جب بھی حضرت انسان کے سامنے کسی کہانی کو بیان کیا جاتا ہے یا فلم کی صورت میں دیکھایا جاتا ہے تو انسان اس سے اپنے ظرف کے مطابق کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے چاہے وہ ‘اچھائی ہو یا برائی’ وہ اپنے عقل و شعور کے مطابق اس سے نتیجہ اخذکرتاہے. اس دور جدید میں بہت ساری فلمیں بن رہی ہیں فلمیں بنانے کی دوڑ ہالی وڈ اور بالی وڈ آگے نظر آتے ہیں ، میرے ذاتی خیال کے مطابق ان میں زیادہ فلمیں انسانی معاشرے کی اصلاح کی بجائے بگاڑ کی طرف لے جا رہی ہیں.
ایسے دور میں کچھ ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو اسی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے انسانی اصلاح کیلئے خدا و رسولؐ کی فرامین کے مطابق قرآن مجید کی روشنی میں اس معاشرے کو روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے .جوں جوں انسان اچھائی کی طرف منازل طے کر رہاہے وہاں پر برائی بھی بڑھ رہی ہے اور برائی نے بھی دور جدید سے جدت سیکھ کر اچھائی کو مٹانے کی کوشش میں مصروف ہے اس دور کی برائی جو اچھے انسانوں کو ختم کر رہی ہے وہ بائیو لاجیک ہتھیار ہے.
جس انسان نے دور جدید کے فلمی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اس معاشرے کی اصلاح کے اپنے حصے کے کام کا آغاز کیا اس کا نام “فرج اللہ سلحشور” ہے جو ایران کا باشندہ تھا اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی پر قرآن حکیم کے مطابق فلم بنائی اور اس کے علاوہ بہت ساری اسلامی فلمیں بنائی جس سے ہمارے آنے والی نسلوں کو جن کو کتاب کی بجائے انٹرنیٹ سے زیادہ پیار ہے ان کے لئے اصلاح کی اچھی کاوش تھی.لیکن اس اچھے انسان کو بہت ہی پر اسرار طریقے سے ٹھکانے لگا دیا گیا .شاید اس نے اپنی اگلے والی فلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بریف کر دیا تھا اس کے اندر 500 کریکٹر ہیں اور موجودہ دور کے بنی اسرائیل کو اس کے ذریعے حقیت سے آگاہ کر دے گا.
لیکن اس پہلے وہ بھی بائیو لاجیکل ہتھیاروں کی نظر ہو گیا اور کینسر میں مبتلا کر دیا گیا.اس نے اپنے آخری وقت میں اپنی قریبی ساتھیوں کو خود بتایا کہ اس کا بیگ چوری ہوگیا تھا جب اس کو واپس ملا اس نے کپڑے پہنے اس کے بعد کھانسی آئی اور پھر زیادہ بیمار ہوگیا ہسپتال میں اس کی تشخیص کے دوران پتہ چلا اس کو کینسر ہے .فج اللہ سلحشور کا کہنا یہ تھا اس کو کینسر انجیکٹ کیا گیا ہے تاکہ اس کے اصلاحی کاموں کو روک دیا جائے.انشاءاللہ بہت جلد اللہ ہم کو اس سے اچھا بندہ عطا کرے گا جو فرج اللہ سلحشور کے کام کو آگے بڑھا سکے