تقریبا چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے دوران حضرت یونس علیہ السلام یہ دعا فرماتے رہے
”لا اله الا انت سبحانك اني كنت من الظالمين” (اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے رحیم ہے بے شک میں گناہ گار ہوں)
تواللہ نے اس مچھلی کو حکم دیا تواس عظیم ال شان مچھلی نے حضرت یونس علیہ السلام ایک کھلے میدان میں اگل دیا اور انتہائی کمزور اور بیمار حالت میں تھے . ان کی حالت ایسی ہو گئ تھی جیسے ایک چوزہ جس پر ابھی بال بھی نہ آے ہوں.جب بچہ پیدا ہوتا ہے، تو اس وقت کے بچے کی طرح اپ کی حالت ہو گئ تھی اور بدن پر کچھ نہ تھا .
فرمان الہٰی ہے: ” اور ہم نے ان پر کدو کا درخت پیدا فرما دیا”
یہ درخت کدو کی بیل تھی.یہ بیل آپ پر اگانے میں بہت سی فائدے پیش نظر تھے .ایک تو اس کے پتے نرم اور زیادہ ہوتے ہیں،ور اس کا سایا بھی بہت گھنا ہوتا ہے.مکھیاں اس پر نہیں بھٹکتی اور اس کا پھل نکلنے سے لے کر آخر تک کھایا جاتا ہے کچا بھی اور پکا ہوا بھی.اس کے علاوہ اس کے بیج اور چھلکے بھی کھانے کے کابل ہوتے ہیں اور دماغ کو قوت بھی حاصل ہوتی ہے.الله تعالیٰ نے ان پر ایک پہاڑی بکری بھی مقرر فرمایا تھا جو حضرت یونس کو دودھ پلاتی اور صبح اور شام اس کا یہی معمول تھا.
سعد بن مالک فرماتے ہیں، کے میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کے،
” الله کو اس نام سی پکارا جائے تو دعا قبول ہوتی ہے اور جو مانگتا جائے عطا ہوتا رہتا ہے، یعنی یونسعلیہ السلام کی دعا کے ساتھ ” ”لا اله الا انت سبحانك اني كنت من الظالمين” (اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے رحیم ہے بے شک میں گناہ گار ہوں)حضرت محمد سے پوچھا گیا ک یا رسول الله یہ دعا حضرت یونس کے لئے خاص ہے یا پھر تمام مسلمانوں کے لئے؟؟ فرمایا: یہ دعا یونس کے لئے خاص ہے اورمومنوں کے لئےعام، جب بھی وہ اس کے ساتھ دعا کریں گے تو ان کی دعا رد نہیں ہوگی .”
اس حدیث میں خدا کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے( اورہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیتے ہیں ) مطلب جو اس مذکورہ دعا کے ساتھ دعا کرے گا، ہم اس کو اسی طرح ضرور نجات مرحمت فرمایئں گے.