کامیابی کی کنجیاں ہمارے ہاں ہر شخص کامیاب زندگی گزارنا چاہتا ہے اور کامیابی کا خواہاں ہے. ہم میں سے ہر دوسرے شخص کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ اس کے پاس مال و دولت کی کثرت ہو اور وہ عیش و عشرت سے بھرپور زندگی گزارے. مزے کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی کامیاب تو ہونا چاہتا ہے لیکن ہم کامیابی کے اصولوں کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ہم کامیابی حاصل کرنے کے لیے بھی شارٹکٹس ڈھونڈتے ہیں. ہم چاہتے ہیں سب کچھ گھر بیٹھے ہی مل جائے اور ہم رات و رات اس دنیا کے امیر ترین شخص بن جائیں. بالکل اسی طرح جس طرح ہم میں سے ہر شخص جنت کا متلاشی ہے اور وہ ہر روز اللہ تعالٰی سے جنت الفردوس کی تمنا کرتا ہے لیکن وہ اس جنت کے حصول کے لیے مسجد میں جانے کو تیار نہیں ہے. ہم جب کامیاب لوگوں اور کامیاب معاشروں کا ذکر کرتے ہیں تو یورپ اور امریکہ کے معاشروں کی مثالیں دیتے ہیں.ہم ان معاشروں کو آئیڈیل قرار دیتے ہیں. ہم ان کے نظام حکومت کی مثالیں دیتے ہیں. آج کے اس کالم میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ امریکہ اور یورپ کے معاشرے کامیاب کیسے بنے؟ اگر ہم امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ معاشروں کے طرز زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ان کی کامیابی کے پیچھے کچھ اصول و ضوابط اور کامیابی کی کنجیاں نظر آئیں گی, ان معاشروں کا ہر شخص ایک چھوٹے ورکر سے لے کر امریکی صدر تک ان اصول و ضوابط کی پیروی کرتا ہے. ان میں سے چند اصول و ضوابط درج ذیل ہیں. معزز قارئین کرام ابھی تک امریکہ پر گیارہ صدر حکومت کر چکے ہیں, ان میں سے بیشتر نے دو دو دفعہ امریکہ پہ حکومت کی جن میں باراک اوبامہ اور جارج بش سرفہرست ہیں. آپ یہ جان کر ششدر رہ جائیں گے کہ ان گیارہ میں سے کوئی بھی سگریٹ اور شراب نہیں پیتا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی انہی میں شامل ہیں, نومنتخب صدر جوبائیڈن بھی اسی فہرست میں شامل ہیں. ان میں سے دس امریکی صدر مصنف تھے اور انہوں نے متعدد کتابیں لکھ رکھی تھی. یہ کتابیں پڑھتے تھے اور ان کے گھروں میں بڑی بڑی لائبریریاں بنی ہوئی تھی. یہ بات صرف امریکی صدور تک ہی محدود نہیں بلکہ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکہ کے بائیس سی.ای.اوزاور چئیرمین بھی سگریٹ اور شراب نہیں پیتے, یہ لوگ اپنی گاڑیاں بھی خود ڈرائیو کرتے ہیں, گھر کا سودا سلف بھی خود لاتے ہیں اور یہ لائن میں لگ کر کافی اور برگر بھی خود خریدتے ہیں. آپ نے دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس کا نام تو سنا ہو گا, بل گیٹس ایک سال میں اسّی کتابیں پڑھتے ہیں یہ اپنے گھر کے سارے کام بھی خود کرتے ہیں اور عام آدمی کی طرح لائن میں لگ کر اشیاء خورد و نوش خریدتے ہیں. امریکہ میں ایماندار, دیانتدار, مہذب, بااخلاق اور باادب شخص کو کامیاب سمجھا جاتا ہے. وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کامیاب, دولت مند, دانشور اور مشہور ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ میں عجز و انکساری ہو, آپ اپنا کام خود کرتے ہوں, آپ جسمانی طور پر فٹ ہوں اور آپ باکردار ہوں. اگر آپ کے پاس پوری دنیا کی دولت موجود ہے لیکن آپ میں یہ عادات نہیں ہیں تو آپ کامیاب تصور نہیں کیے جائیں گے. لیکن ہمارے ہاں کامیابی کا معیار بہت مختلف ہے. ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر دولت مند اور خود کو کامیاب کہنے والا شخص بدکردار بھی ہو گا اور وہ ایماندار, دیانتدار, مہذب, بااخلاق اور باادب تو بالکل بھی نہیں ہو گا. اگر ہم زندگی میں واقعی کامیاب ہونا چاہتے ہیں اور ہم اپنے ملک میں حقیقی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے خود کو بدلنا ہو گا. کیونکہ کامیاب لوگوں سے ہی کامیاب معاشرے اور کامیاب معاشروں سے ہی کامیاب ملک وجود میں آتے ہیں. لہٰذا کامیاب معاشرہ بنانے کے لیے افراد کی سوچ میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے, اور سوچ کی تبدیلی کے لیے ان اصول و ضوابط پہ عمل پیرا ہونا بےحد ضروری ہے.جب تک ہمارے ملک کے عام آدمی کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک ملکی نظام میں تبدیلی ممکن نہیں ہے لہٰذا ہمیں کامیاب ہونے کے لیے ان کامیابی کی کنجیوں تک رسائی حاصل کرنا ہو گی.
#کاروکاری عورتوں کا قبرستان سنِدھ کے شہر #ڈہرکی میں ایک قبرستان ‘#کاروکاری عورتوں کا قبرستان کہلاتا ہے۔ وہاں اُن عورتوں کو بغیر غُسل اور کفن کے دفنایا جاتا ہے جو اپنے بھائی، باپ یا شوہر کے ہاتھوں کلہاڑیوں یا کلاشنکوفوں کی خوراک بنتی ہیں۔اور پِھر اُن کو کاری( کالی) قرار دے کر دفنا دیا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر وحشیانہ انداز میں قتل کی گئیں اِن خواتین کی قبروں پر پانی چِھڑکنا، دُعا کرنا اور پُھولوں کی چادر چڑھانے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ مقتول خواتین کے کِسی رشتے دار کو اُن کی قبروں پر کُھلے عام جانے کی اِجازت نہیں ہے۔ پُوچھنا یہ تھا کہ کیا کوئی #کالوں کا بھی قبرستان ہے جو جگہ جگہ مُنہ کالا کرتے پھِرتے ہیں اور پھر جرگوں میں بیٹھ کر خواتین کو کاروکاری عورت قرار دیتے ہیں؟ خدا جانے کب تک یہ جنگل کا نہیں بلکہ وحشت اور جہالت کا قانون یہاں چلتا رہے گا؟ہر بار عورت ہی کیوں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہے؟؟؟
تو آج ظرف تُمہارا بھی آزماتے ہیں اگر ہو اِذن تُمہیں آئینہ دِکھاتے ہیں کہو تو جان ہتھیلی پہ لے کے حاضِر ہوں کہو تو سر پہ کوئی آسماں اُٹھاتے ہیں ہمارا شہر ہے شمشان گھاٹ کے جیسا تو چِیخ چِیخ کے کیا اِن کو ہم جگاتے ہیں کُھلے نہ اُن پہ کہِیں اپنی تُرش گُفتاری ہم اپنے آپ کو شِیرِیں سُخن بتاتے ہیں چلو کہ ہم بھی مناتے ہیں دِن پِدر کا آج پھر اُس کے بعد سِتم ہائے دِل پہ ڈھاتے ہیں کبھی تو پاک تشخُّص پہ ناز کرتے تھے اب اپنی “قوم” بتاتےہُوئے لجاتے ہیں ابھی تلک ہے وہی سِلسِلہ محبّت کا بصد خُلُوص عقِیدت میں سر جُھکاتے ہیں نہِیں ہے ہم کو ضرُورت ہی دُم ہِلانے کی کہ اپنی آپ کماتے ہیں، اپنی کھاتے ہیں رشِید چلتا رہے گا یہ سِلسِلہ ایسے بسے تھے کل جو یہاں آج لوٹ جاتے ہیں رشِید حسرتؔ
واجب الاحترام منتظمِ اعلیٰ نیوز فلیکس نذرانۂِ خلوص و عقیدت آپ سے استدعا یہ کرنی تھی کہ کچھ عرصہ پہلے جو سلسلہ شاعروں کی شاعری پڑھ کر سنائے جانے کا شروع کیا گیا تھا بہت اچھا جا رہا اور آگے مقبولیت کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔ لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔میری تجویز ہے کہ اس سلسلے کو دوبارہ بحال کیا جائے لیکن اب کے کلام شائع بھی کیا جائے اور دل پذیر انداز میں پڑھا بھی جائے۔ کسی شاعر سے (جو آپ کو موزوں لگے اور آسانی سے پہنچ میں ہو) استفادہ کریں تو یہ سلسلہ اچھا چل نکلے گا (اس سلسلے میں اگر آپ چاہیں تو میری خدمات بلاتکلّف حاضر ہیں) امید ہے میری تجویز آپ کے لیئے قابلِ عمل اور فائدہ مند ثابت ہو گی۔ نیک خواہشات کے ساتھ آپ کا مخلِص و خیر خواہ رشید حسرت
شہید ہوش محمد شیدی . مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں دن رات صدیوں سے ہوتے آ رہے ہیں اور ہمیشہ ہوتے رہیں گے ، لیکن 24 مارچ 1843ع کا دن ایک ایسا دن تھا جس میں محب وطن اور غدار وطن علیحدہ ہونے والے تھے ، سچے اور جھوٹوں کی پہچان ہونی تھی ، سندھ دھرتی پر مر مٹنے والے اور اس دھرتی کا سودا کرنے والے منظرعام پر آنے والے تھے یہ دن ایک امتحان تھا کہ کون ہے جو اپنے اعلیٰ ذھانت اور بہادری کے جوہر دکھاتا ہے اور کون ہے جو بزدلی کو اپنا زیور بنا کر سامراج کے سامنے گردن جھکا کر ذلت کی زندگی کو ترجیح دیتا ہے ۔انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد سندھ کی طرف بڑھنا شروع کر دیا اور 1843 کی شروعات میں ہی سندھ کے میروں کو دھمکایا کہ اگر تم لوگوں نے ھمارے معاہدے پر دستخط نہ کئے تو پھر تمہارا برا حال کیا جائے گا ، میروں نے اس معاہدے کے متعلق ابھی باتیں شروع ہی کی تھیں کہ انگریزوں نے حملہ کرکے امام گڑہ پر قبضہ کر لیا جو خیرپور کے میروں کے ہاتھ میں تھا . اس وقت سندھ کے میروں کی آپس میں بھی نہیں بنتی تھی . جیسے حیدرآباد میر نصیر خان کے پاس تھا اور میر صوبدار اس کا مخالف تھا . اور جلد ھی انگریزوں کی سازباز میں آگیا ـ فروری 1843 میں جب میانی کی جنگ لگی تو میر صوبدار میروں کی شکست سن کر انگریزوں کی طرف مٹھائی اور تحفے تحائف بھیجے منصور قادر جونیجو نے جے الانا کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ میر صوبدار ہر وقت سر چارلس سے خفیہ خط و کتابت کرتا رہتا تھا جس میں انہوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ سندھ کے میروں کا ساتھ نہیں دے گا اور انگریزوں کی مخالفت نہیں کرے گا انگریز غداروں کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے اسی طرح جب میر انگریزوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کر رہے تھے تو میر صوبدار نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ خود کو اور اپنے لوگوں کو جنگ میں شامل ہونے سے دور رکھا اور جب 17فروری اٹھارہ سو تینتالیس کو جب میانی کی جنگ لگی تو اس وقت میر صوبدار حیدرآباد کے قلعے کے اندر بیٹھا تھا جب اسے پتہ چلا کہ انگریزوں کو فتح ہوگئی ہے اور میر بھاگ گئے ہیں تو اس نے اپنے بھروسے والے آدمي منشی آوتراء کو جو سندھ کا ہندو عامل تھا کچھ قیمتی تحائف دے کر سر چارلس کی طرف بھیج دیا
