عوام کی آواز
January 07, 2024

اعتبار

وُہ اعتبار مُجھے دے گا یا نہِیں دے گا؟؟ چلو دیا بھی اگر آپ سا نہِیں دے گا وہ لاکھ پیار لُٹائے، تُمہارے ہوتے مگر خُمار جیسا محبّت کا تھا نہِیں دے گا کِسی نے بِیچ سفر میں ہی راستہ بدلا مَیں خُوش گُمان کہ مُجھ کو دغا نہِیں دے گا جو دُور رہ کے بھی اِتنی دُعائیں دیتا ہے قرِیب ہو گا تو وہ شخص کیا نہِیں دے گا پلٹ کے جانا کِسی موڑ سے اگر چاہُوں وہ شخص مُجھکو کبھی راستا نہِیں دے گا بسے بسائے جو لوگوں کے گھر اُجاڑتا ہے تُمہی بتاؤ خُدا کیا سزا نہِیں دے گا؟ خُدا نے مُوسیٰ کو یہ مُعجزہ دیا تھا رشِیدؔ ہر ایک شخص کو تو وہ عصا نہِیں دے گا رشِید حسرتؔ

عوام کی آواز
December 14, 2023

نئیں مکانی غربت ایناں

نئیں مکانی غربت ایناں مکانہ ایناں غریب اے غریب جیدو مر جاوے غربت آپے مک جاوے غریب نوں مارن دے گور پرانے بجلی گیس پٹرول دے بانے کدی آکھن حکومتی سیانے آٹے دانے دے مک گئے خزانے ہون نواں گور آزماؤں غربت نوں جڑ توں مکاؤ گور پورا اتھنٹک اے نئیں بچدا اک وی گارنٹی پیچھے رہ جان سارے گور پرانے تیر لگے سیداں نشانے لا دیو ٹیکس ہون ساؤاں تے ساء کٹاؤ غریب مکاؤ غریب مکے ، غربت مکے ملک دی غربت توں جان چھوٹے۔   ( احمد شیر )

عوام کی آواز
September 24, 2023

*عقیدہ ختم نبوت اور دفاع پاکستان*

*عقیدہ ختم نبوت اور دفاع پاکستان*     (حصہ اول )   *تحریر مسز علی گوجرانوالہ* خود میرے نبی نے بات یہ بتا دی لا نبی بعدی، ہر زمانہ سن لے یہ نوائے ھادی لمحہ لمحہ ان کا طاق میں ہوا جگمگانے والا لا نبی بعد ی آخری شریعت کوئی آنے والی اور نہ لانے والا اصول جتنے ان کے ہر سخن میں نظم ہو گئے ہیں دین کے سارے رستے آپ تک پہنچ کر ختم ہو گئے ہیں ذات حرف آخر، بات انفرادی لا نبی بعد ی قول آقا ہے نمایاں لا نبی بعد ی اسلام کی بنیاد توحید، رسالت اور آخرت کے علاوہ جس بنیادی عقیدہ پر ہے، وہ ہے ”عقیدہ ختم نبوت”۔ حضرت محمد ﷺ پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ آپﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ یہ عقیدہ اسلام کی جان ہے۔ ساری شریعت اور سارے دین کا مدار اسی عقیدہ پر ہے’ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور آنحضرت کی سیکڑوں احادیث اس عقیدہ پر گواہ ہیں۔ قرآن کریم کی سورہ احزاب میں ارشاد ہوا ہے ”حضرت محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں”۔ عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح حضور کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں: نمبر1۔ میں خاتم النبیین ہوں’ میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں۔ (ابوداؤد ج:2 ، ص:228) نمبر2۔ مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰۃ: 512) نمبر3۔ رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی’ج:2، ص:51) نمبر4۔ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ:297) نمبر5۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (مجمع الزوائد’ج:3 ص: 273) وہ خاتم الانبیاء تشریف فرما ہونے والے ہیں نبی ہر ایک پہلے سے سناتا یہ خبر آیا حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا ،،بے شک میں اللہ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا اور بے شک حضرت آدم علیہ السلام اپنی مٹی میں گھند ے ہوئے تھے۔،، عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا اس بات پر باقاعدہ اجماع ہوا کہ مدعی نبوت واجب القتل ہے، آپ کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لیے جتنی جنگیں ہوئیں ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کی تعداد259 ہے اور تاریخ میں پہلی جو جنگ سیدنا صدیق اکبر کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ میں لڑی گئی ۔ آپ نے اپنی زبان حق سے نبوت کو ایک محل سے تشبیہ دے کر خود کو اس کی آخری اینٹ قرار دیا جس کے معنی یہ ہیں کہ قصر نبوت مکمل ہو چکنے کے بعد اب اس میں ایک بھی اینٹ کی گنجائش نہیں ہے۔آپ نے احادیث مبارکہ میں خاتم النبیین کی صراحت ،،لا نبی بعدی ،، کے الفاظ کے ذریعے فرما کر ہر قسم کی نبوت کے امکان کی کلیتاً نفی فرما دی۔ فرما گئے یہ نبوت کے تاجدار تا حشر میرے بعد نبوت نہ آئے گی قرآن كتاب ہے وہ ہدایت ہے جس کے پاس اب اس سے آگے بڑھ کر ہدایت نہ آئے گی چھ ستمبر یومِ دفاعِ پاکستان اور 7 ستمبر یومِ تحفظِ ختمِ نبوت ہے، ان دونوں کے ساتھ ہماری تاریخ وابستہ ہے اور دینی و ملی روایات وابستہ ہیں، اس موقع پر تقریبات ہوتی ہیں، وطن کے شہداء اور ختم نبوت کے شہداء کو یاد کیا جاتا ہے، جن کی قربانیوں کی بدولت ہمارا ملک بھی محفوظ ہے اور عقیدہ بھی بحمد اللہ محفوظ ہے۔ اس لیے وطن کے دفاع کا لحاظ کرنا وطن کا تقاضہ تو ہے ہی، دین کا تقاضہ بھی ہے اور جناب نبی کریمؐ کی سنتِ مبارکہ ہے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ تیس دجال و کذاب ظاہر ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ بے شک اللہ کا رسول ہے۔ اس ملک میں جب تک نفاذ شریعت نہیں ہو گا یہ قادیانی ناسور ختم نہیں ہو گا، کیونکہ پوری مغربی دنیا اس کی پشت پر ہے چاہے وہ یہودیت ہے، پروٹسٹ عیسائی ہیں یا کیتھولک عیسائی ۔ پاکستان میں اہم عہدوں پر قادیانی فائز ہیں۔ڈاکٹرز اور انجینئرز قادیانی ہیں۔پوری دنیا میں ایک ہی مسلمان سائنس دان ٹاپ پر آیا جو کہ قادیانی تھا ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا جج قادیانی بنا ، قادیانی کافر عوام الناس کی نفسیات کو متاثر کرتے ہیں اور دنیاوی مراعات کا لالچ دے کر اپنا مشن پھیلاتے ہیں۔ یہ دیمک کی طرح پھیل رہا ہے جس کا سدباب بے حد ضروری ہے۔قادیانی نہ صرف شعار اسلامی کو استعمال کر رہے ہیں، یہ نماز جمعہ اور عیدین کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ انہوں نے الٹا مظلومیت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ملک کے آئین میں اس فرقے کو کافر قرار دینے سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا ،جب تک مرتدین کی سزا قتل نہیں ہو گی۔ختم نبوت کی حفاظت کے لیے ہم ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ختم نبوت کی حفاظت ہمارا جزو ایمان ہے۔ ہم ختم نبوت کا جو اظہار کریں گے گر جرم عقیدت ہے تو ہر بار کریں گے۔ مرتد کے احکام میں سے یہ ہے کہ اسے مہلت دو، موقع دو۔ اگر سمجھانے بجھانے کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد بھی اسلام کو نہ مانے تو اسے موت کے گھاٹ اتار دو۔

عوام کی آواز
September 15, 2023

رنگ برنگ اے دنیا ساری وے

غزل     رنگ برنگ اے دنیا ساری وے رشتہ خلوص دا اتھے کوئی نئیں منافقت دا اتھے ڈیرہ وے اخلاص دا پیاں نا پھرا وے جیتھے ہوۓ مطلب اتھے سارے نے مطلب دے سب پیارے نے جیدو ہو جاوے پورا مطلب فیر سب ہی پیٹھ وہاندے نے اتھے ذی القربا دا حق کوئی نہیں اتھے اپنے سب بگانے نے احمد شیر

عوام کی آواز
September 13, 2023

اے حروف قرآن فرماندے نے

اے حروف قرآن فرماندے نے    صفتاں اللہ دییاں بتلاندے نے  اے کہندے رب رحیم وے  اے کہندے رب کریم وے  اے کہندے رب الغفار وے  اے کہندے رب القھار وے  اے کہندے رب العظیم وے  اے کہندے رب العلیم وے  اے کہندے رب کبیر وے  اے کہندے رب خفیظ وے  اے حروف قرآن فرماندے نے  صفتاں اللہ دییاں بتلاندے نے  اے کہندے رب البصیر وے  اے کہندے رب الحکیم وے  اے کہندے رب الحسیب وے  اے کہندے رب الجلیل وے  اے کہندے رب اللطیف وے  اے کہندے رب الخبیر وے  اے کہندے رب الرحمٰن وے  اے کہندے رب فیضان وے  اے کہندے رب الوھاب وے  اے کہندے رب الرزاق وے  اے کہندے رب اؤل وے  اے کہندے رب آخر وے  اے کہندے رب علی کل شیء قدیر اے  اے حروف قرآن فرماندے نے  صفتاں اللہ دییاں بتلاندے نے  اے خود بڑے عظیم نے  کیونکہ اے اللہ دا نزول نے                                                                                      ( احمد شیر )

*کل نفس ذائقہ الموت*

*کل نفس ذائقہ الموت*     تحریر: مسز علی گوجرانوالہ “بے شک ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے “ موت تو برحق ہے ، موت سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں، کیونکہ اللّٰہ نے جب روح کو جسم میں داخل ہونے کا حکم دیا تو روح نے کہا میں اس کال کوٹھڑی میں نہیں جانا چاہتی تب اللّٰہ پاک نے وعدہ فرمایا کہ ایک دن تمہیں نکالوں گا ۔ “اور بے شک اللّٰہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا “ ٫کل نفس ذائقہ الموت” اس جملے سے مجھ سمیت ہر مومن واقف ہے لیکن کبھی ہم نے غور کیا کہ اللّٰہ پاک نے اس جملے میں کیا معنی چھپا رکھے ہیں ؟؟ اسکا مطلب ہے کہ “ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ” اسکا یہ مطلب بھی تو ہو سکتا تھا نا کہ” ہر ذی روح کو موت آنی ہے ” لیکن نہیں ذائقہ یعنی کہ ٹیسٹ ، اس لفظ کا مطلب بہت غور طلب ہے کیونکہ جب ہم کچھ کھاتے ہیں تو ہمیں ہماری پسند کے مطابق اسکا ذائقہ محسوس ہوتا ہے کسی کو اچھا تو کسی کو برا ، موت کا بھی یہ ہی مطلب ہے کہ ہم میں سے ہر کسی نے اپنے اعمال کے مطابق موت کے ذائقے کو چکھنا ہے کسی کو شہد کی طرح میٹھا لگے گا اور کسی کو نیم کی طرح کڑوا ، آیت دکھنے میں چھوٹی ہے لیکن مفہوم بہت ہیں اسکے ، اسی لیئے کوشش کریں کہ اپنے اعمال کو اس طرح بنائیں کہ رب کے حضور شرمندگی نہ ہو اور موت کا ذائقہ ہمیں شہد جیسا میٹھا محسوس ہو ۔ بے شک وہی معاف کرنے والا ہے۔۔۔۔

