Skip to content
  • by

کیا بیت گئی قطرے پہ گوہر ہونے تک

خود نوشت یا آپ بیتی ایک دلچسپ ادبی صنف ہے۔ یہ لکھاری کی اپنی زندگی اپنے الفاظ میں بیان کی گئی ہوتی ہے۔ خود نوشت کا محورو مرکز مصنف کی ذات ہوتی ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو  ایم۔آر۔ شائق صاحب نے بھرپور انداز میں اپنے بچپن کی زندگی سے لمحہ ء موجود تک اپنی ذات کے ارد گرد وقوع پذیرہونے والے واقعات کو بیان کیا ہے۔

بلاشبہ اس آپ بیتی میں انہوں نے دلچسپ اور دل دوز واقعات کو  جذب و احساسات سے مالا مال کیا ہے۔ اس میں ان کی جدوجہد سے بھرپور حالات و واقعات  کے ساتھ ساتھ تجرباب، مشاہدات، محسوسات، سوچ، اپنے علاقہ اور وہاں کے مکینوں سے محبت، پاکستان اور اسلام سے وابستگی، پاک فوج سے جُڑے اپنے تعلق اوراپنی پیشہ ورانہ زندگی کو مربوط انداز میں نہایب خوبی اور عام فہم انداز میں پیش کیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ اچھے بُرے حالات کے علاوہ صدمات اور مرتب ہوتے تاثرات کو باہم گوندھ کر خودنوشت کا موادتیار کیا ہےجو کہ نہ صرف  قاری کی دلچسپی کا باعث ہے بلکہ  اُس کی سوچ پر انمٹ نقوش ثبت کرتا ہے۔

شائق صاحب نے اپنے کارنامے اور ناکامیاں، مجبوریاں، یتیمی کی زندگی، حالات کے جبر اورسنگینیاں، ظلم و زیادتی اور پچھتاوے سب کچھ بڑی صاف گوئی سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنی کوتاہیوں کو بھی خوب  اُجاگر کیا ہے جسے عام طور پر لوگ پوشیدہ رکھتے ہیں۔ چنیدہ حقیقی واقعات نہ صرف لطف اندوزی کا باعث ہیں بلکہ باعث عبرت بھی ہیں۔ شائق صاحب کی یہ سرکزشت بلاشبہ زندگی کی رعنائیوں، مسائل، دکھوں اورپریشانیوں سے لبریز داستان ہی نہیں بلکہ ان کی شخصیت کے پردوں میں چھپی زندگی کی کچھ پرتیں بھی ضرور کھولتی نظر اۤتی ہے اور ان کے عاشقانہ مزاج کو بھی عیاں کرتی ہے۔

ایک اور پہلو یہ ہے کہ مصنف نے اپنے بزرگوں، اہل علاقہ کی اچھی صفات و کردار اور زمان و مکان کے سنگم پر واقعات کے تسلسل کو محفوظ کردیا ہے جس کا مقصد اپنے اجداد کے شخصی اوصاف وکردار سے اپنی آنے والی نسل کو روشناس کروانا ہے تاکہ ان کے لیے باعث تقویت ہو کہ مشکلات دراصل ناکامیوں نہین بلکہ کامرانیوں کا باعث بنتی ہیں۔  سوانح نگاری کیا ہمیت اس سے بھی واضح ہے کہ آسمانی کتابوں اورقرآن کریم فرقان حمید میں بھی پیغمبروں اور ولیوں کے قصص کابیان ہوا ہے اور ابتدائی دورکی واقعات نگاریان ہی مقدس کتابوں کی مرہون منت ہے۔

انہوں نے متاثرکن انداز میں زندگی کے اُتارو چڑھائو، خوبیوں و خامیوں اور گناہ و ثواب کو اپنے ماضی کا تعاقب کرتے ہوئے نہایت ایمانداری سے قلم بند کیا ہے۔ بہرحال میں نے محسوس کیا ہے کہ  اس آپ بیتی کو پڑھنے والے قلبی، روحانی اور وجدانی کیفیات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ سادہ الفاظ میں قلزم معانی کوسموئے ہوئے ہےجو پڑھنے والے کو جکڑ لیتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ مین خود یہ  مسودہ، پڑھ کر اور جذبات سے مغلوب ہو کر رویا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی ان کی اس تصنیف کا کمال  ہے کہ سادہ الفاظ اور عام فہم اظہار کے باوجود پریشانیوں کو جھٹک کر، مسائل کے اژدھام سےنکل کر، عزمِ صمیم ، جرات اور قوت اعتماد سےلبریز ہوکر وہ پڑھنے والے کو گویامرقبے سےگزارتے ہیں۔

