ہمارا رُتبہ، تُمہارا مقام یاد رہے خِرد سے دُور تُمہیں عقلِ خام یاد رہے ادا کِیا تو ہے کِردار شاہ زادے کا مگر غُلام ہو، ابنِ غُلام یاد رہے ابھی ہیں شل مِرے بازُو سو ہاتھ کِھینچ لِیا ضرُور لُوں گا مگر اِنتقام یاد رہے نہِیں ابھی، تو تُمہیں جِس گھڑی ملے فُرصت ہمارے ساتھ گُزارو گے شام یاد رہے خمِیر میں ہے تُمہارے، بڑے بُھلکّڑ ہو ابھی لِیا ہے جو ذِمّے تو کام یاد رہے جو اپنے آپ کو شُعلہ بیاں بتاتے تھے سو دی ہے اُن کی زباں کو لگام یاد رہے بِچھڑ تو جانا ہے اِتنا گُمان رہتا ہے لبوں کی مُہر، دِلوں کا پیام یاد رہے یہ مُعجزہ بھی کوئی دِن تو دیکھنے کو مِلے ہمارا ذِکر تُمہیں صُبح و شام یاد رہے بجا کہ زیر کِیا تُم نے اپنے دُشمن کو سنبھل سنبھل کے رکھو اب بھی گام یاد رہے نہ ہو کہ اور کہِیں دِن کا کھانا کھا بیٹھو ہمارے ساتھ ہے کل اِہتمام یاد رہے رشِید اُن کو کوئی بات یاد ہو کہ نہ ہو مگر تُمہارا وہ جُھک کر سلام یاد رہے رشِید حسرتؔ
از قلم اعسییم شاہین مشوانی (تربیلہ) مرگ سیاہ (بلیک ڈیتھ) یہ بات سن ١٣۴۵ عیسوی کی ہے جب ایک ایسی وبا پھیلی جس نے تاریخ کے اوراق پر بد نما سیاہ دھبے چھوڑے اس وبا سے ہزاروں اور پھر لاکھوں کی تعداد میں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے تاریخ میں اس کا ذکر یوں کیا جاتا ہے کہ ایشیا سے ہونے والی جہاز رانی کے سبب یہ وبا یورپ تک پہنچ گئی اور پھر وہاں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کو نگل گئی اس وبا کو طاعون کا نام دیا گیا طاعون ایک ایسا تکلیف دہ وبائی مرض ہے کہ اس میں ایک پھوڑا بغل میں نکلتا ہے جس کے زہر سے بہت کم ہی انسان بچ پاتے ہیں اکثریت اس تکلیف کو برداشت نہیں کر پاتی اور زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اس میں عموماً قے، غشی اور خفقان(دل کی دھڑکن بڑھ جانا) کا غلبہ رہتا ہے یہ بیماری سب سے پہلے چوہوں میں پھیلتی ہے اور پھر چوہوں سے انسانوں میں منتقل ہو جاتی ہے یہ ایک ایسا مرض ہے جو پسووں کے ذریعے پھیلتا ہے پسو ایک چھوٹا پردار کیڑا ہوتا ہے جو عموماً سرد اور مرطوب مقامات پر پایا جاتا ہے یہ کیڑا انسان اور جانوروں کا خون چوستا ہے جب یہ کیڑا طاعون زدہ چوہے کے جسم سے چمٹ کر اس کا خون چوس لیتا ہے تو اس طاعون زدہ چوہے کے جراثیم پسو میں منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر جب یہ دوسرے انسانوں یا جانوروں کا خون چوستا ہے تو وہی طاعون کے جراثیم دوسرے انسانوں اور جانوروں تک منتقل ہو جاتے ہیں اور اسی طرح کثیر تعداد میں لوگ اس خطرناک مرض کا شکاشکار ہو جاتے ہیں۔ طاعون کی تین بڑی اقسام یا مراحل ہیں ۔ جن میں خیارکی طاعون ,انتانی طاعون یا پھر پھیپھڑوں کا طاعون شامل ہے خیارکی طاعون میں مریض کے بغل یا جانگھ میں پھوڑا نمودار ہوتا ہے خیارکی طاعون میں مریض کے جسم میں موجود جرثومے اپنی تعداد بڑھاتے ہیں جب جرثومےاپنی تعداد بڑھا لیتے ہیں تو جسم کو شدید درد، کمزوری، قے ، تیز بخار جیسی کیفیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس صورت میں طاعون اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے یعنی خیارکی طاعون اپنے اگلے مرحلے انتانی طاعون میں منتقل ہو جاتا ہے اگر دوسرے مرحلے میں مریض پر غور نہ کیا جائے تو طاعون اپنی سب سے خطرناک صورت میں منتقل ہو جاتا ہے جس میں جرثومے کے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور پھر اس صورت میں پھیپھڑوں کے نسیج سےخون کا اخراج ہوتا ہے جو اکثر کھانسی یا تھوک کے ساتھ خارج ہوتا ہے ۔ اس موذی وبائی مرض کا شکار تاریخ میں سب سے پہلےعرب کے مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑا۔ ١٨ ہجری میں یہ موذی وبا پھیلی اور ہزاروں مسلم اور غیر مسلموں کو نگل لیا تاریخ انسانی میں انسان کو کئی ایسی مہلک اور جان لیواوباوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی روک تھام مشکل رہی اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ موت کا شکار ہو گئے ان وباوں نے دنیا کی تقریباً نصف آبادی کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ جب طاعون نے کروڑوں انسانوں کو موت کےگھاٹ اتارا تھا تو اس وقت مختلف مذاہب کے الگ ذہنی نظریات وخیالات بن گئے کچھ مذاہب اسے عذاب الٰہی سمجھنے لگے عیسائی اور یہودی اس وبا کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ مسلمانوں کے غلطیوں کی وجہ سے پھیلی ہے ہر مذہب کا ایک الگ ذہنی خیال بن گیا جب کوئی وبا پھیلتی ہے تو وہ صرف جسموں کو ہی نہیں بلکہ لوگوں کے ذہنوں اور ان کے خیالات کو بھی متاثر کرتی ہے کیونکہ دماغ جسم کا وہ واحد حصہ ہے جس کے ذریعے ہم سوچتے ہیں دماغ ناگہانی آفات، وبائی امراض، اور خوفزدہ کر دینے والے حالات میں خصوصی طور پر متاثر ہوتا ہے جب سکون کا ماحول ہو تو انسان کی سوچ اور خیالات بھی پرسکون ہوتے ہیں مگر جب دہشت اور خوف کے حالات ہوں ہر جانب موت کا سماں ہو تو ذہن میں کئی خیالات گردش کرنے لگتے ہیں کوئی انسان وبائی مرض سے بہت بعد میں مرتا ہے مگر وہ ذہنی بے سکونی اور خوفزدہ حالات کی وجہ سے جلدی مر جاتا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں طب کی دنیا میں نت نئے ایجادات اور دوائیں بنائی جا رہی ہیں آج جب کوئی وبایا انفکشن پھیلتا ہے تو اس پر کنٹرول پانا بہت آسان ہے کیوں کہ پرانے زمانے میں علاج روایتی طریقوں سے ہوتا تھا جس سے مرض خوف ناک صورت اختیار کر لیتا مگر آج کے دور میں جب کوئی مہلک مرض پھیل جائے تو طبی ماہرین اور سائنسی حضرات اسی دم جدید آلات کے ذریعے اس کے پھیلاؤ، اسباب اور روک تھام کے تجربات کرنے لگ جاتے ہیں آج کے سائنسی دور میں بھی وبائی امراض کروڑوں انسانوں کی جان لے لیتے ہیں کیوں کہ وبائی مرض کی مثال جنگل میں بھڑکتے آگ کی مانند ہوتی ہے جب پھیل جائے تو لاکھوں جنگلی نباتات وحیوانات کو تباہ کر دیتی ہے اسی طرح وبائی امراض بھی ہیں انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے گردوپیش کو صاف رکھے پانی، خوراک، فضا اور اپنی جسمانی صفائی کا خصوصی خیال رکھے۔ ایسی گندگی اور کیڑے مکوڑے جس سے ماحول میں ان مہلک امراض کے پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے ان سے ماحول کو بچائے رکھے کچھ امراض اور بیماریاں اللہ کی طرف سے آتی ہیں مگر کچھ امراض اور بیماریوں کا سبب خود انسان ہی ہے دنیا میں بہت سے نقصانات کا سبب خود انسان ہی ہے وہ خود اپنے لئے عذاب لاتا ہے اور پھر اپنی غلطیاں اللہ کی ذات پر اور دوسرے مخلوقات پر ڈال دیتا ہے جب تک انسان اپنے ہی پیدا کردہ نقصانات اور غلطیوں کو نہیں سمجھے گا تو دنیا اسی طرح مہلک وبائی امراض کا شکار ہوتی رہے گی۔
خُود کو آنسُو کر لِیا ہم نے خُوشی کرتے ہُوئے موت کی آغوش میں ہیں زِندگی کرتے ہُوئے کیا کہیں کیسی شِکست و ریخت کا تھا سامنا اپنے ارمانوں سے دامن کو تہی کرتے ہُوئے کُچھ پتہ ہی نا چلا من پر کہاں شب خُوں پڑا دِل لگی میں، دِل لگی سے، دِل لگی کرتے ہُوئے اب کہاں کے مرحلے یہ بِیچ میں آنے لگے کوئی شرطیں تو نہیں تِھیں دوستی کرتے ہُوئے جب یہ دیکھا ظاہری چہرے کی وُقعت ہے یہاں من اندھیرا کر لیا، تن روشنی کرتے ہُوئے دِل کا مندر صاف ہم کرتے نہِیں اصنام سے بُت پرستی بھی ہے جاری، بندگی کرتے ہُوئے ایک مُدّت ہوگئی دِل ہم نے کھویا تھا کہِیں سُنتے ہیں پایا گیا آوارگی کرتے ہُوئے فاصلے جو بِیچ میں تھے، پاس کِتنے تھے کبھی دُور جا بیٹھے ہیں ربطِ باہمی کرتے ہُوئے رندؔ ہُوں، وعدہ شِکن ہوں، کیا بھروسہ ہے رشِیدؔ آج توبہ، کل جو تُم پاؤ وہی کرتے ہُوئے؟ رشؔید حسرتؔ
نااہل حکومت کا نااہل اپوزیشن بڑے بڑے دعوے کرنے والی اپوزیشن پچھلے تین سالوں کی طرح پرسوں ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اپوزیشن سینٹ میں ایک اہم قانون سازی میں ناکام ہوگئی ہیں۔ اور درمیان میں عوام کو بے وقوف بنا کر کبھی لانگ مارچ کا اعلان کردیتا ہے تو کبھی جلسوں کا تو کبھی استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن یہ صرف روایتی پریس کانفرنس کے ذریعے کرتے ہیں پاکستان کے تاریخ میں پہلی بار ایسی نا اہل حکومت آئی ہے اور اس سے زیادہ نااہل اپوزیشن ہے جو بظاہر تو حکومت کی مخالفت کردیتا ہے لیکن اصل قانون سازی میں پھر حکومت کی حمایت کردیتا ہے۔ سینٹ میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل حکومت نے پاس کروادیا۔ بل کے حق میں 43 جبکہ مخالفت میں 42 ووٹ تھے پہلےتو حکومت نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور وزیر خزانہ شوکت ترین اجلاس سے باہر جاتے ہوۓ اپنی ارکان کی تعداد پوری کرنے کا انتظار کر رہے تھے حتی کہ چیرمین سینٹ کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا اور آدھا گھنٹے بعد پھر اجلاس شروع ہوا۔جب ووٹوں کی گنتی ہوئی تو 42 ووٹ حکومت جبکہ ووٹ اپوزیشن کے تھے لیکن چیرمین سینیٹ نے اپنا ووٹ حکومت کو ڈالا۔ اور اسی طرح اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پاس کیا گیا۔ سینٹ میں کل 99 اراکین ہے جن میں 42 حکومت کے جبکہ 57 اپوزیشن جماعتوں کے سنیٹر ہیں 6 اراکین دلاور گروپ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے ہیں۔ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کے دوران بارہ سنیٹر غیر حاضر رہے۔ اپوزیشن کے 8، دلاور گروپ اور حکومت کے دو دو سنیٹر غیر حاضر رہے۔ دلاور خان گروپ کے سنیٹر کرونا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی سے یوسف رضا گیلانی، قاسم رانجھو اور سکندر میندرو شامل تھے جبکہ ن لیگ کے نزہت صادق کنیڈا میں ہونے کی وجہ سے جبکہ سنیٹر مشاہد حسین سید کرونا میں مبتلا ہونے کی وجہ شریک نہیں ہوئے۔ اسی طرح جے یوآئی کے سنیٹر طلحہ محمود،پی کے میپ کے سنیٹر شفیق ترین اور آزار سنیٹر نسیمہ احسان اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔دوسری طرف حکومت جانب سے ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری اور خالدہ اطیب بھی اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ اپوزیشن بنچ پر بیٹھنے والے دلاور خان گروپ نے آج حکومت کی حمایت میں ووٹ ڈالا حالانکہ یہ وہ گروپ ہے جس نے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں ووٹ دیا تھا۔ سنیٹ میں اپوزیشن جماعتوں اکثریت کے باوجود یہ بل پاس ہوا اور پھر ایک دوسرے پر الزام تراشیاں شروع کردی گئی حالانکہ اگر سب پارٹیوں کے سنیٹر اس میں غیر حاضر رہے سب کو اس کا کریڈٹ جاتا رہا ہے۔ کوئی بھی اس سے پاک نہیں ہیں چاہے ہر کوئی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ن لیگ پیپلز پارٹی پر ساراملبہ ڈالتا ہے کہ یہ یوسف رضا گیلانی کے وجہ سے پاس ہوا حالانکہ ن لیگ کو پتہ ہونا چاہیئے کہ اس سنیٹ کا ایک ممبر لندن میں بیٹھا ہوا ہے اگر ایک ووٹ سے اپوزیشن کی ناکامی ہوئی تو یہ ملبہ تو ن لیگ پر گرتا ہے۔ اور رہ گئی بات گیلانی صاحب کی تو وہ دوسروں کو حاضری دینے کا کہتے تھے وہ خود غیر حاضر رہے۔جہاں تک گیلانی صاحب کا تعلق اور جو لوگ ان سےاصولوں کی سیاست کا توقع رکھتے ہیں تو یہ ان کی اپنی غلطی ہے کیونکہ یہ ،زرداری کی مرضی نہیں تھی۔ دوسری جانب گیلانی نے یہ کہا کہ مجھے تو ایجنڈہ دیر سے ملا اور اسلام آباد کو پہنچنا ممکن نہیں تھا مجھے رات ایک بجے تک ایجنڈہ نہیں ملا۔ لیکن جو بھی ہو تاریخ کا نااہل حکومت کے ساتھ نااہل ترین اپوزیشن ہیں جو جلسوں جلسوں، چند دن لانگ مارچ اور روایتی زندہ باد مردہ باد کے علاؤہ کچھ نہیں کرسکتا۔
خود نوشت یا آپ بیتی ایک دلچسپ ادبی صنف ہے۔ یہ لکھاری کی اپنی زندگی اپنے الفاظ میں بیان کی گئی ہوتی ہے۔ خود نوشت کا محورو مرکز مصنف کی ذات ہوتی ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایم۔آر۔ شائق صاحب نے بھرپور انداز میں اپنے بچپن کی زندگی سے لمحہ ء موجود تک اپنی ذات کے ارد گرد وقوع پذیرہونے والے واقعات کو بیان کیا ہے۔ بلاشبہ اس آپ بیتی میں انہوں نے دلچسپ اور دل دوز واقعات کو جذب و احساسات سے مالا مال کیا ہے۔ اس میں ان کی جدوجہد سے بھرپور حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ تجرباب، مشاہدات، محسوسات، سوچ، اپنے علاقہ اور وہاں کے مکینوں سے محبت، پاکستان اور اسلام سے وابستگی، پاک فوج سے جُڑے اپنے تعلق اوراپنی پیشہ ورانہ زندگی کو مربوط انداز میں نہایب خوبی اور عام فہم انداز میں پیش کیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ اچھے بُرے حالات کے علاوہ صدمات اور مرتب ہوتے تاثرات کو باہم گوندھ کر خودنوشت کا موادتیار کیا ہےجو کہ نہ صرف قاری کی دلچسپی کا باعث ہے بلکہ اُس کی سوچ پر انمٹ نقوش ثبت کرتا ہے۔ شائق صاحب نے اپنے کارنامے اور ناکامیاں، مجبوریاں، یتیمی کی زندگی، حالات کے جبر اورسنگینیاں، ظلم و زیادتی اور پچھتاوے سب کچھ بڑی صاف گوئی سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنی کوتاہیوں کو بھی خوب اُجاگر کیا ہے جسے عام طور پر لوگ پوشیدہ رکھتے ہیں۔ چنیدہ حقیقی واقعات نہ صرف لطف اندوزی کا باعث ہیں بلکہ باعث عبرت بھی ہیں۔ شائق صاحب کی یہ سرکزشت بلاشبہ زندگی کی رعنائیوں، مسائل، دکھوں اورپریشانیوں سے لبریز داستان ہی نہیں بلکہ ان کی شخصیت کے پردوں میں چھپی زندگی کی کچھ پرتیں بھی ضرور کھولتی نظر اۤتی ہے اور ان کے عاشقانہ مزاج کو بھی عیاں کرتی ہے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ مصنف نے اپنے بزرگوں، اہل علاقہ کی اچھی صفات و کردار اور زمان و مکان کے سنگم پر واقعات کے تسلسل کو محفوظ کردیا ہے جس کا مقصد اپنے اجداد کے شخصی اوصاف وکردار سے اپنی آنے والی نسل کو روشناس کروانا ہے تاکہ ان کے لیے باعث تقویت ہو کہ مشکلات دراصل ناکامیوں نہین بلکہ کامرانیوں کا باعث بنتی ہیں۔ سوانح نگاری کیا ہمیت اس سے بھی واضح ہے کہ آسمانی کتابوں اورقرآن کریم فرقان حمید میں بھی پیغمبروں اور ولیوں کے قصص کابیان ہوا ہے اور ابتدائی دورکی واقعات نگاریان ہی مقدس کتابوں کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے متاثرکن انداز میں زندگی کے اُتارو چڑھائو، خوبیوں و خامیوں اور گناہ و ثواب کو اپنے ماضی کا تعاقب کرتے ہوئے نہایت ایمانداری سے قلم بند کیا ہے۔ بہرحال میں نے محسوس کیا ہے کہ اس آپ بیتی کو پڑھنے والے قلبی، روحانی اور وجدانی کیفیات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ سادہ الفاظ میں قلزم معانی کوسموئے ہوئے ہےجو پڑھنے والے کو جکڑ لیتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ مین خود یہ مسودہ، پڑھ کر اور جذبات سے مغلوب ہو کر رویا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی ان کی اس تصنیف کا کمال ہے کہ سادہ الفاظ اور عام فہم اظہار کے باوجود پریشانیوں کو جھٹک کر، مسائل کے اژدھام سےنکل کر، عزمِ صمیم ، جرات اور قوت اعتماد سےلبریز ہوکر وہ پڑھنے والے کو گویامرقبے سےگزارتے ہیں۔ ان کی اس تصنیف میں ایک طبقاتی افراد و تفریط کی حدود کا، تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ایک طرف ایک طرف ایک بااثر، مالی لحاظ سے مستحکم اور اعلیٰ خاندانی روایات کی حامل عظیم خاتون جس کا تذکرہ انہوں نےایک انمول ہستی کی صورت کیا ہے۔ ان کےاپنے الفاظ میں “تھوڑی دیر ہوئی میاں احمد حیات مجھے اپنے گھر لے گئے۔ سامنے دیکھا تو ایک بہت ہی خوبصورت اور رعب و جلال والی خاتون تھیں جو میاں احمد حیات کی والدہ تھیں۔ میں تھوڑا دور ادب سےکھڑا ہوگیا۔ سلام کیا اور سرجھکا لیا۔ کہنے لگیں آگے آئو۔ میں نے جھجھکتے جھجھکتے دو قدم آگے بڑھائے اور پھر کھڑا ہو گیا۔ آخرکارمیں ڈرتا لڑکھڑاتا ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے میری گردن پربوسہ دیا۔ میں تین بیٹوں کی نہیں آج سے چاربیٹوں کی ماں ہوں۔” ایسی شخصیت جس کا تقدس نہ صرف مصنف بلکہ پڑھنے والے کو بھی ان کےسامنے ادب واحترام کے جذبات سےمعمور کر دیتا ہے۔ ماں کی ممتا سے لبریز یہ عظیم خاتون ہی تھیں جنہوں نے ان کو اپنے پائو ں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ ایسی انسانیت دوست ہستی کا تذکرہ پڑھ کر احساس ہوتا ہےکہ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں دوسری طرف صفحہ قرطاس پر رعونت زدہ ذہنی مریضوں اورخرابات کا ملبہ دکھائی دیتے ان کے بہت ہی قریب کے لوگوں کا تذکرہ بھی ہے جو انسانیت کی توہین، تذلیل اور بے توقیری کے قبیح جرائم کا ارتکاب کرنے والے معمولی اورگھٹیا صورت محض انسان نما، دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہ کاوش یقیناً انسان کی اُن اجتماعی کاوشوں کا حصہ ہے جو اندیشہ ءزوال سے ناآشنا ہے۔ وہ عزم و ہمت کی مشعل تھامے سفاک ظلمتوں کو مٹا کر جابجا صداقت، محنت کی عظمت اور خوانحصاری کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ مصنف کا سرفخر سے بلند ہوجاتا ہے جب وہ اپنا تعلق پاک فوج سےاستوار کرتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ پاک فوج کے شیر جوانوں نے ہر مشکل گھڑی میں ملکی آزادی اور وطن عزیز میں امن وامان کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ ہمشیہ پیش کیا ہے۔ ان کا اپنی فوج پر فخر بلاوجہ نہیں۔ پاک فوج اگر انتی کارگر نہ ہوتی تو ہمارا حال بھی شاید عراق، افغانستان، یمن اور شام جیسا ہی ہوتا۔ افواج پاکستان کے سپوت اُن شہیدوں کی سرزمین کے وارث ہیں۔ جس قوم نے ایسے بہادر مجاہدوں کو جنم دیا ہو جو ناکامی سے آشنا نہ ہوں ایسی قوم کو کوئی کیا شکست دےگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی شے محبت ہے جس نے اس پوری کائنات کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کسمپرسی اوربے چارگی میں محبت کے جذبے کے باعث ہی انہوں نے دوسروں کی توجہ حاصل کی اور اس ناہموار سوسائٹی میں اپنے بچائو کی سبیل کی جو مشکل حالات میں اپنی بقاء کی جنگ کی ایک عمدہ اور قابل تقلید مثال ہے۔ اس شعر
غرور اور تکبر ایمان کو تباہ کرنے والے ہیں – یہ کسی کی روحانیت میں گہرا اثر ڈالتا ہے اور دوسرے کی بھلائی اور خوشی کے احساس کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بحیثیت مسلمان، یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم عاجزی، احترام اور ہمدردی سے اپنے اخلاق کی حفاظت کریں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم سب کے ساتھ وہی احترام کے جذبات کے ساتھ پیش آئیں جس کی ہم دوسروں سے توقع کرتے ہیں۔ یہاں قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نیک اور بابرکت انسان ہونا متکبر اور تکبر کے برعکس ہے۔ ’’پھر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، وہ ان کو ان کا پورا پورا اجر دے گا اور اپنے فضل سے زیادہ دے گا، اور جو لوگ حقارت اور تکبر کرتے ہیں، ان کو دردناک عذاب دے گا‘‘ (قرآن 4: 172-173)۔
میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہِیں سکتا لِکھا گیا جو مُقدّر میں ٹل نہِیں سکتا ہر ایک گام پہ کانٹوں کا سامنا تو ہے چُنا جو راستہ، رستہ بدل نہِیں سکتا میں بُھوک جھیل کے فاقوں سے مر تو سکتا ہُوں ٗملیں جو بِھیک میں ٹُکڑوں پہ پل نہِیں سکتا قسم جو کھائی تو مر کر بھی لاج رکھ لُوں گا کہ راز دوست کا اپنے اُگل نہِیں سکتا بھلے ہو جِسم پہ پوشاک خستہ حال مگر لِباس تن پہ محبّت کا گل نہِیں سکتا زمِیں پہ فصل سروں کی اُگانے چل تو دِیئے مگر یہ پودا کبھی پُھول پھل نہِیں سکتا رکھی خُدا نے کوئی سِل سی میرے سِینے میں سو اِس میں پیار کا جذبہ مچل نہِیں سکتا وہ اور لوگ تھے روشن ہیں تُربتیں جِن کی دِیا مزار پہ میرے تو جل نہِیں سکتا رشِید صدمے کئی ہنس کے جھیل سکتا ہوں کِسی کلی کا مگر دِل مسل نہِیں سکتا رشِید حسرتؔ
غار کو ایک کمرے کی شکل دی گئی تھی _ پورا غار کالے دھوے سے بھرا ہوا تھا_ ایک بڑی انسانی کھوپڑی کے نیچے آگ جل رہی تھی _ آگ کے قریب ایک مکروہ چہرے والا شخص دوزانو بیٹھا ہوا تھا _ وہ آنکھیں بند کیے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہا تھا _ غار میں چیخنے چلانے کی آوازیں گونجنے لگی اور غار لرزنے لگا_ دھوئیں سے ایک کریہہ شکل برآمد ہوی اور مکروہ چہرے والے شخص نے آنکھیں کھول دیں _ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں جیسے ان میں خون اتر آیا ہو _ یہ شام لال پجاری تھا کالے علم اور بہت ساری شیطانی طاقتوں کا آقا _ دھوئیں میں کریہہ شکل کا سایہ لہرا رہا تھا جس کی آنکھیں باہر کو ابلی پڑی تھیں _ لمبوترا سیاہ چہرہ اور اوپری دانت منہ سے باہر نکلے ہوے تھے _ “میرے آقا ناگوری آپ کے لیے بڑے شیطان کا پیغام لائی ہے” ایک چیختی ہوی آواز غار میں گونجی _”بولو ناگوری، جلدی بولو، تم نے میری بہت اہم تپسیا میں خلل ڈال دیا ہے” شام لال گرجتے ہوے بولا، اس کی آنکھیں مزید لال ہو چکی تھیں ایسا لگتا تھا کہ ابھی ان میں سے خون ابل پڑے گا_” آقا مجھے معاف کر دیجیے، بڑے شیطان کا حکم تھا اس لیے مجھے حاضر ہونا پڑا_ بڑے شیطان نے آپ کی کارکردگی سے خوش ہو کر آپ کو مزید شیطانی طاقتیں دینے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ شیطانی دھندوں کو طول دے کر مسلمانوں کے روشن دماغوں گندگی سے بھر دیا جائے” “بڑے شیطان کو اچھی طرح پتہ ہے ناگوری، کہ میں جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں وہ پورا کرتا ہوں، اب دفع ہو جاؤ تم نے میری بہت بڑی تپسیا خراب کر دی ہے ” شام لال نے گرجتے ہوے ناگوری کو ہاتھ کے اشارے سے جانے کا حکم دیا _ ” آقا مجھے میری بھینٹ دیں، بھینٹ لینے کے بعد ہی میں جاؤں گی ” ناگوری نے اپنی سیاہ زبان باہر نکالتے ہوے کہا _” جاؤ اور تیسری غار سے دو بکریاں لے جاؤ، دوبارہ کبھی میری تپسیا میں خلل ڈالا تو بھسم کر دوں گا” شام لال کے چہرے کی سیاہی مزید سیاہ ہوگئی _ناگوری کا چہرہ غائب ہو گیا _ °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°° نبیل ایک خوش شکل نوجوان ہے _ وہ دارالحکومت کے مضافات میں پہاڑوں سے گھرے خوب صورت گاؤں میں رہتا ہے _ اس کے ساتھ اس کے ماں باپ، ایک بھائی جو دارالحکومت میں سرکاری ملازم ہے مہینے میں ایک دو بار گھر کا چکر لگا لیتا ہے اور بھابھی اور ان کے دو بچے رہتے ہیں _ چند راتوں سے نبیل بڑی پراسرار سرگرمیوں میں ملوث تھا وہ آدھی رات کو گھر سے نکلتا اور کالے پہاڑوں کے دامن میں موجود