آج کھائی ہے چار دِن کے بعد کِتنی مِیٹھی لگی ہے روٹی آج آؤ ہم اِس کو نوچ کر کھائیں شرم کیسی ہے، اِس میں کیسی لاج؟؟ حُکمرانوں نے اِنتہا کر دی بے ضمِیری کی، بے حیائی کی کِس ڈِھٹائی سے کر رہے ہیں آج بات یہ اپنی پارسائی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال میرا فقط حُکمراں سے اِتنا ہے کہِیں پہ عدل اگر ہے، کہاں ہے، کِتنا ہے؟؟ کہِیں بھی کوئی اِدارہ، جو صاف سُتھرا ہو؟ تباہِیوں کے دھانے پہ مُلک جِتنا ہے کبھی تھا لُقمۂ و کپڑا، مکان خطرے میں ابھی تو ساتھ میں عِزّت کے جان خطرے میں انا کی دوڑ میں ہو، تُم غلام ضِد کے ہو ہمارا مُلک ہے، پُرکھوں کی آن، خطرے میں حیا نہِیں ہے تُمہیں بات کیسی کرتے ہو؟ کِسی غرِیب سی بستی میں دیکھو آ کر بھی بِلکتے بُھوک سے بچّوں کو، زرد چہروں کو گُزارا کرتے ہیں کُچھ لوگ مٹّی کھا کر بھی سہُولتوں کی طلب جُرم شہر زادوں کا مگر جو گاؤں میں ہیں اُن کا جُرم کیا ہے بتا؟ یہ بُوند بُوند کو پانی کی کیوں ترستے ہیں؟ تُمہارے بچّے یہاں رہ سکیں گے آ کے، بتا ہماری مانگ بھلا کیا ہے، عیش کا ساماں؟ نہیں ہے، مانگتے ہیں صرف ہم تو آب و ناں نہِیں ہے بس میں اگر وہ بھی پِھر تو چُلّو بھر کہِیں بھی تُم کو ملے گا کبھی تو آبِ رواں کمال کیا ہے جو تُم میں ہے پیشرو میں نہ تھا نچوڑا اُس نے بھی، اب تُم بھی خُوں نِچوڑو گے دِیۓ جو زخم گِرانی کے پیشرو نے ہمیں بھرے ہیں پِیپ سے وہ زخم، اُن کو پھوڑو گے خُدا تباہ کرے تُم سے حُکمرانوں کو چُرا کے لے کے گئے مُلک کے خزانوں کو خُدا کی لاٹھی کی آواز تو نہِیں لیکن اکیلے چھوڑے گا ہرگز نہ بے زبانوں کو رشِید حسرتؔ
تعارف آج پوری دنیا میں مسلمان زوال کا شکار ہیں، چاہے وہ علم، ایجادات یا ٹیکنالوجی کا میدان ہو۔ دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہو رہی ہیں مسلمانوں کا ان میں دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ جہاں اس صورتحال میں مسلمانوں کا قصور تو ہے ہی وہاں یہ زمہ داری ہمارے برائے نام علما پر بھی جاتی ہے۔ کیونکہ مسلمان تحقیق میں اتنے پیچھے جا چکے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی کسی چیز کی تہہ نہیں دیکھی، بس جس کسی نے جو بات کی اسی پر یقین کرلیا۔ ہمارے ہاں جب بھی کوئی نئی شہ مصارف ہوتی ہے تو فورا یہ لوگ اپنا فتوٰی لے کر پہنچ جاتے۔ اوپر سے ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ کس طرح ہم انکے فتوٰی کو سچ مان لیتے ہیں۔کسی نے اس بارے نہیں سوچا کہ فتوٰی کیا، کب اور کون دے سکتا ہے؟ بس اسی چیز کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور فتوٰی کو یہ لوگ بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ مسلمان کو ترقی سے روک سکے۔آج ہم برائے نام علما کے ان فتووں پر روشنی ڈالتے ہیں جنکی وجہ سے مسلمان آج اس حالت میں موجود ہیں؛ نمبر1.انگریزی زبان حرام قیام پاکستان سے پہلے برصغیر میں مسلمانوں کی معاشی حالت انتہائی خراب تھی۔ انکی اس حالت کی وجہ مسلمانوں کو اچھی نوکری نہ ملنا تھا اور ان کو اچھی نوکری نہ ملنے کی وجہ مسلمانوں کا پڑھا لکھا نہ ہونا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ وہ انگریزی نہیں جانتے تھے۔1875 میں سر سید احمد خان سے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی اور انہوں نے مسلمانوں کو نا صرف پڑھنے لکھنے کی تلقین کی بلکہ انگریزی زبان و سائنسی علم کے سیکھنے کو وقت کی اشد ضرورت قرار دیا تاکہ مسلمان دنیا میں انکا مقابلہ کر سکیں۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے سر سید احمد خان نے علی گڑھ نامی تحریک چلائی۔ بجائے اس تحریک کی حمایت کی جاتی ، ہمارے برائے نام علماء نے اس پر اپنا فتوٰی جاری کردیا کہ ہم نہ صرف اس زبان کو سیکھے گے بلکہ جو بھی ایسا کرے گا حرام کام کا مرتکب ہوگا۔ (یہاں آج بھی انگریز کی ایجاد کے استعمال کو حرام تصور کیا جاتا ہے چاہے وہ کرکٹ کھیل ہو یا کوئی بھی ٹیکنالوجی)انہوں نے سر سید احمد خان کو اس عمل سے بھرپور روکا اور انکے خلاف الٹا تحریکیں چلا دی کہ یہ مسلمانوں کو ورغلا رہے ہیں ، لیکن اللہ بھلا کرے سر سید احمد خان کا کہ انہوں نے انکی ہر سازش کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کر کے اپنے مقصد کو ایسے ہی جاری رکھا ، لیکن ہمارے لوگوں کی اکثریت نے انگریزی نہیں سیکھی اور اسکی بڑی وجہ مسلمانوں کا اندھے طریقے سے ا نہیں لوگوں کی پیروی کرنا ہے۔ نمبر2.پرنٹنگ پریس حرام سنہ1450 میں جیسے ہی جرمنی کے اندر پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا، اس نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی۔ یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ کسی بھی چیز کی اشاعت ہاتھ کی بجائے مشین سے چھپ رہی تھی۔ یہ ایک طرح کا پورے یورپ میں انقلاب سمجھا جا رہا تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں کی موجودہ سوپر پاور سلطنت عثمانیہ میں بھی اس خبر کو کافی مقبولیت ملی۔ لیکن پھر وہی ہوا جو مسلمانوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ وہاں کے ایک شیخ نے فتوٰی جاری کردیا کہ پرنٹنگ پریس ایک شیطانی چڑکھا ہے، اسکا استعمال حرام ہے۔ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس کو موقع پر اڈاپٹ نا کر کے ہم دنیا میں کتنا پیچھے رہ گئے۔ دنیا میں وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی جو وقت پر جدت کو فالو نہیں کرتی۔ اور یہی ہمارے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ اگر مسلمان اس وقت اس فتوٰی کے پیچھے دھان نہ دیتے تو وہ بھی پرنٹنگ پریس میں اپنی ایجادات کر کے دنیا کو حیران کرسکتے تھے، وہ بھی ہاتھ کی بجائے مشین کے ذریعے سے علم کی اشاعت کر کے لوگوں میں جلدی سے پھیلا سکتے تھے، جسکی وجہ سے علم کے پھیلاو میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے کو ملتا۔ نمبر3.ٹیکنالوجی اڈاپشن حرام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی وجہ پر غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ قوم کے دفاعی نظام کی مضبوطی سے زیادہ اہم قوم کی ٹیکنالوجی میں ترقی ہے۔ آج ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو سکول سے ہی جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جارہی ہے اور دوسری طرف ہمارے مسلم ممالک ہیں جہاں سرے سے ہی کوئی ایجوکیشن سسٹم نہیں۔ بچہ پڑھ کر یونیورسٹی تک تو پہنچ جاتا ہے لیکن وہاں بھی تعلیم کا لیول ایسا ہے کہ پریکٹیکل ورک نام کی کوئی شہ نہیں۔ اس سب بدقسمتی کے باوجود رہی سہی کسر ہمارے برائے نام علماء اپنے فتووں سے نکال رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں بھی انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی جیسا کہ ہوائی جہاز، انٹرنیٹ، موبائل فون پر فتوٰی، اور تو اور آن لائن کمائی پر بھی فتوٰی۔ انکے فتوے کی وجہ طرف اور صرف ایجاد غیر مسلم کی ہونا ہے۔ حالانکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو ان چیزوں سے اربوں لوگوں کی تعداد مستفید ہورہی ہے، ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مسلمان تک جہاز میں سفر کر کے عمرہ و حج کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں مسلمان انٹرنیٹ کی مدد سے دین کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی سے ہم دین و دنیا دونوں میں اوپر جاسکتے ہیں اگر ہم ان برائے نام علماء کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔ حاصل نتیجہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم دنیا میں برابری کی بنیاد پر کھڑے ہوں، تو ہمیں اپنی یہ حالت بدل کر سوچ میں مثبت پھیلاو لانا ہوگا اور ہمیں خود ہر شہ میں صحیح وغلط کی پہچان کرنی ہو گی۔ آج ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی بھی چیز کو ڈھونڈنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ہم نے اگر اس مائنڈ سیٹ کو نہ بدلا تو کوئی بھی ہمیں ترقی پر نہیں لا سکتا، اسی لیے اللہ نے بھی قرآن میں واضح فرما دیا ہے کہ خدا اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جو قوم خود اپنی حالت نہ بدلے۔ تحریر؛ ریحان علی
*آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی پاکستان چین کی پہلی کھڑکی تھا‘ چین کے لوگوں نے پاکستان کے ذریعے دنیا کو دیکھنا شروع کیا ‘ پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ائیر لائن تھی جس کے جہاز نے چین کی سرزمین کو چھوا‘ اس لینڈنگ پر پورے چین میں جشن منایا گیا ‘ پاکستان نے ایوب خان کے دور میں چین کو تین جہاز فروخت کئے ‘ ان میں سے ایک جہاز ماﺅزے تنگ استعمال کرتے تھے‘ اس جہاز پر آج بھی ”کرٹسی بائی پاکستان“ لکھا ہے۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چینی مصنوعات کی امپورٹ کی اجازت دی اور ہم ایک طویل عرصے تک چین کے ریزر اور سوئیاں استعمال کرتے رہے‘ پاکستان نے چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت بھی دی ‘ چین کے حاجی بسوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے تھے اور پاکستان انہیں حجاز مقدس تک پہنچانے کا بندوبست کرتا تھا اور پاکستان کا ویزہ کبھی چین کے لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہوتا تھا لیکن آج وہ چین دنیا میں ترقی کی انتہا کو چھو رہا ہے‘ یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں‘ چین آگے نکل گیا جبکہ ہم اپنے ہی مزار کے مجاور بن کر رہ گئے‘ہم نے کبھی چین کی ترقی اور اپنی تنزلی کا جامع تجزیہ نہیں کیا‘ ہم نے کبھی ان وجوہات کا جائزہ نہیں لیا جن کے باعث چین چین ہو گیا‘ جن کے باعث چین نے چاند تک ”میڈ اِن چائنا“ کی مہر پہنچا دی‘ جن کے ذریعے چین نے نا صرف اپنے سوا ارب لوگوں کو روزگار‘ صحت‘ تعلیم اور شاندار زندگی فراہم کی بلکہ وہ دنیا بھر کے ساڑھے چھ ارب لوگوں کی ماں بھی بن گیا۔ ہم نے کبھی چین کی ترقی کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ نہیں کیا‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو پورے یورپ میں ایسے 39شہر ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ چین نے پچھلے تیس برسوں میں 160ایسے نئے شہر آباد کئے ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے اور ان میں دنیا کی تمام جدید سہولتیں موجود ہیں‘ آج مرسیڈیز کاروں کا سب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے ۔آج یورپ‘ امریکا اور پاکستان میں ایسی سبزیاں اور فروٹ ملتا ہے جس پر چائنا کا سٹیکر لگا ہوتا ہے اورآج دنیا کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں فیکٹریاں لگانے پر مجبور ہیں لیکن ہم نے کبھی چین کی اس ترقی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے زوال کے شواہد اکٹھے کئے‘ ہم نے کبھی نہیں سوچا چین کی ترقی کے چار اصول تھے۔ نمبر1:مخلص لیڈر شپ‘ نمبر2:ان تھک محنت‘ نمبر3:اپنی ذات پر انحصار نمبر4:اور خودداری۔ چین نے کبھی دوسری اقوام کے سامنے کشکول نہیں رکھا ‘ اس نے ہمیشہ اپنے وسائل پر انحصار کیا‘ یہ لوگ پندرہ‘ پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور جب اس کام سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کی لیڈر شپ نے اپنا تن‘ من اور دھن قوم پر وار دیا ‘ ان کے لیڈر کا جنازہ تین مرلے کے مکان سے نکلا اور اس نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک میں قدم نہیں رکھا ‘ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا چین کی یہ چاروں خوبیاں ہماری سب سے بڑی کمزوریاں ہیں‘ہم نے کشکول کو اپنی معیشت بنا رکھا ہے‘ ہم دوسروں کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں‘ ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے والے لوگ ہیں اور ہماری ساری لیڈر شپ کی جڑیں ملک سے باہر ہیں‘ ان کی اولادیں اور گھر تک دوسرے ملکوں میں ہیں چنانچہ ہم آج افغانستان سے لے کر روانڈا تک دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں‘ ہم سانس تک ادھار کی لیتے ہیں ‘ ہمیںروٹی بھی دوسرے فراہم کرتے ہیں۔کاش ہم چین کے صدر شی چن پنگ سے عرض کرتے جناب آپ ہمیں 46 ارب ڈالر کے منصوبے نہ دیں‘ آپ ہمیں عزت کی روٹی کھانے اور غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کا درس دے دیں‘ آپ ہمیں مچھلی نہ دیں آپ ہمیں مچھلی پکڑے کا طریقہ سکھا دیں۔ کاش ہم چین کے لیڈر سے پاکستان کو چین بنانے کا گر سیکھ لیتے کیونکہ قوموں کو امداد اور سمجھوتے نہیں چاہئے ہوتے‘ انہیں عزت اور غیرت کی گھٹی درکار ہوتی ہے اور ہم نے آج تک کسی سے یہ دولت نہیں لی۔ہم نے آج تک کسی قوم‘ کسی ملک سے یہ ہنر سیکھنے کی کوشش نہیں کی‘ آپ یقین کیجئے ہم 74 سال سے مردار خور اور بھکاریوں کی زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم کبھی افغانستان میں امریکا اور روس کی پھینکی ہڈیاں چوستے ہیں‘کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پنجر پر بیٹھ کر گوشت نوچتے ہیں اور کبھی سعودی عرب یمن جنگ سے فائدہ اٹھانے کے منصوبے بناتے ہیں‘ دنیا جب ان تمام بحرانوں سے نکل جاتی ہے‘یہ اپنے معاملات‘ اپنے مسائل حل کر لیتی ہے تو ہم کشکول بن کر دوستوں سے دوستی کی خیرات کی اپیل کرنے لگتے ہیں‘ہم نے آج تک خود کو قوم سمجھا اور نہ ہی قوم کی طرح اپنی نسلوں کی پرورش کی‘ ہم 24 کروڑ بھکاری ہیں اور ہم ہر سال ان بھکاریوں میں پانچ دس لاکھ نئے بھکاریوں کا اضافہ کر دیتے ہیں اور یہ بھکاری بھی بڑے ہو کر اپنے بزرگوں کی طرح دنیا کی طرف دیکھنے لگتے ہیں‘ کاش ہم آج ہی جاگ جائیں‘ ہم آج ان 46 ارب ڈالروں کو آخری امداد‘ آخری سرمایہ کاری سمجھ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا فیصلہ کر لیں‘ہم یہ اعلان کر دیں‘ ہم دنیا کےلئے اگلا چین ثابت ہوں گے‘ ہم بیس تیس سال بعد وہاں ہوں گے جہاں دنیا ہمارے صدر کو وہ مقام دے گی جو ہم نے آج شی چن پنگ کو دیا‘ کاش ہم اپنے نیچے والے ہاتھ کو اوپر والا ہاتھ بنا لیں۔کاش ہم دل سے *پاکستان زندہ باد* بن جائیں۔*آمین ثم آمین یا رب العالمین * دعا گو
ایک ہم تھے سر پِھرے جو جل بُجھے لوگوں میں تھے ورنہ جِس کو دیکھتے معیار کے لوگوں میں تھے کون ظالِم حُکمراں کی بات کا دیتا جواب لوگ جِتنے تھے وہاں سب سر کٹے لوگوں میں تھے کون سی بستی ہے یہ, ہم کِس نگر میں آ گئے؟؟ کل تلک رنگوں میں تھے ہم’ پُھول سے لوگوں میں تھے دُور رہتے تھے مگر وہ پِھر بھی تھے کِتنا قریب کتنا اچھّا دور تھا جب فاصلے لوگوں میں تھے اُس نے بستی چھوڑ دی یہ فیصلہ اچھّا لیا ایسے اُجلے لوگ ہم سے ملگجے لوگوں میں تھے ہم نے چھیڑا تھا ترنُّم میں کوئی مِیٹھا سا گیت ہاں مگر یہ تھا کہ ہم کُچھ بے سُرے لوگوں میں تھے نِیند آنکھوں سے چُرا کر لے گیا تھا ایک شخص ایک مُدّت سے مُسلسل رتجگے لوگوں میں تھے جل رہی تھی ساری بستی لوگ پُوجا میں مگن خُود پسندی کے کُچھ ایسے سِلسِلے لوگوں میں تھے قوم کی بربادِیوں کا اِک سبب یہ بھی رشِیدؔ ذات کی تکمِیل کے ہی مرحلے لوگوں میں تھے رشید حسرتؔ
ہفتہ کادن تھا۔ایک پچاس ہو رہے تھے۔دروازے پر دستک ہوئی۔امی نے دروازہ کھولا تو دروازے پر حراب تھی۔(اس کو سب گھر والے پیار سے حور کہتے تھے۔حور کے گھر میں اس کے بڑے بھائی اور والدین تھے)حور نے اماں کو سلام کیا اور بستہ صوفے پر پھینک کر الماری کی طرف بڑھی اور الماری میں سے کپڑے پکڑ کر واش روم میں چلی گئی۔کپڑے بدل کر کھانا کھانے کے لئے میز کی گرد بیٹھ گئی اور اماں نے کھانا لگایا۔دوبیس پر حور کھانا کھا کر فارغ ہو گئی اور کمرے میں سونے کے لئے چلی گئی۔ چار بجے اس کا بھائی عامر دفتر سے واپس آیا اور کمرے میں داخل ہوتے ہی حور کو آواذ لگائی تو حور اٹھتے ہوئے کہنے لگی:جی بھائی کیا ہوا کیوں چلا رہے ہیں؟ عامر:تم اکیڈمی کیوں نہیں گئی؟ حور:بھائی میرے پاوں میں شدید درد ہےبالکل بھی چلا نہیں جا رہا۔ عامر:تو گھر میں بھی نہیں پڑھ سکتی کیا؟ حور:کل اتوار ہے کل پڑھ لوں گی۔ عامر:نہیں ابھی پرھو !ہمیں اپنا کوئی بھی کام کل پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ حور:مگر کیوں بھیا ؟ عامر:کیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ اگلی صبح کیسی ہے………. ساڑھے چار بجے حور اپنا بستہ لیے صوفے پر بیٹھ گئی۔وہ پڑھنے کی بجائے کانوں میں ہینڈ فری لگا کر گانے سننے لگی اور ساتھ ساتھ دہرانے لگی۔اماں کو لگا کہ وہ پڑھ رہی ہے مگر وہ گنگنا رہی تھی۔اسی طرح رات کے آٹھ بج گئے۔اماں نے کھانا بنا کر میز پر لگایا اور آواز دی:”کھانا تیار ہے آ جاو دونوں!”۔دونوں آکر ٹیبل کے گرد بیٹھ گئے۔اسی دوران گھر کا دروازہ کھلا اور ابا جان اندر داخل ہوئے ۔ابا جان نے کہا:السلام علیکم۔ سب نے جواب دیا:”واعلیکم السلام”۔ عامر:ابا جی!آئیں کھانا کھا لیں۔ ابا جان:بیٹامیں منہ ہاتھ دھو کر آتا ہوں۔ تھوری دیر میں ابا جان آگئےاور سب کھانا کھانے لگے۔ صبح کے دس بج رہے تھے۔عامر،حوراور ابا سو رہے تھے۔اماں صحن میں جھاڑو لگا رہی تھیں کہ ان کے کانوں میں آواز پڑی:آلو لے لو،ٹماٹر لے لو………یہ سن کر انہوں نے سوچا کیوں نہ سبزی لے لوں رات کو بنا لوں گی۔وہ جلدی سے گھر کے باہر گئیں اور ریڑھی والے سے سبزیوں کے دام پوچھنے لگیں۔قریب سے پڑوسن گزر رہی تھیں۔پڑوسن نے سلام دعا کی اور سبزی لے کر گھر چلی گئیں۔اماں نے ابھی سبزی کچن میں رکھی ہی تھی کہ فون بجنے لگا۔خبر تھی کہ آپ کی بھتیجی فوت ہو گئی ہے۔ یہ سب سن کر وہ جلدی سے بولیں:”عامر !حور!جلدی آو”۔عامر حور اور ابا جان باہر آئے تو اماں نے ان کو پوری بات بتائی۔ وہ سب ناشتہ کیے بغیر کپڑے بدل کر فوتگی پر چلے گئے اور سارا دن وہیں گزر گیا۔رات بارہ بجے اماں کے علاوہ باقی سب گھر واپس آ گئے۔صبح ہوئی ۔حور اسکول جانےکے لئے اٹھی اور تیار ہو کر اسکول چلی گئی۔اسکول جاتے ہی اسے معلوم ہوا کہ آج ایک ٹیم نے اسکول میں معائنہ کر نے آنا ہے۔یہ سن کر وہ حیران ہو گئی۔اسمبلی ختم ہونے کے بعد سب بچے کلاس میں چلے گئے اور ان کی کلاسوں میں کچھ لگ آئے۔انہوں نے بچوں کی کاپیاں دیکھیں۔حور نے کام نہیں کیا تھا،اسے سب کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا۔یہ دن تو جوں توں کر کے گزر ہی گیامگر اگلے روز اسکول کی پرنسپل نے اسے ڈانٹااور اس کا نام اسکول سے خارج کر دیا۔وہ ڈر کے مارے فوتگی کا بھی نہ بتا سکی۔اس نے گھر جا کر بھائی کو اس بارے میں بتایا تو بھائی نے اسے ڈانٹا اور کہا :”آئندہ کبھی آج کا کام کل پر مت چھوڑنا”۔اس کے بعد حور نے کبھی اپنا آج کا کام کل پر نہیں چھوڑا۔
وزن کم کرنے کے لئے ایسے طریقے بتائے جارہے ہیں جنہیں استعمال کرکے نہ صرف وزن کم کیا جائے گا بلکہ قوت مدافعت میں بھی اضافہہو گا نمبر1_ سب سے پہلے اپنے کھانے کے اوقات مقرر کر لیں نمبر2_ دن میں بارہ گلاس پانی پینے نمبر3_ اگر بھوک کھانے کے اوقات کے علاوہ محسوس ہو تو انگوٹھے کے اوپر والے حصے کو دس منٹ تک مساج کریں دونوں ہاتھوں پر انشاءاللہ بھوک کا احساس ختم ہو جائے گا نمبر4_ صبح نہار موں اسپغول کی بھوسی دو چائے کے چمچ ایک گلاس پانی میں ڈال کر پیئے یہ نا صرف پیٹ بلکہ انتڑیوں کی صفائی کے لیے بھی مفید ہےبلکہ سے جلدی صاف اور شفاف رہتی ہے نمبر5_ کم از کم آدھا گھنٹہ تیز واک کریں نمبر6_ کھانا کھاتے وقت کھانے کو اچھی طرح چبا کر کھائیں اچھی اور صحت مند ڈائیٹ کا طریقہ صبح کا ناشتہ ایک ابلا ہوا انڈا اور بغیر شکر کی چائے اگر زیادہ محسوس ہو تو ایک سیب بھی لے سکتے ہی دن کے گیارہ بجے دن کے گیارہ بجے اگر بھوک محسوس ہو تو کھیرا ککڑی ٹماٹر یا کیلا بھی کھا سکتے ہیں دوپہر کا کھانا کسی بھی سبزی کا سوپ اگر چکن شامل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں لیکن بڑا یا چھوٹا گوشت بالکل بھی نہیں چار بجے شام کوئی بھی موسمی پھل پپیتا امرود سیب گاجر آلو بخارہ لے سکتے ہیں .بغیر شکر کی چائے بھی لے سکتے ہیں آٹھ بجے رات اب کیوں کہ صبح تک کچھ نہیں کھانا اس لیے ایک ابلے چاول کچی سبزی کے ساتھ لے سکتے ہیں. یہ طریقہ کار صرف تین دن کے لیے ہے.چوتھے اور پانچویں دن دوپہر کے کھانے میں سوپ کی جگہ سلاد کے اوپر لیموں چھڑک کر کھا سکتے ہیں. پانچویں دن رات کے کھانے میں ابلی ہوئی چکن یا حلقے شوربے کے ساتھ ایک چباتی لے لیں .دو دن کے وقفے سے یہ طریقہ دوبارہ آجائے لیکن بیچ کے دو دنوں میں غذائی بد احتیاطی سے پرہیز کریں اپنی غذا کا خصوصی خیال رکھیں. ٹھنڈے مشروب بوتل وغیرہ پینے سے پرہیز کریں. تلی ہوئی چیزیں جیسے سموسی پکوڑے نان پیزا شوارما وغیرہ سے پرہیز کریں. شوگر مطلب چینی سے بالکل دور رہیں. روزانہ واک کرے تاکہ صحت اچھی رہے سکے