۔۔۔۔تعصب۔۔۔

۔۔۔۔تعصب۔۔۔     از۔۔۔۔۔ارم رحمٰن ایڈووکیٹ لاہور ہمارے معاشرے میں خصوصی طور پر اور دیگر معاشروں میں عمومی طور پر تعصب نامی عفریت کا وجود تقريبا ہر جگہ پایاجاتا ہے ۔ اس کاسبب اور محرکات جاننے کے لیے سب سے پہلے اس کا مطلب اور مفہوم سمجھناہوگا ۔ تعصب کا مطلب ہے کسی بھی انسان یا گروہ کے تعلق سے منفی ، معاندانہ یا مشکوک رویہ رکھنا ،اسے خود سے کمتر یا حقیر سمجھنا یا اس کے لیے ایسا سلوک اختیار کرنا جس میں عزت، احترام ،خلوص اور بھلائی کاپہلو نہ نکلتا ہو ۔ اس تعصب کو اگر دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو اس کامفہوم کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ اپنے پسندیدہ انسان یا گروہ کو ایسی مراعات اور سہولیات دینا جن کا وہ حقدار نہ ہو، اور اتنا احترام اور اہمیت دیناجس کاوہ اہل نہ ہو ۔ الغرض تعصب کی بے انتہا اقسام ہیں اور مزید بن سکتی ہیں ۔ تعصب کی بہت اہم اور نمایاں وجوہات میں سب سے چند درج ذیل ہیں نمبر1.عدم مساوات زندگی کے ہر پہلو میں ناہمواری اور غیر برابری ،چاہے وہ کسی بھی شکل وصورت میں ہو، چاہے لسانی تعصب ہو یا پھر ذات اور برادری سے متعلق ہو یا پھر معاشی اور سماجی ۔ یہ سب عدم مساوات کی مثالیں کہلاتی ہیں اور تقریباً ہر انسان ان تعصبات میں الجھا نظر آتا ہے یا الجھا دیا جاتا ہے ۔ نمبر2. مذہبی عقائد اکثر دیکھا گیا ہے کہ مختلف مذاہب اور ان کے پیروکار اپنے علاوہ کسی دوسرے کے عقائد کو عزت اور اہمیت نہیں دیتے ۔ انھیں اپنے سوا دوسرے عقائد جھوٹ اور غلط دکھائی دیتے ہیں اور مبینہ طور پر ان مذہبی عقائد کی عجیب و غریب توجیحات و توضیحات پیش کی جاتی ہیں ۔ اور اکثریت مسلک، فرقہ اور عقائد پر ایک دوسرے سے برتری اور سبقت لے جانا اپنا حق سمجھتی ہے ۔ نمبر3.عدم انصاف قانون کی بالا دستی اور اس کا ایک ہی ملک کے باشندوں پر یکساں اطلاق نہ ہونا تعصب کی بدترین اور اذیت ناک قسم ہے جس سے سماجی بگاڑ میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے ۔ عوام اس ناانصافی کے ہاتھوں پستے ہوئے بغاوت پر اتر آتی ہے ۔ اکثر قانون شکنی کرتے ہوئے قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ یا تو انصاف نہیں ہوگا یا پھر امیر اور بااثر طبقہ دولت اور اثرورسوخ سے انصاف خرید سکتا ہے یا اپنے ضمیر کا سودا کرسکتا ہے ۔ اصل حقدار اور مظلوم انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے ۔ اسی تعصب کی وجہ سے بہت سی نیکیاں اور بھلائیاں پس پشت رہ جاتی ہیں یا انہیں بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرناپڑجاتا ہے ۔ کوئی بھی معاشرہ کسی عدم توازن کی صورت میں کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیتا ہے لیکن عدم انصاف پر مبنی معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا ۔ اس کے حکمران کبھی بھی وفادار اور عوام کبھی خوددار نہیں ہوسکتے ۔ جب محروم طبقے کو پتہ چلتا ہے کہ کہیں بھی اس کی دادرسی نہیں ہوگی تو اس کی وفادرای بھی متزلزل ہوجاتی ہے ۔ تعصب کی نفسیاتی وجوہات کچھ تعصب خالصتاً نفسیاتی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ کوئی انسان اپنی بد فطرتی اور جبلت کے پیش نظر کسی دوسرے کو خود سے بہتر نہیں سمجھتا یا بہتر نہیں سمجھ پاتا ۔ اس کے سامنے کتنا بھی معزز اور قابل شخص آجائے وہ اس کا احترام نہیں کرتا اور اپنی جھوٹی انا اور ضد میں لوگوں سے تعلقات خراب کرلیتاہے اور ایسی کئی حرکات کر گزرتا ہے جو صرف ایک دو ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے باعث تکلیف واذیت کا سبب بنتی ہیں ۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ کیا مذہبی تقلید کا پیروکار رہ کر اس تعصب سے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے ؟ تو یہاں بھی صورتحال مبہم اور بے اثر محسوس ہوتی ہے کیونکہ ایک ہی ملک میں مختلف مذاہب کے پیرو کار اپنی زندگی گزارتے ہیں اور بہت لوگ تو مذہب کی بھی مزید شاخیں بنا دیتے ہیں اور بہت سی ایسی بدعتیں کو چلن اور رواج میں لاتے ہیں جن کا اصل میں مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ اب اس باریکی کو سمجھنے کے لیے جتنا علم اور عمل درکار ہے وہ معاشرے میں مفقود ہے ۔ کیا نفسیاتی ماہرین کے پاس تعصب کا علاج ہے ؟ ہمارے معاشرے میں نفسیاتی ماہرین نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ بڑے محدود پیمانے پر علاج کر پاتے ہیں اور ان کا علم اتنا وسیع اور عام فہم نہیں ہوتا کہ سب سمجھ سکیں ۔دوسری بات کہ نفسیاتی ماہرین سے رجوع کرنے والوں کو ہمارے اطراف اور ہمارے سماج کے لوگ پاگل سمجھنے لگتے ہیں جبکہ یہ بھی ایک طریقہء علاج ہے اور انسانی سوچ اور رویوں کو درست سمت میں لانے کے لیے مؤثر لائحہ عمل ہے ۔ لیکن تا حال ہمارے معاشرے میں اسے ابھی تک شرف قبولیت حاصل نہیں ہوسکا ہے ۔ اکثریت ایسی بھی ہے جو اسے مذہب کے مخالف سمجھتی ہے اور ہر مسئلے کا حل مذہبی نکتہ نظر سے اخذ کرنے کو ترجیح دیتی ہے پھر چاہے خود مذہب نے ہی اس مخصوص طریقہ علاج کی اجازت کیوں نہ دے رکھی ہو ۔ کیا قانونی طور پر تعصب کو کم سے کم کرنے کا حل نکل سکتا ہے ؟ تو اس کا جواب کسی حد تک ہاں میں ہے ۔ کیونکہ جب سب لوگ اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر معاشرے اور سماج میں کام کرتے نظر آئیں گے تو عوام کے شعوری اور لاشعوری رویوں میں لازماً تبدیلی آئے گی ۔ کسی غریب کو کوئی امیر بے جا اور ناجائز تنگ نہیں کر سکے گا ۔ ثروت مند اور اثرورسوخ والے لوگ بے سبب کسی معمولی غریب کا حق نہیں ماریں گے تو بہت سے ذہن اس بات کو فوری تسلیم کرلیں گے کہ صرف اہلیت اور قابلیت ہی کام آئے گی ۔ سماجی رویوں میں برابری اور معاشرتی نا ہمواریوں کو دور کرنے کے لیے قانون بہت ٹھوس اقدام کرسکتا ہے ۔عوام کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دینا قانونی اور اخلاقی پستی کا سبب بنتا ہے ۔ اخلاقی اقدار کا جنازہ

اِنتظام کھانے کا

اِنتظام کھانے کا ہے اِنتظار فقط پِھر بہار آنے کا پتہ لگائے گا صیّاد آشیانے کا بُلایا بزم میں، پِھر آنکھ بھر نہِیں دیکھا ملال کیا مِرے مایُوس لوٹ جانے کا مَرا جو گاؤں میں فاقوں سے، اُس کا سوئم ہے کِیا ہے مِیر نے یہ اِنتظام کھانے کا بدل گیا ہُوں، کہ حالات کا تقاضہ تھا جواز کوئی نہِیں پاس تیرے آنے کا ہُؤا ہُوں دُور جو اپنوں سے، سر پہ بن آئی بڑا جُنُون تھا پردیس میں کمانے کا گِرانی ہونٹوں کی مُسکان لے اُڑی یارو بہانہ ڈُھونڈ کے لایا ہوں مُسکرانے کا پڑا ہے اُوندھا، محبّت کا شہسوار تھا جو بڑا تھا شوق اُسے بخت آزمانے کا کہا سُنا جو کبھی، تُم مُعاف کر دینا خیال دِل سے نکالا ہے تُم کو پانے کا کبھی تو بِن کہے بھی بات مان لیتا تھا رشِیدؔ گُر اُسے آیا ہے اب ستانے کا (رشِید حسرتؔ )

ثمرات رہے

ثمرات رہے جِتنے دِن کا ساتھ لِکھا تھا، سات رہے اب کُچھ دِن تو آنکھوں میں برسات رہے اب نا شُکری کرنا اور مُعاملہ ہے حاصِل ہم کو عِشق رہا، ثمرات رہے اندر کی دیوی نے یہ چُمکار، کہا نرم ہے دِل تو کاہے لہجہ دھات رہے؟ تُم ویسے کے ویسے ہو تو لایعنی مانا قُربانی بھی کی، عرفاتؔ رہے ایک اکیلے شخص کا کام نہِیں لگتا شامِل اُس کے ساتھ کئی جِنّات رہے ایک بھی دِل جو تُم تسخِیر نہ کر پائے کیا پایا؟ جو حاصِل کائےنات رہے ہم تھے، بے چینی کے حلقے، اور سکُوت دِن میں تھوڑی چُھوٹ مِلی تو رات رہے شاہوں کی شہ خرچی کم نا ہو پائی ہم جیسوں کے جیسے تھے حالات، رہے حسرتؔ اِن آنکھوں میں چشمے پُھوٹ پڑے جِتنا چُپ رہ سکتے تھے، جذبات رہے رشِید حسرتؔ

صحت مند طرز زندگی کے لیے نیند کی اہمیت

عنوان: صحت مند طرز زندگی کے لیے نیند کی اہمیت نیند ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی پہلو ہے جسے ہماری تیز رفتار دنیا میں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ڈیڈ لائن کو پورا کرنے، لمبے گھنٹے کام کرنے یا سماجی تقریبات میں شرکت کے لیے نیند کی قربانی دیتے ہیں۔ تاہم، صحت مند طرز زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے نیند بہت ضروری ہے، اور اسے نظر انداز کرنے کے اہم نتائج ہو سکتے ہیں۔ نیند ہمارے جسموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو ٹھیک کر سکیں۔ یہ نیند کے دوران ہے کہ ہمارے جسم ہارمون پیدا کرتے ہیں اور جاری کرتے ہیں جو ترقی اور بھوک کو منظم کرتے ہیں، ٹشووں کی مرمت کرتے ہیں، اور مدافعتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں. مناسب نیند لینے سے یادداشت، علمی افعال اور مجموعی ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ نیند کی کمی کا تعلق صحت کے مختلف مسائل سے ہے، جیسے موٹاپا، ذیابیطس، دل کی بیماری، اور یہاں تک کہ بعض قسم کے کینسر۔ نیشنل سلیپ فاؤنڈیشن کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ فی رات سات گھنٹے سے کم نیند لیتے ہیں ان میں صحت کے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ مزید برآں نیند کی کمی ہماری دماغی صحت کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ نیند کی دائمی کمی بے چینی، ڈپریشن اور موڈ کی دیگر خرابیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ فیصلے کرنے، جذبات کو کنٹرول کرنے اور تناؤ سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اچھی رات کی نیند کو یقینی بنانے کے لیے، یہ ضروری ہے کہ نیند کا ایک مستقل شیڈول قائم کریں اور اس پر قائم رہیں، یہاں تک کہ اختتام ہفتہ پر بھی۔ سونے کے کمرے کو تاریک، پرسکون اور ٹھنڈا رکھ کر آرام دہ نیند کا ماحول بنانا بھی ضروری ہے۔ سونے سے پہلے کیفین، الکحل اور نیکوٹین سے پرہیز کرنا بھی نیند کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آخر میں، نیند ایک صحت مند طرز زندگی کا ایک اہم جزو ہے، اور اس کو نظر انداز کرنے سے ہماری جسمانی اور ذہنی تندرستی کے لیے اہم نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ نیند کو ترجیح دینے اور پرسکون رات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے سے، ہم اپنی مجموعی صحت اور معیار زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ — Sami Arshad <samiarshad4455@gmail.com

Corruption

Corruption Corruption means practices or decisions that result in unfavorable solutions for lesser parties When there is moral degradation can maker is moral degradation, no amount of honest valuation can make you realize that you have gone on the wrong path. A quote says that one cannot fight Corruption by fighting it” and this is entirely correct Corruption means the act which stems from Lust or greed for money and going to any and every length needed to get illegal tasks done. Corruption is active in each and every part and country of the world. Corruption cannot be stopped or executed in any way. Kashf Akhlaq Sudhan

شمال بندن

شمال بندن شمال بندن چربندر کے مغرب میں واقع ایک خوبصورت ساحل ہے یہ پسنى شہر سے تقریباً 40 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے یہاں کا پہاڑى سلسلہ ایک دلفریب منظر پیش کرتا ہے یہاں مختلف نوعیت کے پکنک پوائنٹ موجود ہیں سیاحت کى دنیا میں بھى شمال بندن ایک بہت بڑى اہمیت کے حامل ساحل ہے۔ شمال بندن کا نام شمال بندن اس لئے رکھا گیا کہ مغرب کى طرف سے آنے والى تیز ہواوں اور بلند و بالا لہروں کو بندرگاہ نما پہاڑ روک لیا کرتے تھے اور مائگیر کشتیوں سمیت محفوظ ہوا کرتے تھے شمال بلوچى زبان کا لفظ ہے مغرب کى طرف آنے والى ہواوں کو بلوچى میں شمال کہا جاتا ہے زمانہ قدیم سے کڈى شمال بندن کا ایک مشہور ساحل ہوا کرتا تھا جہاں چربندر کے ماہىگیروں دن رات پڑاو ڈالا کرتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور سمندرى کٹاو تیز ہونے کے سبب کڈى کا وجود ختم ہوگیا آج بھى بہت سے پہاڑى سلسلے سمندرى کٹاو کے سبب زمین بوس ہوتے جارہے ہیں جن میں کالانى کچ،مک،شمالبندن سنٹ اور مہدانى وغیرہ سمندرى کٹاو کى زد میں ہیں اگر حکومتى سطح پر کوئى ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو سارا شمال بندن صفحہ ہستى سے مٹ جائے گا۔ چربندر ،چکلى،زمىن توک، کنڑاسول،شتنگى ، گرانى اور کپر وغیرہ کے عوام الناس کا زیادہ تر ذریعہ معاش اسى ساحل سے وابستہ ہے۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ شمال بندن اور اس کے مضافاتى علاقے پہاڑى سلسلہ زیر کوہ سے ملحق ہے زیر کوہ یہاں سے تقریباً 3 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔شمال بندن کا ساخت بندرگاہ نما ہے اگر یہاں بندرگاہ تعمیر کیا جائے تو بہت کم بجٹ میں ایک خوبصورت بندرگاہ بن سکتا ہے چربندر اور اس سے جتنے ملحقہ علاقے ہیں انکا سب سے بڑا مسئلہ ذریعہ معاش ہے اور ان علاقوں کا ذریعہ معاش سمندر سے وابستہ ہے شمال بندن میں بندرگاہ کا قیام معاشى ترقى اور خوشحالى کا ضامن ہوسکتا ہے اس نیک کام کے لیے سب سیٹھوں اور غریب ماہىگروں کو متحد ہونا چاہیئے اپنے علاقے کے ایم این اے. اور ایم پی اے کو اسمبلى میں آواز اٹھانے کے لئے زور دینا چاہیے ہر کوئى اپنے بساط کے مطابق بات کو آگے لیجانے کى کوشش کرے غریب مائگر بندرگاہ نہ ہونے کے سبب بہت سے مشکلات سے دوچار ہیں ۔موسم سرما کا جمع پونجى موسم گرما میں سمندر کى خراب صورتحال اور بندرگاہ کى عدم دستیابی کہ وجہ سے ختم ہوجاتا ہے اگر بندرگاہ کا قیام عمل میں لایا جائے تو غریب مائگىر برسر روزگار ہونگے وہ موسم گرما میں بھى سمندر کا رخ کریں گے اور انکے معاشى حالات بہتر سے بہتر ہو جائینگے اور شاہد وہ ادھار تلے دبے نہىں رہتے چنانچہ شمال بندن کو جغرافیا ئى لحاظ سے ایک بہت بڑا اہمیت حاصل ہے۔ اہل علاقہ اور مضافاتى علاقوں کے معاشى حالات کو بہتر بنانے کے لیے شمال بندن میں بندرگاہ کا قیام انتہائى ضرورى ہے تاکہ عوام الناس سال کے چاروں موسموں میں بندرگاہ کى عدم موجودگى کے باعث سمندر کا رخ کرسکیں اسطرح غریب مائىگر مئى،جون،جولائى،اگست،ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں بھى برسر روزگار ہونگے یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا جب شمال بندن میں بندرگاہ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

The importance of protecting your skin from blue light emitted by electronic devices.

The importance of protecting your skin from blue light emitted by electronic devices. In today’s world, electronic devices have become an essential part of our lives. We use them to stay connected with our friends and family, to work, to study, and for entertainment purposes. However, little attention is paid to the negative effects of the blue light emitted by these devices on our skin. Blue light, also known as high-energy visible (HEV) light, is a type of light that is emitted by electronic devices such as smartphones, laptops, tablets, and televisions. This type of light has a short wavelength, which means it can penetrate deeper into the skin compared to other types of light. Studies have shown that exposure to blue light can cause damage to the skin, leading to premature aging, hyperpigmentation, and skin cancer. One of the main reasons why blue light is harmful to the skin is that it can increase the production of free radicals. Unstable chemicals known as free radicals can harm cells, including skin cells. When the skin is exposed to blue light, it triggers the production of free radicals, which can cause inflammation, oxidative stress, and ultimately, damage to the skin cells. Another way in which blue light can harm the skin is by disrupting the body’s circadian rhythm. The circadian rhythm is the body’s internal clock that regulates sleep and wake cycles. Exposure to blue light at night can disrupt the circadian rhythm, making it difficult for the body to fall asleep. This can lead to sleep deprivation, further harming the skin by increasing inflammation and causing the skin to age prematurely. Fortunately, there are several ways to protect the skin from the harmful effects of blue light. One of the simplest ways is to limit the amount of time spent in front of electronic devices. This can be achieved by taking regular breaks, using a timer, or setting a schedule for device use. Another way is to use blue light-blocking glasses or screens, which can help reduce the amount of blue light that reaches the skin. In addition, incorporating skincare products that contain antioxidants can help protect the skin from the damage caused by free radicals. Antioxidants are chemicals that stop free radicals from harming skin cells by neutralizing them. Some examples of antioxidants that can be found in skincare products include vitamin C, vitamin E, and niacinamide. Maintaining a healthy diet and way of life is crucial for shielding the skin from blue light. Eating a diet rich in fruits, vegetables, and whole grains can give the body the necessary nutrients to repair and protect the skin. The skin can also be kept strong and healthy by getting adequate sleep, being hydrated, quitting smoking, and abstaining from excessive alcohol use. In conclusion, the harmful effects of blue light on the skin are often overlooked, but they should not be ignored. Protecting the skin from blue light can help prevent premature aging, hyperpigmentation, and even skin cancer. Limiting the amount of time spent in front of electronic devices, using blue light-blocking screens or glasses, incorporating antioxidant-rich skincare products, and maintaining a healthy lifestyle can all help protect the skin from the damaging effects of blue light. By taking these simple steps, we can enjoy the benefits of electronic devices without sacrificing our skin’s health and vitality.

درود پاک کی اہمیت

درود پاک کی اہمیت روزانہ ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھیں صلی اللّٰہ علیہ وسلم زندگی برکتوں سے بھر جاۓ گی۔انشاءاللہ محمد ibneafzal132@gmail.com

مفتی شفیع عثما نیؒ کا معا شی مسا ئل پر تبصرہ

مفتی شفیع عثما نیؒ کا معا شی مسا ئل پر تبصرہ محمد عبد اللہ صدیق ۔ اسلا م کا نظا م بنیا دی طو ر پر ایک اخلا قی اور رو حا نی نظا م ہے اور اسکا مقصد انفرا دی اور اجتما عی سطح پر انسا نو ں کی تر بیت اخلا قی اور رو حا نی تر بیت ہے خاندا نو ں کی تر بیت بھی ، معا شرو ں کی تر بیت بھی اور حکو متو ں کی تر بیت ، قانون کی تر بیت بھی اور نظا م معا شرت کی تر بیت بھی ، ان سب پہلووں کو اخلا ق اور روحا نیت کے دا ئرے میں کیسے لا یا جا ئے ۔ اللہ کی رضا کی خا طر انسا ن کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ کیسے سکھا یا جا ئے یہ اسلا م کا بنیا دی مقصد ہے ظاہر با ت یہ ہے کہ تجا رت اور ما لیا ت اسلا م کے نزدیک انسا نی زندگی کے بہت سے شعبو ں میں سے ایک شعبہ ہے کل نہیں ہے انسا نی زندگی کے اور بھی بہت سا رے شعبے ہیں ان میں سے ایک شعبہ معیشت ہے اور ما لیا ت بھی ہے ،اور اس معیشت کے نظا م کے اندر ہی سود کا نظام آ تا ہے ۔اللہ تعا لی نے سو د کے نظا م کی جگہ اور نظا م بھی دیے ہیں ۔اور وہ نظام مسلمانوں کیلئے بلکہ انسا نیت کیلئے بھی فا ئدہ مند ہے، نمبر1)شراکت۔دو یا دو سے زیا دہ افراد کا کسی کا رو با ر میں متعین سر ما یہ کے سا تھ نفع کے حصول کیلئے اکھٹا ہو جا نا کا رو با ر کے نفع و نقصا ن میں پہلے طے شدہ نسبتوں کے سا تھ شریک ہوں تو اسے شراکت کہتے ہیں ۔ عن ابی ہریرہ ؓ،قال”ان اللہ یقول:انا ثالث شریکین ما لم یخن احدھما صاحبہ،فاذا خانہ خرجت من بینھم۔؛ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشا د فر ما یا کہ اللہ تعا لی فر ما تا ہے کہ میں دو شریکوں کا تیسرا ہو ںجب تک کہ ان میں سے ایک دو سرے کے سا تھ خیا نت نہ کرے جب ان میں سے ایک دو سرے کے سا تھ خیا نت کرے تو میں ان کے درمیا ن سے ہٹ جا تا ہو ں ۔ ( جا ری ہے)