قبرستان کی طرف روانہ ہو جاتا _ اس وقت اس گھر والے پرسکون نیند سوئے ہوتے ہیں _ ایسا وہ شام لال پجاری کو ملنے کے بعد ہی کر رہا تھا _ پجاری نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ اسے کالے علم کا ماہر بنا دے گا اور کالے علم سے وہ کچھ بھی حاصل کر سکتا دولت، شہرت اور خوب صورت عورت تک ہر شے جس کی ہر ہوش مند انسان تمنا کرتا ہے _ نبیل پجاری کے جھانسے میں آ کر روشن راہ کو چھوڑ کے اندھیروں کا مسافر ہو گیا تھا _ شام لال نے اسے کہا تھا کہ اگر وہ اس کی آزمائش پر پورا اترے گا تو وہ اسے پہلا منتر سکھائے گا_ اس کا پہلا کام جو اس کے ذمہ لگا تھا وہ آدھی رات کو قبرستان میں کسی مردار جانور کا گوشت چبانا تھا اور اسی جانور کا خون پینا تھا _ وہ چند راتوں سے قبرستان جا رہا تھا لیکن یہ گھناؤنا کام کرنے کی اسے ہمت نہ ہو رہی تھی اور وہ واپس گھر آ جاتا تھا _ لیکن کی چاہت نے اس کے دماغ پر قبضہ کر لیا تھا _ وہ اس رات گھر سے ارادہ کر کے نکلا تھا کہ آج وہ یہ فعل ضرور سر انجام دے گا _ نبیل کبھی بہادر نہیں رہا تھا لیکن شیطانی قوتوں کے بھنور میں وہ بری طرح پھنس چکا تھا اسے کوئی دوسری راہ نہ دکھائی دیتی تھی _ اس رات گاؤں کے آوارہ کتوں میں سے ایک کتے کو روٹی دکھا کر اس نے اپنے پیچھے لگا لیا _ چھری اس نے جیب میں رکھ لی تھی گھر سے نکلتے ہوے _ کتے کو لیے وہ قبرستان میں داخل ہوگیا اور روٹی اسے کھلانے لگا _ روٹی کھانے کے لیے جیسے ہی کتا اس کے قریب ہوا اس نے کتے کو گردن سے دبوچ لیا _ کتے کی بے ہنگم چیخوں نے نبیل کو بوکھلا دیا_ وہ کتے کو اپنی پوری طاقت سے دبوچے ہوے تھا _ ایک ہاتھ سے اس نے جیب سے چھری نکالی اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کتے کے گلے میں گھونپ دی _ ایک درد ناک چیخ کتے کے منہ سے برآمد ہوی جو نبیل کے ہاتھ سے ٹکرا کر رہ گئی _ نبیل نے کانوں سے پکڑ کو کتے کو ہوا میں بلند کیا اور بہتے خون کو پینے کے لیے اس نے اپنا منہ آگے کیا، چند قطرے منہ ٹپکائے ہی تھے کہ اسے لگا جیسے کسی نے اسے گردن سے دبوچ لیا ہے اور اس کا گلا دبا رہا ہے _ بوکھلاہٹ میں کتا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور نبیل نے الٹا قدموں دوڑ لگا دی _ اسے اپنے پیچھے ایک سایہ سا لہراتا ہوا محسوس ہو رہا تھا _ نبیل اپنے پیچھے موت لپکتی محسوس کر رہا تھا _ موت نے اسے دہلا دیا تھا اور وہ سرپٹ دوڑا جا رہا تھا گھر کی طرف _ ہانپتے ہوے وہ گھر کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا اور دبے قدموں چلتا ہوا وہ اپنے کمرے میں پہنچ گیا _خوف کے مارے اس کا کلیجہ اس کے منہ کو آ رہا تھا _ وہ دھڑام سے چارپائی پر گرا اور بے ہوش ہو گیا _ °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°° شام لال پجاری اپنی کمرے نما غار میں بیٹھا ہوا تھا اس کے چہرے پر مسرت
Festivals of Pakistan In this article, we’ll take a look at some of the most popular festivals in Pakistan. Each festival has its unique history and significance, and they offer a great opportunity for Pakistanis to come together and celebrate with their culture and heritage. A festival is an event that is held once or twice a year, sometimes more, in a town, city, or another geographic area. Pakistan’s culture and heritage are unique in the world there are many festivals celebrated throughout the year. Here we will discuss some of the most popular festivals of Pakistan with their history and significance. List of Famous and Traditional festivals Festivals in Pakistan Festivals are a great way to bring people together to celebrate a common purpose or tradition. They can also be a time of pilgrimage, as with Hajj, or a time of thanksgiving, as with Thanksgiving. There are all sorts of different festivals around the world, and each one has its unique history and significance. A list of Famous and Traditional Festivals in Pakistan is given below: 1. Eid-ul-Fitr 2. Eid-ul-Azha 3. Eid Milad un Nabi 4. Basant 4. Nowroz 5. Shab-e-Barat 6. Shab-e-Meraj 7. Lay al-Qadr 8. Lahore fashion Week 9. Jashan –e-Nowruz 10. Silk Route 11. Lok Virsa Folk 12. Independence Day 13. Mela Chiraghan Eid-ul-Fitr Eid ul Fitr, also known as the Festival of Breaking the Fast, is an important religious holiday celebrated by Muslims worldwide that marks the end of Ramadan, the Islamic holy month of fasting. The holiday is celebrated on the first day of the Islamic month of Shawwal. Eid ul-Fitr has a specific meaning and purpose in Islam. It is a time of joy and celebration after a month of fasting and spiritual reflection. While many dishes are associated with this joyous occasion, here we will specifically focus on some of the most popular Eid-ul-Fitr dishes that are prepared in Pakistan. Eid ul-Azha One of the most celebrated festivals in Pakistan is Eid ul-Azha, which falls on the 10th of Dhu’l-Hijjah, the 12th and final month of the Islamic calendar. This festival commemorates Prophet Ibrahim’s (AS) willingness to sacrifice his son, Prophet Ismail (AS), as an act of obedience to Allah. On the day of Eid ul-Azha, Muslims