Skip to content
  • by

حضرتِ عباس علمدار کی شہادت

محرم کیا ہے؟

کیا آپ کو پتہ ہے محرم میں کیا ہوا تھا ۹ اور ۱۰ محرم تاریخِ اسلام کا سب سے دردناک پہلو ہے جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے پیارے نواسے جنّت کے نوجوانوں کے سردار حضرت امام حسین علیہ السّلام اور اُن کے خاندان پر کون سی قیامت ٹوٹی تھی اُن پر کیا ظلم و ستم ہوا تھا کربلا ظلم و ستم کے خلاف استقامت کا نام ہے کربلا و جگہ ہے جہاں ننھے علی اصغر کو پیاس کی شدت نے رُلایا ظالموں نے اُن پر پانی بند کر دیا اُن عظیم ہستیوں نے پانی تو نہ پیا لیکن شہادت کا جام ضرور پیا حضرتِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جب خیمے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کے ایک کہرام مچا ہوا ہے بچے پیاس سے تڑپ رہے ہیں پیاس کی وجہ سے علی اصغر کی حالت دیکھی نہ جاری تھی کبھی سکینہ پکارتی ہے چچا جان!!!!! پانی کبھی چھ ماہ کا علی اصغر اپنی سوکھی زبان نکال کر دیکھاتا ہے دوسری طرف بیمار زین العابدین علیہ السّلام کا جسم بخار سے جھلس رہا ہے پیاس کی شدت اور تڑپ سے جسم کانپ رہے ہیں ہر طرف سے العطش العطش (پیاس پیاس) کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں حضرتِ عباس علمدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ غضبناک حالت میں اُٹھے ،مشکیزہ اٹھایا اور گھوڑے کی باگیں فرات کی طرف موڑیں امام عالی
مقام رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! بھائی عباس کدھر جارہے ہو ؟

عرض کی ! آقا اجازت دو میں فرات پر پانی لینے جارہا ہوں۔ یہ سنا تو آقاحسین رو پڑے ،فرمایا ! عباس تم میری چھوٹی سی جماعت کے علمبر دار ہو، تمہارے چلے جانے سے یہ سارا سلسلہ ختم ہو جاۓ گا تم بھی جارہے ہو کیا یہ چاہتے ہو کہ جب حسین آنکھ کھولے تو اسے کوئی اپنا نظر نہ آئے اور کسی کا سہارا نہ رہے ، خدا کیلئے میرا نہیں تو عورتوں کی بے کسی کا خیال کرو، مجھے توپتہ ہے کہ ظالم کسی صورت بھی زندہ نہ چھوڑیں گے ، اگر تم بھی نہ ہو گے تو ان کا وارث کون بنے گا اور یہ کس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں گی۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی ! یا امام ذرا خیموں میں ایک نظر جا کر دیکھو کہ بچے کس طرح پیاس سے تڑپ رہے ہیں ،سکینہ نے بار بار مجھے کہا ! چچا جان کوشش کرو، شاید دوگھونٹ پانی مل جائے ، اس لئے یا امام مجھے آپ اجازت دیں۔ میرے امام رضی اللہ عنہ نے اشک بار آنکھوں سے حضرت عباس علمدار رضی اللہ عنہ کوالوداع کیا ، حضرت عباس علمدار رضی اللہ تعالی عنہ لشکر یزید کے سامنے پہنچ گئے ،اور آپ نے اتمام حجت کے لئے ایک خطبہ ارشادفرمایا !

اوکوفیو بتاؤ کس کے امتی ہو ؟ اگر تم مانتے ہو کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے تو پھر اس آل رسول پر پانی بند کیوں کیا ؟ ظالموں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تمہارے جانور تو پانی پئیں مگر اہل بیت کے لئے پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں ہوسکتا بتاؤ خدا تعالی کی بارگاہ میں کیا جواب دو گے، ابھی ایک قطرہ بھی میسر نہیں ہوسکتا بتاؤ خدا تعالی کی بارگاہ میں کیا جواب دو گے، ابھی وقت ہے سو چو اور دوگھونٹ پانی کے دو میں تمہیں کل قیامت کے دن حوض کوثر کے جام پلاؤں گامگران نام نہادمسلمانوں پر آپ کی تقریر کا کوئی اثر نہ ہوا، بالآخر آپ لشکر جرار کی صفوں کو چیرتے ہوۓ نہر فرات کی طرف بڑھے، جب عمرو بن سعد نے دیکھا کہ حیدر کا لال بڑے ہی عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھتا جارہا ہے

اشقیاء نے راستہ روکنا چاہا، سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے تلوارمیان سے باہر نکالی جو بجلی کی طرح چمکی اور قہر خدا بن کر دشمنوں پرگری حیدر کرار کی ہیبت و شجاعت نے دشمن کی صفوں میں راستہ بنا دیا اور دشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہوۓ لب دریا تک پہنچ گئے ، جب نہر فرات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی دیکھا تو خیال آیا کہ ایک چلو بھر کر پی لوں مگر جب پینے لگے تو سکینہ کی پیاس یاد آ گئی اور علی کا شدت پیاس سے زبان کا باہر آنا آنکھوں کے سامنے آ گیا، پانی اسی جگہ پھینک دیا اور جلدی سے پانی کا مشکیزہ بھرا کندھے پہ لٹکا کر چلنے لگے تو شمرلعین چلا اٹھا کہ اگر یہ پانی اہل بیت کے خیموں میں پہنچ گیا تو یادرکھو پھر زمین پرکوئی یزیدی باقی نہ رہے گا چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح یہ پانی صحیح سلامت خیموں میں پہنچ جائے اور میرا یہ وعدہ بھی پورا ہو جاۓ مگر دشمن کے نرغہ میں آگئے انہوں نے تیروں کی بارش کر دی ، جس سے مشک چھلنی ہوگئی۔ ادھر خیموں والے خوشی منا رہے ہیں کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ عباس پانی لے آئے ۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ حوض کوثر کے مالک آج کر بلا کے میدان میں اپنے ہی نانا کا کلمہ پڑھنے والے بے وفا امتیوں کے ہاتھوں پیاسے ہی تڑپ تڑپ کر جانیں دیں گے، پھر ہرطرف سے تیروں ، نیزوں اور تلواروں کے جھنکارتڑپ کر جانیں دیں گے

آپ ان کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے ، خیموں کی طرف بڑھتے چلے آرہے تھے کہ نوفل بن ورقہ مردود نے چھپ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر وار کیا کہ آپ کا دایاں بازو کٹ گیا ، جوش شجاعت دیکھئے کہ آپ نے فورا نہایت ہی دلیری کے ساتھ مشک کو دوسرے کندھے پر اٹھالیا اور بائیں ہاتھ سے تلوار پکڑ کر دشمن کا مقابلہ کرتے رہے کوشش یہی تھی کہ کسی طرح پانی خیموں میں پہنچا دوں ،آپ بڑھتے آرہے تھے کہ ملعون نے آپ پر دوسرا وار کیا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بایاں بازو بھی قلم کر دیا ، آپ نے مشک کے تسمہ کو دانتوں سے پکڑ لیا اور خیموں میں پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر صد افسوس کہ اس سقائے اہل بیت کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا کہ ایک تیر آکر مشکیزہ میں پیوست ہو گیا جس سے سارا پانی بہہ گیا اور ایک دوسرا تیر آیا جو حضرت عباس کے سینئہ اقدس پر لگا ایک اور سیاہ کار نے سر اقدس پرلوہے کی گرز ماری کہ آپ زخموں سے لاچار ہوکر زمین پر گر پڑے اور امام عالی مقام کو آواز دی اے بھائی حسین ! میری طرف سے آخری سلام ہو۔ اس آواز کو سن کر حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ دوڑتے ہوۓ آپ کے قریب آۓ اور پیکر وفا عباس علمدار کو دیکھ کر رو پڑے آپ کی لاش کے ساتھ چمٹ گئے اور کہا اے عباس ! اب میری کمر ٹوٹ گئی ہے آپ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش اٹھا کر خیموں میں تشریف لاۓ تو خیموں میں ایک کہرام مچ گیا حسین ابن علی نے سکینہ کوفر مایا ! بیٹی تو بھی اور اے علی اصغرتو بھی اپنے چچا کو معاف کردینا وہ تم سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کر سکے یہ کہا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روح جنت کے اعلی مقام میں پہنچ گئی۔۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *