Skip to content
  • by

غزل

تو نے پیچھے سے جب نہ دی آواز
آنکھ سے آئی دکھ بھری آواز

میرے ہونے کا بس یہ مطلب ہے
ان سنی اور ان کہی آواز

خون پانی ہوا تو دل میں ہی
زنگ سے بھر گئی نئی آواز

منتظر دست آرزو کی تھی
پانی میں ڈوبتی ہوئی آواز

اس کی آواز تھک گئی تھی مگر
میں نہیں سنتا دوسری آواز

میرے گاؤں کا پانی ایسا ہے
دل میں چبھتی رہی تری آواز

جب مرے پاس کوئی اور نہ ہو
مجھے آتی ہے تب مری آواز

دکھ تو یہ ہے سنی نہیں تو نے
اپنے اطراف گونجتی آواز

کچے رستوں سے ہو کے آیا ہوں
دھول سے اٹ گئی مری آواز

اتنے زوروں سے چیخا ہے کوئی
چلتے چلتے ٹھہر گئی آواز

لوگ قیمت بڑھاتے جاتے تھے
مجھ کھنڈر سے جو نکلی تھی آواز

میں تری سمت آ رہا تھا مگر
مجھے گمراہ کر گئی آواز

واعظا یا خموش رہ پیارے
یا لگا کوئی دلبری آواز

میں فقط ہاتھ اٹھا سکا تھا عقیل
بے دلی نے ہی گھونٹ دی آواز

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *