جہیز اور ڈاکو
آج سے پانچ سال پہلے کی بات ہے ایک گھر میں چوری کی واردات ہوئی۔اگلے دن اخبار میں چھوٹی سی خبر آئی۔ہفتہ دس دن پولیس نے
تفتیش کے بہانے گھر والوںسے کھانا کھایا اور بس۔۔۔۔ختم کہانی۔ایسی کہانیاں اسی طرح ختم ہو جایا کرتی ہیں لیکن چوری کی اس کہانی کے
بعد ایک اور کہانی شروع ہوتی ہے جوجلدی ختم نہیں ہوسکتی یا شایدختم ہی نا ہو۔
یہ گھرانہ جس میں چوری ہوئی،میاں،بیوی،ایک بیٹے اور بیٹی پر مشتمل ہے۔باپ نے ا پنی بیٹی کے لیے بڑی مشکل سے کچھ جہیز اکٹھا کیا اور
شادی کے لیے قرض بھی لیااور شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی تھی۔
ایک رات ان کا بیٹا کمرے میں بیٹھا پڑھ رہ تھا۔رات کافی ہو گئی تھی۔ایک آدمی جس نے دیوار پھلانگی اور اندر آگیا اور لڑکے کو پستول دکھا کر
باہر کا دروازہ کھولنے کو کہا۔لڑکے نے کانپتے ہوے باہر کا دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلنے پر تین آدمی اندر داخل ہو گیے۔انہوںنے سارے
گھر والوں کو جگایا اور ایک جگہ اکٹھا کر لیا ۔انہوںنے چابیاں لیں اور سارا جہیز مع گھر کے قیمتی سامان،زیوار اور پیسے لے گئے۔
اس کے بعد لڑکے والوں نے شادی یہ کہہ کر ملتوی کر دی کہ آپ کاسامان مل جائے توشادی کی تاریخ پھررکھ لی جائے گی۔آج پانچ سال گزر
گئے نہ سامان ملا،نہ شادی ہوئی۔لڑکے والوں نے لڑکا کہیںاور بیاہ لیا اور جہیز حاصل کر لیا۔اس ساری کہانی میں کوئی نئی بات نہیں۔سوائے
ایک بات کے کہ ان چار افراد کی بربادی کے ذمہ داروہ چور نہیں بلکہ وہ باعزت لٹیرے بھی ہیں جو جہیز کے نام پر ان کو لوٹنا چاہتے تھے ۔