ادب سماج کی عکاسی کرتا ہے جیسے شاعری٫ناول٫افسانے ٫ڈرامہ٫گیت٫مصوری اور کیا کچھ شامل نہیں مختصر ہر بات جو لکھی پڑھی یا بولی جائے وہ ادب کی کسی نا کسی شکل میں بیان ہوتی ہے ادب دو طرح کا ہوتا ایک ادب برائے ادب جس میں صنف نازک کی تعریف میں پتا نہیں کیا کچھ لکھا جاتا ہے لیکن دوسری قسم ادب برائے اصلاح ہوتی ہے۔ دنیا میں ادیبوں شاعروں اور ادبی شخصیات کو بہت زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن یہ بات ایک حقیقت ہے کہ وہ ادبی ہستیاں صدیوں زندہ رہتی ہیں جو لوگوں کی اصلاح کے لیے لکھتے ہیں مثال طور پر علامہ اقبال بھی اردو فارسی شاعر ہیں اور بھی بہت سارے اردو شاعر اور ادیب ہیں لیکن علامہ اقبال کو ہی کیوں زیادہ پسند کیا جاتا ہے اس کی وجہ ان کی شاعری کا فلسفیانہ اور بامقصد ہونا ہے بابا بلھے شاہ وارث شاہ اور صوفی شاعر صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی کیوں سب سے زیادہ سنے جاتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ان کی وہ شاعری ہی ہے جس میں انہوں نے معاشرے کی اصلاح کی ہے ۔ کہتے ہیں کہ زمانے میں محبت کے سوا اور بھی غم ہیں صنف نازک بھی انسان کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے پر زندگی کے اور مسائل ہیں جن پر فیض احمد فیض ٫حبیب جالب٫احمد فراز٫ ٫سعادت حسن منٹو عصمت چغتائی ٫منشی پریم چند٫کرشن چندر اور کئی نامور لوگوں نے اپنا قلم اٹھایا اور معاشرے کی نا صرف اصلاح کی کوشش کی بلکہ معاشرے کا سچا آئینہ بھی دکھایا ۔ ان لوگوں کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں عام لوگوں کے دکھوں اور تکلیفوں کو نا صرف محسوس کیا بلکہ ان کے لیے قلم کےساتھ ساتھ عملی قدم بھی اٹھایا میجر اسحاق کا ڈرامہ مسلی ایک شاہکار ہےجو عام لوگوں میں بہت مقبول ہے ۔ ادب برائے ادب بھی اپنی جگہ ایک لطف رکھتا ہے پر انسان ان باتوں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے جو اس پہ بیت رہی ہوتی ہے ۔اسی طرح اگر ہم انگریزی ادب کی بات کریں تو شیکسپئیر کو کون نہیں جانتا لیکن جو مقام جارج برناڈ شاہ تھامس ہارڈی اور جوہن ملٹن کو حاصل وہ کسی اور کو نہیں فرانسس بیکن جیسے تجربیت پسند بھی انگریزی ادب میں موجود ہیں شیکسپئیر نے اشرافیہ کی تفریح کےلیے ڈرامےلکھے پر جارج برناڈ شاہ نے عام لوگوں کے لیے لکھا اس لیے عام لوگوں کے لیےلکھنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں والٹیر اور روسو فرانسیسی ادب میں جو مقام رکھتے ہیں وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکا ۔ مختصرا بات یہ ہے ادب برائے ادب کا اپنا لطف ہے پر ادب برائے اصلاح معاشرے کوبدل کے رکھ دیتا ہے اس لیے جہاں سماجی تبدیلی آئی وہاں اصلاح کاروں کے ساتھ ساتھ ادبی شخصیات نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا