لفظ تعلیم عربی زبان کے لفظ علم سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں جاننا، واقفیت حاصل کرنا یا باطن کو روشن کرنا۔ لاطینی زبان میں تعلیم کو ایجوکیشن کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے تربیت حاصل کرنا۔
اگر اصطلاحی معنوں میں تعلیم کی تعریف کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ آنے والی نسلوں تک ادب اور ثقافت کو منتقل کرنا۔ علامہ اقبال کے نزدیک تعلیم وہ علم ہے جو دین کے مطابق انسان کی طبعی طاقتوں کو پروان چڑھائے۔ ارسطو کے مطابق تعلیم وہ عمل ہے جو بچے کی عادات اور خیالات کے علاوہ اس کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کرے۔
قرآن نے بھی علم کی اہمیت بہت واضح بیان کی ہے پہلی وحی کی ابتداء لفظ اقراء سے ہوئی جس کا مطلب ہے پڑھ۔ علم میں اضافہ کے لئے دعا بھی عطا کی گئی “ربی زدنی علما” ۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کو جہاں ہر طرح سے دیوالیہ کردیا وہیں تعلیم پہیہ بھی جام کردیا گیا مسلمان غور و فکر کرنے کے بعد آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ تعلیم کے بغیر دوبارہ عروج کسی صورت ممکن نہیں۔ بعض لوگوں نے دینی تعلیم پر زور دیا۔ جب کہ بعض لوگوں نے انگریزی تعلیم کی طرف لوگوں کو راغب کیا۔ اس طرح دو مختلف قسم کے علوم نافذ ہوئے۔ایک دینی اور دوسرا دنیاوی۔
تعلیم کے بنیادی تین درجے ہوتے ہیں:
۱۔ وقوفی درجہ
۲۔ استحسانی درجہ
۳۔ مہارتی درجہ
پہلا درجہ بچوں کی سوچ، ذہانت اور معلومات سے متعلق ہے۔ دوسرے درجہ کا تعلق بچوں کے حسی اور جمالاتی طاقتوں کے متعلق ہے۔ تیسرے درجہ کا تعلق بچوں کے عملی کام سے ہے جیسا کہ تصویریں اور ماڈل بنانا۔
پورا تعلیمی نظام دو قسم کا ہے:
*مروجہ رسمی تعلیم: یہ نظام تمام تعلیمی اداروں میں نافظ ہے۔ جس میں بچوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے۔
* غیررسمی تعلیم: وہ ہے جو پہلے نصاب کا حصہ رہا ہو لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت نہ رہی ہو۔ جیسا کہ یونانی فلسفہ اور طب وغیرہ۔
اختتام:
بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہم تعلیم کے وہ مقاصد حاصل نہیں کر پاۓ جو حاصل کرنا انتہائ ضروری ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے پڑوسی ممالک نے جو تعلیمی کامیابیاں سمیٹی ہیں ہم وہ حاصل نہ کر سکے۔ ہمارا تعلیمی نظام ۱۹۴۷ء سے وہی ہے۔
میرے خیال میں پاکستان میں ایسا نظام تعلیم واضع کرنا چاہیے جو بین الاقوامی سطح پر تعلیمی، معاشی اور سیاسی چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔
Sunday 6th October 2024 1:02 pm