Skip to content

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قبول اسلام

اسلام لانے سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے سخت دشمن تھے ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ الہی میں دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ ! تو اسلام کو عمر یا ابوجہل کسی ایک سے تقویت پہنچا(طاقت دے).اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لائے یہ وہی عمر تھے جنہیں کفار نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کے ایک منصوبہ بنانے کے لیے راضی کر لیا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بڑے فخر کے ساتھ کفار سے کہا تھا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاسر تمہارے حوالے کروں گا اور تم سے سو اونٹوں کا نام لوں گا جو تمہارا وعدہ ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے مسلمان ہونے کا واقعہ خود یوں بیان فرمایا کہ میں اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں بہت سخت تھا۔ ایک دوپہر میں مکہ کےایک راستے پر جا رہا تھا کہ مجھے ایک شخص ملا اس نے مجھ سے پوچھا کہ اے خطاب کے بیٹے! کدھر جا رہے ہو۔ تم اس دین سے بیزاری اور عداوت کا اظہار تو کرتے ہو مگر کچھ خبر بھی ہے کہ وہ دین (اسلام) تمہارے گھر میں بھی داخل ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بتایا کہ ان رضی اللہ تعالی عنہا کی بہن نے اسلام قبول کر لیا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ غصے میں بھرے ہوئے گھر پہنچے دستک دی تو اندر سے آواز آئی کون ہے جواب دیا کہ ابن خطاب ان کی بہن نے دروازہ کھول دیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بہن سے کہا میں نے سنا ہے کہ تم نے اپنا دین بدل ڈالا ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بہن کو اپنی لکڑی (چھڑی) سے اس قدر مارا کہ اس کا خون بہنے لگا۔ اس نے کہا کہ اے بھائی جو چاہے کر لو میں نے تو اسلام قبول کرلیا ہے اس غصے اور طیش کے عالم میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر کتاب( قرآن ) پر پڑی انہوں نے بہن سے پوچھا یہ کون سی کتاب ہے، مجھے دو۔ بہن نے کہا یہ میں تمہیں نہیں دوں گی کیونکہ تم اس قابل نہیں تم نہ تو غسل جنابت (پاک ہونے کا غسل) کرتے ہو اور نہ پاک رہتے ہو۔ یہ وہ کتاب ہے جسے صرف پاک لوگ چھو سکتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل کیا اور قرآن کو ہاتھ میں لے لیا آپ کی نظر سورۃ حدید کی پہلی تین آیات پر پڑی۔
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَا لْاَ رْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ
ترجمہ “اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے، اور وہی زبردست دانا ہے”

لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَا لْاَ رْضِ ۚ يُحْيٖ وَيُمِيْتُ ۚ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ
ترجمہ “زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے”

هُوَ الْاَ وَّلُ وَا لْاٰ خِرُ وَا لظَّاهِرُ وَا لْبَا طِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ
ترجمہ “وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے”
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس آیت اٰمِنُوْا بِا للّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ
پر پہنچے تو اسی وقت ان کی زبان سے کلمہ شہادت جاری ہو گیا۔ گھر والے یہ سن کر فقط مسرت سے باہر نکلے اور حضور صلی اللہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت دارارقم میں قیام پذیر تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *