مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر ہم جا کس راستے پر رہے ہیں. آخر ہمارے گھروں میں کسی کو بھی سکون کیوں میسر نہیں ہے. ایسا نہیں ہے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے یا روزے نہیں رکھتے یا اللہ کی عبادت سے، اس کی رحمت سے غافل ہیں. نہیں ایسا بالکل نہیں ہے. لیکن پھر بھی ہم سکون میں نہیں ہیں. جس کی وجہ کویئ سہی سے نہیں بتا سکتا کیونکہ کسی کو پتہ ہی نہیں ہے. ہمارے آباؤ اجداد نے پھر بہت بہتر زندگی بسر کی. سوکھی کھا کر سوے لیکن سکون سے سوئے. اور آج ہم کیں کہ سکون سے سونے کے لیے طرح طرح کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں تب جا کہ کہیں نیند کی آغوش میں جاتے ہیں. ہماری زندگیوں میں اس لیے سکون نہیں ہیں کیونکہ ہم زندگی کو ریس سمجھ کر گزار رہے ہیں. ہر چیز کو ریس سمجھا ہوا ہے. کوئی کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے پیپرز میں تو کوئی اپنے آفس مہں اونچے درجے پر جانا چاہتا ہے. گھروں میں بھی یہی حال ہے. سب کو اپنے نمبر اچھے بنانے ہیں جہاں ساس یا سسر کے نام تھوڑی سی جائیداد کیا لگی وہیں سب نے اپنے اوپر پارسائی اور اچھائی کا ماسک پہن لیا. بھابیاں نندوں اور دیوروں کو نیچا دکھا رہے ہیں اور نندیں بھابیوں اور بھائیوں کو نیچا دکھا رہے ہیں. ساس اور سسر کی دھڑا دھڑ خدمتیں کی جا رہی ہیں. ا. می جی چاے پی لیں. یہ میں نے جوس بنایا ہے ابو آپ کے لیے. کھانے میں ان کی پسند کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے. ان کے سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، ہنسنے بولنے پر یہاں تک کہ ان کے باتھ روم استعمال کرنے پہ بھی نظر رکھی جا رہی ہے. سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے لیکن پھر بھی بہت کچھ ہو رہا ہے. دوسری طرف جن ماں باپ کے پاس کوئی زمین جائیداد نہیں ہے ان بیچاروں کا بھی حال دیکھ لیں. بڑا بیٹا یہ کہہ کہ علیحدہ ہو گیا کہ میرے خرچے بہت ہیں میں کیسے آپ سب کی ذمہ داری اٹھاؤں. دوسرا بیٹا بیوی اور بچوں کو آے روز مائیکے بھیج دیتا اور باقی گھر اللہ کے سپرد. اللہ اللہ کر کے تیسرے کی شادی کی تو آئی میڈم نکچڑی، ایک کرو تو چار آئیں وہ بھی سود سمیت. بندہ جائے تو کہاں جائے. بوڑھے ماں باپ اشک پونچھتے پونچھتے آنکھیں خشک کروا بیٹے. اور پھر ہم کہتے ہیں کہ دعائیں نہیں قبول ہوتیں ہم تو نماز بھی پڑھتے ہیں. سب کچھ کرتے ہیں پتہ نہیں کش کی نظر لگ گئ ہے.
جب تک ہم اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھیں گے ہم سکون سے نہیں سو سکتے. دولت اور جائیداد کے چکروں سے باہر آ کر ذرا دیکھیں جن چہروں کو دیکھتے ہی پیسہ نظر آ تا ہے ان کو غور سے دیکھیں آپ کو اپنے رب کی جھلک نظر آئے گی. ان تمام خرافات سے نکل کر باہر آئیں اور بس چند لمحوں کہ لئے اتنا سوچیں کہ کل اگر آپ کی اولاد آپ کہ ساتھ یہ سلوک کرے تو کیا ہو گا. آگے تو دور ہی اتنا جدید ہے. آپ میں تو پھر ماں باپ نے بہت اچھی تربیت کی تھی جو کہیں نہ کہیں آپ میں موجود ہے. لیکن بس ذرا سا سوچیں کہ آپ اپنی اولاد کی ایسی تربیت کر پائیں ہیں کہ نہیں. اور اگر اس سوال کا جواب نا میں ہے اور آپ نے اپنے آپ کو سدھارا نہیں ہے تو تیار ہو جائیں کیونکہ آپ کا بڑھاپا بہیت برا گزرے گا. کیونکہ جو صبرواستقامت اور حوصلہ آپ کے والدین کے پاس ہے وہ آپ کے پاس بھی ہو یہ ضروری نہیں. جب اپنے والدین کی سکھائی ہوئی تربیت کو آپ نے فراموش کر دیا اور پیسے اور بی وی بچوں کے نشے میں مست ہو گئے تو آپ کی اولاد تو پھر آپ کی اولاد ہے. سوچیں وہ کس حد تک جائے گی.
اللہ آپ کا اور ہمارا حامی و ناصر رہے. آمین.
Thursday 7th November 2024 10:33 am