عوام کی آواز
February 28, 2023

غزلیں

حقِیر جانتا ہے، اِفتخار مانگتا ہے وہ زہر بانٹتا ہے اور پیار مانگتا ہے ذلِیل کر کے رکھا اُس کو، اُس کی بِیوی نے (ابھی دُعا میں) مِعادی بُخار مانگتا ہے ابھی تو ہاتھ میں اُس کے ہے خاندان کی لاج گریباں سب کے جو اب تار تار مانگتا ہے بِچھا کے رکھتا ہے وہ سب کی راہ میں کانٹے صِلے میں لوگوں سے پُھولوں کے ہار مانگتا ہے میں اپنے وعدے پہ قرضہ چُکا نہِیں پایا مُعافی دِل سے ابھی شرمسار مانگتا ہے حواس جب سے مِلے تب سے اِضطراب میں ہُوں مِرے خُدا، مِرا دِل بھی قرار مانگتا ہے امیرِ شہر نے چِھینا ہے مُنہ کا لُقمہ بھی پِھر اُس پہ قہر ابھی اعتبار مانگتا ہے ابھی یہ اہلِ سِیاست کے بس کا روگ نہِیں ابھی یہ مُلک نیا شہسوار مانگتا ہے بجا کے طائرِ چشمِ حسین ہے مشّاق دل و نظر کا مگر یہ شکار چاہتا ہے میں دیکھتا ہوں کہ زلفیں تری سنوارتا ہوں ہے خواب اچّھا مگر انتظار مانگتا ہے رشِیدؔ اُن پہ مِرا نغمہ کارگر ہی نہِیں یہ گیت وہ ہے کہ جو دِل کے تار مانگتا ہے رشِید حسرتؔ بیڑی یہ مِرے پاؤں میں پہنا تو رہے ہو پِھر عہد خُودی توڑ کے تُم جا تو رہے ہو پلکوں کی مُنڈیروں پہ پرِندوں کو اُڑاؤ تسلِیم کیا تُم مُجھے سمجھا تو رہے ہو پچھتاوا نہ ہو کل، یہ قدم سوچ کے لینا جذبات میں اُلفت کی قسم کھا تو رہے ہو سمجھایا تھا کل کِتنا مگر باز نہ آئے کیا ہو گا ابھی مانا کہ پچھتا تو رہے ہو رہنے بھی ابھی دِیجِیے اشکوں کا تکلُّف جب جانتے ہو دِل پہ سِتم ڈھا تو رہے ہو اب ایک نئے طرزِ رفاقت پہ عمل ہو تُم بِیچ میں لوگوں کے بھی تنہا تو رہے ہو کل ٹھوکروں میں جگ کی کہِیں چھوڑ نہ دینا اِک درد زدہ شخص کو اپنا تو رہے ہو اِنسان کبھی رِزق سے بھی سیر ہُؤا ہے؟ تقدِیر میں تھا جِتنا لِکھا پا تو رہے ہو اِس میں بھی کوئی رمز، کوئی فلسفہ ہو گا حسرتؔ جی ابھی جھوم کے تم گا تو رہے ہو رشِید حسرتؔ —

عوام کی آواز
February 20, 2023

چشمِ تر کوئی

چشمِ تر کوئی علاجِ شِیشِ دِل کرُوں مِلے جو شِیشہ گر کوئی کوئی مِلا نہِیں اِدھر، مِلے گا کیا اُدھر کوئی ڈگر پہ عشقِ نامُراد کی چلا تھا بے خطَر گھسِیٹ، لَوٹ لے چلا مِلا تھا چشمِ تر کوئی نوِید ہو کہ ہم تُمہارا شہر چھوڑ جائیں گے بسے تھے جِس کے حُکم پر چلا ہے رُوٹھ کر کوئی شِکَستہ دِل کی دھجّیاں سمیٹ لے، گِلہ نہ کر اجل کو تُجھ پہ ناز ہو سو موت ایسی مر کوئی بِچھڑ کے مُدّتیں ہُوئیں، مگر لگے ہے آج بھی کہ اُس گلی میں مُنتظِر ہے اب بھی بام پر کوئی چلے جو اعتماد سے، رہے جو مُستقِل مِزاج بنیں گے ہم بھی عِشق میں حوالہ مُعتبر کوئی سمجھ لے حوصلہ طلب ہے کھیل سارا عِشق کا بڑا خسارہ کر لیا، کہے گا تُجھ کو ہر کوئی نِڈھال کر نہ دے کہِیں یہ تیری خامُشی اُسے خُود اپنے ہاتھ سے تُو اپنے سر پہ دوش دھر کوئی قیام کیا کریں چمن میں شاخِ گُل رہی نہِیں رشِیدؔ سلب طاقتیں، رہا نہ بال و پر کوئی رشِید حسرتؔ —

عوام کی آواز
February 15, 2023

مدد کریں

السلام علیکم اگر آپ کے آس پاس کوئی غریب ہو تو اس کا خیال رکھیں کہ کہیں اُن کی بچے یا اُن کی پوری فیملی فاقے میں تو نہیں۔۔۔۔۔بس اتنا کہنا تھا سلیم جان saleemjanburrah4@gmail.com

عوام کی آواز
February 14, 2023

اسلامی معلومات

بت پرستی کی ابتدا بت پرستی کی ابتدا 4000 قبل مسیح میں حضرت ادریس علیہ السلام کےبعد ہوئی۔ سب سے پہلا بت بھی حضرت ادریس علیہ السلام کا بنایا گیا Amjad Ali SaGhir

عوام کی آواز
February 07, 2023

حضرت جرجیس علیہ السلام

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے جو ہمیشہ رہنے والا ہے ۔جس نے اس کا ءنا ت کو بنایا اور اس میں انسان کو اپنا قا صد بنا کر بھیجا۔اللہ کو ا پنے بند وں سے اس قدر پیار ہے ک اس کی ہدایت کے لئے کم و بیش ا یک لا کھ چو بیس ہزار انبیاء کرام کو بھیجا اور نبوت کا یہ سلسلہ حضرت ا دم علیہ السلام سے شروع ہو ا اور اسکا حوبصورت اور مبارک سلسلے کا اختتام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پا کیز ہ ذات ہر ھوا۔کیو نکہ شیطان(جس نے ا لللہ کے حکم کی نا فرمانی کی اور حضرت آ دم علیہ السلام کو سجد ے سے انکار کیا اور ہمیشہ لے مرتد ہو گیا ابلیس جسکا مطلب بھی ناامیدی ہےچونکہ اسکو اللہ تعالیٰ سے کوئی امید نہیں ہے اور یوں وہ ابلیس کہلایااسکو شیطان اور اللہ کادشمن بھی کہا جاتا ہے قرآن اسکا ظہور ابتدائے عالم سے بتا تا ہے) بھی ا نسا ن کے ساتھ ز مین پر آ یا تھا۔اور ھر طر یقے سے ا نسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ر ھا۔ یو ں اللہ تعالیٰ نے ا نسان کو دو راستے دیے ۔ایک بھلائی کا راستہ اور دوسرا براءی کا راستہ ۔اور اپنے بندوں کو ھدایت کے راستے پر چلا نے کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کو اس دنیا میں بھیجا سورہ ا لا عراف آ یت 172.173 میں ارشاد فرمایا ،، اور جب آ پ کے رب نے اولاد آ دم کی پست سےانکی ا ولاد کو نکالا اوران ہی سے ان کے متعلق ا قرار لیا کہ کیا میں تمہا را رب نہیں ھو؟ سب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں!ہم سب گواہ بنتے ہیں ۔تا کہ تم قیا مت کے روز یو ں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔ یا یو ں کہو ں کہ پہلے شر ک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم انکے بعد انکی نسل سے ھو ے سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلا کت میں ڈال دے گا,, اور یو ں اللہ تعالیٰ نے ا نسان کے ا عتراض کو بھی ختم کر دیا کہ انسان یہ نا کہہ دے اللہ تعالیٰ نے ھدایت کے لئے کسی کو بھی نہیں بھیجا ۔ا لللہ نے مز ید یہ فر ما یا کہ انسا نیا ت کی ا بتدا ایک ایسے ا نسان سے ہوئی جس نے اللہ تعالیٰ کی با ت کو سنا اور اس کے نوری فر شتوں کو بھی دیکھا اور جنت کو بھی دیکھا اور اس حقیقت کا براہِ راست مشاہدہ کیا اور اس جہا ن فا نی سے رخصت ہو گیا ۔اور انکا یہ علم نسلا بعد نسل منتقل ہو تا رہا اور تو حید کا یہ تصور کسی نسل،کسی خظے،کسی علاقے،کسی پست کے لئے اجنبی ھو نے نا پاے۔ اللہ تعالیٰ کے خا ص بند ے جو ہر دور میں آ ے ان میں سے ایک نبی جنکا نام حضرت جر جیس علیہ السلام تھا۔ حضرت جرجیس علیہ السلام حضرت جر جیس علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مقر ب بند ے تھے ۔آپکا ز کر قرآن پا ک میں تو نہیں لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے ۔ مندرجہ ذیل کتا بوں میں آ پ کا ز کر مو جو د ہے سبعیا ت ا ما م محمد روضتہ الصفیا تا ر یخ ا لکا مل فی الحقیقت کو ی بھی شخص سخت دل کیو ں نا ہو پیغمبر وں کے افکار سن کر اسے ضرور عبر ت حاصل ہو تی ہے اور پھتر دل سے بھی آ نسو رواں ہو جا تے ہیں ۔ حضرت جر جیس علیہ السلام اور شا ہ مو صل جیسے فر عو ن کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور نمرود کے لئے حضرت ا برا ہیم علیہ السلام اس د نیا میں تشریف لے آئے ویسے حضرت جر جیس علیہ السلام بھی شا ہ مو صل کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے ا ے۔ شا ہ مو صل جسکا ا صل نام درزانہ ۔اس وقت شہر مو صل میں ا یک با دشاہ حکومت کرتا تھا جو کہ ایک بت پرست تھا۔اس بت کا نا م ا فلو ن تھا۔بادشاہ خود اسکی عبادت کر تا تھا اور ا پنی رعیت سے بھی اس بت کو سجد ہ کروایا کر تا تھا سعبیا ت ا ما م محمد سے روایت ہے کہ ایک دفعہ با دشاہ نے اپنے تخت شاہی اور ا فلو ن کو خاص طور پر آ راستہ کروایا اور با قی تما م بتو ں کو آ ر استہ کروا ں کہ سا منے کر سیو ں پر بٹھا دیا اور ا پنی رعیت کو حکم دیا کہ وہ اس بتوں کو سجد ہ کر یے۔یوں تمام رعا یا ان بتوں کو سجد ہ کرنے لگی ۔جو شخص حق کے ساتھ کھڑا ہو تا اور سجد ے سے ا نکا ر کر۔دیتا اسکو سزا کے طور پر آ گ میں ڈال دیا جا تا تھا۔تو اللہ تعالیٰ نے انکو اس ظا لم با دشاہ کے مظالم سے بچانے کے لیے اور انکی ہد ا یت کے لئے حضرت جر جیس علیہ السلام کو بھیجا۔ حضرت جر جیس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سات با ر آ زما یا ( امتحان )میں ڈالا۔(جا ری ہے) (حصہ دوم) آ ؤ عر بی سکھیں عربی عرب میں ر ہنے والوں کی ز با ن ۔حضرت آ دم علیہ السلام بھی جنت میں عر بی بو لتے تھے عربی جملے۔ اردو جملے کیف حالک – آ پکا کیا حا ل ہے ا نا بخیر۔ میں ٹھیک ہوں صبا ح ا لخیر۔ صبح بخیر

عوام کی آواز
February 01, 2023

گگن کے چاند تاروں میں

تُمہاری یاد کی مہکار سی ہے یادگاروں میں کہِیں جا کر بسے ہو تُم گگن کے چاند تاروں میں خزائیں بھی بہاروں سی تُمہارے دم قدم سے تِھیں خزاں سی رقص کرتی ہے تُمہارے بِن بہاروں میں ہمارے دیس میں افلاس کا طُوفان آیا ہے کھڑے ہیں لوگ آٹے کے لیے دیکھو قطاروں میں گُزاری زندگی اپنی نوالہ ڈُھونڈتے یارو تمنّا تھی کہ جا بیٹھیں گے پھر بچپن کے یاروں میں سُنا ہے تُم محبّت کی نظر کرنے پہ مائل ہو ہمارا نام بھی شامل رکھو عرضی گزاروں میں چراغِ شب کے بُجھتے ہی بدل لیتے ہیں خیمہ ہی بہُت سے لوگ ایسے بھی تو ہوں گے غمگُساروں میں کناروں پر پہنچ کر دل کی ناؤ ڈُوب جاتی ہے یقینأ ہے کوئی آسیب سا دریا کے دھاروں میں اُسے آسائشیں جِتنی بھی مُمکن تِھیں مُہیّا کِیں گِھسِٹتے ہم نے کاٹی زِندگانی ریگزاروں میں تُمہارے دِلنشیں ہونٹوں پہ بجتی ہے ہنسی ایسے کہ جیسے جلترنگیں اُٹھ رہی ہوں آبشاروں میں ہمی تو تھے کہ جِس نے گُلستاں کی آبیاری کی ہمارا نام ہی شامِل نہِیں ہے آبیاروں میں رشِیدؔ اپنی حقِیقت جان لو، دولت اپھارا ہے اکڑ ایسی بھی کیا، پُھولے ہوا جیسے غُباروں میں رشِید حسرتؔ

عوام کی آواز
January 31, 2023

تذکرہ وفاؤں کا (دوسراحصہ)

*تذکرہ وفاؤں کا* (دوسراحصہ) *تحریر: مسز علی گوجرانوالہ* سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺپر سب سے پہلے ایمان لائے ۔عورتوں میں سب سے پہلے، حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ اور مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ،،محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے ، لیکن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے قبول اسلام کی خبر مکہ میں ہیڈ لائن بن گئی۔ حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنها آ پ کی بیوی ہیں، بیوی شوہر کی بات مانے تو ہیڈ لائن نہیں بنتی، حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ گھر کے بچے ہیں، بچے بڑوں کی بات مانیں تو ہیڈ لائن نہیں بنتی، حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ گھر کے ملازم ہیں، ملازم ، مالک کی بات مانے تو ہیڈ لائن نہیں بنتی۔ لیکن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ بنو تیم کا سردار ہے، مکہ کا جسٹس اور قاضی ہے، ریشم کی چھ مارکیٹوں کا مالک ہے، خون بہا کی رقم جس کے پاس امانتاً رکھی جاتی ہے۔ اثر و رسوخ والا آدمی ہے، نسب دانی کے معاملے میں جس کے در پر حاضری دی جاتی ہے، پڑھا لکھا با شعور آدمی ہے قبیلہ بنو ہاشم کا فرد نہیں ہے۔ جب وہ ایمان لاتا ہے تو مکہ میں ہیڈ لائن بنتی ہے۔ جو کفارِ مکہ کے لیے چیلنجنگ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کا قبول اسلام کفارِ مکہ کے لیے الارمنگ سائن تھا کہ اتنا اہم آدمی اسلام لے آئے۔ لیکن یہ تو ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہے نا پہلوں میں پہل کرنے والا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے جب کلمہ پڑھا تو اپنی محنت کا خلاصه بیان کر دیا کہ عشرہ مبشرہ میں سے چھ افراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی دعوت پر مسلمان ہوتے ہیں۔کلمہ پڑھ کر اس دھرتی پر جو سب سے پہلے مسلمان کہلائے، وہ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہی تھے۔ جب معراج کا واقعہ ہوا تو یہ بہت ہی عجیب و غریب واقعہ تھا۔ آقا کریم ﷺنے جب اعلان کیا کہ اللہ تعالی نے یوں مجھے سات آسمانوں کی سیر کرائی، پچاس نمازوں کا تحفہ دیا جو کم کروا کر پانچ فرض نمازوں تک معاملہ طے کروایا اور باقی سفر معراج کی تفصیل بتائی ۔کفارِ مکہ نے سوچا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا موقع ہو گا پروپیگنڈا کرنے کا۔ انہوں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ سے کہا اے ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ رات کے مختصر وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ پہنچے، سا ت آسمانوں کی سیر کرے اور پھر واپس آ جائے تو بات ما ننے میں آتی ہے۔ کہا، بالکل نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ تیرا یار ہی تو کہتا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے کہا لئن قاله فصدق صدقته اگر انہوں نے کہا ہے تو سچ کہا ہے میں تصدیق کرتا ہوں۔ کوئی اور کہے تو اب بھی نہ مانوں۔ یوں ابو بکر نے واقعہ معراج کی تصدیق کی اور صدیق کہلائے۔ انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔جماعت ِ صحابہ میں سے بابرکت شخصیات میں سے خلیفۂ اول سیدنا ابو بکر صدیق سب سے اعلیٰ مرتبے اور بلند منصب پر فائز تھے اور ایثار قربانی اور صبر واستقامت کا مثالی نمونہ تھے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ قبیلہ قریش کی ایک مشہور شاخ تیم بن مرہ بن کعب کے فرد تھے۔ساتویں پشت میں مرہ پر ان کا نسب رسول اللہﷺ سے مل جاتا ہے ہے ۔ایک سچے مسلمان کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ انبیاء ورسل کے بعد اس کائنات میں سب سے اعلیٰ اور ارفع شخصیت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہیں ۔ ،،افضل البشر بعد از انبیاء،، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہی وہ خو ش نصیب ہیں جو رسول اللہﷺ کےبچپن کے دوست اور ساتھی تھے ۔ رسول اللہ سے عقیدت ومحبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت کے لیے تن من دھن سب کچھ پیش کر دیا ۔نبی کریم ﷺ بھی ان سے بے حد محبت فرماتے تھے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے،حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کی نیکیوں سے خوش ہو کر حضرت محمد نے اللہ کے حکم سے فرمایا انت عتیق اللّٰہ من النار اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے جہنم سے آزاد کرنے کا سرٹیفکیٹ جس کو دیا ہے وہ ابو بکر ہے۔اور یہی صدیق عتیق لقب والا کہا کرتا تھا کہ,, اگر میرا ایک پاؤں جنت میں ہو اور دوسرا باہر ہو تو بھی میں خود کو اللہ کے غضب سے محفوظ تصور نہ کروں گا،، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ غار ثور کیلئے روانہ ہوئے تو راستے میں وہ کبھی حضور ﷺ کے آگے چلتے، کبھی پیچھے،کبھی دائیں اور کبھی بائیں۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی گھات میں نہ بیٹھا ہو تو آپ ﷺ کے آگے چلنے لگتا ہوں پھر اندیشہ ہوتا ہے کہ پیچھے سے کوئی وار نہ کر دے تو پیچھے ہو جاتا ہوں اسی طرح دائیں اور بائیں ہو جاتا ہوں۔ یہ فیصلہ تو آسمان سے جبرائیل علیہ السلام لیکر آئے تھے کہ اکیلا ابو بکر پیغمبر ﷺ کی حفاظت کے لیے کافی ہے۔مجتبٰی ﷺکا ہمسفر ابو بکر ہے۔ وفاؤں کو جس پر فخر ہے اس وفادار کا نام ابو بکر ہے حضرت عمر

عوام کی آواز
January 30, 2023

خوبصورت خواب

خوبصورت خواب (مہرغلام رضا)   اگر آپ زندگی میں کامیاب ھونا چاھتے ھیں تو میرا مشورہ ھے آج سے ہی خوبصورت خواب دیکھنا شروع کردیں یہ خواب ہی تھے جس کی بدولت پاکستان بنا.یہ خواب ہی تھے جس کی بدولت پاکستان ایٹمی طاقت بنا وہ خواب ھی تھا جس کی بدولت 23 سال کی مسلسل جہدوجہد کی بدولت عمران خان صاحب پاکستان کا وزیر اعظم بنا یہ خواب ہی تھےجس کی وجہ سے سیاہ فام امریکہ کاصدر بنا۔ یہ خواب ھی تھا جس کی بدولت کراچی کی گلیوں میں گھومنے والا عبدالستارایدھی بنا جسے دنیا سے 21توپوں کی سلامی کے ساتھ رخصت کیاگیا۔وہ خواب ہی تھا جس کی بدولت سعودی عرب سے پہلے میچ میں شکست کھانے والی ارجیٹینا کی ٹیم میسی کے گول کی بدولت ورلڈکپ چمپئن بنی۔ میں جو زندگی گزار رھا ھوں آج سے چارسال پہلے محض ایک خواب تھا کامیابی،خوشی،خوبصورت گھر،خوبصورت بیوی،سچی دوستی،صحت مند زندگی،اچھی جاب،معاشی آزادی،نیک اولاد،روحانی اطیمنان اور کامیاب زندگی گزارنے کاخواب کون نہیں دیکھتا لیکن لوگوں کی اگثریت اس یقین کامل کے ساتھ منسلک ہے کہ خواب تو بس خواب ہیں۔ خواب کون نہیں دیکھتا خوابوں کاطواف کون سی آنکھیں نھیں کرتی لیکن بات صرف طواف کرنے سے نھیں بنتی۔بات خوابوں کے تعاقب کرنے سے بنتی ھیں صحفہ ھستی پر نام أن کا باقی رھتا ھے جن کی آنکھیں اور قدم خوابوں کے تعاقب میں رھتے ھیں۔ آگر آپ زندگی میں کامیاب ھونا چاھتے ھیں تو آج سے خواب دیکھیں کامیاب ہونے کا، اگےبڑھنے کا خواب،مشکلات میں کھڑے رھنے کا خواب،شاندارمستقبل کاخواب،لیڈربننے کاخواب،معاشرے میں اچھاانسان اور شہری بننے کاخواب۔ زندگی میں کامیابی کیلیئے وہ خواب دیکھیں جوآپ کو جگائیں رکھیں- خواب دیکھتیے وقت اپنی اوقات نہ دیکھیں اپنے خدا کو دیکھیے جو نوازنے والا ہے جس کے ایک کن سے سب تبدیل ھوجاتاہے غلام رضا

عوام کی آواز
January 30, 2023

کبھی آپ نے سوچا؟

کبھی آپ نے سوچا؟ (تحریر۔مھرغلام رضا) روزانہ پاکستان میں 20 لاکھ بچے اور بچیاں بھوکے سوتے ھیں جن کی عمر 5سال سے کم ہے اس وجہ سے بھوکے سوتے ھیں کیونکہ ان کے والدین کے پاس کوئی وسائل نہیں ھیں کہ ان کو دودھ پلا سکیں؟ آج پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 35,35 روپے اضافہ ھوگیا؟ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن روزانہ سڑکوں پر آٹا خریدنے کی غرض سے لوگ لائن میں ہوتے ہیں؟ آج پاکستان میں %50 بچے سکول جاسکتے ہیں لیکن وہ سکول نہیں جاتے؟ چالیس لاکھ پاکستانی بیرون ملک رھتے ہیں اور ہر 10 سواں آدمی ملک کی غربت اور بےروزگاری کی وجہ سے اسے چھوڑنے کاسوچ رہاہے؟ ملک میں انتہاکی غربت،بے روزگاری،مہنگائی کاطوفان،سیاسی افراتفری،ہرطرف ناامیدی،کرپشن کابازار گرم ہے؟ لیکن اس کا ذمہ دار کون؟ نمبر1)ہمارے سیاستدان یا نمبر2) ہم عوام اپنی رائے نیچے کومنٹس سیکشن میں دیں؟

عوام کی آواز
January 29, 2023

تازہ غزل

دُور کر دے گا کبھی سات نہِیں ہونے دے گا وقت بے درد مُلاقات نہِیں ہونے دے گا غم کی وہ آنکھوں میں سوغات لِیے پِھرتا ہے درد کی کوئی بھی برسات نہِیں ہونے دے گا اُس نے سِیکھا ہے کوئی قطع کلامی کا ہُنر اِس لِیے ڈھنگ سے ہی بات نہِیں ہونے دے گا تُو نے سونپی ہے جِسے ایک اندِھیری نگری وہ تِرے دِن کو کبھی رات نہِیں ہونے دے گا تُم کو معلُوم ہے فِطرت ہے مگر خُوش گوئی اپنے لہجے کو کبھی دھات نہِیں ہونے دے گا ہم نے سوچا تھا کہ آسان رہے گی منزِل پر حرِیف ایسا ہے بد ذات، نہِیں ہونے دے گا دِل عجب چِیز ہے یہ خُود تو رہے شِکوہ کُناں میں کرؤں تُم سے شکایات، نہِیں ہونے دے گا سانپ کی طرح مِرا بھاگ بدلتا ہے کھال تیرے ہاتھوں میں مِرا ہات نہِیں ہونے دے گا جِس کی بیٹی کی کبھی لوٹ گئی ہو حسرتؔ خالی لوٹے کوئی بارات، نہِیں ہونے دے گا رشِید حسرتؔ

عوام کی آواز
January 24, 2023

تذکرہ وفاؤں کا

(حصہ اول) تحریر ۔۔۔۔ مسز علی گوجرانوالہ وفاؤں میں اول نام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا ہے، جنہوں نے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری زندگی وفا نبھائی اور وفاؤں کی انتہا کر دی۔ وفاؤں میں اول و آخر نام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور کا ہو ہی نہیں سکتا۔ ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جو حق کا ترجمان ہے۔ نبی کا رازدان ہے، جو غار کا بھی رفیق ہے اور مزار کا بھی رفیق ہے، سب سے پہلے جس نے کعبہ میں خطبہ دیا،سب سے پہلے جو مومن کہلایا، سب سے پہلے جو صحابی کہلایا، آقا ﷺ جس کے دروازے پر چل کر گئے، آقا ﷺ کو جس نے اپنے کندھے پر اٹھایا، جو غار میں سب سے پہلے داخل ہوا، وہ ابو بکر صدیق ہی ہے۔ پہلوں میں پہل کرنے والا۔ وہ پہلا مدد گا ر، وہ پہلا صحابی نبی ﷺ نے جسے ہر قدم پر دعا دی وہ افضل بشر بعد ا ز انبیاء ہے وہ جان صداقت جان وفا ہے فرشتے اسی کی دعاؤں پر عاشق اسی کی نمازوں اداؤں پر عاشق نبیوں سے کمتر اماموں سے اعلٰی محمد ﷺ سے ہر دم وفا کرنے والا خدا اس پر راضی ہوا وہ خدا پر کہیں قدسی آمین اس کی دعا پر وہی ثانی الثنین کا ہے مخاطب جھکاتا تھا نظریں عمر اس کے آگے رسالت کے قدموں پر رکھ دے وہ لا کر چلے گھر کا گھر اپنے سر پر اٹھا کر بجز انبیاء سب سے بہتر وہی ہے وہی صرف صدیق اکبر وہی ہے مکہ مکرمہ سے یمن کے راستے میں ایک سرنگ ، ایک ٹنل جو کہ ،،نفق ھادی،، کے نام سے مشہور ہے اپنی ایک مکمل تاریخ رکھتی ہے ۔ نفق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ٹنل، اور ہادی کہا جاتا ہے گائیڈ ، رہنما یا راستہ دکھانے والے کو۔ چنانچہ ،،نفق ہادی،، سے مراد ہے ایک ایسی ٹنل یا گزرگاہ جس پر ایک رہبر يا رہنما نے رہنمائی کی۔ کائنات کے عظیم ترین رہنما رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس نفق ہادی سے گزرتے ہوئے کسی پوچھنے والے کو بتایا تھا کہ جو اعلیٰ ترین ہستی میرے ساتھ موجود ہے یہ میرا ہادی، میرا گائیڈ ہے جو مجھے راستہ بتا رہا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ جب مکہ مکرمہ کے حالات کٹھن ہو گئے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو امر الہٰی ہوا کہ آپ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چانچہ آپ ﷺ نے بحکمِ خدا اپنے بستر پر حضرت علی المرتضیٰ کو چھوڑا کہ یہ مکہ کے لوگوں کو ان کی امانتیں جو حضرت محمد ﷺ کے پاس تھیں لوٹا کر مدینہ منورہ تشریف لے آئیں گے۔ آپ ﷺ نے اپنے رفیق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو سفر ہجرت کے لیے منتخب کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے دوستی اور وفا خوب نبھائی اور کیا عمدہ پہرے داری کی کہ وفاؤں کی انتہا کر دی۔سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی پالیسی ملاحظہ فرمائیے کہ مکہ سے ڈائریکٹ مدینہ نہیں گئے اور تین دن غار ثور میں پناہ گزین رہے، غار ثور مدینہ کے راستے میں نہیں ہے بلکہ یمن کے راستے میں ہے۔ یہ پالیسی اس لیے اختیار کی کہ دشمن دھوکہ میں رہے۔ کیونکہ دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ نبی کریم ﷺ مکہ سے نکلیں گے تو مدینہ ہی جائیں گے کہ آپ ﷺ کے اکثر ساتھی ایک ایک کر کے مدینہ جا چکے ہیں۔بیعت عقبہ اولی ہو چکی ہے، بیعت عقبہ ثانیہ ہو چکی ہے۔ مدینہ کے لوگ آپ ﷺ کو آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ کفار مکہ نے آپ ﷺ کی گرفتاری کی قیمت سو سرخ اونٹ رکھی تھی۔جب سیدنا صدیق اکبر اور حضرت محمد ﷺ سفرہجرت کے لیے نکلے تو راستے میں ان کو ایک شخص ملا جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو تو جانتا تھا لیکن حضرت محمد ﷺ کو چہرے سے نہ جانتا تھا اسے شک گزرا کہ یہ وہی نہ ہوں جن کو کفار مکہ ڈھونڈھ رہے ہیں اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر یہ بڑا ٹف ٹائم تھا سچائی اور وفاداری کا امتحان تھا کہ اگر سچ بولوں تو یہ دوست کو گوارہ نہیں کہ گرفتاری عمل میں آئے اور اگر جھوٹ کہوں تو یہ صدیق کی صداقت کو گوارہ نہیں پھر کیا خوبصورت جواب دیا ،،ھذا هادی یھدی،، ،،یہ میرا رہنما ہے جو مجھے راستہ دکھا رہا ہے،، وہ سمجھا کہ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بزنس مین ہے بڑا مالدار تاجر ہے، لمبے ٹورز پر جاتا رہتا ہے گائیڈ ساتھ رکھتا ہے۔ لیکن ابو بکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تو کچھ اور بتا رہے تھے یہ کچھ اور سمجھا، ابو بکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تو کہہ رہے تھے کہ مجھے دنیا بھی اسی سے ہے، دین بھی اور آخرت بھی۔یہ میرا رہنما ہے۔ اس وقت لوگ یا تو قافلوں کی صورت سفر کرتے تھے یا پھر اگر ہنگامی حالات میں کہیں جانا پڑتا تو گائیڈ ساتھ رکھتے جو راستے کی رہنمائی کرتا۔ کہ گوگل میپ تب متعارف نہیں ہوا تھا۔ سعودی حکومت کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ اس بات کی یاد میں اس گزرگاہ کا نام ،،نفق ھادی رکھ دیا۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔  

عوام کی آواز
January 10, 2023

ڈیجیٹل مارکیٹنگ مسلسل ترقی کر رہی ہے، اور تازہ ترین رجحانات کو برقرار رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ 2023 میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی دنیا میں ہم کیا دیکھ سکتے ہیں اس کے لیے کچھ پیشین گوئیاں یہ ہیں:

ورچوئل اور اگمینٹڈ رئیلٹی کی مسلسل ترقی جیسے جیسے ٹیکنالوجی بہتر ہوتی ہے اور زیادہ قابل رسائی ہوتی جاتی ہے، ہم اپنی مارکیٹنگ کی کوششوں کو بڑھانے کے لیے ورچوئل اور بڑھا ہوا حقیقت کا استعمال کرتے ہوئے مزید کاروبار دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک فیشن برانڈ گاہکوں کو عملی طور پر کپڑوں پر آزمانے کی اجازت دے سکتا ہے، یا گھر بنانے والا ممکنہ خریداروں کو کسی پراپرٹی کا ورچوئل ٹور دے سکتا ہے۔ ذاتی نوعیت میں اضافہ ڈیٹا کے پھیلاؤ کے ساتھ، کاروبار انتہائی ذاتی نوعیت کے مارکیٹنگ کے تجربات فراہم کرنے کے لیے مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کر سکیں گے۔ اس میں موزوں پیغام رسانی، حسب ضرورت مصنوعات کی سفارشات، یا ذاتی نوعیت کی ای میل مہمات شامل ہو سکتی ہیں۔ چیٹ بوٹس کا مزید استعمال چیٹ بوٹس کاروبار کو میسجنگ ایپس اور ویب سائٹس کے ذریعے فوری، خودکار کسٹمر سروس فراہم کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ چونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ چیٹ بوٹس استعمال کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انہیں مارکیٹنگ کے وسیع تر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کہ ذاتی نوعیت کی مصنوعات کی سفارشات فراہم کرنا یا ملاقاتیں کرنا۔ مائیکرو انفلوئنسرز کا عروج: اگرچہ بڑے نام کے اثر و رسوخ والے ہمیشہ مارکیٹنگ میں اپنا مقام رکھتے ہیں، ہم مائیکرو انفلوئنسر کے استعمال کی طرف تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جن کے ساتھ چھوٹے، لیکن انتہائی مصروفیت، پیروی کرتے ہیں جو اپنے پیروکاروں کے لیے زیادہ متعلقہ اور قابل اعتماد ہو سکتے ہیں۔ پائیداری پر زیادہ توجہ: ماحول کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کے ساتھ، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کاروبار اپنی مارکیٹنگ کی کوششوں میں پائیداری پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس میں ماحول دوست مصنوعات کو فروغ دینا، پائیدار کاروباری طریقوں کو اجاگر کرنا، یا ماحولیاتی وجوہات کی حمایت کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ انٹرایکٹو مواد کا زیادہ استعمال: ہجوم والے آن لائن منظر نامے میں نمایاں ہونے کے لیے، کاروبار انٹرایکٹو مواد جیسے کوئز، پولز اور گیمز کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ اس قسم کا مواد گاہکوں کو مشغول رکھنے اور برقرار رکھنے کا ایک مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے۔ ویڈیو کی بڑھتی ہوئی اہمیت یو ٹیوب اورTٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کے عروج کے ساتھ، ویڈیو مارکیٹنگ مکس کا تیزی سے اہم حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ہم کاروبار کو ویڈیو مواد میں زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، چاہے وہ لائیو سٹریمنگ ہو، سوشل میڈیا کے لیے مختصر ویڈیوز، یا مزید روایتی ویڈیو اشتہارات۔ مجموعی طور پر، ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا مستقبل روشن نظر آتا ہے، جس میں کاروبار کے لیے گاہکوں کے ساتھ جڑنے اور اپنی مصنوعات یا خدمات کو فروغ دینے کے بہت سارے دلچسپ مواقع ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا زیادہ استعمال جیسے جیسے مصنوعی ذہانت زیادہ ترقی یافتہ ہوتی جاتی ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کاروبار اسے اپنی مارکیٹنگ کی کوششوں کو بہتر اور ذاتی بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر،  کا استعمال کسٹمر کے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے اور ٹارگٹڈ مارکیٹنگ مہمات کے لیے بصیرت فراہم کرنے، یا کسٹمر کے رویے کی بنیاد پر ذاتی نوعیت کی مصنوعات کی سفارشات تیار کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ گاہک کے تجربے پر زیادہ زور ڈیجیٹل دور میں، گاہک کسی کاروبار کے ساتھ بات چیت کرتے وقت ایک ہموار اور آسان تجربے کی توقع کرتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کمپنیاں اپنے آپ کو الگ کرنے اور وفاداری پیدا کرنے کے طریقے کے طور پر کسٹمر کے تجربے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ اس میں کسٹمر کے سفر کو بہتر بنانے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری شامل ہو سکتی ہے، جیسے کہ چیٹ بوٹس اور ورچوئل اسسٹنٹس۔ مارکیٹنگ کے لیے میسجنگ ایپس کا زیادہ استعمال چیٹ بوٹس کے علاوہ، کاروبار صارفین تک پہنچنے اور ان کی مصنوعات یا خدمات کو فروغ دینے کے لیے واٹس ایپ اور فیسبک میسینجر جیسی میسجنگ ایپس کا استعمال شروع کر سکتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم کاروبار کے لیے صارفین کے ساتھ جڑنے کا ایک ذاتی اور آسان طریقہ پیش کرتے ہیں، اور یہ سیلز بڑھانے اور برانڈ بیداری پیدا کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے۔ خریداری کے قابل مواد کا اضافہ چونکہ صارفین سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے براہ راست مصنوعات خریدنے کے قابل ہونے کے عادی ہو جاتے ہیں، ہم خریداری کے قابل مواد میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں سوشل میڈیا پوسٹس یا آن لائن آرٹیکلز کے اندر مصنوعات کے لنکس کو سرایت کرنا شامل ہو سکتا ہے، جس سے صارفین پلیٹ فارم کو چھوڑے بغیر آسانی سے خریداری کر سکتے ہیں۔ صارف کے تیار کردہ مواد کا بڑھتا ہوا استعمال صارف کا تیار کردہ مواد، جیسے پروڈکٹ کے جائزے اور سوشل میڈیا پوسٹس، مارکیٹنگ کا ایک طاقتور ٹول ہو سکتا ہے۔ ہم مستقبل میں کاروباروں کو اس قسم کے مواد سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، چاہے وہ کسٹمر کے جائزے کے پروگراموں کے ذریعے ہو یا سوشل میڈیا مہمات کے ذریعے جو صارفین کو کسی پروڈکٹ یا سروس کے ساتھ اپنے تجربات کا اشتراک کرنے کی ترغیب دیں۔ آخر میں، ڈیجیٹل مارکیٹنگ ہمیشہ تیار ہوتی رہتی ہے، اور کاروباری اداروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مسابقتی رہنے کے لیے تازہ ترین رجحانات میں سرفہرست رہیں۔ ان رجحانات پر نظر رکھنے اور اس کے مطابق اپنی حکمت عملیوں کو اپنانے سے، کاروبار ڈیجیٹل دور میں مؤثر طریقے سے صارفین تک پہنچ سکتے ہیں اور ان تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

عوام کی آواز
December 12, 2022

How To Avoid Plagiarism On Your Research Paper Writing Service

A research paper author is frequently a dual-two-fold sort of occupation. Not only must the author be proficient writers that are able to bring amazing ideas to fruition using their well-crafted phrases, but they must also be professional researchers who know where to look for the best sources of relevant data. This author has spent years working as a writer on How to Prepare Yourself for Writing for a variety of businesses, and I’ve found that it’s an incredibly gratifying, challenging, and enjoyable endeavor-one I enjoy doing, even if with no other authors on my own team. Here are my top tips for becoming an effective research paper writer: O Search for topics which you are interested in and also have done research on. As an example, one of the most difficult aspects of being a research paper author involves choosing topic areas that derive from your expertise. Many writers dream of being professional writers, but very few get to meet this dream. To become an effective research paper author, you must first choose a topic you find interesting and then do a great deal of research on it. You might choose to explore medical issues, historical topics, current topics, or some other topic that you find to be of interest to you. O Most writers look to replicate the work of other professional writers. Even though this is certainly a great way to build your portfolio, I would not suggest this as the primary focus of your paper writing. A lot of successful research paper writers started out writing as poorly as most other writers and to develop into a really great paper author you need to begin from the ground up and work your way up. O Prevent plagiarizing. One of the biggest problems for research paper writers is plagiarism. If a reader reads your newspaper and finds that it contains optimized articles, or phrases that sound almost exactly the exact same as another individual’s work, then they will be sure to pass on your paper. As frustrating as it can be, plagiarism does happen, and you can do little to stop it. However, there are some easy steps that you can take to make sure that you don’t plagiarize. O Look for an excellent, supportive writing coach. As many professional writers feel that their biggest enemies are their own composing flaws, there are some authors who struggle with locating writing mentors. If you can not locate a writing coach locally, think about looking for a single online. You may even find writing tutors online through message boards and online forums. Simply take a couple of minutes of your time to find a writing mentor and use their advice to polish your research paper. O Contact your local college and see if they have a writing center. A writing center oftentimes has access to tens of thousands of gifted researchers and essay authors. These authors often work at accessible writing facilities in exchange for some exposure and contact. Many professional writers work at these centers as well. You may have the ability to acquire a custom writing service in exchange for your contact.

عوام کی آواز
December 09, 2022

*دسمبر لہولہو۔۔۔۔۔۔* *سانحہ پشاور

*دسمبر لہولہو۔۔۔۔۔۔* *سا نحہ پشاور*۔ *تحریر : مسز علی گوجرانوالہ* بچے اسکول جائیں اور واپس نہ آئیں ایسا دسمبر یا اللہ پھر کبھی نہ آ ئے کچھ خاص دن لوح تاریخ پر اس طرح رقم ہو جاتے ہیں کہ آنے والے زمانے کی دھول بھی انہیں دھندلا نہیں کر پاتی۔ 16 دسمبر کا دن بھی ایسے ہی دنوں میں سے ایک ہے۔اس دن نے ہماری تاریخ میں ایک ایسا باب رقم کیا جو ظلم و بربریت سے بھرا ہوا تھا۔ ہاں یہی وہ دن ،یہی مہینہ،یہی وہ لمحے تھے جب فلک سے فرشتوں کو فرشتے لینے آئے تھے۔ہاں یہی وہ دن تھا کہ جب ما ئیں دروازے تکتے رہ گئیں تھیں اور بچے اسکول سے جنت چلے گئے تھے۔ جن بچوں کا خون ملک و قوم پر قرض ہے۔ اس دن بھی معمول کے دنوں کی طرح ماؤں نے بچوں کو اسکول کے لیے تیار کر کے چومتے ہوئے خدا کی امان میں دیا تھا بچے بھی مسکراتے ہوئے خدا حافظ کہہ گئے تھے۔ مستقبل کے حسین خواب دیکھنے والی معصوم آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں تھیں۔کتابوں کے سیاہ الفاظ ننھے پھول کلیو ں کے لہو سے بھیگ گئے تھے۔ سرد دسمبر لہو سے نہا گیا تھا۔ اور میرے وطن کی معصوم کلیاں اور پھول اپنے مالیوں کو ابدی صدمے و غم دے کر مرجھا گئے تھے۔ سولہ دسمبر 2014 کی صبح تقریباً ساڑھے نو بجے پشاور کی وارسک روڈ آرمی پبلک اسکول پشاور سے متصل آبادی بہاری کالونی سے 8 دہشت گرد اسکول میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے سب سے پہلے آڈیٹوریم پر حملہ کیا اور اسکول کے باقی حصوں میں موجود طلباء کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نشانہ بنایا۔ اپنی اس گھناؤنی کارروائی کے دوران پورے اسٹاف کو یرغمال بنائے رکھا۔144 معصوم بچے اس دہشت گردی کا شکار ہو گئے۔اس سانحے میں کم سنوں کی عمریں 6سال سے 20 تک تھیں۔ ان ننھے شہیدوں میں 6 سالہ خولہ بھی شامل تھی ۔ خولہ کا اسکول میں یہ پہلا اور آخری دن تھا۔جو اپنے داخلہ کے لیے اسکول آفس ائی ہوئی تھی۔ ظالموں نے خولہ کے ماتھے کو نشانہ بنایا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ 16 دسمبر کی صبح گھر سے نکلنے والے آرمی پبلک اسکول کے بچے گھر تابوت میں لوٹیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ وزن باپ کے کندھے پر بیٹے کے جنازے کا ہوتا ہےاور پشاور میں 144 خاندانوں نے یہ وزن کلمہ شہادت بلند کرتے ہوئے اٹھایا ۔ جنازوں پر پھول کئی بار دیکھے ہیں پھولوں کے جنازے کا عجب ہی منظر تھا ظالم دہشت گردوں نے قتل گاہوں میں اور درس گاہوں میں کوئی فرق نہ رہنے دیا۔پوری قوم وہ ٹرپتے ہوئے بچے اور ظلم کبھی نہیں بھول سکتی ۔ والدین کا اکلوتا بیٹا محمد یاسین 16دسبمر کو چھٹی کرنا چاہتا تھا۔ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا فہد حسین جس کی ماں آج تک ڈپریشن کا شکار ہے۔ 16سالہ مبین آفریدی اپنے باپ کی طرح ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ منیب اور شہیر دو بھائی آرمی پبلک اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔ چھوٹا بھائی شہادت کا مرتبہ پا گیا۔ شہید محمد علی خان خاندان کا چہیتا اور والدین کا اکلوتا بیٹا جو اپنی ماں کو کہا کرتا تھا کہ ماں میں اسٹڈیز میں ٹاپ کروں گا کہ دنیا یاد رکھے گی۔ ٹیچر سعدیہ گل خٹک نے اپنے فرائض منصبی ایسے ادا کئے کہ اپنے طالب علموں کے ساتھ ہی جام شہادت نوش کیا ۔اسی ادارے کی پرنسپل طاہرہ قاضی اپنے اسکول کے بچوں کے دفاع میں ان پر فدا ہوئیں ۔ سیکورٹی فورسز کے ریسکیو کرنے تک کتنی قیمتی جانوں کا ضیاع ہو چکا تھا۔ وقت کے دھارے میں ماہ و سال تو کیا صدیاں بھی بہتی جاتی ہیں لیکن بچوں کی ماؤں کے لیے تو وقت رک سا گیا ہے۔خاص بات یہ کہ شہید ہونے والے بچوں کی اکثریت پوزیشن ہولڈر تھی ۔کوئی کمانڈو، کوئی ڈاکٹر،کوئی انجینئر کوئی ایئر فورس پائلٹ اور کوئی ایس ایس جی کمانڈوز بننا چاہتا تھا۔ اطلاع ملتے ہی والدین اسکول کی طرف بھاگے اور بے بسی میں اپنے دلاروں کی تلاش میں مختلف ہسپتالوں میں پہنچنے لگے۔ وہ بچے کتنی دیر تڑپے ہوں گے۔ اس سانحے کو بیتے آٹھ سال گزر گئے۔لیکن ننھے شہیدوں کے والدین کے لیے کوئی لمحہ ایسا نہیں جب انہوں نے اپنے پیاروں کو یاد نہ کیا ہو۔ ان کے لیے تو ہر دن 16 دسمبر ہے۔ دہشت گرد خون ناحق کے یہ دھبے خدا سے کیسے چھپائیں گے۔معصوموں کی قبر پر چڑھ کر جنت میں کیسے جائیں گے دہشت گردوں کی بربریت کی گواہی اسکول کے در و دیوار چیخ چیخ کر دے رہے تھے ۔یہ کیسے دشمن تھے جو بچوں سے ڈرتے تھے ان بچوں کے پاس کاپی قلم کتاب بستے کے سوا اپنے دفاع کے لیے کچھ بھی نہ تھا ۔وہ بوسے لینے والے ماتھے گولیوں سے چھلنی کر دیے گئے۔ اپنے باپ کا فخر بنے سینے لہو لہان کر دیے گئے ۔ اسکول کے در و دیوار نہ صرف ظلم کے گواہ ہیں بلکہ اساتذہ اور طلباء کی عزم و ہمت کے بھی گواہ ہیں جو نئے حوصلے سے اپنے سفر پر گامزن ہیں۔ یہ بچے تو سارے دسمبر بھیگے کر گئے ۔یہ بچے نئے روپ لے کر اس دھرتی کی شان بن کر دلوں میں زندہ رہیں گے۔اے پرچم عزیز تو کیوں سرنگوں ہے کہ تیرے دلارے شہادتوں کے جام پی کر تیرا سر بلند کرتے رہیں گے۔ اس دنیا میں کون سی آزمائش اولاد سے بڑھ کر ہو سکتی ہے۔ والدین نے اپنے بچوں کو اس قوم پر قربان کیا ہے لیکن اس قربانی کے بعد ان کے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند ہے ان کو یقین ہے کہ ان کے پیاروں کے خون سے علم کی شمع اور زیادہ روشن ہو گی اور زیادہ بلند ہو کر رہے گی۔ بچوں نے اپنی زندگی دے کر قوم کو زندگی دی،اللّٰہ کرے یہ قوم زندہ رہے دوبارہ مردہ نہ ہو جائے۔ مت سمجھو ہم نے بھلا دیا۔۔۔۔۔۔ ۔ مت سمجھو ہم نے بھلا دیا۔ ۔۔ ۔۔۔ یہ مٹی تم کو پیاری تھی سمجھو مٹی میں سلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عوام کی آواز
November 30, 2022