ان کی اس تصنیف میں ایک طبقاتی افراد و تفریط کی حدود کا، تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ایک طرف ایک    طرف ایک بااثر، مالی لحاظ سے مستحکم اور اعلیٰ خاندانی روایات کی حامل عظیم خاتون جس کا تذکرہ انہوں نےایک انمول ہستی کی صورت کیا ہے۔ ان کےاپنے الفاظ میں “تھوڑی دیر ہوئی میاں احمد حیات مجھے اپنے گھر لے گئے۔ سامنے دیکھا تو ایک بہت ہی خوبصورت اور رعب و جلال والی خاتون تھیں جو میاں احمد حیات کی والدہ تھیں۔ میں تھوڑا دور ادب سےکھڑا ہوگیا۔ سلام کیا اور سرجھکا لیا۔ کہنے لگیں   آگے آئو۔ میں نے جھجھکتے جھجھکتے دو قدم آگے بڑھائے اور پھر کھڑا ہو گیا۔ آخرکارمیں ڈرتا لڑکھڑاتا ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے میری گردن پربوسہ دیا۔ میں تین بیٹوں کی نہیں آج سے چاربیٹوں کی ماں ہوں۔”

ایسی شخصیت جس کا تقدس نہ صرف مصنف بلکہ پڑھنے والے کو بھی ان کےسامنے ادب واحترام کے جذبات سےمعمور کر دیتا ہے۔ ماں کی ممتا سے لبریز یہ عظیم خاتون ہی تھیں جنہوں  نے ان کو اپنے پائو ں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ ایسی انسانیت دوست ہستی کا تذکرہ پڑھ کر احساس ہوتا ہےکہ

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

دوسری طرف صفحہ قرطاس پر رعونت زدہ ذہنی مریضوں اورخرابات کا ملبہ دکھائی دیتے ان کے بہت ہی قریب کے لوگوں کا تذکرہ بھی ہے جو انسانیت کی توہین، تذلیل اور بے توقیری کے قبیح     جرائم کا ارتکاب کرنے والے معمولی اورگھٹیا صورت محض انسان نما، دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہ کاوش یقیناً انسان کی اُن اجتماعی کاوشوں کا حصہ ہے جو اندیشہ ءزوال سے ناآشنا ہے۔ وہ عزم و ہمت کی مشعل تھامے سفاک ظلمتوں کو مٹا کر جابجا صداقت، محنت کی عظمت اور خوانحصاری کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔

مصنف کا سرفخر سے بلند ہوجاتا ہے جب وہ اپنا تعلق پاک فوج سےاستوار کرتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ پاک فوج کے شیر جوانوں نے ہر مشکل گھڑی میں ملکی آزادی اور وطن عزیز میں امن وامان کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ ہمشیہ پیش کیا ہے۔ ان کا اپنی فوج پر فخر بلاوجہ نہیں۔ پاک فوج اگر انتی کارگر نہ ہوتی تو ہمارا حال بھی شاید عراق، افغانستان، یمن اور شام جیسا ہی ہوتا۔ افواج پاکستان کے سپوت اُن شہیدوں کی سرزمین کے وارث ہیں۔ جس قوم نے ایسے بہادر مجاہدوں کو جنم دیا ہو جو ناکامی سے آشنا نہ ہوں ایسی قوم کو کوئی کیا شکست دےگا۔

میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی شے محبت ہے جس نے اس پوری کائنات کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کسمپرسی اوربے چارگی میں محبت کے جذبے  کے باعث ہی انہوں نے دوسروں کی توجہ حاصل کی اور اس ناہموار سوسائٹی میں اپنے بچائو کی سبیل کی جو مشکل حالات میں اپنی بقاء کی جنگ کی ایک عمدہ اور      قابل تقلید مثال ہے۔

اس شعر پر اختتام کرتا  ہوں

محبت ایسا دریا ہے کہ  بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا

محبت ایسا پودا ہے جو تب بھی سبز رہتا ہے کہ جب موسم نہیں ہوتا

ظفر محمود

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *