تھے انکے بھی وہی انداز زمانے والے
میرے ہمدم، وہ میرا ساتھ نبھانے والے
آج کھل کر ہنسے وہ میری بربادی پر
قصہ درد مجھے رو رو کہ سنانے والے
کوچہ جاناں میں آنا بھی اب گوارا نہیں ان کو
وہ رستے بدل کر یہاں آنے جانے والے
اب سنگ ملامت ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں
وہ یار پرانے، وہ اپنا کہ کے بلانے والے
خوابوں کا نگر آباد تھا کبھی جن کے دم سے
اب وہ کہتے ہیں ہم نہیں لوٹ کے آنے والے
دل اب بھی امید لیے انہیں ڈھونڈ رہا ہے
وہ جو اپنے مگر لگتے تھے بیگانے والے