حضرت امام منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میرے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ کے ساتھ حضرت علی بھی تھے اور ہمارے یہاں کھجوروں کے خوشے لٹک رہے تھے تو حضور اکرم ان کھجوروں کو کھانے لگے اور حضرت علی کرم اللہ بھی حضور کے ساتھ کھانے لگے تو حضور نبی اکرم نے فرمایا اے علی, تم اس کو نہ کھاؤ کیونکہ تم بیماری سے اٹھے ہو اور ابھی تم کو نقاہت ہے حضرت ام منذر کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے ان حضرات کے لئے جو اور چقندر ڈال کر کھانا پکایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے علی تم اس کو کھاؤ اسلئیے کہ یہ تمھارے لیے موافق ہے فوائد و مسائل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھجوریں کھانے سے منع فرمایا اور چقندر اور جو کی کھچڑی کھانے کا حکم فرمایا. کیونکہ حضرت علی رضی اللہُ تعالیٰ عنہ بیماری سے شفایاب ہو ئے تھے لیکن ابھی نقاہت باقی تھی تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں کھجور جیسی دیر ہضم غذا سے پرہیز کا حکم دیا اور جو کی کھچڑی جو سریع الہضم اور بے ضرر غذا ہے اس کو کھانے کا حکم دیا. حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشاد سے یہ مسئلہ واضح ہوگیا کہ مریضوں اور کمزور لوگوں کو مضر غذاؤں سے پرہیز کرنا یہ تعلیم نبوت کا وہ انمول ارشاد گرامی ہے جس کی اہمیت و افادیت سے دنیا کا کوئی بھی عاقل روگردانی نہیں کر سکتا .یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر طبیب اور ڈاکٹر مریضوں کو مضرغذاؤں سے پرہیز کراتا ہے. یہاں تک بعض اطباء کا مقولہ ہے کہ پرہیز تمام تمام دواؤں کا سردار ہے جو مریض مضر صحت غذاؤں سے پرہیز نہیں کر تے جذبہ حرص سے مغلوب ہو کر ہر مفید و مضر غذائیں کھاتے رہتے ہیں وہ لوگ اپنے صحت کو برباد کرتے ہیں بلکہ ارشاد نبوت سے منہ موڑکر فرمان نبوی عمل نہیں کرتے اور ترک سنت کے وبال میں بھی مبتلا ہوا کرتے ہیں اس بات پر ایمان رکھنا لازم ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم روحانی و جسمانی طبیب اعظم ہیں. لہذا آپ کے فرمان نبوی پر عمل کرنا روحانی و جسمانی امراض سے صحت و شفایابی کے لیے اکسیر اعظم اور تریاق اکبر ہے اللہ تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو فرمان نبوت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین
انسانیت کی تعمیر میں اساتذہ کا بنیادی کردار ہے اساتذہ قوم اور نوجوانوں کی سیرت کو سنوارنے انہیں آئندہ آنے والے مسائل کا سامنا کرنے اور ان کی کردار سازی میں اہم ترین فریضہ سر انجام دیتے ہیں. اساتذہ نےاپنے علم کے ذریعے عقل کو علم سے آراستہ کرنے کا ہنر سکھایا. اپنی محنت سے نوجوانوں کو ڈاکٹر انجینئر سائنس دان اور سیاستدان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں منصبی پر فائز کر تے چلے آئے ہیں. اساتذہ نے دنیا بھر میں انسانیت سے محبت اور اخوت کا درس دیتے ہیں اور جہالت کی تاریکیوں کو علم کی روشنی سے ختم اور علم کی قندیلوں کو روشن و منور کر تے چلے آئے ہیں. درس و تدریس وہ پیشہ ہے جسے اسلام نے انسانوں کو معلم کی بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا اسلام نے معلم کو عزت و احترام عطا کیا. اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضور اکرم کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام کو بھیجا. حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے معلم کو انسانوں میں بہترین شخصیات قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن پاک سیکھے اور سکھائے اس حدیثِ پاک سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں معلم کا مقام و مرتبہ نہایت ہی اعلیٰ ہے حضرت علی رضی اللہُ تعالیٰ عنہ کا قول ہے جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں وہ چاہے مجھے آزاد کرے یا غلام بنا کر رکھے پانچ اکتوبر کا دن دنیا بھر میں اساتذہ کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اساتذہ کے لیے غور کرنے کا دن ہے کہ وہ اپنے فرائض کو اچھے طور پر سرانجام دے رہے ہیں کہ نہیں. اساتذہ کے لیے بچوں کی تربیت کرنا