میرے ہونٹوں سے پہلے ہنسی چِِھینتا پِھر مِرا دِل، مِری زِندگی چِھینتا اور لُٹتے کو ہی پاس کیا تھا مِرے آنکھ میں رہ گئی تھی نمی، چِھینتا جو اندھیروں میں پل کر ہُؤا خُود جواں کیا بھلا وہ مِری آگہی چِھینتا میں نے کُچلا ہے سر، اُس نے پہلے مِرا چاند چِھینا تھا اب چاندنی چِھینتا جو بھی ہُوں شُکر ہے، حُکمراں تو نہِیں ورنہ ہر اِک نگر، ہر گلی چِھینتا میرے بس میں نہِیں کھیل تقدِیر کا تھا یہ مُمکِن خُوشی آپ کی چِھینتا کاش آتی کوئی ایسی کاری گری زور والوں کی زور آوری چِھینتا حُکمراں اِس پہ قُدرت کا حامِل نہِیں دِل تو چِھینا ہی تھا دِل لگی چِھینتا ذہر لگتی ہیں حسرت جو یہ بولیاں کُوک کوئل، پپیہا سے “پی” چِھینتا رشِید حسرتؔ
According to a study, people who continue to work on their smartphones, tablets, and laptops after work are deteriorating their health. According to the Chartered Society of Physiotherapy, people have become enslaved to these devices and are often using smartphones, tablets, and laptops while traveling or even at home. According to society, the way they sit or lie down while using these devices can cause back or neck pain. Unions say people should now know when to turn off their devices. According to an online survey, two-thirds of 2010 employers said they still use smartphones, tablets, and laptops after office hours. According to society, even after office hours, people spend an average of two hours in front of the screens. According to statistics, people are spending more time on smartphones, tablets, and laptops because they have a lot of workloads and they work after office hours to reduce the workload in the office. The head of the society, Dr. Helena Johnson, says this is a matter of concern. “It’s okay if people take office work home from time to time, but if it becomes a habit, it can cause back and neck pain. سمارٹ فون، لیپ ٹاپ صحت کے لیے اچھے نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ اپنے اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ پر کام کرتے رہتے ہیں ان کی صحت خراب ہوتی ہے۔ چارٹرڈ سوسائٹی آف فزیوتھراپی کے مطابق، لوگ ان آلات کے غلام بن چکے ہیں اور اکثر سفر کے دوران یا گھر میں بھی اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہیں۔ معاشرے کے مطابق ان آلات کے استعمال کے دوران وہ جس طرح بیٹھتے یا لیٹتے ہیں اس سے کمر یا گردن میں درد ہو سکتا ہے۔ یونینوں کا کہنا ہے کہ اب لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے آلات کو کب بند کرنا ہے۔ ایک آن لائن سروے کے مطابق 2010 کے دو تہائی آجروں نے کہا کہ وہ دفتری اوقات کے بعد بھی اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہیں۔ معاشرے کے مطابق دفتری اوقات کے بعد بھی لوگ اوسطاً دو گھنٹے اسکرینوں کے سامنے گزارتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق لوگ سمارٹ فونز، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ پر زیادہ وقت گزار رہے ہیں کیونکہ ان پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ دفتر میں کام کا بوجھ کم کرنے کے لیے دفتری اوقات کے بعد کام کرتے ہیں۔ سوسائٹی کی سربراہ ڈاکٹر ہیلینا جانسن کا کہنا ہے کہ یہ تشویشناک بات ہے۔ ‘یہ ٹھیک ہے کہ لوگ وقتاً فوقتاً دفتری کام گھر لے جاتے ہیں، لیکن اگر یہ عادت بن جائے تو اس سے کمر اور گردن میں درد ہو سکتا ہے۔
عنوان: ریاست ماں جیسی ہوتی ہے دنیا میں جہاں پر جمہوریت ہے وہاں ریاست کی تعریف اسطرح کی جاتی ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کی ماں ہوتی ہے یعنی آگر کسی شہری( بچے ) کے والدین فوت ہوجائے تو ریاست اس کی کفالت، نشونما،علاج معالجہ اور بہتر تعلیم وتربیت کا بندوبست کرےگی اسی طرح ریاست اس کی جان و مال کی حفاظت ،اور بہتر روزگار کا ضامن ہوگی ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں جمہوریت تو ہے اور شہریوں کے تحفظ اور فلاح کے قوانین موجود ہیں لیکن ریاست اور اس کے ادارے اس پرعمل کرنے سے ہچکچاتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ ملک میں بار بار مارشلاوں کا نفاذ رہا ہے پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ریاست کے نظم و انتظام کو اپنے منشا کے مطابق چلائیں اور اس میں جو بھی روکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور ملک کو اس کے حقیقی روح کے مطابق ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ادارے اس کا راستہ روکنے کے لیے وہ تمام تر حربے استعمال کرتے ہیں جس سے وہ اس روکاوٹ کو ہٹاسکیں۔محترمہ فاطمہ جناح کو اس لیے غدار کہا گیا کیونکہ وہ ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑ رہی تھی اسطرح پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اسلیئے ایک جھوٹے مقدمے میں سزا دی گئی کہ وہ چاہتے تھے کہ اختیارات سول نمائندوں کے پاس ہوں اور عوام کے منتخب نمائندے ہی ملک مستقبل کے فیصلے کر سکیں ۔سیاست دانوں کے علاوہ عدلیہ میں بھی ان لوگوں( ججوں ) کو گڈے لائن لگایا گیا جنھوں نے پاکستان کے طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مرضی کے خلاف آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینے کی کوشش کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اسکے خاندان کو اسلیئے آمدن سے زائد اثاثوں کے ایک بے بنیادکیس میں خوب رگڑہ لگایا کیونکہ اس نے فیض آباد درنہ کیس میں آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کیا۔اسی طرح صحافت کے میدان میں بھی جن لوگوں نے اسٹیبلشمنٹ کے مرضی کے خلاف آزادانہ طورپر عوام کو اصل حقائق بتانے کی کوشش کی تو ان کو بھی سبق سکھانے کی کوشش کی گئی ۔اپریل 2014 میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کو کراچی میں موٹرسائیکل سواروں نے گولیوں سے چھلنی کر دیا لیکن ریاست آج تک اس کا کچھ پتہ نہ لگا سکی ۔آگست 2018 میں معروف صحافی اور بلاگر مدثر نارو کو لاہور سے اٹھایا گیا ۔ اور آج تک ریاستی ادارے اس کا سراغ نہیں لگا سکے اور اس کی بوڑھی ماں اور 4 سالہ بچہ ہر تاریخ کو پچھلے چار سالوں سے اسی امید سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں آتی ہیں کہ شاید مدثر نارو کا کچھ پتہ چل سکے لیکن آج تک ریاست ان کو انصاف نہ دلاسکی ۔جولائی 2020 میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو پاکستان کے کیپیٹل میں کیمروں کے سامنے دن دیہاڑے اغوا کیا گیا لیکن آج تک ریاست ان کو انصاف نہ دلا سکی ۔اپریل 2021میں سینئر صحافی اور سابق چئرمین پیمرا ابصار عالم پاکستان کے دارلحکومت میں گولی ماری گئی لیکن آج تک گناہ گاروں کو کوئی سزا نہ مل سکی ۔اسی طرح جون 2021 میں ایک اور صحافی اسد طور کو ان کے گھر میں گھس کر مارا اور پیٹا گیا لیکن آج تک اس کو کوئی انصاف نہ مل سکا ۔2017 میں پارلیمنٹ کے کمیٹی نے بلوچستان میں تعنیات سیکیورٹی اداروں کے افسران کو بلایا اور پوچھا کہ گزشتہ دو سالوں میں کتنی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں تو انھوں نے کہا کہ 51 مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں جب کمیٹی نے پوچھا کہ ان 51 لاشوں کے ملنے پر کسی کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج کرائی ہے تو ان افسران نے جواب دیا کہ لواحقین ایف آئی آر نہیں درج کرانا چاہتے تھے ۔پھرکمیٹی نے پوچھا کہ ریاست جو کے ماں جیسی ہوتی ہے اس ماں ( ریاست ) نے اپنے 51 بچوں کے مسخ شدہ لاشیں ملنے پر کوئی ایف آئی آر درج کرائی ہے، تو ان افسران نے جواب دیا کہ نہیں ۔یہ ہے ہماری ریاست کا کردار، مختصر یہ کہ کیا ہماری ریاست ہماری ماں جیسی ہے؟
