مصنف
از قلم حرا شہزادی
آج کے دور میں مصنف کون ہے ؟یہ سوال اکثر ذہن میں گردش کرتا ہے ۔ یوں تو بہت سے لوگ شوشل میڈیا پہ لکھاری بنے بیٹھے ہیں اور کچھ لکھاری تو اتنا فحاش لکھتے ہیں کہ جو پڑھنے کے قابل بالکل بھی نہیں ہوتا ۔لیکن پھر بھی قارئین ایسے مواد کی حوصلہ شکنی کے بجائے انہیں سراہتے ہیں۔
لیکن ہر شوشل میڈیا پہ لکھنے والا ایسا نہیں ہوتا کچھ لکھاری بہت اچھا بھی لکھتے ہیں جو تپتی دھوپ میں نسیم کی مانند ہوتے ہیں جن کے الفاظ برق بجلی سے کم نہیں ہوتے ان کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ دل کو چھو تا ہے کچھ واقعات یوں بھی ہوتے ہیں کہ قارئین کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود کو پڑھ رہا ہو۔میرے خیال سے ہر لکھنے والا مصنف نہیں ہوتا بلکہ جس کے اندر احساس ،جذبات ہوں دوسرے کے درد کو محسوس کرے اور پھر ان کو لفظوں میں بیان کرے وہ مصنف ہوتا ہےاس کی اپنی سوچ ہو ،اپنا نظریہ ہو جسے وہ الفاظ کی مدد سے لوگوں تک پہنچائے ناکہ کسی اور کی سوچ ،خیالات ،جذبات ،نظریے کو نقل کر کے اپنے نام کے ساتھ لوگوں تک پہنچائے۔ مصنف تخلیقی ذہن کا مالک ہوتا ہے جو مناظر ،معاملات کو عام انسان کی طرح نہیں دیکھتا ۔
اچھا مصنف وہی ہو سکتا ہے جو ایک اچھا قاری بھی ہو جس میں علم حاصل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا سچا جذبہ ہو جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا”
اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
“تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سیکھائے”
ایک مصنف ہمیشہ سچائی کو بیان کرتا ہے اللہ پاک نے اسے قلم کی نعمت سے نوازا ہوتا ہے جس کا استعمال اسے صحیح ہی کرنا چاہے۔اگر وہ قلم کا غلط استعمال محض چند لائکس یا مشہور ی کے لیے کرتا ہے تو یہاں تو اسے خوشی حاصل ہو جائے گی لیکن اس خوش کی مدت بہت کم ہے آ خرت میں اللہ کے حضور جواب دہ بھی ہونا ہے ۔
جیسا کہ آ ج کل سوشل میڈیا کا دور ہے چند منٹوں میں ہمارے الفا ظ لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں اور اگر کسی ایک پہ بھی ہمارے الفاظ اثر کرتے ہیں یا وہ ہماری وجہ سے کچھ اچھا کرتا ہے تو اس کا ثواب ہمیں بھی ملتا ہے اور اسی طرح اگر وہ فحاشی مواد پڑھ کر کچھ غلط کرتا ہے تو اس کا گنا ہ ہمیں بھی ملے گا ۔لکھتے تو بہت لوگ ہیں لیکن کچھ لوگوں کے قلم کو اللہ پاک نے خاص تاثیر بخشی ہوتی ہے جیسا کہ سور ہ العلق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
“اللہ نے قلم کے ذریعے علم سکھایا”
جامع ترمذی کی حدیث 2233 میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا ۔عربی زبان میں “قلم” کے معنی تراشنے کے ہیں۔جس طرح ہیرے کو تراشنے کے بعد ہی استعمال میں لایا جاتا ہے اسی طرح انسان بھی قلم کے ذریعے ہی علم سیکھنے کے بعد کچھ کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔
اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ایک لکھاری ہونے کی حیثیت سے آفتاب کی مانند ہر سو علم کی روشنی بکھریں جیسے آ فتاب طلوع ہونے کے بعد بھی مہتاب کو روشنی مہیا کرتا ہے اسی طرح ہمارے لکھے ہوئے الفاظ بھی قارئین کے دلوں میں گھر کر جا ئیں اور دیر تک روشنی پہنچا تے رہیں۔
اللہ پاک ہمیں اچھا لکھنے اور اس پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آ مین ۔