across the world gather in open areas or mosques to offer special prayers known as Eid prayer. The prayers are followed by a sermon, and then families and friends gather for a celebratory meal. Traditionally, sheep or goats are sacrificed and their meat is distributed among family, friends, and the poor. Eid Melad-un-Nabi (SAW) Eid Melad-un-Nabi (SAW) is a three-day Islamic festival to commemorate the birth of the Islamic prophet, Muhammad. It is celebrated worldwide on the 12th day of Rabi’ al-awwal, the third month in the Islamic calendar. The festival is important to Muslims because it celebrates the occasion when Muhammad was born in Mecca. Muslims trace their faith back to Muhammad and regard him as the last in a long line of prophets, including Jesus and Abraham. Basant Basant is a Punjabi word that is derived from the Sanskrit term Vasant meaning spring season. It is an annual festival celebrated in the Punjab region of Pakistan and the Indian states of Punjab and Haryana. Basant was first celebrated in the year 1911. It was started by Ghalib Lakhnawi, a well-known poet of that time. The purpose of this festival was to promote Uthe Urdu language and literature. Significance: Basant is celebrated to honor the spring season. It is a time when the weather becomes warm and people enjoy outdoor activities. Kite flying is the most popular activity of this festival. Shab-e-Barat One of the most important festivals in Pakistan is Shab-e-Barat, which is celebrated on the fifteenth night of the Islamic month of Sha’ban. This festival is celebrated to commemorate the night on which Allah Almighty descended to Earth to forgive the sins of His believers. Shab-e-Meraj Shab-e-Meraj is an annual festival celebrated by Muslims all over the world to commemorate the miraculous journey of the Islamic prophet Muhammad (PBUH) from Mecca to Jerusalem and then heaven. The festival falls on the 18th of the Islamic month of Rajab. On this night, Muslims believe that Muhammad (PBUH) was taken on a journey from Mecca to Jerusalem and then to heaven. This journey is known as Meraj. Muslims pray and ask for forgiveness on this night. Shab-e-Meraj is also celebrated as the night when Allah saved Muhammad (PBUH) from the plotting of Jews. Laylat al Qadr One of the most important festivals in Pakistan is Laylat al-Qadr, which is also known as the Night of Power. This is a festival that commemorates the night on which the Quran was first revealed to Muhammad. It is celebrated on the 27th day of the Islamic month of Ramadan. Laylat al-Qadr is considered to be one of the most blessed nights of the year and is a time for prayer and contemplation. Muslims believe that God is especially forgiving and merciful on this night and that prayers are more likely to be answered. Lahore Fashion Week The Pakistani fashion industry is growing day by day. More and more people are getting involved in this field. Many fashion designers in Pakistan are working hard to make Pakistan’s name famous in the world of fashion. Fashion week is an event where these designers come together and showcase their latest collection. Jashan-e-Nowruz. The festival of Nowruz is celebrated every year in Iran, Afghanistan, Tajikistan, Uzbekistan, Kazakhstan, Kyrgyzstan, Turkmenistan, and northern parts of Pakistan. The festival marks the beginning of the new year and the end of winter. The exact date is determined by the vernal equinox. Nowruz marks the beginning of the New Year in Iran and Afghanistan. It is celebrated on March 21st, the day of the vernal equinox. This festival has a long and rich history, dating back over 3,000 years. Nowruz is celebrated by people from a variety of cultures and religious backgrounds, including Zoroastrians, Muslims,
تھے انکے بھی وہی انداز زمانے والے میرے ہمدم، وہ میرا ساتھ نبھانے والے آج کھل کر ہنسے وہ میری بربادی پر قصہ درد مجھے رو رو کہ سنانے والے کوچہ جاناں میں آنا بھی اب گوارا نہیں ان کو وہ رستے بدل کر یہاں آنے جانے والے اب سنگ ملامت ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں وہ یار پرانے، وہ اپنا کہ کے بلانے والے خوابوں کا نگر آباد تھا کبھی جن کے دم سے اب وہ کہتے ہیں ہم نہیں لوٹ کے آنے والے دل اب بھی امید لیے انہیں ڈھونڈ رہا ہے وہ جو اپنے مگر لگتے تھے بیگانے والے