*ترک خلافت عثمانیہ کے دور کی کچھ حیاء و عفت سے بھری عادات کا تذکرہ* نمبر1:) قہوہ اور پانی* *جب عثمانی ترکوں کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس کے سامنے قہوہ اور سادہ پانی پیش کرتے* *اگر مہمان پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا ، وہ سمجھ جاتے کہ مہمان کو کھانے کی طلب ہے تو پھر وہ بہترین کھانے کا انتظام کرتے* *اور اگر وہ قہوہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ جان لیتے کہ مہمان کو کھانے کی حاجت نہیں ہے* نمبر2:) گھر کے باہر پھول* *اگر کسی گھر کے باہر پیلے رنگ کے پھول رکھے نظر آتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض موجود ہے ، آپ اس مریض کی وجہ سے گھر کے باہر شور شرابہ نہ کریں اور عیادت کو آسکتے ہیں* *اور اگر گھر کے باہر سرخ پھول رکھے ہوتے تو یہ اشارہ ہوتا کہ گھر میں بالغ لڑکی ہے لہٰذا گھر کے آس پاس بازاری جملے نہ بولے جائیں* *اور اگر آپ پیغامِ نکاح لانا چاہتے ہیں تو خوش آمدید!* نمبر3:) ہتھوڑا* *گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل (گھنٹی نما) ہتھوڑے رکھے ہوتے* *ایک بڑا ایک چھوٹا* *اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ہے لہٰذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا* *اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے لہٰذا اس کے استقبال کے لیے گھر کی خاتون دروازہ کھولتی تھی* نمبر4:) صدقہ* *عثمانی ترکوں کے صدقہ دینے کا انداز بھی کمال تھا* *کہ ان کے مالدار لوگ سبزی فروش یا دوکانداروں کے پاس جا کر اپنے نام سے کھاتہ کھلوا لیتے تھے* *اور جو بھی حاجت مند سبزی یا راشن لینے آتا تو دوکاندار اس سے پیسہ لیے بغیر اناج و سبزی دے دیتا تھا یہ بتائے بغیر کہ اس کا پیسہ کون دے گا* *کچھ وقت بعد وہ مالدار پیسہ ادا کر کے کھاتہ صاف کروا دیتا* نمبر5:) تریسٹھ سال* *اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپکی عمر کیا ہے ؟؟؟* *تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی ہے ، بلکہ یہ کہتا ، بیٹا ہم حد سے آگے بڑھ چکے ہیں* *اللّٰہ اللّٰہ کیسا ادب کیسا عشق تھا ان لوگوں کا* *کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی* *یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالےمگر سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے کہ وہ شیر پھر بیدار ہوگا…*
وہ ہم سے بد گُمان رہے، بد گُمان ہم سو کیا گئے کہ چھوڑ کے نِکلے مکان ہم فاقے پڑے تو پاؤں تلے (تھی زمِیں کہاں) ایسے کہاں کے عِشق کے تھے آسمان ہم اب یہ کُھلا کہ جِنسِ محبّت تمام شُد پچھتائے اپنے دِل کی بڑھا کر دُکان ہم کرتا ہے پہلا وار جو وہ منہ کے بل گِرے رکھتے نہیں ہیں کھینچ کبھی بھی کمان ہم ہم چُپ رہے جو دورِ گِرانی میں اِس طرح اِک دِن ہوا میں سانس پہ دیں گے لگان ہم اپنی خُوشی جو بِھینٹ چڑھائی ہے ہم نے آج جِیون کِسی بھگت کو کریں کیوں نہ دان ہم پہلی اُڑان کی تو تھکن تک گئی نہِیں بھرنے لگے ہیں عِشق کی پِھر سے اُڑان ہم اِتنا یقِیں تو ہے کہ وہ لوٹے گا ایک دِن بیٹھیں یہِیں کہِیں پہ لگا کر گِدان ہم مانا کہ دیکھنے کو تو ہم دھان پان ہیں مسلک ہے عِشق، عشق کی ہیں آن بان ہم دیکھو تو چار سُو اہے حسِینوں کا اِک ہُجُوم جاتی رہی حیات، ہُوئے رفتگان ہم باندھا ہے عہد، عہد کا ہے پاس بھی رشِید کُنبہ لُٹا کے رکھتے ہیں اپنی زُبان ہم رشِید حسرتؔ
تحریر ،،،ارم ریاض پاکستانی معاشرے میں جہاں بہت سی برائیاں ہیں ان میں سب سے بڑی برائی اور لعنت نشہ ہے.پاکستان کا سب سے بڑا المیہ منشیات کے عادی افراد ہیں ،ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ منشیات کا استعمال کرتے ہیں ،نشے کی لت میں پڑھ کر اپنے ہوش ہواس کھو بیٹھتے ہیں ،چرس،افیون،کوکین شراب ،غرض ہر طرح کے نشے کی بھر مار ہے، سگریٹ نوشی، گٹکا ماوا، صمر بونڈ کا نشہ، اس کے علاو اجکل شیشہ کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ، منشیات کے عادی افراد زندگی کی مشکلات ،پریشانیوں سے تنگ آکر دنیا مافیا سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم نے ہر پریشانی سے فرار حاصل کر لی ہے ،کجھ لوگ گھریلو پریشانیوں سے تنگ ہوتے ہیں ،کچھ لوگ بیروزگاری کے ہاتھوں ، کچھ لوگ محبت میں ناکام ہو کر نشہ شروع کر دیتے ہیں کچھ لوگ ،مایوس ہوکر ، کچھ لوگ شوق شوق میں نشہ کرتے ہیں پھر اس کے عادی ہو جاتے ہیں ، کچھ لوگ دوستوں کے کہنے پر منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں .نشے کے عادی افراد آہستہ آہستہ ذہنی ،جسمانی اور روحانی طور پر مفلوج ہوتے جاتے ہیں اور حلال حرام ،اچھے برے کی تمیز بھلا دیتے ہیں ،اور گھر میں روز کے لڑائی جھگڑے عام ہوجاتے ہیں ،اور نشے کا مریض آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد نشے کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور زیادہ تر لوگ چرس اور سرنج کا نشہ کرتے ہیں ، منشیات کا استعمال کرنے والوں میں زیادہ تر نوجوان طبقہ شامل ہے ،اور اب تو چودہ پندرہ سال کے لڑکے بھی نشے کی طرف راغب ہورہے ہیں ، نشے کی لت میں لڑکیاں بھی سرفہرست ہیں ،اور یہ منشیات کی لت ہماری نوجوان نسل کو تباہ برباد کر رہی ہے، نوجوان نسل کسی بھی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ،لیکن اندرونی اور بیرونی طاقتیں ،نوجوان نسل کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں ، اور سارا کچھ حکومت اور پولیس کی سر پرستی میں ہورہا ہے کیونکہ منشیات مافیا بڑی بڑی رقم انکے اکاؤنٹ میں جمع کرواتی ہے ،جب انتظامیہ حرکت میں آتی ہے تو سختی بھی ہوتی ہے لوگ بھی پکڑے جاتے ہیں اب تو کوئی کالج ہو یا یونیورسٹی ایسے تعلیمی اداروں میں بھی منشیات کھلے عام فروخت ہورہی ہے .میری حکومت سے اپیل ہے کہ اس بارے میں سختی سے نوٹس لیں ، اور والدین سے بھی گزارش ہے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں ، آنکے دوستوں پر نظر رکھیں ،اور گھر کا ماحول اچھا رکھیں تاکہ بچوں کو کسی قسم کی محرومی نہ ہو ،
کسی کے درد کو سینے میں پالتا کیوں ہے نئے وبال میں وہ خود کو ڈالتا کیوں ہے پسند ہے جو اسے خود رہے غلاظت میں شریف لوگوں پہ چِھینٹے اُچھالتا کیوں ہے کسی سفینے کو ویران سے جزیرے میں جو لا کے چھوڑ دیا تو سنبھالتا کیوں ہے سمجھ سکا نہ کوئی اس کے فلسفے کو کبھی وفا کو، مہر و محبّت کو ٹالتا کیوں ہے کوئی بتائے کہ بیٹا جوان ہونے پر ضعیف باپ کو گھر سے نکالتا کیوں ہے کسی کا دامنِ دل تو خدا خوشی سے بھرے مجھے ہی درد کے سانچے میں ڈھالتا کیوں ہے رشید طرزِ عمل تجھ کو یہ نہیں جچتا جو راز، راز تھے کل تک اُگالتا کیوں ہے رشِید حسرتؔ
کبھی جھانکو صنم خانے میں آ کر رہو کُچھ دِن تو وِیرانے میں آ کر وہی خالق نُمایاں جا بجا ہے کُھلا ہے مُجھ پہ بُت خانے میں آ کر اِرادہ تو نہِیں تھا میرا لیکن بہایا خُوں کِسی طعنے میں آ کر پڑھو چہروں پہ غم کی داستانیں کچہری میں، کبھی تھانے میں آ کر جُدا ماں باپ سے اب ہو چلا ہوں فقط بِیوی کے بہکانے میں آ کر بہُت اچھے تھے جب تک ہوش نا تھا لُٹایا خُود کو فرزانے میں آ کر اب اِس کے ہونٹ چُومُوں؟ یا نہ چُومُوں؟ یہ بیٹھا کون پیمانے میں آ کر؟ وہ میری مان لیتا کیا بُرا تھا؟ گنوایا وقت سمجھانے میں آ کر کہ جِس کِردار کی تھی پیاس حسرتؔ مِلا عصمتؔ کے افسانے میں آ کر رشِید حسرتؔ
داغ دھبےکیل مہاسے اورچھایاں دورکرنے اور رنگ گوراکرنے کاعلاج سکرب سکرب سے ہماری سکن گوری ہو جاتی ہے اور چھایوں سے نجات ملتی ہے ملتانی مٹی، بادام خشک پودینا،سبز دھنیا، جو، اورگلاب کے پھول ،یاسمین کے پھول کی پتیاں ہم وزن لے کر پیس لیں اور کسی جار میں ڈال لیں. ہفتے میں ۳بار گلاب کے عرق میں ڈال کرپیسٹ بنا لیں اور چھرے پر لگالیں اور ۱۵ منٹ بعدچھرادھو لیں اور پائیں بے داغ گوری رنگت رنگ گورا کرکرنے کی کریم نمبر1:دوعددوٹامن سی کی گولیاں نمبر2: دوعددوٹامن ای کی گولیاں نمبر3:کوجک ایسڑ کریم مکس کرکے صبح شام لگائیں اس سے آپ کا چہرا صاف اور رنگ گورا ہو گا
زلفوں میں تِری پائے ہیں خم اور طرح کے آنکھوں میں اُتر آئے ہیں نم اور طرح کے کیا ہم سے ہوئی بُھول، روا تم نے رکھے ہیں جور اور طرح کے تو ستم اور طرح کے پہلو میں ترے رہتے تھے ہم یاد اگر ہو ہوتے تھے مزے من کو بہم اور طرح کے اک پل بھی تِری دید بِنا چین کہاں تھا تھا دورِ کمالات، تھے ہم اور طرح کے احساس کی دولت سے نوازا ہمیں حق نے دنیا ہے الگ، اہلِ قلم اور طرح کے ہونٹوں پہ مِرے بول رہے قند موافق ہاں دل میں مگر رکھے ہیں سم اور طرح کے اک دوجے پہ جاں وارتے تھے ہنستے ہنساتے کیا بیویاں تھیں، تھے وہ خصم اور طرح کے کی نفس کُشی جس نے سو کل اُس کے لیئے ہیں رُتبے ہی بڑے جاہ و حشَم اور طرح کے کل اور خیالات، رشیدؔ اور سماں تھا حالات مگر آج صنم اور طرح کے رشید حسرتؔ
بجا أنکھیں ہماری تھیں مگر منظر پرائے ہمیں کچھ دِن تو رہنا تھا مگر تھے گھر برائے نجانے کِس کی آنکھوں میں اتاری نیند اپنی ہمیں بانہوں میں تھامے رہ گئے بِستر پرائے وہ کیا آسیب نگری تھی کہ جس میں سب ادھورے کہیں دھڑ تھے کہیں دھڑ پر لگےتھے سر پرائے غنیمت ہے کہ جو ہم کو میّسر آ گیا ہے ہمارے کام کیا آئیں گے یہ پیکر پرائے کِیا ہے غیر سے رشتہ تو اب ایسا بھی ہو گا بِٹھائے گا ہمارے بِیچ میں لا کر پرائے کسی بے آبروؔ کو آبرو دینا غلط ہے کرے گا تم کو رُسوا اِک اشارے پر پرائے رشیدؔ انسانیت کا تم کو دعویٰ ہے تو یہ کیا؟ ولیؔ اپنے تو کیوں تم کو دیا شنکرؔ پرائے رشِید حسرتؔ
ہمارا معاشرہ کئی طرح کے ناسور کا شکار ہے جو ہماری معاشرتی اقدار و روایات ہماری مزہبی و ملی احکامات کو پارہ پارہ کرنے میں اپنا بھرپور اور موئثر کردار ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑے ہوئے حسن پرستی ایک فطری عمل ہے حسن پرستی اچھی سوچ کی بھی ہو سکتی ہے اچھی فطرت کی بھی اچھی سیرت کی بھی اور بار دیگر اچھی صورت کی بھی لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے حسن پرستی کا نام استعمال کر کے حواس پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور بے جا غیر اخلاقی خواہشات کو تقویت دی جا رہی ہے آج کل معاشرے میں اختلاط مرد وزن عام ہو گیا ہے گھر ہو یا پھر تعلیمی ادارے ، آفسز ہو کہ تجارتی مراکز یا پھر سیاحتی مقامات الغرض کوئی جگہ ایسی نہیں بچی ہے جہاں لڑکے لڑکیوں کے باہمی حواس پرستی کے جزبہ کو کم یا روکا جا سکتا ہو الّامیہ یہ کہ کسی کے دل میں خدا خوفی رہی ہی نہیں اب تو بلا جھجھک بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنا بھی معیوب نہیں رہا جسے لیو ان ریلیشن شپ کا گھٹیا نام دیا گیا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں عصمت ریزی کے واقعات کی پہلے ہی بہتات ہے زنا بالرضا اس پر ایک اور اضافہ ہے الامان ولحفیظ اسلام میں مرد اور عورت کو اکیلے میں ملنے اور بلا ضرورت نامحرموں سے بات چیت کرنے سے روکا گیا ہے لڑکے لڑکیاں اگر اسلام کی اس تعلیم پر عمل کریں تو وہ گناہ سے بچ جائیں گے نامحرم مرد اور عورت کو اسلام نے تنہائی میں ملنے سے سخت منع کیا ہے نبی کریم کا صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جہاں اکیلے میں ایک نامحرم مرد اور نامحرم عورت ہوتے ہیں وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے اور شیطان جس پر حاوی ہو جاتا ہے وہ ضرور شیطانی حرکات کر بیٹھتا ہے حضرت جنید بغدادی سے پوچھا گیا کیا کہ کوئی مرد کسی غیر محرم کو پڑھا سکتا ہے فرمایا اگر پڑھانے والا بایزید بسطامی ہو اور پڑھنے والی رابعہ بصری ہو جس جگہ پڑھایا جا رہا ہو وہ بیت اللہ شریف ہو اور جو کچھ پڑھایا جا رہا ہو وہ کلام اللہ شریف ہو پھر بھی اجازت نہیں ہے اب کوئی ہرگز یہ نا سمجھے کہ میں کو ایجوکیشن کے خلاف فتوا صادر کر رہا ہو فقط سمجھانا مقصود ہے کے اکیلے میں نا محرم نہیں مل سکتے کو ایجوکیشن پر پھر کسی دن قلم کو جنبش میں لائیں گے عزیزم ہمارے معاشرے میں نہ جانے ایسے کتنے واقعات ہوتے ہوں گے جن کا کبھی کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا ہوگا اللہ خیر کرے یہ سب اسلام کی بنیادی تعلیمات سے محرومی اور جابجا فحاشی کے اسباب وآلات کی فراوانی اور بے ہودہ لبرلز کی سازشوں کا نتیجہ ہے قربان میں اپنے دین اسلام سے مجھے اسلام پر رشک آنے لگا کہ کیا ہی خوب دین ہے کہ اس نے عورت اور مرد کے درمیان رشتے کی بنیاد نہایت پاکیزہ اصولوں پر رکھی ہے نکاح کے لیے سرپرست کی موجودگی ضروری ہے نکاح سے پہلے لڑکی کو ایک نظر دیکھنے کا حکم موجود ہے اسلام نہایت معتدل اور بہترین نظام زندگی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی گزارنے کے لیے عطا کیا ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی ہے آقا دو جہاں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا آنکھوں کا زنا فحش دیکھنا ہے ،کانوں کا زنا فحش سننا ہے، زبان کا زنا فحش بات کرنا ہے دل بدکاری کی خواہش اور تمنا کرتا ہے اس کے بعد شرم گاہیں اس منصوبے کو عملی جامہ پہناتی ہیں (مسلم) محترم قارئین! اس طرح کے واقعات میں والدین کے لیے بھی ایک بہت بڑا سبق ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت میں غفلت نہ برتیں بلکہ ان پر نظر رکھیں اگر آپ ان کو تنہا باہر جانے کی اجازت دیں گے اور چیک ایند بیلینس نہیں رکھیں گے تو وہ ایسے کارنامے انجام دیں گے جس کے نتیجے میں آپ کو شرمسار ہونا پڑے گا ان کا ٹھیک وقت پر نکاح کریں قرآن اور حدیث کی بنیادی تعلیم دیں شادی وقت پر نہ کرنے سے اولاد ہلاکت میں پڑ سکتی ہے دین بیزاری، قرآن و حدیث سے دوری، فیشن پرستی، آزادانہ میل جول اور نکاح میں تاخیر زنا کے اسباب میں سے ہیں اور ان سے بچنے کے لیے فہم دین قرآن و حدیث سے وابستگی مقصدِ زندگی کا شعور اور نکاح میں تعجیل ضروری ہے خاص طور پر میں لڑکیوں اپنی بہنوں کو مشورہ دوں گا وہ سورہ نور کا مطالعہ غور وفکر کے ساتھ کریں ان حالات میں امت مسلمہ پر بحیثیت داعی، امت وسط اور خیر امت، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کو ملک و ملت کے ہر خاص و عام تک اور خصوصاً نوجوان نسل تک پہچانیں اور معاشرے میں اسلام کی تعلیمات کو جاری و ساری کرنے کے لیے جدوجہد کریں اللہ مجھ سمیت سب کو اسلامی تعلمیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں اللہ تمام مسلمانوں کی عصمتوں کی حفاظت فرمائیں آمین یا رب العالمین
اللہ ہر شخص کے ساتھ اس کے یقین کے مطابق ہے اللہ اور انسان کا تعلق صرف گمان کا تعلق نہیں ہوتا. یہ تو دکِھنے والی تمام چیزوں میں شامل، سانس لیتی ایک کیفیت ہے. اللہ ان تمام چیزوں سے بڑا ہے جس سے ہم ڈرتے ہیں یا خوف کھا جاتے ہیں. کسی بہت خوبصورت چیز کا ہاتھوں میں ہونا اور پھر نہ رہنا ، کسی بہت پیارے کو کھو دینا، کسی سے جدا ہو جانا. ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہونے والے تمام حادثات، ہماری تمام اذیتیں، تمام سوالات، تمام آنسو جو آنکھوں سے گرے اور رخساروں پر غائب ہوجائیں، وقت کے ساتھ اپنی وُقعت کھو دیتے ہیں مگر اللہ سنبھالتا ہے، ہر وہ چیز جو ہم سنبھال نہیں پاتے. سمیٹ نہیں پاتے….! ہمارے آنسو رسی کا کام کرتے ہیں وہ رسی جس کے ایک سرےِ پر ہم ہیں اور دوسرے سِرے پر اللہ، بعض اوقات کسی بہت کمزور لمحے میں ہماری گرفت کمزور پڑنے لگتی ہے مگر اسُکے تعلق کی گرفت سب سے مضبوط بن جاتی ہے ….! یہ وہ واحد تعلق ہے جو کم پر زیادہ اور زیادہ پر مزید کی ڈیمانڈ نہیں کرتا. انسان اس ایک کیفیت تک پہنچنے میں عمروں کا سفر طے کرتا ہے اس سفر میں انسان انجان سے جاننے تک ہر مرحلے کو پار کرتے ہوئے اس رسی کے ایک سرے تک پہنچتا ہے….! وہ ایک سرا جو اسے دوسری جانب دیکنے کی طاقت دیتا ہے. اللہ نے اپنے بندے کی سب سے بڑی آزمائش دوسرے بندے کو رکھا ہے. ایک انسان دوسرے انسان کی آزمائش کس طرح ہوسکتا ہے؟ مال سے، محبت سے، نفرت سے اور وہ تمام جزبے جو دل اور دماغ کے اندر وجود رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں. اسی طور ایک انسان دوسرے انسان کا آئینہ بنتا ہے۔ جو جس یقین سے اس رسی کو تھامتا ہے اسی یقین پر اسکو اللہ تعا لٰی کی قربت ملتی ہے….! اور جسے اللہ کی قربت مل جاتی ہے اس کی ہر چیز وقعت والی اور رتبے والی بن جاتی ہے
How to Earn Money Online In Pakistan Without Investment To earn online with no investments, require a lot of studies and abilities. Freelancing is one of the great options. You do now no longer want any investments and simply paintings to earn. It is like an impartial activity. Your paintings are for human beings and receive a commission. There isn’t any boss to your accountability. Rather, you’re your boss. You must ensure that the paintings you’re turning in are true and worthwhile. The exceptional of the paintings will determine the development and boom you get for your destiny assignments. The paintings online and earn with no investments in Pakistan 2021, will want a source. Several reassess permit human beings to make their debts on their structures and revel in the profits. In this article, we can talk about the ones reassessed in detail. Read the object until they cease to make a smart choice approximately Online Earning Without Investment 2021. TOP ONLINE EARNING WEBSITES IN PAKISTAN WITHOUT INVESTMENT 2021: FIVERR: Fiverr is the maximum famous online market. It is a great choice for sparkling graduates. People who need to make desirable cash in life, in addition, they use it for their part-time activities. On Fiverr, freelancers from all around the international promote their offerings online. After that, create a live performance (service) to your profile and post-consumer requests. UPWORK: Upwork is some other freelance painting platform. This market gives an expert platform for impartial contractors, individuals, and groups to locate jobs. Freelancers who’ve particular abilities bid on initiatives through filing proposals for that activity. To make bids, you want to join. When you create a profile, you get 20 connections through default. If you run out of Once a challenge is finished on Upwork, the purchaser and freelancers go away comments with every other. These critiques will assist you to enhance your painting score. The higher your activity score, the much more likely you’re to be hired. Upwork gives many methods to withdraw cash. The maximum appropriate choice is to withdraw cash at once into your nearby financial institution account. FREELANCER: Freelancer is likewise a web profit platform. People or corporations that want freelancers submit short-time period and long-time period jobs there. You can without problems create a profile on this platform and bid on the initiatives. Since you join Upwork right here on Freelancer, you have to bid to post your suggestion. Free contributors get eight gives in line with the month. Once they lease you. Freelancer has a milestone fee system, and because of this that those bills are made whilst you while the particular a part of your challenge. NINETY-NINE DESIGN NINETY-NINE DESIGN is the worldwide platform that connects customers and architects from around the sector to paintings collectively to create precise designs of their choice. If you’re innovative, and you adore design, that is a great platform for you. 99design has a completely unique innovative manner that enables customers and architects to hook up with whole initiatives like designing enterprise cards, logos, t-shirts, and extra. There are methods to lease a freelancer on this platform. The purchaser can paintings at once with the clothier or can begin a contest. The contest lets freelancers post innovative designs and the purchaser chooses their favorite design. PEOPLEPERHOUR.COM: PeoplePerHour.com is likewise a web profit platform. This platform connects customers and freelancers from all around the international. Once your suggestion is accepted by the purchaser, you could begin running at the challenge. GURU.COM: Guru.com became based in 1998 and has because developed as a notable platform for each employer and freelancers. The hiring manner at Guru is simple. After growing a profile, you want to post-challenge charges in line with your abilities. You can get a paid club for blessings like extra give, discounted hard work rates, and extra. ROZEE. PK At Rozee. pk, you could without problems locate a web activity that suits your skill. You simply must create an account on this internet site, and post your educational statistics and abilities. After your account is accepted, you could begin looking for jobs that might be applicable to your abilities. The manner to use for those jobs is straightforward and calls for no funding. Some jobs require you to post your CV to the above e-mail addresses, and a few require you to post your CV. WORKCHEST.COM: Workchest.com became brought through a famed freelancer “Hisham Sarwar” who’s from Pakistan. The account of advent manner is quite honest right here. Once you’ve got signed up out of your e-mail, you could create your live performance and point out your offerings. You also can set the rate and transport instances in order that clients can without problems browse and order their favorite live performance. FIVESQUID: Fivesquid is likewise an impartial internet site. This internet site is much like Fiverr, however maximum of UK clients lease freelancers. You can promote your offerings right here, however, the transactions could be in British pounds. You can begin promoting at $3 or $5. This online profits internet site follows the equal technique as Fiverr. No funding is required. You must create live performance and classify it. If you’ve got a skill, you could without problems get an order on Fivesquid. REV: Rev is some other notable freelance platform in which you receive a commission to do transcript-primarily based totally jobs. All you need to do is concentrate on the audio and efficiently write what’s stated inside the audio. Provides a notable possibility for housewives to earn a little more money even as sitting withinside the consolation in their very own homes. A large disadvantage of this platform is the most effective offer of PayPal bills. BEST WAYS TO EARN MONEY ONLINE: The current international is all approximately clever paintings and clever earn. People reflect on consideration methods wherein they could earn extra cash in a shorter time. They want to discover and observe the net income websites in Pakistan without funding in 2021. They try
روشن کل گھر کا دروازہ بند کرکے میں گلی میں نکل آیا مگر الجھنوں اور پریشانیوں کے جو دروازے میرے اندر کھلے تھے وہ بند نا ہو سکے میں نے اپنی زندگی میں ہر مشکل کا سامنا صبر اور سکون سے کیا تھا لیکن ساٹھ کو پہنچنے سے پہلے ہی یا تو میں سٹھیاگیا تھا یا پھر یہ دور ہی پاگل کر دینے والا تھا نفسا نفسی کے اس دور میں بقا کی جنگ لڑنا مشکل ترین ہو گیا تھا ۔ گھر کا کرایہ کچن کا خرچہ بچوں کی فیسیں عید تہوارلینا دینا آخر انسان کہاں کہاں کس کس چیز کو روئے ۔ کبھی کبھی مجھے اپنا آپ اس گدھے جیسا لگتا تھا جس سے بندھی گاڑی پر بوجھ مسلسل لادا جا رہا ہو اور وہ مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق اس بوجھ کو کھینچے جا رہا ہو ۔ انہی سوچوں میں گھرا میں بس سٹاپ تک آ پہنچا تھا مجھ سے پہلے وہاں دو مرد اور دو عورتیں موجود تھیں ۔ بیزار صورت لئے میں بھی ان میں جا کھڑا ہوا تھا حکومت کی مہربانی سے جگہ جگہ بس اسٹاپ پر دو سیٹیں ضرور لگا دی گئی تھیں پر کسی پر شیڈ تھا کسی پر نہیں اوپر سے گرمی الامان الحفیظ ۔ ساحل سمندر پر ہونے کے باوجود پچھلے کچھ سالوں سے کراچی والے شدید گرمی کا عذاب جھیل رہے تھے ۔ دو منٹ میں ہی میری قمیض پسینے سے تر ہو گئی تھی اور میرا روم روم خدا کے حضور التجا کر رہا تھا کہ یا اللہ بس جلدی سے آجائے پانچ منٹ بعد ہی میری مطلوبہ بس آ گئی لیکن اس پر چھت تک چڑھے لوگوں کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگا میں تھوڑا آگے ہوا لیکن دھکم پیل دیکھ کر بس پر چڑھنے کی ہمت نا کرسکا اور واپس پلٹ آیا ۔ بس میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئی ۔ چند لمحوں کو جوانی کے وہ دن یاد آئے جب دھکم پیل اور رش کی پرواہ کیے بغیر بس کے دروازے میں لٹک جایا کرتے تھے مگر اب جب سے میں صاحب کار ہوا تھا شاذونادر ہی بس کا سفر ہوتا تھا اور میں تو اب بھی نا کرتا مگر پٹرول اور سی این جی کی ہوشربا قیمتوں نے میرے ہوش اڑا دیئے تھے اور اس پر بچوں کی من مانیوں نے دماغ کی دہی بنا دی تھی دو گلی چھوڑ کر سبزی والے کی دکان پر بھی انہوں نے گاڑی پر ہی جانا ہوتا ہے ورنہ شان میں فرق آ جائے گا ۔اسی بات پر کل رات کی چیخ دھاڑ کے بعد میں نے فیصلہ کیا تھا کہ گاڑی کی چابی گھر میں چھپا دوں گا اور خود بھی کام پر آنے جانے کے لیے بس کا سفر اختیار کروں گا مگر اب اسٹاپ پر کھڑے کھڑے سوچ رہا تھا کہ کیا زیادہ دیر تک اس فیصلے پر قائم رہا جاسکتا ہے۔ اسی اثناء میں میرے برابر کھڑی عورت بولی ۔ تھوڑا انتظار کرلو مر نہیں جاؤ گے ۔ میں نے انتہائی تعجب کے ساتھ اسے دیکھا اور پوچھنے ہی والا تھا کہ محترمہ اس بے تکلفی کا مطلب مگر تبھی مجھے احساس ہوا کہ وہ فون پر کسی سے بات کر رہی ہے ۔ اب میرے آس پاس کھڑے لوگ بدل گئے تھے عورت کے برابر دو لڑکیاں اوور آل میں ملبوس کھڑی تھیں ایک کے ہاتھ میں موٹی سی کتاب کھلی تھی اور دونوں کی ڈسکشن زور وشور سے جاری تھی میرے دوسری طرف بھی تین لڑکے آگئے تھے اور یقینا ان کی منزل بھی کوئی کالج یا یونیورسٹی ہی تھی ۔ لمحہ بہ لمحہ میری کوفت میں اضافہ ہورہا تھا اور گرمی کی شدت میں بھی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سورج سوا نیزے پر آ گیا ہے اس کے علاوہ ٹریفک اور پھیری والوں کا شور بھی دماغ خراب کر رہا تھا اور یہ جو فقیر بچہ مسلسل میرے سائیڈ میں ہاتھ پھیلائے کھڑا ایک ٹک میرا چہرہ تکتا چلا جا رہا تھا اسے تو دل چاہ رہا تھا کہ اٹھا کر پٹخ دوں ۔ ان پروفیشنل بھکاریوں کو بھیک دینے کے میں سخت خلاف تھا۔ اسی وقت میرے پڑوسی بشیر صاحب بھی وہاں آگئے ۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی ان کا چہرہ کھل سا گیا کیونکہ اکثر گلی میں نکلتے ہماری اچھی سلام دعا رہتی تھی لیکن میں انہیں بس کے انتظار اور گرمی سے بے حال ہونے کی وجہ سے زیادہ اچھا تاثر نہیں دے سکا ۔ میری حالت زار دیکھ کر وہ بولے ۔ مجھے لگتا ہے خاصی دیر سے کھڑے ہیں آپ اسٹاپ پر ۔ مجھے کچھ کچھ شرمندگی نے آن لیا وہ روز مجھے ذاتی گاڑی میں آتا جاتا دیکھتے تھے ۔ جی بس۔۔ وہ ۔۔ گاڑی کچھ خراب تھی تو سوچا آج بس کا سفر ہی کر لیا جائے ۔ میں نے سہولت سے بات بنائی ۔شکر کیجئے جناب اتنے بڑے شہر میں آپ کو ذاتی گاڑی میسر ہے ورنہ کراچی جیسے شہر میں بسوں کا سفر کسی عذاب سے کم نہیں اوپر سے یہ انتہائی گرمی دوہرا عذاب ہے ۔ میں نے ان کی بات سن کر سر ہلا دیا مگر وہ تو شاید بھرے بیٹھے تھے میرا سر ہلانا ان کے لیے اجازت نامہ ہو گیا ۔ اجی عظیم صاحب اس سب کی ذمہ دار ہماری گورنمنٹ ہے عوام کا تو کچھ خیال ہی نہیں ۔ دن بدن ٹریفک کا نظام بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے ہر شہری اپنی جان ہتھیلی پر لے کر سڑک پر نکلتا ہے لیکن ان حکمرانوں کو صرف اپنی جیبیں بھرنے کی پرواہ ہے لوگوں کو کوئی سہولت ملے نہ ملے ان کی بلا سے ۔ اب یہی دیکھ لیجئے اس بس اسٹاپ کے اطراف میں دور دور تک کوئی درخت نہیں کوئی پانی کا کولر یا نلکا نہیں ۔ کراچی سے تو جیسے سبزہ اجڑتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ اب اگر اس سڑک کے کنارے درختوں کی قطار ہوتی تو کسی غریب کو سایہ مل جاتا اگر ہر بس اسٹاپ کے ساتھ ایک ٹھنڈے پانی کا کولر لگا دیا جائے تو کتنی ہی پیاسی خلقت کے حلق تر ہو جائیں مگر کہاں جناب عوام مرتی
ماں کی ساری ہمدردی محبت بیٹی کے لیے تو بے شمار ہوتی ہے لیکن اپنی بہو کے لیے دل میں نرم گوشہ بھی نہیں ہوتا کیا وجہ ہے اس سخت رویے کی جبکہ ماں بھی ایک عورت ہے بہو بھی اور بیٹی بھی۔ ہم جس معا شرے کا حصہ ہیں وہاں عورت کا کام کرنا اور گھر سے با ہر جانا پسند نہیں کیا جاتا اس لیے اکٹرت عورتوں کی گھروں کے کام کر کے فارغ بیٹھ کر ایک دوسرے کی بدخواہیوں کرتی ہیں جس سے نہ صرف آ پس کے رشتے خراب ہوتے ہیں بلکہ گھر بھی برباد ہو جاٹے ہیں سب سے زیادہ اثر بچوں پر ہوتا ہے بچے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں فارغ دماغ شیطان کا گھر ھوتا ھے اور شیطان سب سے زیادہ خوش اسوقت ہوتا ہے جب ایک گھر برباد ھوتا ہے اس لیے سب سے پہلے گھر کے بزرگ افراد کو اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے ماں کو بیٹی اور بہو کو ایک ھی نظر سے دیکھنا چاہیے اگر بیٹی اپنے گھر نا خوش ہے تو اس میں بہو کا کیا قصور!اسلیے بیٹی کی وجہ سے بیٹے کا گھر برباد نہ کریں اپنے آپ کو دین سے جوڑے قرآن کا با معنی ترجمعہ سیکھے اور عمل کرنے کی کوشش کرے اس سے گھروں میں سکون بھی پیدا ھو گا اور برکتیں بھی نازل ھو گی کیونکہ جہاں قرآن کی تلاوت ھو وھاں سے شیطان بھی بھا گ جاتا ہے
