اب انگریزی اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور اپنے بوریاں بستر لپیٹ کر یہاں سے تو جا چکے ہیں لیکن اب بھی ہم نے اسکے نظام تعلیم کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ میں انگریزی زبان کی بات نہیں کررہا ہوں وہ تو صرف ایک زبان کی حد تک سیکھنا چاہیے بلکہ کوشش کی جائے کہ ہر زبان پر عبور حاصل ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ اگر آپ 2020 کے گیارویں کی انگلش کی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس میں ایک بھی اسلامی مضمون نہیں ہے بلکہ ابتدا میں بھی اسلامی مضمون نہیں تھا۔
اب انگریزی کے وضع کردہ اس نظام تعلیم نے مسلمانوں پر جو اثرات بد قائم کئے۔ ان کا احساس خود علی گڑھ تحریک کے بانی اور انگریزی تعلیم کے سب سے بڑے حامی سر سید احمد خان کو بھی آخری عمر میں ہوگیا تھا اور انہوں نے دکھ بھری حسرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ” تعجب ہے کہ جو تعلیم پاۓ جاتے ہیں اور جن سے قومی بھلائی کی امید تھی وہ مادہ پرست اور بدترین قوم ہوتے جاتے ہیں”۔ اسی طرح مولانا شبلی نعمانی نے انگریزی درس گاہوں کو ” خالی کوٹ پتلون کی نمائش گاہ” قرار دیا تھا اور اکبر الہ آبادی نے اپنے بے پناہ تہذیبی شعور اور دور اندیشی کی بدولت اس نظام تعلیم کے مضمرات کا اندازہ لگایا تھا۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں
~ شیخ مرحوم کا قول اب بھی مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
مسجد سنسان ہیں اور کالجوں میں دھوم ہے
مسلہ مجھے ترقی کا معلوم ہے
علامہ اقبال صاحب کو اس نظام تعلیم کی ہولناکیوں کا بخوبی اندازہ تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے کلام میں جگہ جگہ اسے بڑی شدت سے ہدفِ تنقید بنایا ہے وہ فرماتے ہیں
~ اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم
فقط سازش ہے دین و ملت کی
دوسری جگہ فرماتے ہیں
~ گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہا سے آئے صدا لا الہ الااللہ
شکایت ہے مجھے یا رب خداوند مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
ہمارے ملک میں تعلیمی نظام پر زیادہ تر خرچ زیادہ تر باہر ملکوں سے آتا ہے اور اکثر این جی اوز اسکے لئے بہت سرگرم رہتے ہیں۔ اس این جی اوز کا مقصد بالکل یہی ہے کہ پاکستان میں مغربی نظام تعلیم ترقی کرے اور اس کا ایک اہم پہلو کو ایجوکیشن سسٹم ہیں۔ اس کا مطلب محلوط نظام تعلیم جھاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور یہ ہماری لئے بربادی اور این جی اوز کی کامیابی ہیں۔ اس مطلب یہ نہیں ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہیے بلکہ لڑکیوں کو تعلیم دینا وقت کا تقاضا ہیں۔ لیکن اس کا کچھ حدود ہیں اگر وہ پار کردیتی ہیں تو تعلیم پھر فتنہ بن جاتا ہے بقول علامہ اقبال صاحب
~ اللّٰہ سے کرے دور وہ تعلیم بھی فتنہ
اولاد بھی،جائیداد بھی،جاگیر بھی فتنہ
ناحق کیلئے لڑے وہ شمشیر بھی فتنہ
شمشیر بے کیا وہ نعرہ تکبیر بھی فتنہ
طلباء کو الگ جامعہ،کالج یا سکول جبکہ طالبات کو الگ ہونا چاہیے اور اب تو کو ایجوکیشن سسٹم تو بہت پھیل چکا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہیں۔ فتنہ کی شکل اختیار کرلی ہے حکومت وقت نے اگر اس کیلئے اقدامات نہیں کئے تو یہ کنٹرول سے باہر ہو جاۓ گا۔تعلیم و تربیت حاصل کرنے کیلئے تین ذرائع کا ہونا لازمی ہیں۔
نمبر1-صحیح مآخذ تعلیم
نمبر2- صحیح معلم
نمبر3- صحیح طریقے سے
اگر اس میں ایک بھی صحیح نہ ہو یہ تعلیم وترتیب صحیح نہیں ہے۔