خواتین بچوں کی ماں ہوتے ہوئے مجھے اس بات کا بالکل ٹھیک اندازہ ہے کہ ایک ایسا طریقہ دریافت ہو جانا جس کے ذریعے اپنے افلاطونی اور طوفانی بچوں کو گھنٹوں تک خاموش اور حالت سکون میں رکھا جا سکے ، واقعی والدین کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔ لیکن ذرا غور فرمائیں، کیا یہ واقعی میں نعمت ہے؟
ذیل میں ان پانچ عادات کی تفصیل بتائی گئی ہے جو آپ کے بچے نادانستگی میں سیکھ رہے ہیں (جو انہیں نہیں سیکھنی چاہئیں)
1۔ تشدد کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
جب جب میں بچوں کو ایک دوسرے پر بے رحمانہ تشدد کرتے ہوئے دیکھتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ وہ یہ کہاں سے سیکھتے ہیں۔ ان کو دئے جانے والے ہمدردی اور احساس کے تمام تر اسباق کہاں غائب ہو جاتے ہیں اور وہ کسی کو چوٹ لگ جانے سے کیوں نہیں ڈرتے؟
جب میں نے اپنے چار سالہ بیٹے سے اس بارے میں بات کی تو اس نے مجھے یقین دلایا کہ اپنے چھوٹے بھائی کا سر دیوار میں بار بار مارنے سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ٹام کا سر دیوار میں ٹکرانے سے اسے کچھ نہیں ہوتا۔
ہماری بے خبری میں ہمارے بچے سیکھ رہے ہیں کہ تشدد نقصان دہ نہیں ہوتا اور کسی کو مارنے، سر پھاڑنے، گردن مروڑنے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے بعد بھی وہ انسان ٹھیک ٹھاک رہتا ہے۔
ایک چار سالہ بچہ کس منطق کے تحت یہ سمجھ سکتا ہے کہ انسانی جسم کی برداشت اور ایک کارٹون میں کس حد تک فرق ہے۔
2۔ ہائپر ایکٹویٹی
کہا جاتا ہے کہ بچے وہی کرتے ہیں جو اپنے اردگرد کے لوگوں کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن یہ چیخنا، چلانا، ایک دوسرے کو مارنا اور ہمہ وقت چنگھاڑنا وہ کسے دیکھ کر سیکھیں ہیں؟
آخر وہ اپنی واحد اینٹرٹینمنٹ سے کچھ نہ کچھ تو سیکھیں گے۔
3۔ غیر حقیقی خواب دیکھنا۔
مجھے آج بھی اپنے بچپن کے وہ ابتدائی خواب یاد ہیں جس میں میں نے خود کو زنبیل سے روغن عیاری، داودی تختی اور سلیمانی چادر استعمال کرتے ہوئے دیکھا۔ میری تمام ابتدائی زندگی اسی امید پر گزری کہ ایک نہ ایک دن میں ضرور کوہ قاف پر جاوں گی۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب پہلی بار مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ سب غیر حقیقی کردار اور داستانیں ہیں اور حقیقی زندگی میں کوئی عمرو عیار، کوئی علی عمران اور کوئی عنبر ، ناگ یا ماریا وجود نہیں رکھتے۔ وہ دکھ ایک عرصہ تک میرے شعوری ذہن کا حصہ رہا۔ آج بھی کسی بچے کو یہ سمجھانا اتنا ہی مشکل ہے کہ ٹام، ڈورا، ڈورے مون اور یونی کورن کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔
کسی بالغ انسان کے لئے شاید یہ بات مزاح کی حد تک رہے لیکن ایک نشوونما پاتے ہوئے ذہن کے لئے یہ ایک حادثہ ہے۔
4۔ خود کو مافوق الفطرت سمجھنا۔
غیر انسانی کرداروں کو مسلسل کچھ مافوق الفطرت کردار ادا کرتے ہوئے دیکھ لر اکثر اوقات بچے خود کو مافوق الفطرت خیال کرنے لگتے ہیں اور بنیادی حفاظتی اقدامات کو نظرانداز کردیتے ہیں، اس کی وجہ سے بچے بعض اوقات خود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا لیتے ہیں۔
5۔ اپنے معاملات والدین سے خفیہ رکھنا۔
بڑھتے ہوئے سائبر کرائم اور چائلڈ ابیوز کی اس دنیا میں بچوں کو سب سے زیادہ خطرہ اجنبیوں سے ہے۔ ہم اکثر ایسے کارٹونز دیکھتے رہتے جن میں مرکزی کردار جو بذات خود ایک کمسن لڑکا، لڑکی یا کوئی جانور ہے، اپنے والدین سے چوری بڑی بڑی مہمات سر انجام دیتا ہے ، اور اس سلسلے میں اجنبیوں سے مدد لیتا ہے۔ اکثر ہی کارٹون کرداروں کے والدین ان کے مہماتی کردار سے بالکل انجان ہوتے ہیں۔ یہ کمسن ذہنوں پر کارٹونز کا سب سے برا اثر ہے۔
اس کالم کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ بچوں کو ان کی اکلوتی دستیاب تفریح سے محروم کر دیا جائے لیکن تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا میں اپنے بچوں کی تربیت چند فرضی کرداروں کے حوالے کر کے بے فکر ہو جانے کا نتیجہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