Skip to content
  • by

غیرمنصفانہ نظام تعلیم

ویسے تو ہمارے ملک کا ہر شعبہ بددیانتی اور کرپشن کی اپنی مثال آپ ہے کہ نیچے سے لے کر اوپر تک سب ناجائز اور دو نمبر کام کو اپنا حق اور فرض سمجھتے ہیں۔بالکل اسی طرح ہمارے نظام تعلیم میں بھی نقل فراڈ اور دو نمبری عام ہے۔بھلے کوئی تسلیم نہ کرے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بیشتر شعبہ ہائے زندگی میں نوے فیصد عملہ رشوت سفارش اور دو نمبری سے بھرتی شدہ ہوتا ہے۔عوام پھر ان سے ایمانداری اور میرٹ سے کام کی توقع رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ باقی شعبوں کی خستہ حالی اور تباہ حالی کی گواہ وہ شعبے خود ہیں۔ نظام تعلیم کے حوالے سے پڑھی لکھی جہالت اور حد سے زیادہ مضحکہ خیزی کو عیاں کرنا میری تحریر کا اصل مدعا ہے۔

نہم اور دہم کے سالانہ امتحان 2022ء ابھی کچھ دن پہلے ہی اختتام پذیر ہوئے ہیں۔پنجاب کے تمام بورڈز کے پرچہ جات یقیناً بڑے بڑے ماہر اور قابل اساتذہ ہی بناتے ہوں گے۔ ان پرچہ جات میں سے ہر ایک پرچہ بورڈ کی کمیٹی بڑے غوروفکر کے بعد منتخب کرتی ہوگی اور ان پرچہ جات کو چیک بھی بڑے ماہر اساتذہ کرتے ہوں گے جو اعلیٰ ڈگریوں کے حامل ہونے کے باعث میرٹ پر منتخب ہوکر آنے والے بچوں کے تعلیمی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوں گے۔ ہم کم تعلیم یافتہ پرائیویٹ اساتذہ تو ان کے مقابلے میں شاید سطحی علم بھی نہ رکھتے ہوں لیکن ان ماہرین کے مقابلے میں اتنا احساس ضرور رکھتے ہیں کہ طالب علموں کے سکول میں ہونے والے عام ٹیسٹوں کو بھی پوری جانچ پڑتال سے بناتے ہیں پھر بھی اس میں غلطی ہونے کی صورت میں طالب علموں کو پورا حق دیتے ہیں اور اصلاح ضرور کرتے ہیں۔ یہ توفیق اگر نہیں ہوتی تو بورڈ کے ان اعلیٰ ماہرین کو نہیں ہوتی جو طالب علموں کے تعلیمی مستقبل سے غیرذمہ داری سے ایسا بھونڈا مذاق کرتے ہیں کہ یا تو وہ ہمیں رشوت اور سفارش سے بھرتی شدہ قصائی معلوم ہوتے ہیں یا ڈگریوں کا طوق گلے میں سجائے حقیقی علم اوراخلاقی مورال سے محروم ایسے حیوان معلوم ہوتے ہیں جن کا احساس، ضمیر اور ایمانداری سے دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا۔ ناقص پرچہ جات بنا کر جہاں طالب علموں سے کھلواڑ کرتے ہیں وہیں گھٹیا اور غیر معیاری چیکنگ سے ان کے مستقبل سے بھی کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں اور ری چیکنگ فیس کے نام پر رقم بٹور کر اپنی غلطی کو ماننے کی بجائے طالب علم کو ٹرخا دیتے ہیں کہ ساری چیکنگ درست ہوئی ہے۔

پرچہ چیکنگ کے حوالے سے میں نے بورڈ کےلیے کچھ اصول وضح کیے تھے ان کو دوبارہ دہرانے اور ان کو لاگو کرانے کےلیے ہروقت کی حکومت سے درخواست کرتا رہوں گا تاکہ طالب علم کی محنت کا حقیقی ثمر اسے ملے۔ناقص کارکردگی کا عالم یہ ہے ایک طالب علم نے ڈی جی خان بورڈ کی طرف سے جاری کردہ اپنی بارھویں کلاس کی رول نمبر سلپ سوشل میڈیا پر عیاں کی جس میں بورڈ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ کرتا دھرتاؤں نے مطالعہ پاکستان کا پرچہ 2 جولائی کو رات ڈیڑھ بجے کر دیا ہے۔ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ یہ غلطی ہے۔ مگر ایسی غلطی ایک آدھ بار ہو تو غلطی کہلائی جاسکتی ہے پرچہ جات میں بھی لایعنی اور ذومعنی باتیں ڈال کر بورڈ والے یہ ضرور ثابت کرتے ہیں کہ یہ ان کی غلطی نہیں بلکہ سوچی سمجھی جہالت ہوتی ہے۔ ان کے بنائے پرچہ جات میں بھی غلطی کو تسلیم کرلیا جائے تو پرچہ چیکنگ میں تو اصلاح منٹ میں ممکن ہوتی ہے لیکن وہاں پر بھی اپنی ڈھٹائی پر قائم رہ کر ری چیکنگ کرانے والے طالب علم کو ہمیشہ غلط ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے جس کے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں طالب علم ضرور گواہ ہوں گے۔تعلیمی بورڈ کے کرتا دھرتاؤں کی لاعلمی یا کم علمی کاثبوت گزشتہ سالوں کے سالانہ پیپر میں سے بھی بآسانی دیا جاسکتا ہے اور امسال کے پرچہ جات میں سے بھی۔ دو سال پہلے ان کے نقائص کی درستی کےلیے میں نے اپنی جیب سے ایک طالب علم کی ری چیکنگ فیس بھر کر اسے بھیجا لیکن ری چیکنگ کے نام پر مال کماؤ ٹولا جو خود کو اساتذہ میں شمار کرکے اس مقدس نام کو بدنام کرتا ہے کچھ بھی سننے اور سمجھنے کےلیے تیار نہیں ہوتا۔آپ میں سے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ ممکن ہے کہ طالب علم یا ہمارا موقف غلط ہو اور وہ درست ہوں۔ آپ کا یہ سمجھنا بجا ہے۔ ہم آج بھی اپنا موقف آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور بورڈ آپ کے سامنے اپنی دلیل ثابت کردے تو ہم خود کو کھلے دل سے غلط مان لیں گے۔

آپ سابقہ پرچوں کو چھوڑیں امسال نہم اور دہم کے سالانہ پیپر میں ہی ان کی بھونڈی کوتاہیاں دیکھ لیں جن پر وہ ٹس سے مس نہ ہوں گے اور نہ اصلاح کریں گے بلکہ حسب سابق ری چیکنگ فیس کے نام پر لوٹ مار کرکے بچوں کو ٹرخائیں گے۔ڈی خان بورڈ کے نہم کے ریاضی کے پرچہ کی معروضی میں لکھ دیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک موضوعہ ہے جبکہ آپشن میں سارے موضوعہ تھے۔ اس معروضی میں انھوں نے وہی آپشن ٹھیک کرنا ہے جو ان کے نزدیک درست ہوگا۔باقیوں کو رگڑا دے دیں گے۔ میرے خیال میں تو ان کو اب تک بھی پتا نہیں ہوگا کہ ہم نے ایسی جاہلانہ معروضی دی تھی پرچہ میں۔ اسی طرح نہم کلاس کے اردو کے پرچہ کے پہلے گروپ کی معروضی میں جملہ لکھا کہ ” بوڑھا کا مؤنث ہے ” چلو یہاں” کا ” اور “کی” کی غلطی کو نظرانداز کر دیتے ہیں مگر جوابی آپشن میں بوڑھی اور بڑھیا دونوں لکھ دیا حالانکہ طالب علم بُڑھیا کو بَڑھیا بھی پڑھ سکتا ہے۔ جبکہ بوڑھی بھی بوڑھا کی درست مؤنث میں شمار ہے مگر انھوں نے بڑھیا کو ہی درست ماننا ہے بس۔

اسی طرح دہم کے اردو کے پرچہ کےپہلے گروپ میں اعراب دیا گیا اور پوچھا گیا کہ کون سا درست ہے مگر وہاں دو اعراب ایسے دیے گئے تھے جو دونوں درست تھے یعنی مُتَرجَم بھی اور مُتَرجِم بھی۔ پہلے کا مطلب ہے ترجمہ کیا گیا جبکہ دوسرے کا مطلب ہے ترجمہ کرنے والا۔ ظاہری بات ہے بورڈ کے نااہلوں نے وہی ٹھیک کرنا ہے جس کو انھوں نے درست سمجھا ہوگا۔

دہم کے اردو ہی کے پرچے دوسرے گروپ میں اسم معرفہ کی اقسام پوچھی گئیں۔جو موجودہ سال کی قواعد و انشا کے مطابق چھے جبکہ گزشتہ پانچ سالوں کے ایڈیشن کے مطابق چار ہیں۔ اب پتا نہیں پرچہ بنانے والے کے ہاتھ کون سی قواعدو انشا لگی تھی۔ اسم معرفہ کی چار اقسام زیادہ مشہور ہیں۔ معلوم نہیں امسال قواعد بنانے والوں کو اسم استفہام اور اسم تنکیر کو اسم معرفہ کی اقسام میں شامل کرنے کا حکم کس اردو دان نے دیا تھا۔ امسال بہتری یہ ہوئی کہ پرچہ بنانے والوں نے اسباق کے مصنفیں کی تاریخ پیدائش و تاریخ وفات نہیں پوچھی ورنہ سابقہ اور موجودہ کتابوں میں ان میں بھی اختلاف نمایاں ہے۔ایسے نصاب ایسے پرچہ جات بنانے والوں سے طالب علم نصیحت پکڑیں یا ایسی عالمانہ نصاب سازی پر فخر کریں یا مستقبل میں ان کواپنا رول ماڈل بنائیں کیا کریں؟ یہ مستقبل میں خود ایسے ماہرین بن کر آنے والی نسل کی ایسی جاہلانہ خدمت کریں جو گزشتہ چند برسوں سے چلی آ رہی ہے۔

بالکل اسی طرح ملتان بورڈ کی بھی تھوڑی سی بات کریں تو ملتان بورڈ نے بھی نہم کے اردو کے پرچہ میں سنار کی مؤنث میں سناری اور سنارن دونوں آپشن دے دیے۔ سرکاری طور پر جاری شدہ قواعد و انشا کے حوالے سے دونوں آپشن درست ہیں۔ اسی طرح لفظ گرہستن کا مذکر پوچھا تو آپشن میں گرہستی اور گرہست دونوں لکھ دیے۔اگرچہ قواعدوانشا والی کتاب کے مطابق گرہست درست آپشن بنتا ہے لیکن حقیقی اصول و ضوابط کو دیکھا جائے تو گرہستی اصل جواب بنتا ہے۔ یعنی کوئی بچہ گرہستی کے آپشن پر دائرہ لگاتا ہے تو اردو قواعد کے مطابق پرچہ چیکر اس کے اس جواب کو غلط کرنے کا جواز نہیں رکھتا ہے کہ گرہستن کا اصل مذکر ہی گرہستی ہے نا کہ گرہست۔

ان تمام نقائص اور خامیوں کے حوالے سے بورڈ اپنی اصلیت واضح کرے اور طالب علموں کو باور کرائے کہ نشاندہی کے بعد ان سے ناجائزی نہیں کی جائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ بددیانتی والے اور کرپٹ دور میں طالب علم کیونکر ان پر اندھا اعتماد کرسکتے ہیں وہ اپنے پرچوں سے کھلواڑ کے اندیشے میں کیونکر مبتلا نہ ہوں کہ یہاں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے اور سب پیسے کے پجاری ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *