آ واز
حفصہ رومی
دلِ امید اتنا چاہتا ہے
کہ اسے کچھ راز مل جائیں۔۔
کہیں سے آس مل جائے
ادھورے وسوسوں کے بیچ
زرا سی پیاس مل جائے۔
دکھوں، درو، الم ،غم، میں
تیرے نم ہاتھ مل جائیں
میں اوروں کے لئے ہر دم
رہوں بے دم کہیں مدہم
تمھاری یاد کے پرچم
کہیں سے شاد مل جائیں۔
انہی انہونیوں کے بیچ
تمھارے ساز نم نم پھر
کہیں سے خاص مل جائیں۔
مجھے بے چینیوں کے ناگ ڈسنے آرہے ہیں اب
انہی زخموں کی چوکھٹ پہ،
تمھاری باس مل جائے۔
زرا سنبھلوں تو رو لوں پھر
مجھے اب تم ستاتے ہو
کبھی آؤ تو پھر سے سب،
سنہری باغ کھل جائیں۔
تنہائی اب ستاتی ہے
مجھے رہ رہ کے کھاتی ہے
سنو اب لوٹ آؤ نا
کہیں یہ ٹمٹماتے ، موم بتی کی طرح کے
ہزاروں جگنوؤں کے بیچ پھرپھراتے
یہ پروانے کہیں
بدلتے موسموں کی چاشنی میں
کھو نہ جائیں پھر ،کہیں کچھ کہ نہ پائیں پھر۔۔۔۔۔۔۔
(آ واز)