Skip to content
  • by

خم اور طرح کے

زلفوں میں تِری پائے ہیں خم اور طرح کے
آنکھوں میں اُتر آئے ہیں نم اور طرح کے

کیا ہم سے ہوئی بُھول، روا تم نے رکھے ہیں
جور اور طرح کے تو ستم اور طرح کے

پہلو میں ترے رہتے تھے ہم یاد اگر ہو
ہوتے تھے مزے من کو بہم اور طرح کے

اک پل بھی تِری دید بِنا چین کہاں تھا
تھا دورِ کمالات، تھے ہم اور طرح کے

احساس کی دولت سے نوازا ہمیں حق نے
دنیا ہے الگ، اہلِ قلم اور طرح کے

ہونٹوں پہ مِرے بول رہے قند موافق
ہاں دل میں مگر رکھے ہیں سم اور طرح کے

اک دوجے پہ جاں وارتے تھے ہنستے ہنساتے
کیا بیویاں تھیں، تھے وہ خصم اور طرح کے

کی نفس کُشی جس نے سو کل اُس کے لیئے ہیں
رُتبے ہی بڑے جاہ و حشَم اور طرح کے

کل اور خیالات، رشیدؔ اور سماں تھا
حالات مگر آج صنم اور طرح کے

رشید حسرتؔ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *