اس وقت دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے. ایک طرف نظر دوڑائیں تو آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست نظر آئے گی. جہاں وسائل کی بہتات ہے. لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہے. لوگ یہاں پر رہنا پسند کرتے ہیں. ان ممالک میں تمام لوگوں کے لیے سہولیات ایک جیسی ہیں. لوگوں میں احساس محرومی نہیں ہے. لوگوں کاحکومتوں پر اعتماد ہے. ان ممالک میں لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں. کیونکہ یہاں پر قانون کی حکمرانی ہے. لہٰذا سب سے بڑ ھ کر لوگوں میں شعور اور آگاہی ہے.
لوگ ریاست کی حفاظت کرتے ہیں. اور ریاست اپنے عوام کی فلاح اور بہتری کیلئے اقدامات کرتی ہے. لہٰذا ریاست کے تمام ادارے بلا تفریق اپنے عوام کے لئے خدمات فراہم کرنے میں مصروف رہتے ہیں. ان ممالک میں لوگ حکومتوں کے بدلنے سے زیادہ پریشان بھی نہیں ہوتے. کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ حکومت جو بھی آئے گی اس کی ترجیحات میں ملکی سالمیت اور ترقی سر فہرست ہوں گی. ان ممالک میں عوام کو پتہ ہے کہ ان کے بچوں کا مستقبل اچھا ہے. اور وہ اپنے بڑھاپے کے بارے میں بھی پریشان نہیں ہیں. کیونکہ ریاست نے باقاعدہ بندوبست کیا ہوا ہے. اب اس صورت حال میں یہاں کے عوام کو نہ تو دولت جمع کرنے کی فکر ہے. اور نہ ہی رشوت لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے. لہٰذا ان ممالک میں ریاست اور ادارے عوام کی فلاح اور بہبود کیلئے کوشاں ہیں. بدلے میں عوام اپنی ریاست کی ہربات کو ذمہ داری سمجھ کر فالو کرتی ہے. اسطرح ریاست اور قوم ایک دوسرے کے محافظ ہیں. لہٰذا وہ ممالک دیکھنے میں بھی خوبصورت ہیں اور وہاں لوگ خوش ہو کر رہتے ہیں. لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال بھی رکھتے ہیں. اور معاشرہ اچھا لگتا ہے. وہاں کی عوام اتنی باشعور ہو چکی ہے کہ صفائی کو زندگی کا اہم حصہ سمجھتی ہے. لہٰذا وہ ممالک دنیا میں رہنے کے لیے بہترین جگہ کا درجہ لے چکے ہیں.
اگر آپ ترقی پذیر ممالک کا جائزہ لیں تو یہاں پر زندگی بلکل برعکس ہے. یہاں سے لوگ ان ممالک میں جانا چاہتے ہیں. کیونکہ یہاں پر لوگ مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں. پاکستان میں ہی دیکھ لیں جب سے پاکستان بنا ہے. یہاں پر سیاستدانوں اور ڈکٹیٹرزدونوں نے مل کر ملک پاکستان پر حکمرانی کی ہے. لیکن بدقسمتی سے ملکی سالمیت اور ملکی ترقی دونوں ان کی ترجیحات میں شامل نظر نہیں آتیں. ہر دور میں آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت پر اسطرح الزامات لگائے ہیں کہ گویا یہ ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں. لیکن کسی بھی دور حکومت میں نہ تو تعلیم بہتر ہوئی ہے اور نہ ہی قانون کی حکمرانی اور بالادستی قابل عمل ہوئی. عوام ہر دور میں پستی چلی گئی. کبھی روز گار کے فکر میں اور کبھی بچوں کے مستقبل کے بارے میں. اسطرح ریاست پاکستان کے اندر ادارے بجائے عوام کی خدمت اور فلاح کے وسائل کو لوٹنے میں مصروف ہوگئے. چھوٹے سے چھوٹے پرائیویٹ اور سرکاری اداروں کے اندر ملازمین نے صرف اپنے بارے میں سوچا اور جہاں تک ان سے ہو سکا انہوں نے ملکی وسائل کو لوٹنے میں اپنا اپنا خوب حصہ ڈالہ. اسطرح ملک کے اندر دو طبقاتی نظام معرض وجود میں آتا گیا. جس کا نقصان یہ ہوا کہ جس جس نے ملک پاکستان کو لوٹا وہ پاکستان کی دولت اکٹھی کر ترقی یافتہ ممالک میں جا کر سیٹ ہوتا گیا. جس حکمران نے بھی پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی وہ ملک میں قانون کو اپنی پسند اور ناپسند کے طور پر چلانے کی ناکام کوششیں کرتا رہا. بدلے وہ تو چلتا بنا لیکن پاکستان کا نقصان ہوتا رہا. اس لئے آج ہر کوئی اپنی اپنی فکر میں ہے.
حقوق نام کی کوئی چیز نہیں. انسانیت انسانی اقدار گم ہو گئی ہیں. نفسانفسی کے اس عالم میں نقصان پیارے پاکستان کا ہی ہو رہا ہے. ہمارے حکمرانوں نے اپنے پیٹ کی آگ بھرنے کی خاطر قوم کو روٹی کے چکر میں ڈال دیا. اور ملک کو اس نازک صورتحال میں دھکیل دیا ہے. لیکن ان لوگوں نے ابھی بس نہیں کی. ان کے پیٹ ابھی بھرے نہیں. ان کی آنکھوں میں حرص ابھی باقی ہے. لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے تو پھر ہر ایک کو میدان میں آنا پڑے گا. یہ ملک اگر اب بھی ان کے ہاتھوں میں رہا جنہوں نے پورے اسی سال ملک کو لوٹا ہے تو پھر ہمارے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہیں ہو گا. ہمارے وہ ادارے جو اس ملک میں حکومتوں کا فیصلہ کرتے ہیں. انہیں بھی اپنی ترجیحات بدلنی ہونگی. ملک میں قانون کی بالادستی اور حکمرانی اور تعلیم کے نظام کو صحیح بنیادوں پر استوار کیے بغیر کوئی ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا.
شمیم حیدر
03008505779
Malianwali537@gmail.com