اپریل کی سہانی شام تھی۔ ہم دونوں چشمے کے بیچوں بیچ ایک گول پتھر پر بیٹھے اپنی قسمت پر رشک کر رہے تھے۔ ننھی لہریں، کبھی تو اس کے ٹخنوں کو بوسہ دے کر آگے بڑھ جاتیں، اور کبھی رک کر پازیب سے اٹکھیلیاں کرنے لگتیں۔ پھسلنے کے ڈر سے اس نے میرا بازو تھام رکھا تھا۔ وہ قریب تھی، پر لگتا تھا جیسے میلوں دور ہے۔
ایسے میں ہوا کو شرارت سوجھی تو ایک سبک رفتار جھونکا ہماری طرف روانہ کر دیا۔ اسکا توازن بگڑا، اور وہ میری گود میں آ گری۔ جتنی دیر میں وہ خود کو سنبھالتی، آسمان نے سب کچھ دیکھ لیا۔ کالی گھٹائیں قہقہے لگانے لگیں، اور کچھ نے تو تصویریں بھی کھینچ لیں۔
“بہت دیر ہو گئی” وہ بولی “کوئی اچھا سا شعر سنائو، اور پھر میں چلی۔”
جدائی کا خیال آتے ہی دل ڈوبنے لگا۔ فرطِ جزبات میں ساحر لدھیانوی کا یہ شعر سنایا۔
چند کلیاں نشاط کی چن کر، مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی، تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
اس شعر کا یہ اثر ہوا کہ وہ روز ملنے لگی اور پھر، ہماری شادی ہو گئی۔
شادی کی سالگرہ پر وہ بہت خوش تھی۔ بڑے شوق، بہت ہی اشتیاق سے کہنے لگی “پتہ ہی نہیں چلا چار سال کیسے گزر گئے۔ سچ سچ بتائو، تمہیں میرے ساتھ گزرا وقت کیسا لگا؟ میری کمپنی انجوائے کرتے ہو ناں؟”
فرطِ جزبات میں ساحر لدھیانوی کا یہ شعر سنایا۔
چند کلیاں نشاط کی چن کر، مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی، تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
اس شعر کا یہ اثر ہوا کہ دو ہفتے سے بات چیت بند ہے۔