دنیا کے مشہور ترین کوہ پیما جارج میلوری سے ایک مرتبہ اخبار نویس نے سوال کیا کہ آپ آخر ماونٹ ایورسٹ کی بلند ترین چوٹی پر کیوں چڑھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اس لیے کہ وہ موجود ہے کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنا کسی سڑک یا باغ میں چہل قدمی کرنے جیسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ پہاڑ کی چوٹیوں پر صرف فلک بوس اونچائی ہی نہیں ہوتی بلکہ برفانی تودے سخت موسم آکسیجن کی کمی اور مہلک ہماری جیسے جان لیوا خطرات ہوتے ہیں لیکن برسوں سے انسان ان پہاڑوں پر خوشی خوشی چڑھتا آرہاہے.
دراصل بات یہ ہے کہ کوہ پیماہ کو پہاڑ اپنی طرف بلاتے ہیں۔ اور کوہ پیما ان چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے بہادری دکھاتے ہیں اور وہاں پر اپنی قدرت کے نظارے نصیب ہوتے ہیں اور اللہ پاک کی نشانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ پاتا ہے۔ کوہ پیما اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بڑے حوصلے سے ان ڈھلانوں کو عبور کرتے ہیں اور بہت مشکل کام ہے اس سے شہرت بھی ملتی ہے اور بہت ساری دولت بھی ملتی ہے۔پہاڑوں کو سر کرنے اور جان کی بازی دینے والے بہر حال آپ کو ایسے ہولناک واقعات بتاتے ہیں۔ جوچوٹیاں سر کرتے ہوئے پیش آئے، کےٹو کرہ ارض کا دوسرا بڑا پہاڑ ہے جس کی اونچائی 811 میٹر ہے۔ اس پہاڑ کو سفاک پہاڑ بھی کہتے ہیں اور یہ ڈھلوان راستے کی وجہ سے دنیا کی مشکل ترین طوٹی ہے اس کو سر کرتے ہوئے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما کی ہلاکت ہو جاتی ہے۔
اور اس پہاڑ میں اموات کی شرح 29 فیصد ہے جبکہ ماونٹ ایورست دنیا کی سب سے بڑا پہاڑ ہے جس پہ اموات کی 4 فیصد ہے۔ اس لیے ماونٹ ایورسٹ کو 2282 کوہ پیما نے سر کیا جبکہ کے ٹو کے 246 کوہ پیما نے سر کیا۔ کے ٹو سب سے پہلے 1954ء میں کوہ پیما نے سر کیا اس کا نام فضل علی وہ ایسا کوہ پیما تھا جس نے اس چوٹی کو تین بار سر کیا یاد رہے کہ کے ٹو کی تاریخ کا سب سے بدترین سانحہ 2008 میں پیش آیا جب مختلف ممالک کے کوہ پیماوں نے پہاڑ سر کرنے کا آغاز کیا ان کی تعداد 25 تھیں۔
اور یہ سر کر کے واپس آرہے تھے کہ اچانک موسم خراب ہوگیا اور ان پر برف کا تودا گِر گیا اور وہ سب تودے کے نیچے آ کے ہلاک ہوگے اسی طرح ماونٹ ایورسٹ دنیا کی بلند ترین کو سب سے پہلے 1953 میں ایڈ نڈڈہیلری نے سر کیا لیکن 1996 ماونٹ ایورسٹ کے لیے سیاہ ترین دن تھا ماونٹ ایورسٹ کو سر کرتے 8 کوہ پیما ہلاک ہوئے اسی طرح 10 مئی 1996 کو 33 کوہ پیماوں نے چوٹی سر کرنے میں حصہ لیا لیکن چند گھنٹے گزرنے کے بعد موسم خراب ہوگیا اور برفانی طوفان اور بڑھ گیا لیکن جب برفانی طوفان تھما تو ان کو پتہ چلا کہ ہمارے ساتھی ہمارے پاس نہیں ہیں اور وہ گھبرا گئے اور انہوں نے چوٹی سر کرنے کا ارادہ ترک کردیا بد قسمتی سے کوہ پیما بلندی سے گرنے سے ہلاک ہوگے اور ان میں سے کچھ کوہ پیما گم ہوگے اور کچھ مفرور ہوگے ایگڑ پہاڑ سوئزلینڈ میں واقع ہے.
اس سب سے پہلے 1858 میں سوئس کے کوہ پیما نے سر کیا۔ کینڈا میں ایگر پہاڑی کو موت کی دیوار بھی کہا جاتا ہے اب تک اس چوٹی تک پہنچنے کے لیے 64 کوہ پیمائوں کی جان گی تھی۔ خاص طور پر ایگر پہاڑ کا شمالی حصہ خطرناک ہے جولائی 1936 میں سر کرتے ہوئے ناکام ہونے کے بعد دوسری کوشش کررہے تھے کچھ روز خراب موسم کے بعد ان چاروں کوہ پیماوں نے ازسر طو چڑھنا شروع کی لیکن انہوں نے فیصلہ کیا وہ ایک ساتھ چڑھنے کی بجائے الگ الگ راستہ سے اُوپر کی طرف چڑھیں۔
ہنڑت نامی کوہ پیما نے وہ حصہ عبور کرلیا جیسے موت کی دیوار کہتے ہیں دلچسب بات یہ ہے کہ اس حصہ کو عبور کرتے ہوئے بے شمار کوہ پیما جان کی بازی ہار گے۔ تاریخی لحاظ سے ہنٹر کا یہ بڑا کارنامہ ہے دوسری جانب کوہ پیماہ برف گرنے اور پتھروں پر پھیلنے کی وجہ سے زخمی ہوچکے تھے۔ لہذا انہوں نے ایگر پہاڑ پر فرید چڑھنا ترک کردیا مگر اچانک موسم خراب ہونے کی صورت میں برف کے تودے پگھلنے کی وجہ سے بُری طرح اس پھنس گے اور جس کی وجہ سے یہ چاروں کوہ پیما ہلاک ہوگے۔محمد علی سدپارہ پاکستانی کوہ پیما حال ہی میں ہمارے ملک پاکستان کے بہادر کوہ پیما محمد علی سدپارہ نے دنیا کو حیران کرنے اور پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے سردی کے موسم میں کے ٹو سر کرنے گے لیکن دنیا کے کئی کوہ پیمااس کو صیح نہیں سمجھ رہے تھے لیکن ہمارے بہادر محمد علی سدپارہ نے تاریخ رقم کرنے کے لیے یہ مشکل ترین مہم جوئی پر کمر کس لی اور غیر ملکی ساتھیوں کے ساتھ مہم شروع کرلی لیکن بد قسمتی سے کے ٹو عبور کرنے کے بعد واپس آتے ہوئے آکسیجن کے بغیر اور موسم کی خرابی سے لاپتہ ہوگے ہیں انہیں ڈھنڈنے کے لیے آرمی طیاروں کے ذریعے تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا لیکن اس کارنامے کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ پاک زندہ سلامت رکھے اور ہم میں واپس بھیج دیں آمین
نیوز فلیکس 27 فروری 2021