مصنف کا تعارف
ڈاکٹر ابو امینہ بلال فلپس 17 جولائی 1947 میں ویسٹ انڈیز میں پیدا ہوئے اور آپ کی پرورش کینیڈامیں ہوئی۔1972 میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور اپنے علمی سفر کا آغاز کیا ۔آپ نے جامعۃ المدینہ ،سعودیہ عرب سے شعبہ اصول الدین سے بی۔اے اور جامعۃ الریاض سے ایم-اے مکمل کیا ۔یونیورسٹی آف وہیلز سے پی۔ایچ۔ڈی مکمل کرنے کے بعد 1994 میں دبئی اسلامک انٹرنیشنل سنٹر کی بنیاد رکھی اور 2001 تک باحثیت مدیر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ساتھ ہی آپ نے اسلامک آن لائن یونیورٹی کی بنیاد رکھی جو سب سے پہلی اسلامک آن لائن یونیورسٹی کہلاتی ہے ۔اب آپ قطر گیسٹ سینٹر میں بطور لیکچرار اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی تحریر کردہ کند کتب مندرجہ ذیل ہیں۔
نمبر1.The fundamentals of Tawheed,
نمبر2:The true religion of God,
نمبر3:Usool ut tafseer
طبعِ کتاب
کتاب اصول التفسیر کا پہلا ایڈیشن 1996 میں شائع ہوا جو کہ نامکمل تھا۔بلال فلپس کتاب کے دیپاچے مین لکھتے ہیں کہ اس کے تقریباً 9 سال بعد اس کتاب کا مکمل ایڈیشن 2005 میں انٹرنیشنل اسلامک پبلشنگ ہاؤسنگ ،ریاض،سعودیہ عرب نے شائع کیا۔کتاب کی اصل زبان انگریزی ہے ۔کتاب میں کل 15 ابواب ہیں اور یہ کتاب کل 345 صفحات پر مشتمل ہے۔کتاب کی قیمت $6ہے یعنی پاکستانی 1059 روپے۔
وجہِ انتخاب
تفسیرِ قرآن پڑھنے اور سننے کا شوق شروع سے ہی رہا ہے لیکن اب یہ جاننا چاہتا تھا کہ تفسیر لکھنے کے لیے کن اصول و قوائد کا خیالرکھا جاتا ہے ؟اور اسی موضوع سے متعلق دیگر سوالات کے جوابات درکار تھے ۔ اسی سلسلے میں جب کتب کی تلاش شروع کی تو کئیں مشہور کتب ملیں لیکن ان میں سے اکثر کتب میں مشکل الفاظوں و اصطلاحات کا انتخاب پایا ۔ معلومات کے لیے دارالسلام کے دفتر کا دورہ کیا تو انہوں نے یہ کتاب تجویذ کی کیونکہ یہ کتاب عام قارئین کے لیے لکھی گئ ہے۔
کتاب”اصول التفسیر” کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
ڈاکٹر ابو امینہ بلال فلپس
کتاب کے ابتدائی دو ابواب میں مصنف نے رسول ﷺ کے رحلت فرمانے کے بعد تا اب تک موضوعِ تفسیر پر لکھی گئیں تمام معروف کتبِ تفاسیر کا ذکر کیا ہے ۔مصنف نے بلاتعصب تمام ہی مصنفین کی کاوشوں کو سراہا ہے چاہے وہ کسی بھی مکتبہِ فکر یا یا کس بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔ جیسے صفحہ نمبر 18 میں مصنف نے برِصغیر کے عالم عبدالحمید فراحی کی کتاب “التکمیل فی اصول التاویل ” کو اس موضوع پر لکھی گئ نامور کتب میں شمار کیا ہے۔مصنف ان ابواب میں تفسیر با لر وایہ و تفسیر بالرائے کے مابین فرق کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ کیسے بدلتے زمانے کے ساتھ لوگ قرآن کی تفسیراس کے بنیادی اصولوں سے ہٹ کر اپنی عقل کے مطابق کرنے لگے جس سے بڑا فتنہ پیدا ہوا اور دورِحاضر میں لکھی جانے والی اکثر تفاسیر تفسیر بالرائے و تفسیر بالروایہ کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ باب سوم میں مصنف نے قرآن کے ابتدائ تراجم کا ذکر کیا ہے قرآن کا پہلا ترجمہ 13 صدی میں لکھا گیا اور اردو زبان میں شاہ عبدالقادر دہلوی نے لکھا ۔چونکہ کتاب انگریزی زبان میں گویا مصنف نے انگریز مترجم کی کاوشوں کو سراہا ہے۔
مصنف نے صفحہ نمبر 81 میں سلطنت ِ عثمانیہ پر تنقید کرتے ہوئے “وار ٌلارڈز” کہہ کر پکارا ہے جس کے معنی ایسے جنگجو کے ہیں جو اپنی ذاتی مفادات کے لیے جنگ کرتے ہیں۔مصنف نے عربی زبان کے زوال کا سبب عثمانیوں کو ٹہرایا ہے کہ ترکوں نے عربی زبان کو مدارس اور مذہبی رسومات تک محدود کردیا تھا ۔ مصنف کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کا ترجمہ ممکن ہی نہیں کیونکہ قرآن ایک معجزہ ہے ۔تراجم پڑھ کر کوئی شخص ہدایت تو پاسکتا ہے لیکن قرآن کے معجزے تک بذریعہ ِتراجم ہر گز نہیں پہنچ سکتا۔ باب چہارم میں مصنف نے امثال کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ قرآن کس طرح تمام کتب سے منفرد کتاب ہے ۔قرآن کوئ ایسی کتاب نہیں جو کسی بھی طرح کے اصول و قواعد میں قید ہو بلکہ قرآن ان تمام باتوں سے آزاد ہے اور یہی بات اسے منفرد بناتی ہے۔ باب پنجم ، باب ششم ،باب نہم،باب دھم و باب بازدھم میں مصنف نے وحی کے لغوی و اصطلاحی معنی ،قرآن کی مختلف سات قراتیں بیان کرنے کے بعد اسباب النزول کی تفصیلات بتائ ہیں کہ وحی نازل ہونے کی جو وجہ ہوتی ہے وہ قرآن کو سمجھنے کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ کبھی کوئی حکم عام بھی ہوتا اور کبھی خاص بھی ۔ قرآن پہلے لوحِ محفوظ پر پھر جبرئیلِ امین کے ذریعے پیغمبرﷺ تک پہنچا اور آپﷺ پر قرآن وقفوں میں نازل ہوا جس کی اہمیت و حکمت مصنف نے تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں ۔ساتھ ہی مصنف نے مکی و مدنی وجہ ِنزولِ وحی کے پیچھے حکمت کو بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ مکی سورتیں عقائد و نطریات کے موضوع پر ہیں اور مدنی سورتیں انبیاء کے قصص اور اصول و قوائد،حرام و حلال کے موضوع پر نازل ہوئیں۔ باب ہفتم اور باب نھم میں مصنف نے تدوینِ قرآں کی مختصر تاریخ اور قرآن میں صورتوں کی ترتیب کا ذکر کیا ہے کہ قرآن کی ترتیب آپ ﷺ نے بذات خود ہی تعلیم فرمائ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کو کتابی شکل دیتے وقت بذاتِ خود بھی ترتیب ِ قرآن کی جانچ پڑتال کی ۔ آخری چار ابواب دواز دہم، سیزدہم، چہاردہم، پانزدہم میں مصنف نے ان اصطلاحات کا استعمال کیا ہے جو اصولِ التفسیر میں استعمال کی جاتی ہیں جیسے نقش ،مھکم ،متشابہ، مثل ، جدل ،قصہ،عام ،خاص مطلق، مقید،مطلوق،اقتدا وغیرہ۔
کتاب چونکہ انگریزی زبان میں لکھی گئ ہے تو مصنف نے کتاب کے آغاز میں حرفِ تہجی اور ساتھ ان کا انگریزی ترجمہ بھی دیا ہے تاکہ تلفظ کرنے میں آسانی رہے۔کتاب کے آخر میں ایک حصہ قرآنی آیات اوراحادیث کے حوالاجات کا ہے۔اسی طرح تمام استعمال کردہ اصطلاحات ,تعریفات اور مصنف کی استفاذہ کردہ کتابیات کا بھی حصہ موجود ہے۔مصنف نے حاشیوں کا بھی استعمال کیا ہے۔جہاں کسی لفط کی وضاحت کرنا ضروری جانا وہاں حاشیے کا استعمال کیا۔
اس کتاب کا اہم حصہ شیخ منَّاع القطان کی کتاب علوم القرآن سے لیا گیا ہے اور ضمنی حصہ دور حاضر کی کتب سے لیا گیا ہے جو کہ حاشیوں سے واضح ہوتا ہے۔میرے نزدیک یہ کتاب قرآن کی تاریخ اور اس سے متعلق دیگر موضوعات پر زیادہ بات کرتی ہے ، آخری چار ابواب میں اصول التفسیر میں استعمال کردہ تعریفات و اصطلاحات کا تفصیل سے ذکر تو ہے لیکن اس پر ابواب بہت کم ہیں ۔مصنف کو اپنے موضوع ِ کتاب کو مدِنظر رکھتے ہوئے کتاب کو زیرِ تکمیل تک پہنچانا چاہیئے تھا۔ساتھ ہی ان ابواب میں آسان الفاظ کا انتخاب کیا جانا چاہیئے تھا، گویا عام قارئین کے لیے کتاب کا یہ حصہ مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
حرفِ آخر
زیرِ نظر کتاب عام قارئین کے لیے ایک بہترین کتاب ہے ۔اس کتاب کی زبان سادہ،آسان اور جامع ہے۔جو شخص اصول التفیسر کے موضوع پر تحقیق کا آغاز کرنا چاہتا ہے تو انگریزی زبان میں میں یہ کتاب تجویز کرنا چاہوں گا ۔یہ کتاب اس موضوع کی بنیاد کی بھی بنیاد ہے ۔