Skip to content

مردہ لوگ

مردہ لوگ

جب زندہ تھے تو یاد نہیں کرتے تھے

مرنے کے بعد تو ہم بھی فریاد نہیں کرتے تھے

چھوڑ دو فریب کرنا ہم جانتے ہیں سب

اس وقت تو ہم سے کلام بھی نہیں کرتے تھے

اعتبار کرتے تھے جن عناصر پر ہم

وہ تو ہمیں سلام بھی نہیں کرتے تھے

زندگی گہوارہ ہے مسائب کا

مشکل میں تو ہم آرام بھی نہیں کرتے تھے

جب رخ لے کر جاتے تھے رب کے حضور

ہم تو خوف خدا سے کلام بھی نہیں کرتے تھے

توڑ دیا پیمانہ ہم نے اس بے بسی کا اب

شکار ہوتے ہوئے بھی کسی کا شکار تو نہیں کرتے تھے

بد کردار کا حامل کیا کامل ہے اس جہاں میں

گناہ ہم کوئی ہزار تو نہیں کرتے تھے

ہم جان چکے ہیں معجزہ اس دل فنا کا عادل

محبت میں ان کا انتظار تو نہیں کرتے تھے

مولخ عدیل شفیق

 

1 thought on “مردہ لوگ”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *