Skip to content

مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ قسط نمبر 2

چاہے مجھ پر نفرین کی جائے مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج تک میرا سامنے کوئی یہ ثابت نہ کر سکا کہ احباب کا ایک جم غفیر رکھنے اور شناسائی کے دائرے کو وسیع کرنے سے کیا فائدہ ہے ؟میں تو یہی تک کہتا ہوں کہ اگر دنیا میں کچھ کام کرنا ہے اور باتوں ہی میں عمر نہیں گزارنی تو بعض نہایت عزیز دوستوں کو چھوڑنا پڑے گا اس سے میرے دل پر کیسا ہی صدمہ ہو۔
احمد مرزا میرے دوست ہیں ، جنھیں میں بھڑبھڑیا دوست کہتا ہوں۔یہ نہایت معقول آدمی ہیں اور میرے ان کی دوسری نہایت پرانی اور بے تکلفی کی ہے مگر حضرت کی خصلت میں یہ داخل ہےکہ وہ دو منٹ میں نچلا نہیں بیٹھا جاتا، جب آئیں گے تو شور مچاتے ہیں ، چیزوں کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے ۔غرض کہ ان کا آنا بھونچال کے آنے سے کم نہیں ہے ۔ جب وہ آتا ہے تو میں کہتا ہوں کوئی آ رہا ہے ، قیامت نہیں ہے ،،_ ان کے آنے کی مجھے دور سے خبر ہوجاتی ہے ۔باوجود یہ کہ میرے لکھنے پڑھنے کا کمرہ چھت پر ہے ۔اگر میرا نوکر کہتا ہے کہ میاں اس وقت کام میں بہت مصروف ہے،،_تو وہ پورا”چیخنا شروع کر دیتے ہیں۔ کم بخت کو اپنی صحت کا بھی کچھ خیال نہیں۔نوکر سے کہتا ہے خیراتی کب سے کام کر رہے ہیں ؟یعنی یہ تو بہت دیر سے لگا ہوا ہے؟ توبہ توبہ ! اچھا بس میں ایک منٹ ان کے پاس بیٹھو گا۔مجھے خود جانا ہے ۔چھت پرہی ہو گا۔میں پہلے ہی سمجھ چکا ہوں ۔
یہ کہتے ہوئے اوپر آتے ہیں اور دروازہ کو اس زور سے کھلتے ہیں کہ گویا گولا آکے لگا ۔آج تک انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا نہیں اور آندھی کی طرح داخل ہوتے ہیں۔
وہ آکے یہی بولتا ہے کہ میری وجہ سے اپنا لکھنا بند مت کرو میں صرف آپ کی طبیعت پوچھنے آیا تھا کہ آپ خیریت سے ہو۔میں بیھٹوں گا نہیں میں چلتا ہوں۔ اللہ حافظ ،،
یہ کہہ کر وہ نہایت محبت سے مصافحہ کرتے ہوئے میرے ہاتھ کو اس قدر دباتے ہیں کہ انگلی میں درد ہونے لگتا ہے اور میں قلم بھی نہیں پکڑ سکتا ۔اس دوست کو میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں مگر میرے دل میں وہ خیالات بھی آتے ہیں جو فقیر کہتے تھے۔
میرے ایک اور دوست محمد تحسین ہے ۔یہ بال بچوں والے صاحب ہے اور رات دن ان ہی کی فکر میں رہتے ہیں ۔کبھی ملنے آتےہیں تو سہ پہر کے قریب آتے ہیں۔جب میں کام سے فارغ ہو چکتا ہوں لیکن اس قدر تھکا ہوا ہوتا ہوں کہ دل چاہتا ہے کہ ایک گھنٹہ آرام سے کرسی پر خاموش پڑا رہوں مگر تحسین آئے ہیں ان سے ملنا ضروری ہے ۔ان کے پاس بات کرنے کے لیے سوائے اپنی بیوی بچوں کی بیماری کی اور کوئی مضمون نہیں ہے ۔میں کتنا ہی کوشش کرو مگر وہ اس مضمون سے باہر نہیں نکلتے ۔اگر میں موسم کا تذکرہ کرو تو کہتے ہیں ،، ہاں بڑا خراب موسم ہے ۔میرے چھوٹے بچے کو بخار آ گیا ۔لڑکی کھانسی میں مبتلا ہے،، اگر لٹریچر کے متعلق گفتگو شروع کرتا ہوں، تو وہ فوراً معذرت پیش کرتے ہیں کہ بھائی آج کل گھر بھر بیمار ہے ۔مجھے اتنی فرصت کہاں کہ اخبار پڑھوں۔ اگر کسی عام جلسے میں آتے ۔تو اپنے لڑکوں کو ساتھ لیے ہوتے ہیں اور ہر ایک سے بار بار پوچھتے رہتے ہیں کہ طبیعت تو نہیں گھبراتی؟ پیاس تو نہیں معلوم ہوتی؟ کبھی کبھی نبض بھی دیکھ لیتے ہیں اور وہاں بھی کسی سے ملتے ہیں تو گھر کی بیماری ہی کا ذکر کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *