کلامِ مختصر کروں تو اب گزارہ نہیں ہوتا
جس محفل میں اُس ہستی کا تذکرہ نہیں ہوتا۔
بے چینی کا اک عجب ہے کیف طاری ہوتا
جس ذکر میں میرے ذکرِ خدا نہیں ہوتا
لکھتے لکھتے قلم رک گیا شاید آنکھوں کے موتیوں نے اس کی نظر سے سب کچھ مستور کر دیا شاید دل کے بوجھ نے اس کے الفاظوں کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ وہ بہت کچھ لکھنا چاہتی تھی مگر اس احساس کو بیان کرنا لفظوں میں شاید نہ ممکن تھا عینا کو معلوم تھا کہ اس احساس سے بڑھ کر کوٸی چیز اس کو خوش نہیں کر سکتی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کچھ گناہ اس احساس کو دور کر دیتے ہیں لیکن خلق الانسان ضعیفا کے قانون تحت وہ اکثر خواھشات کی لہر میں بہہ جاتی ہے ۔
اور گناہوں کی لذت کو محسوس کرکہ اکثر توبہ کے دروازے پر دستک دیتی ہے مالک کاٸنات بھی ودود و رحمان و غفور کے اسم گرامی تحت اپنے بندے کو اپنی رحمت کی آغوش میں ڈھاپ لیتے ہیں محض احساسِ ندامت پر اپنے انعامات کی بارش برساتے ہیں لیکن اس بار معاملہ کچھ الگ تھا اس بار ایک طویل مدت وہ رابطہ غاٸب تھا شاید اس قول کی تصدیق تھی کہ بعض گناہ توبہ کی توفیق سلب کر لیتے ہیں شاید اب اس کو یہ سمجھانا تھا کہ ہر سیڑھی پر ایک سخت امتحان ہے ۔خواھشات اور اطاعات آپس میں متضاد ہیں ۔ یقینا عینا اس بات کو جان چکی تھی۔
میں نے ایک تحریر بھیجی تھی ۔
:تحریر کا نام
“وہ جو مردوں کو زندہ کر دے”
مہربانی فرما کر میری تحریر کے بارے میں کچھ بتادیں کہ شائع ہو گی کے نہیں ۔اگر دوبارہ لکھبے لکھنے کی ضروت ہے تو میں دوبارہ لکھ لیتی ہوں
تاکہ میری تحرید شائع ہو سسکے۔
یاد رہے کہ میری ایک تحریر آپ شائع کر چکے ہیں۔
تحریر کا نام
“وہ جو مردوں کو زندہ کر دے”