مردہ لوگ
جب زندہ تھے تو یاد نہیں کرتے تھے
مرنے کے بعد تو ہم بھی فریاد نہیں کرتے تھے
چھوڑ دو فریب کرنا ہم جانتے ہیں سب
اس وقت تو ہم سے کلام بھی نہیں کرتے تھے
اعتبار کرتے تھے جن عناصر پر ہم
وہ تو ہمیں سلام بھی نہیں کرتے تھے
زندگی گہوارہ ہے مسائب کا
مشکل میں تو ہم آرام بھی نہیں کرتے تھے
جب رخ لے کر جاتے تھے رب کے حضور
ہم تو خوف خدا سے کلام بھی نہیں کرتے تھے
توڑ دیا پیمانہ ہم نے اس بے بسی کا اب
شکار ہوتے ہوئے بھی کسی کا شکار تو نہیں کرتے تھے
بد کردار کا حامل کیا کامل ہے اس جہاں میں
گناہ ہم کوئی ہزار تو نہیں کرتے تھے
ہم جان چکے ہیں معجزہ اس دل فنا کا عادل
محبت میں ان کا انتظار تو نہیں کرتے تھے
مولخ عدیل شفیق
NICE