میں نے بہت سوچا پھر اس موضوع پر لکھنے کی جسارت کی،مجھے نہیں معلوم لوگ اس مضمون کو کون سا چشمہ لگا کر پڑھیں گے لیکن مجھے جو کہنا ہے میں کہ کر رہوں گا۔تو چلئے سیر کرتے ہیں اس دور کی جب موبائل لفظ سے بھی کوئی واقف نہیں تھا۔اس دور کا سماجی رکھ رکھائو کیسا تھا۔ایک چھوٹی سی مثال سے اسے سمجھ لیتے ہیں۔
موبائل کی دنیا سے پہلے اگر کوئی دور کا رشتہ دار بیمار یا کسی اور پریشانی میں پڑ جاتا تھا تو یا تو کسی شخص سے کہ کر وہ اپنی حالت سے اپنے رشتہ داروں کو آگاہ کرتا تھا یا خود ان کے پاس جاکر اپنی تکالیف کو دور کرتا تھا ۔اب ایسا نہیں رہا، لوگ موبائل پر ہی اپنی خیریت دیدیتے ہیں اور ان کی بھی خیریت لے لیتے ہیں۔ اس سے انہیں لگتا ہے کہ انکا وقت بھی بچ گیا اور رشتہ کا فریضہ بھی ادا ہو گیا۔اسلامی تعلیمات پر اگر نظر ڈالیں تو بیمار کی تیمارداری کرنا ایک عظیم عمل میں شمار ہوتا ہے۔اس موبائل نے اسے سب سے پہلے اس کار خیر کرنے سے روکا۔دوسری ایک اور اہم چیز عرض کرتا چلوں کہتے ہیں جو نظر سے دور وہ دل سے دور۔یہ حقیقت ہے اگر آپ کسی اپنے سے بہت زیادہ دنوں تک دور رہے تو سمجھئے آپ کے دلوں میں محبت کے جو جذبات ایک دوسرے کے لئے پہلے جیسے تھے وہ شاید ہی رہیں کیوں کہ انسان ہو یا حیوان جب وہ بہت زیادہ دنوں تک کسی ایک طرح کی زندگی گزارنے کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر اسکا اپنی عادتوں کو تبدیل کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ہم انسان ویسے تو ایک ہی فورمیٹ پر بنے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے خیالات ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔
سماج میں جب انسان رہتا ہے تو وہ ان جدا خیالات کے رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہوا زندگی کے سفر کو آگے بڑھاتا رہتا ہے لیکن جب سے موبائل نے انسانوں کی زندگیوں میں اپنے پیر پسارے ہیں اسنے ساری توجہ اپنی طرف مرکوز کرادی ہے۔موبائل انسان کو سماجی رشتہ جوڑنے کے بجائے ایک خیالی دنیا کی طرف بڑی تیزی سے دھکیل رہا ہے۔لوگ اس موبائل کے فریب میں اتنے پھنس چکے ہیں کہ گھر میں ماں باپ کی فکر کے بجائے وہ دنیا جہاں کے معاملات میں کھوئے رہتے ہیں ۔اس سے پہلے انسان خود اپنے تجربات کی روشنی میں ایک سمجھ رکھتا تھا۔وہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا تھا۔آج جو میں آپ کے سامنے یہ باتیں لیکھ رہا ہوں مجھے کسی موبائل سے میسر نہیں ہوئیں یہ میری اپنی صلاحیت ہے جو میں نے سماج کے بیچ رہ کر حاصل کی ہے۔موبائل ہمیں ورچوئل زندگی میں شب و روز الجھائے رہتا ہے۔ہم اپنی ذمہ داری بھول کر دوسروں کی زندگیوں کی تاکہ جھانکی میں لگ گئے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا مذہبی سب کی روح معدوم کرنے والا یہ اکلوتا موبائل ہے۔ہم اپنی عبادات کو بھی موبائل کے سہارے پائے تکمیل کو پہنچا تے ہیں۔عمرہ و حج ہو جمع ہو روزہ ہو زکات ہو یا کوئی اور خیر کا کام ہو جب تک اسے موبائل کی اسکرین پر قید نہیں کرتے ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے کوئی اہم فریضہ ہم سے چھوٹ گیا ہو۔
جھوٹ اتنا پھیل گیا ہے کہ ہم اپنے رشتہ داروں کے مرنے تک میں کام کا بہانہ لیکر موبائل سے ہی تعزیت دے دیتے ہیں۔سوچنے والی بات یہ ہے ہم صرف اب ویڈیو کال پر ہی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا پسند کرنے لگے۔بیٹا باپ سے دور ،بھائ بھائ سے دور،دوست دوست سے دور ہاں سب ایک ہیں کیوں کہ سب اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔اس لئے ویڈیو کال کر کے دلوں کو اطمنان مل جاتا ہے۔آپ کو بتا دوں اس طرح کی زندگی جیتے جیتے کئی ماں باپ بھائی بہن اور دوست اس دنیا سے رخصت ہوگئے اسی نہج پر زندگی گزارتے گزارتے کہ روزانہ یا ہفتہ میں ایک دو بار ہماری بات ہوتی رہتی ہے۔بہت سے لوگ کہیں گے کہ موبائل نے آسانی پیدا کر دی دور بیٹھے اپنے عزیز کا حال تو کم سے کم اب فورا پتہ چل جاتا ہے پہلے تو یہ سہولت تھی ہی نہیں، تو میں آپ کو بتا دوں موبائل وہ واحد ذریعہ بن گیا ہے جو اپنوں کو ملنے بھی نہیں دیتا۔یہی سوچ کر کہ بات تو ہو جاتی ہے۔ماں باپ کی خدمت بہن بھائیوں کے دکھ درد کو ساتھ رہ کر سمجھنے کی جو فضیلت اور ثواب تھا دن بہ دن اس سے دوری بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم نے اپنوں سے دور رہنا سیکھ لیا ہے کیوں کہ ہمارے پاس ۔۔ موبائل ہے۔
از شباب پرویز
نیو دہلی
00919368127846