کا کہنا یہ تھا کہ وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی۔اس بات نے اس کو کافی افسردہ کر رکھا تھا ۔لیکن وہ نہیں مانتی کہ وہ اس لیے پریشان ہے؟گھر کے تمام تر کمرے سجاوٹ سے بھرپور مگر ان کے مہمان خانہ کی بات ہی کچھ اور تھی،اس کمرے کی دیواریں رنگین ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کی تصاویر اور پینٹنگ سے بھری پڑی تھی۔ضرورت کی تمام تر اشیاء اس میں موجود تھی۔گلدستوں اور مصنوعی پھولوں کو دیکھ کر گھر کم اک پھول فروش کی دوکان زیادہ لگ رہا تھا۔اسی ہال کے اندر مجھے بیٹھایا گیا.عشرت تھوڑی دیر تک گھر والوں کے ساتھ رہی لیکن شائد خالہ نے اسے میرے پاس بھیجا۔باقی سب کھانا بنانے میں مصروف تھے،اس نے آتے ہی پوچھا “آپ کیا کھانا پسند کرے گئے”۔امی پوچھ رہی ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ہاں ان کے ہاتھ کی سبزی نہیں کھائی،کوئی سبزی بنا دے۔مجھے مسلسل گھورے جا رہی تھی۔میرا جواب سننے کے بعد وہ مسکرائی اور باہر ان کو بتانے چلی گئی،میں جب چھوٹا تھا تو امی کے ساتھ کچھ کبھار خالہ کے گھر آ جایا کرتا۔اور خالہ کو خوب تنگ کرتا۔وہ بغیر کسی وجہ کے میری ہر خواہش پوری کرتی۔شاید اسی لیے جب میں نے عشرت سے شادی کی بات کی تو خالہ نے دوسرا سوال نہیں کیا۔اتنا کہا کہ کب کرنی ہے؟؟عشرت دوبارہ سے کمرے میں داخل ہوئی۔اس کے ہاتھ میں اک پلیٹ تھی،جس میںں سیب موجود تھے،اس کا چہرہ اطمینان بخش تھا آج وہ پہلی بار اتنی پرمسرت محسوس ہوئی۔سیب کی پلیٹ اک طرف رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ہمارے سامنے موجود کھڑی سے باہر علینہ اور رابعیہ کھیلتی نظر آرہی تھی۔وہ ان کو غور سے دیکھے جا رہی تھی۔اس کا چہرہ پھر سے اداس لگنے لگا۔جیسے مسلسل کسی درد کی وادی سے گزار رہی ہو۔اس کے چہرہ کی رنگت سورج جیسی زرد مائل ہوگئی کچھ دیر سوچنے کے بعد پھٹ پڑی۔پتہ ہے نوشان میں اکثر آپ سے کہا کرتی تھی؟ “کہ اک عورت کے دکھ کو آپ کبھی نہیں سمجھ سکتے”؟آج علینہ کو دیکھ کر کچھ پرانی یادیں تازہ ہوگئی۔اک عورت کی زندگی بھی کتنی عجیب ہوتی ہے ناں؟؟پہلی کسی کی بیٹی کسی کی بہن کسی کی دوست کسی کی گڑیا کسی کے جگر کا ٹکڑا تو کسی کے ارمانوں کی رانی۔۔۔۔۔؟

جب کسی بھی گھر کے اندر اک بیٹی کا جنم ہوتا ہے تو سب کے دلوں میں خوشیوں کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔اک بھائی کے لیے اس کی بہن سب کچھ،اک باپ اپنی ساری زندگی اس کی خوشی کے لیے وقف کر دیتا ہے اور ماں اس پر دھوپ کا سایہ بھی پڑنے نہیں دیتی” کہ میری بچی کئی کالی نہ ہو جائے”ماں کو اس کے کالے ہونے سے مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو لگ رہا ہوتا ہے کہ اس کے کالے جسم کے ساتھ اس کے نصیب بھی کالے ہوجائے گے۔اس کے ظاہری حسن پر توجہ دیتی ماں اس کے اندر کے حسن کو مار دیتی ہے،اس کی سیرت کو سنوارنے کے بجائے اس کی صورت کو سنوارتی رہتی ہے،جس کا خمیازہ بھگتنا بیٹی کو پڑتا ہے،اب سکول جانے کی عمر تک بیٹیوں کو سر کا تاج سمجھ جاتا ہے،ہر طرف رشتےداروں اور گلی محلوں میں اس کی معصومیت کے گن گائے جاتے ہیں،اس کو اک معصوم کلی سمجھ کر سکول گھر محلے یہاں تک کے انجان بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ساتھ کے بچے بچیاں اچھے کلاس فیلو ہونے کے ساتھ اچھے دوست بھی ہوتے ہیں۔ہر اک کو اس کی اداؤں پر ناز ہوتا ہے،۔اس کی سہلیاں اس سے بلاجھجک بات کرتی اس کے دکھ سکھ میں شریک ہوتی ہیں۔اک عورت کے ظرف کا اندازہ لگانا ہو تو اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ دوسری عورت کی خوشی کو وہ کس قدر انجوائے کرتی ہےاس کی خوشی میں کس قدر شریک ہوتی ہے۔اب ہوتا کیا ہے؟

لڑکی جب کلاس 9 تک جاتی ہے،تو لوگوں کی نظریں اس کو بھیڑیا کی طرح دیکھنا شروع ہو جاتی ہیں،جو ہر وقت اپنے شکار پر نظریں جمائے بیٹھا ہوتا ہے۔اب ماں،بھائی باپ سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس پر اپنی پابندیاں لگانا شروع کر دیتے ہیں،تم نے یہ نہیں پہنا؟یہاں نہیں روکنا؟ان سہیلیوں سے بات نہیں کرنی؟فلاں کے گھر نہیں جانا وغیرہ وغیرہ ،یہ ساری باتیں انسانی فطرت کا حصہ ہیں؟جو کام وہ پچھلے کئی عرصے سے کرتا چلا آرہا ہے وہ چھوڑنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔اور آپ زبردستی اس کو وقتی روک سکتے ہیں مگر ہمیشہ اس پر اپنی مرضی مسلط کرنا مشکل ہوتا ہے؟آپ اس کی تربیت اس وقت کرے جب وہ ناسمجھ ہے؟؟جب اس کو کچھ سمجھ نہیں،بچپن میں کہی ہوئی باتیں اور تربیت بچہ کبھی نہیں بھولتا۔”بچہ وہ نہیں کرتا جو آپ اس کو بتاتے ہیں بچہ وہ کرتا ہے جو وہ آپ کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے”؟باپ اک طرف درس دے رہا ہوتا ہے کہ بیٹا کسی کے ساتھ گالی گلوچ کرنا اچھی بات نہیں اور خود دن رات لوگوں کو گالیاں نکالتا ہے،بیٹی کو درس کے دوپٹہ سر پر ہمیشہ ہونا چاہیے ہمارے مذہب کا بھی یہی کہنا ہے اور آفس میں دوپٹہ اچھا نہیں لگ رہا۔آپ بال کھولے کر کام کرے۔

بھائی کہتا ہے تم بازار والے راستے سے مت جاؤ،وہاں آوارہ لوگ ہوتے ہیں،اور خود وہی پر موجود ہو کر دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کو آواز لگانا۔خیر تصویر کو دونوں جانب سے دیکھنا ضروری ہوتا ہے؟تعلیم اس کے لیے اتنی ہی جتنا باپ بھائی چاہے گا۔اس کی پسند ناپسند وہی جو باپ چاہے گا؟ماں باپ بھائیوں کا ادب بجا مگر جس پر آپ فیصلہ مسلط کر رہے ہیں اس سے اک بار پوچھنا ضرور چاہیے؟ساری زندگی کے رنج و الم اک طرف شادی اک طرف؟؟؟شادی کسی عورت کی زندگی کا وہ موڑ ہوتا ہے جس پر آگے ساری زندگی کا دارومدار ہوتا ہے،لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ان سے پوچھ بغیر فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور یہ بات کرکے ان کو اذیت دی جاتی ہے کہ وہ ہماری بیٹی ہے ہمارے کسی فیصلے سے انکار نہیں کریں گی۔اور مجبوراً اس کو ہاں کرنا پڑتا ہے؟پھر ساری زندگی بیٹی سسرال میں پل پل مرتی ہے وہی جس کے لیے باپ کا کبھی یہ دعویٰ ہوتا تھا کہ اس کی طرف اٹھنے والا ہاتھ میں کاٹ کر پھینک دوں گا؟اب وہ بھی صبر کا درس دے رہا ہوتا ہے،بیٹی کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہوتا اگر اس کے ہاں بیٹا پیدا نہ ہو تو مسئلہ،اس کو اولاد نہ ہو تو مسئلہ ،اس کا شوہر کام نہ کرے تو مسئلہ؟؟؟

سب کچھ اک عورت ہی سہتی ہے،پھر شوہر اگر بدکلامی کرے تو اس نے خاموش رہنا ہے وہ مارے تو صبر،وہ غلط کہے یا صحیح آپ نے ہاں میں ہاں ملانی ہے؟اور آج بھی اولاد نہ ہونے کا دکھ اندر ہی اندر مجھے کھاتا جاتا ہے،کیسے بتاؤں آپ کو ؟؟؟کہ اک عورت پر کیا گزارتی ہے جب دوسری عورتیں طعنے دے؟جب دوسری عورتیں اپنے بچوں کو پیار کرتی ہیں؟پھر بھی رب نے اگر آزمائش رکھی ہے؟تو اس کے اندر کچھ بہتری ہی ہو گئی،قدرت ہر اک سے الگ الگ طرح سے امتحاں لیتی ہے،اور اس سب کے باوجود اگر اک عورت اللہ پاک کا شکر ادا کرنے والی بن جائے تو اس سے بہتر کوئی نہیں۔اتنے میں اس کی امی اور بہن کھانا لے کر آئی اور مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔کیا باتیں ہو رہی ہیں؟؟اس کی بہن طنز کرتے ہوئے باہر کی جانب مڑ گئی۔اور بچیوں کو کھانے کے لیے اندر بلانے لگی۔اس کے چہرے سے قدرے اداسی ختم ہوئی آج مجھے کافی ساری چیزوں کا ادراک ہوا،مجھے میرے سوالوں کا جواب مل چکا تھا۔

ختم شدہ