کیا_شادی_سادگی_سے_نہیں_ہوسکتی شادی ایک اہم فریضہ ہے۔۔۔جسے ہم نے بے جا رسومات اور فضول خرچیوں کی نظر کر دیا ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب رسومات خوشی کو منانے کا طریقہ ہے۔۔۔۔لیکن اصل میں یہ پیسہ اڑانے کا طریقہ ہے۔۔۔ان رسومات کی وجہ سے ہمارے ملک میں شادی کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔۔۔۔۔جب تک کسی کے پاس پندرہ بیس لاکھ جمع نہ ہو جائیں تب تک وہ شادی کا نہیں سوچ سکتا۔۔۔۔اور آج اس مہنگائی کے زمانے میں ایک عام شخص تین چار بچوں کو پال لے اور پڑھا لکھا دے تو کیا وہ اتنی رقم بچا سکتا ہے کہ وہ ان چاروں بچوں کی وقت پر شادی کر سکے۔۔۔۔ پھر کیا ہوتا ہے؟؟؟؟ بچوں کی وقت پر شادیاں نہیں کی جاتی اور ان کو بتایا جاتا ہے کہ آپ نوکریاں کرو اور کماؤ،پیسہ جمع کرو اور پھر شادی کرنا۔۔۔۔اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شادیوں میں مزید دیر ہو جاتی ہے۔۔۔اور پھر نوجوان نسل جس بے رہروی کا شکار ہے وہ تو سب کے سامنے ہی ہے۔۔۔۔۔ شادیوں میں ہونے والے اخراجات کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔ آج کل میرج بیورو کے ذریعے رشتے کروائے جاتے ہیں۔۔۔ان میرج بیوروز کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ پندرہ ہزار سے فیس شروع ہوتی ہے اور اگر ڈاکٹر انجنئیر یا بیرون ملک رشتہ کروانا ہو تو یہ فیس ایک ڈیڑھ لاکھ تک بھی لی جاتی ہے۔رشتہ دیکھنے کے لیے آنے والے افراد کے لیے اچھی چائے کا انتظام کیا جانا بھی اکثر لڑکی والوں کی جیب پر بھاری پڑتا ہے۔ پھر منگنی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اگر دونوں جانب سے رسم کروائی جاتی ہے تو کپڑوں کا لین دین ، سونے کی انگوٹھیوں کا تبادلہ اور کھانے کا انتظام،یہ تمام اخراجات کر کے منگنی کی رسم پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے۔ پھر شادی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے آج کل مہنگائی کے باوجود شادی کے فنکشنز میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نئے نئے فنکشنز ہمارے کلچر کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ مہندی اور سنگیت جیسی رسمیں ہم نے ہمسائیوں سے لے لی ہیں،برائیڈل شاور اور ہنی مون فرنگیوں سے لے لیا،میلاد اور قرآن خوانی خود ایجاد کر لیے۔۔۔۔ اس طرح ایک شادی جس کے لیے اللہ نے صرف نکاح کا حکم دیا ہے اسے ہم نے دس طرح کے فنکشنز کے اضافے کے بعد بہت مشکل بنا لیا ہے۔۔ آجکل شادیوں میں مندرجہ ذیل فنکشنز کیے جاتے ہیں۔۔ قرآن خوانی اور میلاد مایوں مہندی سنگیت برائڈل شاور نکاح برات ولیمہ قرآن خوانی اور میلاد کے فنکشنز کو شادی میں برکت کے لیے کیا جاتا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ سیپارے مدرسے کے بچے پڑھتے ہیں،نعتیں نعت خواں پڑھ لیتے ہیں ںہ کسی کو دعا میں دلچسپی ہوتی ہے نا ہی درود میں۔۔۔۔ایک رسم کی طرح یہ سب بھگتا دیا جاتا ہے۔۔۔مہندی مایوں کے فنکشنز کو کلر ڈے کی طرح منایا جاتا ہے۔۔ایک ہی رنگ کے کپڑے،اسی رنگ کی ڈیکوریشنز، انہی رنگوں کی مناسبت سے کھانے،ڈھولک اور ناچ گانا۔۔۔۔سنگیت پر پروفیشنل گانے والے اور ناچنے والے بلوائے جاتے ہیں۔ جو ساری ساری رات اودھم مچاتے ہیں اور لوگ انتہائی دلچسپی اور شوق سے اس سب میں شامل رہتے ہیں ۔۔۔ شادیوں میں لوگ برکت اور خدا کی رحمت چاہتے ہیں لیکن ایک دن قرآن خوانی اور میلاد کر کے رحمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تین چار دن ناچ گا کر شیطان کو خوش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ جس کو زیادہ خوش کرتے ہیں اسی کا آشیرباد انکے ساتھ ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے طلاق کی شرح اتنی بڑھ رہی ہے۔ دلہن کا شادی کا جوڑا بہت مہنگا لیا جاتا ہے۔ ڈیزائنرز لہنگے دو لاکھ سے سات آٹھ لاکھ تک ملتے ہیں۔۔۔عام بازاروں میں بھی لہنگے بیس ہزار سے ایک لاکھ تک ملتے ہیں۔سونا مہنگا ہونے کے بعد دلہن کی جیولری آرٹیفیشل لی جاتی ہے لیکن آرٹیفیشل جیولری اگر معیاری اور نفیس بنی ہوئی لی جائے تو برائیڈل سیٹ کم از کم دس پندرہ ہزار کا ملتا ہے۔ دلہن کا میک اپ اگر اچھے پارلر سے کروایا جائے تو کم از کم پچیس تیس ہزار کا ہوتا ہے اور اگر سگنیچر میک اپ کروایا جائے تو وہ کم از کم چالیس پچاس ہزار کو ہوتا ہے۔۔۔شادی کے ہالز دو تین سو مہمانوں کے تین چار گھنٹے کے فنکشن کے ایک ڈیڑھ لاکھ روپے مانگتے ہیں۔ شادی کے کھانوں میں پانچ چھ ڈشز کا ہونا باعث عزت سمجھا جاتا ہے۔ آج کل ایک نیا ٹرینڈ سویٹ ڈشز کے بوفے کا ہے۔۔اس میں سویٹ ڈشز کی چھ سات اقسام رکھی جاتی ہے جس میں مختلف کیک،حلوے، آئسکریم وغیرہ شامل ہے۔شادی کے ہالز کی سجاوٹ ، گھروں کی سجاوٹ اور سیج کی سجاوٹ بھی ہزاروں کا خرچ کرواتی ہے۔شادیوں میں فوٹو شوٹ،مووی اور تصاویر کے لیے فوٹوگرافر کی خدمات لی جاتی ہیں جن کے مکمل پیکجز بیس تیس ہزار کے ہوتے ہیں شادیوں میں ایک اور ٹرینڈ ڈریس کوڈ رکھنے کا شروع ہو چکا ہے۔ اس میں تمام مہمانوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ ایک جیسا لباس پہنیں جیسا کہ مہندی کے لیے شرارہ،برات پر میکسی اور ولیمے پر ساڑھیاں پسند کی جاتی ہیں۔ مردوں کے لیے برات پر قمیض شلوار کے ساتھ ویسٹ کوٹ اور ولیمے پر پینٹ کوٹ پہنا جاتا تھا۔اسکے علاوہ کچھ جگہوں پر ایک رنگ کےلباس پہننے کا بھی رواج عام ہے۔اس وجہ سے نا صرف جس گھر میں شادی ہوتی ہے انکا خرچ ہوتا ہے بلکہ جو مہمان آ تے ہیں انکا بھی بہت زیادہ خرچہ ہو جاتا ہے۔ دلہے کے گھر والوں اور رشتے داروں یعنی اوپر والوں کے لیے بھی بہت سےکپڑوں اور تحائف کا انتظام کیا جاتا ہے جو کہ ایک زائد خرچ ہوتا ہے۔۔جہیز میں لڑکی کو ضرورت کی ہر چیز دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔۔الیکٹرانکس،فرنیچر،برتن،بستر،کپڑے اور مہنگے زیورات تک دئیے جاتے ہیں۔کئی جگہوں پر تو موٹر سائکل،گاڑی وغیرہ بھی دی جاتی ہے اور گاؤں دیہاتوں میں بھینس گائے وغیرہ بھی دی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی کرنا اس قدر مشکل کام بن گیا ہے کہ اس فریضے کو انجام دینے سے مہینوں پہلے اور بعد میں ٹینشن لی جاتی ہے۔ پانی کی طرح پیسہ بہایا