نجانے مُجھ سے کیا پُوچھا گیا تھا مگر لب پر تِرا نام آ گیا تھا مُحیط اِک عُمر پر ہے فاصلہ وہ مِری جاں بِیچ جو رکھا گیا تھا سُنو سرپنچ کا یہ فیصلہ بھی وہ مُجرم ہے جِسے لُوٹا گیا تھا بِٹھایا سر پہ لوگوں نے مُجھے بھی لِباسِ فاخِرہ پہنا گیا تھا اُسے رُخ یُوں بدلتے دیکھ کر میں چُھپا جو مُدعا تھا پا گیا تھا نہیں جانا تھا مُجھ کو اُس نگر کو کسی کا حُکم آیا تھا، گیا تھا فقط کُچھ دِن گُزارے سُکھ میں مَیں نے پِھر اُس کے بعد بادل چھا گیا تھا نہِیں وہ شخص تو اب جانا کیسا جہاں مَیں مدّتوں آیا گیا تھا رشید اُس نے ہی سُولی پر چڑھایا جو بچّہ غم کا اِک پالا گیا تھا رشِید حسرتؔ
جھائیوں کی وجوہات اور ان کا علاج آج کل کے دور میں جھائیاں پڑ جانا اک عام مسئلہ ہے جو خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی پریشان کر رہا ہے لیکن کوئی بھی اس کو مکمل حل نہیں کر پا رہا۔ اس کا علاج صرف لیزر ہی سمجھا جا تا ہے۔مگر ہم قدرتی طریقے اپنا کر بھی ان کا علاج کر سکتے ہیں۔ علاج جھائیوں سے جلد کو بچانے کے لیے ہمیں سن بلاک کا استعمال کرنا چاہیے۔ دھوپ میں جانے سے پہلے سن بلاک کا استعمال کریں اور ہر دو گھنٹے بعد دوبارہ لگانا چاہیے گھریلو ٹوٹکے نمبر1: شہد میں لیموں کا رس ملائیں اور اسے 5 منٹ کے لیے چھوڑ دیں اس کے بعد نیم گرم پانی سے چہرے کو دھو لیں کچھ ہی دن میں فرق نظر آئے گا۔ نمبر2: میٹھے سوڈے میں دو یا تین قطرے پانی ڈال کر اس متاثرہ جگہ پر لگائیں اور 2 منٹ بعد چہرہ دھولیں نمبر3: آلو کے ٹکڑے کاٹ لیں اور اسے متاثرہ جگہ پر لگائیں۔ جھائیاں مدھم ہو جائیں گی نمبر4: سرکہ لیں اس میں دو سے تین قطرے پانی مکس کر کے متاثرہ جگہ پر لگائیں چند دن میں فرق نظر آئے گا۔ وجوہات اس کے علاج کے لیے ہمیں سب سے پہلے ان جھائیوں کی وجوہات کو معلوم کرنا ہوگا۔ اس کی عام وجہ زیادہ تر دھوپ میں رہنا ہے۔ جو لوگ زیادہ وقت دھوپ میں رہتے ہیں ان کو جھائیوں کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ دھوپ میں رہنے کی وجہ سے جلد الٹرا وائلٹ شعاعوں سے جلد کو بچانے کے لیے زیادہ میلانن پیدا کرتی ہے جس سے جھائیاں پڑ سکتی ہیں۔
رواں سال قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈکپ میں پہلی بار خواتین ریفریز ذمہ داریاں نبھائیں گی.یاد رہے کہ فیفا ورلڈ کپ رواں سال 21 نومبر سے 18 دسمبر تک قطر میں کھیلا جائیگا، میڈیا رپورٹ رواں سال قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈکپ میں پہلی بار خواتین ریفریز ذمہ داریاں نبھائیں گی دوحہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین – این این آئی۔ 21 مئی2022ء) رواں سال قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈکپ میں پہلی بار خواتین ریفریز ذمہ داریاں نبھائیں گی۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے قطر میں ہونے والے مینز فٹبال ورلڈکپ کیلئے پہلی بار 6 خواتین کو اپنے ریفریز کے مینل میں شامل کیا جس کی تصدیق بھی کردی گئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق فرانس کی اسٹیفنی فراپارٹ، روانڈا کی سلیما مکانسانگا اور جاپان کی یوشیمی یاماشیتا کو مینز فٹبال ورلڈکپ کے 36 رکنی ریفریز کے اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ برازیل کی نیوزا بیک، میکسیکو کی کیرن دیاز میڈینا اور امریکا کی کیتھرین نیسبت 69 رکنی اسسٹنٹ ریفریز کے اسکواڈ میں شامل ہیں۔فیفا ریفریز کے سربراہ پیئرلوگی کولینا نے کہاکہ خواتین ریفریز کا انتخاب جنس کو مدنظر رکھے بغیر کیا گیا ہے، ان کے مطابق یہ ایک طویل عمل کا نتیجہ ہے جو کئی سال پہلے مردوں کے جونیئر اور سینیئر ٹورنامنٹس میں خواتین ریفریز کی تعیناتی کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں اہم مردوں کے مقابلوں کے لیے خواتین میچ آفیشلز کو معمول کے مطابق ذمہ داریاں دی جائیں گی۔واضح رہے کہ مینز فٹبال ورلڈکپ میں پہلی بار خواتین ریفریز کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔یاد رہے کہ فیفا ورلڈ کپ رواں سال 21 نومبر سے 18 دسمبر تک قطر میں کھیلا جائیگا۔
نِیچی ذات بہُت کم ظرف نِیچی ذات کا ہے یقیں پُختہ مُجھے اِس بات کا ہے نہیں آدابِ محفل اُس کو لوگو کہوں گا میں تو جاہِل اُس کو لوگو ذرا بھر بھی نہِیں تہذِیب جِس کو فقط آتی ہے بس تکذیب جس کو جہاں دیکھو نُمایاں خود کو رکھے سو ایسے لوگ آنکھوں کے ہیں پکّے بہت بے شرم ہے، وہ بے حیا ہے سمجھ لو مستحق دُھتکار کا ہے ہے شیوہ چاپلُوسی، چمچہ گِیری ذرا دیکھو دکھاوے کی یہ مِیری حقِیقت جانتا ہوں کیا ہے اُس کی اکڑ جِس پر ہے اِک تنخا ہے اُس کی زمانے بُھول بیٹھےجو پُرانے دماغ اُس کا نہِیں رہتا ٹِھکانے سبق اُس کو پڑھانا لازمی ہے وہ کیا کُچھ ہے بتانا لازمی ہے امِیروں کی کرے ہے چاپلُوسی یقینی انت ہے اُس کا مجوسی کبھی قرآن کی کر دے حقیری کبھی رِیشِ مُبارک، ایسی تیسی کِسی کا حق دبا کر گھر میں لانا رہا شیوہ تُمہارا یہ پُرانا یہ مانا چار پیسے پاس ہوں گے مگر کب تک تُمہیں یہ راس ہوں گے جو اکڑے مال پر وہ کم نسل ہے فقط یہ چور بازاری کا پھل ہے بھکاری بن کے کل بھٹکو گے طے ہے وفا کو، پیار کو، ترسو گے طے ہے کلامِ حق کو ٹُھکرایا ہے تُم نے گنوایا آج، جو پایا ہے تُم نے ہمارے راستے اب سے الگ ہیں وہاں فٹ ہو جہاں سب تُم سے ٹھگ ہیں شرافت تُم کو راس آئی نہِیں ہے تُمہیں عزّت ذرا بھائی نہِیں ہے اب آگے بات نا کرنا کبھی تُم ہمارے واسطےمُردہ ابھی تُم نہ آئے باز تو انجام تُم پر کُھلی گی سوچ، تشنہ کام تُم پر بہُت کہنا تھا پر اِتنا بہُت ہے جِسے اِنسان سمجھا تھا وہ بُت ہے رشِید حسرتؔ
عجب سنسار لوگو بنے پِھرتے ہیں وہ فنکار لوگو ازل سے جو رہے مکّار، لوگو کوئی کم ظرف دِکھلائے حقِیقت ہر اِک جا، ہر گھڑی ہر بار لوگو ہُوئے ہیں اہلِ کُوفہ کے مُقلّد ہمارے آج کل کے یار لوگو رکھو یہ یاد جائیں بد دُعائیں بِنا ٹوکے اُفق کے پار لوگو مُعافی سر کے بل جو آ کے مانگے کرُوں گا مر کے بھی اِنکار لوگو اکڑ کر پِھر رہا عُہدے پہ شائد رہے گا دِن فقط دو چار لوگو خطا تھی، دی اُسے توقِیر ہم نے جو تھا تذلِیل کا حقدار لوگو کوئی احساں فراموشی کی حد ہے وہ اپنے ہاتھ کا شہکار لوگو یہاں اخلاص حسرت جُرم ٹھہرے عجب دنیا، عجب سنسار لوگو رشِید حسرتؔ
مجھ ناچیز کو ملک حاشر کہتے ہیں،میں ، ،ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں اللہ کا شکر ہے بہت اچھا وقت گزر رہا ہے ،ماں باپ کی خدمت کرنا فرض عین ہے میرے لیے،ان کی دعاؤں سے بہت کچھ ملا ہے، یہاں ایک واقع آپ کی نظر کرنا چاہوں گا، ایک دفعہ کمپنی کے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانے کا اتفاق ہوا، مجھے یہاں کچھ دن رکنا تھا، لیکن میں استری لانا بھول گیا تھا، اب کسٹمر کے ساتھ میٹنگ بھی تھی، بغیر استری کپڑے پہن کر جانا بھی مناسب نہیں تھا، نماز پڑھ کر اللہ پاک سے دعا کی کہ اس مسئلے کا کوئی حل ممکن ہو جائے اور مطمئن ہو گیا اب اللہ کو بول دیا ہے وہی کچھ حل نکالیں گے، یقین جانیے تھوڑی کوشش کی اور او۔ایل-ایکس کی ویب سائیٹ کھولی، استری ڈھونڈنے لگا، اچانک سے ایک اشتہار نظر سے گزرا ایک محترمہ اپنی پرانی استری بیچ رہی تھیں، 1200 قیمت لکھی ہوئی تھی، میں نے فوراً رابطہ کیا اور قیمت مناسب کرنے پہ اصرار کیا تو وہ 1000 لینے پر رضامند ہو گئی ، میں نے ان سے ان کے گھر کا پتہ معلوم کرنا چاہا، لیکن انھوں نے فرمایا میرے شوہر گھر ہی ہیں اور میرے رہائش کی طرف ہی آ رہےہیں تو وہ مجھے دے دیں گے، کچھ وقت کے بعد ان کے شوہر کی کال آئی اور میں نے شکریہ اداکرتے ہوئے قیمت ادا کی اور استری لے لی یقین جانیے نم آنکھوں سے اتنا دل میں سکون اور خوشی کا احساس پیدا ہوا اور ، رب العزت سے اٹکھیلیاں کرنے کو دل چاہا ، آپ بھی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیں اور چھوٹی چھوٹی مشکلوں اور جائز خواہشات کے لیے اپنے اللہ پاک سے رجوع کریں،وہ رب بڑا ہی رحیم اور کریم ہے جو کہ ہماری شے رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔ امین ثم امین۔
اگرچہ مہربانی تو کرے گا وہ پِھر بھی بے زبانی تو کرے گا عطا کر کے محبّت کو معانی جِگر کو پانی پانی تو کرے گا بڑے دِن سے عدُو چُپ چُپ ہے یارو کہ حملہ نا گہانی تو کرے گا اُسے ناکامیابی ہی ملے گی وہ حل پرچہ زبانی تو کرے گا ہُوئے گر ہم کِسی کے گھر میں مہماں ہماری میزبانی تو کرے گا؟ بھلے ہم تِیرگی اوڑھے رہے ہیں وہ اِک دِن ضو فِشانی تو کرے گا جِسے مانا ہے اُس نے اپنا راجہ اُسے وہ اپنی رانی تو کرے گا مفر کافر ادا سے غیر مُمکِن عطا کُچھ ارغوانی تو کرے گا اجی حسرتؔ جفا سے، طعنے دے کر وہ چہرہ زعفرانی تو کرے گا رشِید حسرتؔ
رنگ گورا کرنے کے لئے ایک کپ دودھ لے اس میں ایک سیب شامل کریں اور ١٥ منٹ کے بعد بلینڈ کر لیں. پھر اس کو ١٥ منٹ کے لیے فریز میں رکھیں اور اس میں آدھا چمچ لیموں جو س شامل کر کے چرے پر ٢٠ منٹ کے لیے لگا لیں اور سادہ پانی سے چہرا دھو لیں اور پائیں نرم اور خوب صورت جلد. ایک پکا ہوا ٹماٹر لیں اس کو پیس لیں اور اس میں آدھا چمچ بیکنگ سوڈا شامل کریں اور آدھا چمچ شہد ڈال کر چہرے پر لگائیں. یہ عمل ہفتے میں 3 بار کریں اور چمک دار جلد پائیں. دو چمچ بیسن میں گلاب کا عرق شامل کر یں اور پیسٹ بنا لیں اور چہرے پر لگا لیں . ١٠ منٹ بعد چہرہ دھو لیں اور ہو جائیں گورے گورے ایک آلو کو کدوکش کر لیں اس میں شہد اور لیموں شامل کر کے پیسٹ بنا لیں اور چہرےپر لگا لیں اور ١٥ منٹ بعد چہرے کو واش کر لیں