Easy Research Paper Topics For College Students

When composing a research paper, the temptation is often to just choose any topic and go with it. It is imperative you know why you’re writing a research paper before you start. If you’re not certain what the purpose of your paper would be or are not especially interested in researching and learning new things, then a broad subject is usually better. But if you’re interested in the region and you are in a position to devote a good amount of time to perform comprehensive research on the subject, a research paper is much simpler to write and you will be much more motivated to perform research and write a really comprehensive paper. Even if someone else seems interested in writing about the exact same subject or a research paper has been receiving a lot of attention right now, do not feel compelled to make it your topic unless you truly have some level of interest in it. One of the most interesting topics of this 21st century is same-sex unions. There have been a lot of legal battles over the previous couple of years between the rights of homosexual and lesbian couples. Gay rights have become almost a litmus test for public officials. These battles still play out across the country and have been an interesting part of the 21st century. However, there are some very interesting research papers that were written on same-sex unions, which your essay writing reviews may consider if this interests you. Many college research paper topics today center around political problems. This is because pupils are constantly becoming more politically aware and starting to find a greater need to become educated on these types of issues. One of the greatest ways to speak about these types of things with students is to talk about how they could use these things to better understand their own lives. It is essential for students to understand that they have an effect on the planet and as such, it’s their duty to become informed about each of the issues surrounding them. Another popular subject for college research paper issues is to examine of current events. There are two basic reasons why people examine current events: firstly, as a means to learn what’s currently going on in politics, and second, as a way to bring a specific problem or debate to light. There are several distinct ways to bring a certain subject to light. Students may examine current events through the lenses of journalism, news coverage, and even popular television shows. They can also examine current events through the lenses of culture, especially movies and novels. Another very simple research paper topics include the effects of anxiety on health, the benefits of exercising, the benefits of meditation, the effects and causes of obesity, the benefits of marijuana, and also the negative effects of watching too much television. When analyzing these subjects, it is important for pupils to look at the research that has been conducted on these. For instance, did you realize that anxiety can affect your memory as well? Various studies have shown that being stressed may reduce your ability to remember things. On the other hand, exercising regularly, exercising helps boost the amount of oxygen circulating in your body that helps you to better recall things. Some of the most popular research paper topics in the present era include climate change, poverty, social media, immigration, and the United States as a worldwide nation. In reality, climate change has been one of the most discussed issues in the previous decade or so. As the summer months, approach and temperatures climb, students will want to look into how increasing temperatures can influence the health of Americans. As students research social media and utilize it to promote their own triggers and illustrate different topics, they’ll be engaged with a subject that’s pertinent to their future careers.

عوام کی آواز
November 23, 2022

انڈونیشیا کے مرکزی جزیرے جاوا میں زلزلے کے نتیجے میں کم از کم 162 افراد ہلاک

انڈونیشیا کے مرکزی جزیرے جاوا میں زلزلے کے نتیجے میں کم از کم 162 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے، علاقائی گورنر رضوان کامل نے کہا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے اعداد و شمار کے مطابق، 5.6 شدت کا یہ زلزلہ مغربی جاوا کے شہر سیانجور میں آیا، جس کی گہرائی 10 کلومیٹر (چھ میل) تھی۔ سینکڑوں لوگوں کو ہسپتال لے جایا گیا، جن میں سے کئی کا علاج باہر ہو گیا۔ امدادی کارکن رات بھر کام کر رہے تھے تاکہ دوسروں کو بچانے کی کوشش کی جا سکے جو اب بھی منہدم عمارتوں کے نیچے پھنسے ہوئے ہیانڈونیشیا کے مرکزی جزیرے جاوا میں زلزلے کے نتیجے میں کم از کم 162 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے، علاقائی گورنر رضوان کامل نے کہا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے اعداد و شمار کے مطابق، 5.6 شدت کا یہ زلزلہ مغربی جاوا کے شہر سیانجور میں آیا، جس کی گہرائی 10 کلومیٹر (چھ میل) تھی۔ سینکڑوں لوگوں کو ہسپتال لے جایا گیا، جن میں سے کئی کا علاج باہر ہو گیا۔ امدادی کارکن رات بھر کام کر رہے تھے تاکہ دوسروں کو بچانے کی کوشش کی جا سکے جو اب بھی منہدم عمارتوں کے نیچے پھنسے ہوئے ہیںجس علاقے میں زلزلہ آیا وہ گنجان آباد ہے اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہے، بہت سے علاقوں میں ناقص تعمیر شدہ مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ اس سے قبل، انڈونیشیا کی نیشنل ڈیزاسٹر مٹیگیشن ایجنسی (بی این بی پی) نے کہا کہ تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 62 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے، مسٹر کامل نے کہا کہ زلزلے میں تقریباً 326 افراد زخمی ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ “ان میں سے زیادہ تر کو کھنڈرات میں کچلنے سے فریکچر ہوا”۔ لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ کچھ رہائشی ” الگ تھلگ جگہوں پر پھنسے ہوئے ہیں” اور کہا کہ حکام “مفروضے کے تحت ہیں کہ وقت کے ساتھ زخمیوں اور اموات میں اضافہ ہوگا”۔ مغربی جاوا کے گورنر نے مزید کہا کہ اس آفت سے 13,000 سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں، اور بی این بی پی نے کہا کہ زلزلے سے 2,200 سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔۔۔

ادب, عوام کی آواز
November 23, 2022

سفر نہیں کرتا

اِسی لِیئے کوئی جادُو اثر نہِیں کرتا گُمان دِل میں مِرے دوست گھر نہِیں کرتا جُھکا ہی رہتا ہے گشتی پہ اپنے شام و سحر پِسر کو بولتا ہوں کام کر، نہِیں کرتا فقِیر جان کے محبُوب پیار بِھیک میں دے میں اپنے آپ کو یُوں در بدر نہِیں کرتا ہُؤا ہے یُوں بھی کہ حالات خُود کُشی کے تھے اِرادہ کر کے چلا بھی، مگر نہِیں کرتا کڑے مقام پہ جُوں لوگ رُخ بدلتے ہیں دُعا قُبول خُدا بھی اگر نہِیں کرتا؟ ہُؤا جُنوں سے عقِیدت کے سُرخرو ورنہ معارکہ یہ محبّت کا سر نہِیں کرتا پڑا جو وقت گِھسٹنا پڑے گا اُس کو بھی وہ ایک شخص جو پیدل سفر نہِیں کرتا پتہ نہ تھا کہ کٹھن مرحلے بھی آئیں گے وگرنہ عہدِ وفا عُمر بھر نہِیں کرتا رشِیدؔ کرتی حُکُومت اگر پذِیرائی کوئی بھی سودۂِ عِلم و ہُنر نہِیں کرتا رشِید حسرتؔ

عوام کی آواز
November 22, 2022

How to Get Custom Essays

If you’ve been considering writing custom essays for high school or college, you’ll understand how intimidating it can be. There is the writing itself, of course; there is the grammar, punctuation, spelling, etc. There are many things to keep track of that you may easily become overwhelmed. Since the first choice of many students who purchase custom essays for college, the biggest surprise most have heard is they’re so many and still have not learned of the options they have. These days, a lot of men and women look for different alternatives to conventional college essays. The choices vary from software to practice templates and papers to websites that offer ready-made templates for writing essays. Even those who don’t wish to buy custom essays online often choose these choices since they can get a larger variety of papers to choose from, some of which may not be as great as the sort essay company reviews of papers high school and college students are used to writing. Plus it enables people who might not otherwise write creatively to hone their writing skills. So which ones are the very best custom essay service providers? This is something bloggers and writers frequently wonder about. To answer this question, an individual should look past the title and look at the website. It needs to be clear about the type of services they provide and if they’re created for different sorts of authors, and even different sorts of academic disciplines. Some writers may specialize in writing essays for certain topics, though some may be able to perform research on whatever topic comes up. Professional custom essays support suppliers should also have the ability to aid writers to determine how to structure their papers. There are several kinds: semesters, disjunctions, coherence, and topical evaluation, to mention a few. Each type has its own particularities, therefore a writer will need to take time to examine the way that his paper will be organized prior to starting. The same goes for the deadline. Some need time-bound newspapers, while others don’t have any deadline at all – it is entirely up to the writer. Finally, when using a writing service, it would be a good idea to buy custom essays from an established firm. New composing services may not always be as great as the businesses that have been around for a while. A fantastic writer should be able to write well even in unfamiliar environments. Look out for authors who have expertise in the area, or those who have worked with big publishing houses. There are tons of different custom essay-writing options, as you can see. You’ll probably have a very clear idea of the kind of papers you’re interested in writing, and you will know what kind of writer you are too. This ought to be useful when you go looking for a good writing service. If it is possible to find out more about the writers and the professional services they provide, you should have the ability to make the right decision.

عوام کی آواز
November 22, 2022

Locating a Good Essay Service

If you’re trying to find good essay support, you’ll realize there are a lot of options available to you online. The real key to finding the correct service will be to be aware of what your needs are, then look for one that meets those requirements. The first thing you want to do is understand what composition support is about.