مصنف از قلم حرا شہزادی آج کے دور میں مصنف کون ہے ؟یہ سوال اکثر ذہن میں گردش کرتا ہے ۔ یوں تو بہت سے لوگ شوشل میڈیا پہ لکھاری بنے بیٹھے ہیں اور کچھ لکھاری تو اتنا فحاش لکھتے ہیں کہ جو پڑھنے کے قابل بالکل بھی نہیں ہوتا ۔لیکن پھر بھی قارئین ایسے مواد کی حوصلہ شکنی کے بجائے انہیں سراہتے ہیں۔ لیکن ہر شوشل میڈیا پہ لکھنے والا ایسا نہیں ہوتا کچھ لکھاری بہت اچھا بھی لکھتے ہیں جو تپتی دھوپ میں نسیم کی مانند ہوتے ہیں جن کے الفاظ برق بجلی سے کم نہیں ہوتے ان کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ دل کو چھو تا ہے کچھ واقعات یوں بھی ہوتے ہیں کہ قارئین کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود کو پڑھ رہا ہو۔میرے خیال سے ہر لکھنے والا مصنف نہیں ہوتا بلکہ جس کے اندر احساس ،جذبات ہوں دوسرے کے درد کو محسوس کرے اور پھر ان کو لفظوں میں بیان کرے وہ مصنف ہوتا ہےاس کی اپنی سوچ ہو ،اپنا نظریہ ہو جسے وہ الفاظ کی مدد سے لوگوں تک پہنچائے ناکہ کسی اور کی سوچ ،خیالات ،جذبات ،نظریے کو نقل کر کے اپنے نام کے ساتھ لوگوں تک پہنچائے۔ مصنف تخلیقی ذہن کا مالک ہوتا ہے جو مناظر ،معاملات کو عام انسان کی طرح نہیں دیکھتا ۔ اچھا مصنف وہی ہو سکتا ہے جو ایک اچھا قاری بھی ہو جس میں علم حاصل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا سچا جذبہ ہو جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا” اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے “تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سیکھائے” ایک مصنف ہمیشہ سچائی کو بیان کرتا ہے اللہ پاک نے اسے قلم کی نعمت سے نوازا ہوتا ہے جس کا استعمال اسے صحیح ہی کرنا چاہے۔اگر وہ قلم کا غلط استعمال محض چند لائکس یا مشہور ی کے لیے کرتا ہے تو یہاں تو اسے خوشی حاصل ہو جائے گی لیکن اس خوش کی مدت بہت کم ہے آ خرت میں اللہ کے حضور جواب دہ بھی ہونا ہے ۔ جیسا کہ آ ج کل سوشل میڈیا کا دور ہے چند منٹوں میں ہمارے الفا ظ لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں اور اگر کسی ایک پہ بھی ہمارے الفاظ اثر کرتے ہیں یا وہ ہماری وجہ سے کچھ اچھا کرتا ہے تو اس کا ثواب ہمیں بھی ملتا ہے اور اسی طرح اگر وہ فحاشی مواد پڑھ کر کچھ غلط کرتا ہے تو اس کا گنا ہ ہمیں بھی ملے گا ۔لکھتے تو بہت لوگ ہیں لیکن کچھ لوگوں کے قلم کو اللہ پاک نے خاص تاثیر بخشی ہوتی ہے جیسا کہ سور ہ العلق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے “اللہ نے قلم کے ذریعے علم سکھایا” جامع ترمذی کی حدیث 2233 میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا ۔عربی زبان میں “قلم” کے معنی تراشنے کے ہیں۔جس طرح ہیرے کو تراشنے کے بعد ہی استعمال میں لایا جاتا ہے اسی طرح انسان بھی قلم کے ذریعے ہی علم سیکھنے کے بعد کچھ کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ایک لکھاری ہونے کی حیثیت سے آفتاب کی مانند ہر سو علم کی روشنی بکھریں جیسے آ فتاب طلوع ہونے کے بعد بھی مہتاب کو روشنی مہیا کرتا ہے اسی طرح ہمارے لکھے ہوئے الفاظ بھی قارئین کے دلوں میں گھر کر جا ئیں اور دیر تک روشنی پہنچا تے رہیں۔ اللہ پاک ہمیں اچھا لکھنے اور اس پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آ مین ۔
آ واز حفصہ رومی دلِ امید اتنا چاہتا ہے کہ اسے کچھ راز مل جائیں۔۔ کہیں سے آس مل جائے ادھورے وسوسوں کے بیچ زرا سی پیاس مل جائے۔ دکھوں، درو، الم ،غم، میں تیرے نم ہاتھ مل جائیں میں اوروں کے لئے ہر دم رہوں بے دم کہیں مدہم تمھاری یاد کے پرچم کہیں سے شاد مل جائیں۔ انہی انہونیوں کے بیچ تمھارے ساز نم نم پھر کہیں سے خاص مل جائیں۔ مجھے بے چینیوں کے ناگ ڈسنے آرہے ہیں اب انہی زخموں کی چوکھٹ پہ، تمھاری باس مل جائے۔ زرا سنبھلوں تو رو لوں پھر مجھے اب تم ستاتے ہو کبھی آؤ تو پھر سے سب، سنہری باغ کھل جائیں۔ تنہائی اب ستاتی ہے مجھے رہ رہ کے کھاتی ہے سنو اب لوٹ آؤ نا کہیں یہ ٹمٹماتے ، موم بتی کی طرح کے ہزاروں جگنوؤں کے بیچ پھرپھراتے یہ پروانے کہیں بدلتے موسموں کی چاشنی میں کھو نہ جائیں پھر ،کہیں کچھ کہ نہ پائیں پھر۔۔۔۔۔۔۔ (آ واز)
“بہار آ ئی خزاں کے در” حفصہ رومی بہار آ ئی خزاں کے در پہ غموں کی دلکش پھوار بن کے سماں ہے دلکش حسیں سا منظر مگر یہ دھرتی جو دل کی دھرتی ہے سونی سونی اداس نگری کہاں سے لاؤ ں بہار باغاں کہ دل کی بنجر زمین مہکے کہاں سے لاؤں وہ بھیگی شبنم کہ دل کی کلیاں نشاط ٹھہریں مگر میرے سنگ ہے اک بیاباں اور اسکی اوپر اگی وہ خودرو سی گھاس سوکھی ہاں سوکھی سوکھی وہ آ ب و شبنم کو ہے بلکتی وہ سونے جیسی اداس مٹی دلوں کی دھڑکن پہ جا کے بکھری تھے زرے زرے عقیق مانند وہ سبز پتوں کی سرسراہٹ جو دل کے آ نگن میں تھی مچلتی مگر اے مرےنصیب تم نے عجب ہی میلہ لگا کے کھیلا وہ تاش پتوں سا کھیل کھیلا وہ ساز مدھم سا سر بکھیرا کہاں کی کلیاں؟ کہاں کے گل ہیں؟ تمھیں میں کیسے بتاؤں ہم دم وہ ساری باغوں کے ٹوٹے پتوں میں کھل رہیں ہیں کچھ کہ رہی ہیں مگر وہ آ وازِ ہم شناسی سنائی دے تو میں تب سنوں نا اور جب سنوں تو پھر کہوں نا کہ تیرے رستے میں مجھ کو یارا نہ ساز سوجھے نہ آ نکھ تجھ کو بغیر دیکھے کہیں ہے ٹہری ہاں نہ ٹہری مگر محال س جہانِ عالم میں تجھ کو پانا بہار سنگ تیری یاد رہتی ہے سونی سونی ہاں سونی سونی۔