انہیں صحیح راستہ دکھانے زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنے آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا اور معاشی ترقی کیلئے ہنرمندی پیدا کرنا بطور معلم اہم ترین فریضہ ہوتاہے. اساتذہ کی محنت سے قوموں کی تقدیر یں بدل جاتی ہیں ہمارے معاشرے کاایک پہلو یہ ہے کہ یہاں اسکولوں میں درس و تدریس کے لئے رکھے گئے اساتذہ کو پیشہ وارانہ معاشی نقصان پہنچا کر ان کا استحصال کیا جاتارہا ہے اساتذہ کو تدریس کی ادائیگی کی بجائے گھروں سے بچے اکھٹے کرنے پولیو کے قطرے پلانے ووٹنگ لسٹ بنانے نردم شماری کرنے کا کام لے کر بچوں کو تعلیم کے حقیقی معنوں سے محروم کیا جا رہا ہے پھر ان حالات کی ذمہ داری اساتذہ پر ڈال کر ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر کے اساتذہ کی تذلیل کی جارہی ہے تعلیمی آفیسروں کی جانب سے اساتذہ کو بلاجواذ سزائیں دی جاتی ہیں کبھی اساتذہ کی انکریمنٹس سلب کی جاتی ہیں تو کبھی تنخواہ بند کی جاتی ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کو پر سکون طریقے سے تدریس کا عمل جاری رکھنے کیلئے ان کے خلاف پیڈا ایکٹ کی انتقامی کارروائیاں بند کی جانی چاہیے اساتذہ کی سکیلوں کی اپ گریڈیشن کی جانی چاہیے بہتر کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کو مستقل کیا جائے تاکہ اساتذہ بہتر طور پرتدریسی خدمات سر انجام دے سکیں.
اسلام کی آمد سے قبل یہ دنیا کیا تھی؟ جہالت کا گھر تھی گناہوں کی آلودگی سے لتھڑی ہوئی تھی یہاں قدم قدم پر انسانیت دم توڑ رہی تھی۔لیکن جب قوت خداوندی حرکت میں آتی ہے تو پھر کیا کچھ نہیں پلٹتا۔ اور جب قوت خداوندی نے اپنا رنگ دکھایاتو جہالت کے اندھیرے چھٹ گئےہر طرف نو ہی نور پھیل گیا۔نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم محسن انسانیت بن کر دنیا میں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے انسانیت مسکرانے لگی جہالت نے دم توڑ دیا۔ مساوات کی بنیاد پڑی۔ آقا و غلام ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں آمد بنی نوع انسان کے لیے بہت بابرکت ثابت ہوےی انسانیت شرافت کی راہ پر گامزن ہوئی بتوں کی پوجا کی جگہ ایک خدا کی حمد و ثنا ہونے لگی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے شرک اور بت پرستی سے نفرت کرتے تھے۔ روشنی کی ایک کرن پھوٹی جو ساری دنیا کو روشن کر گئی۔آپ کے اعلان نبوت اور تبلیغ حق کے نتیجے میں اپنے بھی بیگانے بن گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں پہنچائیں گئیں۔بے حد تکلیفیں دی گئیں۔ جب اہل ،کہ کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم سے ہثرب کی طرف ہجترت فرمائی ۔ ایک وقت آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا۔ آپ نے اس دن کسی کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ اپنی رحمت سے سب کو معاف کردیا۔ ۔کہنے کو تو ہم مسلامان ہیں لیکن اگر اسلامی دنیا پر نظر ڈالی جائے تو حقیقت واشگاف ہوتی ہےکہ ھمارے اعمال اسلام کی روح ک مطابق نہیں۔ہمارا ایمان کمزور ہوچکا ہے اور ہم ایک نامکمل ایمان کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہمارا اعمال اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتاجب تک ہمارے دل میں اپنے مال اولاد اور جان سے زیادہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہ ہوگی۔جنگ احد کے دوران ایک صحابی زخمی ہو گئے۔وہ دم توڑرہے تھے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ فمایا کوئی آرزو ہو تو بتاو؟ اس زخمی صحابی نے اپنے جسم کو گھسیٹا اور اپنا سر حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا کہ یہی زندگی کی واحد اور آخری خواہش تھی۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ڈیرہ بگٹی اگر ڈیرہ بگٹی کی پسماندگی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ماضی کی حکومتی پالیسیوں،عدم توجہی، کرپشن، بدانتظامی، ناقص منصوبہ بندی اور ان کے نتیجے میں بنیادی سہولیات کے فقدان کو بڑی وجوہات قرار دیا جاسکتا ہے۔ضلع میں تقریباً 80 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ضلع میں لوگوں کے معیار زندگی اور غربت کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ ضلع میں صرف 20 فیصد لوگوں کو پینے کی صاف پانی تک رسائی حاصل ہے۔بلوچستان کے جس ضلع نے پورے ملک کو گیس دی وہ پتھر کے دور میں ہے۔ویسے تو ڈیرہ بگٹی میں اس وقت چار گیس فیلڈز سوئی، لوٹی، پیر کوہ اور اوچ ہیں لیکن ان میں سب سے پرانی اور بڑی گیس کمپنی سوئی گیس کمپنی ہے۔جو انیس سو باون میں دریافت ہوئی اور انیس سو پچپن میں گیس کی پیداوار شروع ہوئی۔ڈیرہ بگٹی کی کل آبادی تقریباً ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہے۔ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس پاکستان کے کئی لاکھ صارفین کو تو ملتی ہوگی لیکن خود ڈیرہ بگٹی کے صارفین کو ٹھیک سے نہیں مل پا رہی ہے۔ڈیرہ بگٹی کے مقامی صارفین آج بھی اپنے چولھے لکڑیوں سے جلاتے ہیں۔یہاں کے لوگوں کی شکایت یہ ہوتی ہے کہ گیس ھمارے شہر سے نکلتی ہے جو سینکڑوں میل دور لاہور اور پشاور تک پہنچائی جاتی ہے لیکن ہم اپنے گھروں میں آج بھی لکڑیاں جلاتے ہیں۔برف بیچنے والے سے لے کر پکوڑے بیچنے والے تک سب کو یہی شکایت ہے کہ انہیں گیس، بجلی اور پانی کی روانہ قلت کا سامنا ہے۔پچاس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن یہاں اربوں روپے کمانے والی گیس کمپنیوں نے آج تک ایک سکول دیا اور نہ ہی ہسپتال۔ گیس، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولیات کے علاؤہ معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات حاصل نہ ہونا بھی ہے۔ضلع ڈیرہ بگٹی کی نصف آبادی دور دراز پہاڑی اور میدانی علاقوں میں آباد ہے۔انہیں اگر یہ سہولیات فی الحال نہ بھی مل پائیں تو خیر ہے لیکن جو قصبوں نما چند شہروں میں مقیم ہیں وہاں اگر ایک ایک سکول کالج اور چھوٹا سا ہسپتال قائم کیا جائے تو لوگوں کی زندگیاں آسان ہونگیں۔اس ضلع کی اہم بات یہ ہے ضلع قدرتی وسائل سے مالامال ہے مگر یہ بات انتہائی افسوس کی ہے کہ آج تک اس ضلع کو ہر شعبہ میں نظر انداز کیا گیا ہےاور اس کی عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری ہے۔خاص طور پر تعلیم کے میدان میں یہ ضلع زیادہ بد حالی کا شکار نظر آتا ہے۔بہترین وسائل اور بیش بہا قدرتی خزانوں سے مالامال یہ خطہ انتہائی غربت ، پسماندگی اور جہالت کا شکار ہے۔یہ غربت ہی ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔والدین اتنی استطاعت ہی نہیں رکھتے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابیں، کاپیاں اور بیگ خرید کر دے سکیں۔ہونا تو یہی چاہئے کہ حکومتیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھیں۔مگر حکومتوں کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں وڈیرہ شاہی نظام رائج ہے۔اس لیے وہ اپنے اولاد کو تو دوسرے صوبوں میں تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں۔جبکہ اپنے علاقے کے لوگوں کو بنیادی تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔یہاں تعلیم کا نظام اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتا جب تک حکومتیں اس مسئلہ کو ایک بہت بڑا مسئلہ نہ سمجھیں اور اس کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر نہ رکھیں۔یہاں چونکہ غربت بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی حصول تعلیم کے بجائے حصول رزق کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکیں۔یہاں حکومتی اور انفرادی طور پر سب کی ذمّہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور والدین میں یہ شعور اجاگر کریں کہ تعلیم ہی واحد راستہ ہے جس سے زندگیوں میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور اپنے معاش کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔خاص طور پر خواتین کی تعلیم پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں نوجوانوں کو آگے آنا چاہیے اور اپنے بزرگوں کو تعلیم کی اہمیت کے بارے میں قائل کرنا چاہیے کیونکہ یہ کام وہ سب سے بہتر اور آسانی سے کرسکتے ہیں۔اگر ہم نے ان مسائل پر ابھی بھی توجہ نہ دی تو پھر بقول علامہ اقبال ! “تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”