ڈیرہ بگٹی
اگر ڈیرہ بگٹی کی پسماندگی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ماضی کی حکومتی پالیسیوں،عدم توجہی، کرپشن، بدانتظامی، ناقص منصوبہ بندی اور ان کے نتیجے میں بنیادی سہولیات کے فقدان کو بڑی وجوہات قرار دیا جاسکتا ہے۔ضلع میں تقریباً 80 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ضلع میں لوگوں کے معیار زندگی اور غربت کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ ضلع میں صرف 20 فیصد لوگوں کو پینے کی صاف پانی تک رسائی حاصل ہے۔بلوچستان کے جس ضلع نے پورے ملک کو گیس دی وہ پتھر کے دور میں ہے۔ویسے تو ڈیرہ بگٹی میں اس وقت چار گیس فیلڈز سوئی، لوٹی، پیر کوہ اور اوچ ہیں لیکن ان میں سب سے پرانی اور بڑی گیس کمپنی سوئی گیس کمپنی ہے۔جو انیس سو باون میں دریافت ہوئی اور انیس سو پچپن میں گیس کی پیداوار شروع ہوئی۔ڈیرہ بگٹی کی کل آبادی تقریباً ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہے۔ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس پاکستان کے کئی لاکھ صارفین کو تو ملتی ہوگی لیکن خود ڈیرہ بگٹی کے صارفین کو ٹھیک سے نہیں مل پا رہی ہے۔ڈیرہ بگٹی کے مقامی صارفین آج بھی اپنے چولھے لکڑیوں سے جلاتے ہیں۔یہاں کے لوگوں کی شکایت یہ ہوتی ہے کہ گیس ھمارے شہر سے نکلتی ہے جو سینکڑوں میل دور لاہور اور پشاور تک پہنچائی جاتی ہے لیکن ہم اپنے گھروں میں آج بھی لکڑیاں جلاتے ہیں۔برف بیچنے والے سے لے کر پکوڑے بیچنے والے تک سب کو یہی شکایت ہے کہ انہیں گیس، بجلی اور پانی کی روانہ قلت کا سامنا ہے۔پچاس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن یہاں اربوں روپے کمانے والی گیس کمپنیوں نے آج تک ایک سکول دیا اور نہ ہی ہسپتال۔
گیس، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولیات کے علاؤہ معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات حاصل نہ ہونا بھی ہے۔ضلع ڈیرہ بگٹی کی نصف آبادی دور دراز پہاڑی اور میدانی علاقوں میں آباد ہے۔انہیں اگر یہ سہولیات فی الحال نہ بھی مل پائیں تو خیر ہے لیکن جو قصبوں نما چند شہروں میں مقیم ہیں وہاں اگر ایک ایک سکول کالج اور چھوٹا سا ہسپتال قائم کیا جائے تو لوگوں کی زندگیاں آسان ہونگیں۔اس ضلع کی اہم بات یہ ہے ضلع قدرتی وسائل سے مالامال ہے مگر یہ بات انتہائی افسوس کی ہے کہ آج تک اس ضلع کو ہر شعبہ میں نظر انداز کیا گیا ہےاور اس کی عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری ہے۔خاص طور پر تعلیم کے میدان میں یہ ضلع زیادہ بد حالی کا شکار نظر آتا ہے۔بہترین وسائل اور بیش بہا قدرتی خزانوں سے مالامال یہ خطہ انتہائی غربت ، پسماندگی اور جہالت کا شکار ہے۔یہ غربت ہی ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔والدین اتنی استطاعت ہی نہیں رکھتے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابیں، کاپیاں اور بیگ خرید کر دے سکیں۔ہونا تو یہی چاہئے کہ حکومتیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھیں۔مگر حکومتوں کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں وڈیرہ شاہی نظام رائج ہے۔اس لیے وہ اپنے اولاد کو تو دوسرے صوبوں میں تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں۔جبکہ اپنے علاقے کے لوگوں کو بنیادی تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔یہاں تعلیم کا نظام اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتا جب تک حکومتیں اس مسئلہ کو ایک بہت بڑا مسئلہ نہ سمجھیں اور اس کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر نہ رکھیں۔یہاں چونکہ غربت بہت زیادہ ہے
اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی حصول تعلیم کے بجائے حصول رزق کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکیں۔یہاں حکومتی اور انفرادی طور پر سب کی ذمّہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور والدین میں یہ شعور اجاگر کریں کہ تعلیم ہی واحد راستہ ہے جس سے زندگیوں میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور اپنے معاش کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔خاص طور پر خواتین کی تعلیم پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں نوجوانوں کو آگے آنا چاہیے اور اپنے بزرگوں کو تعلیم کی اہمیت کے بارے میں قائل کرنا چاہیے کیونکہ یہ کام وہ سب سے بہتر اور آسانی سے کرسکتے ہیں۔اگر ہم نے ان مسائل پر ابھی بھی توجہ نہ دی تو پھر بقول علامہ اقبال !
“تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”
4 comments on “ڈیرہ بگٹی”
Leave a Reply
انشاء اللہ ترقی ملے
تعلیم کا مسلہ پورے پاکستان میں ہے
لیکن بلوچستان باالخصوص ڈیرہ بگٹی کافی زیادہ پسماندہ ہی کا شکار ہے
اسی طرح لکھتے رہیں شاید کسی اعلی عہدیدار کو نظر آے ٴ
اللہ تعالی بہتر کرے گا
درست کہا