دُور کر دے گا کبھی سات نہِیں ہونے دے گا
وقت بے درد مُلاقات نہِیں ہونے دے گا
غم کی وہ آنکھوں میں سوغات لِیے پِھرتا ہے
درد کی کوئی بھی برسات نہِیں ہونے دے گا
اُس نے سِیکھا ہے کوئی قطع کلامی کا ہُنر
اِس لِیے ڈھنگ سے ہی بات نہِیں ہونے دے گا
تُو نے سونپی ہے جِسے ایک اندِھیری نگری
وہ تِرے دِن کو کبھی رات نہِیں ہونے دے گا
تُم کو معلُوم ہے فِطرت ہے مگر خُوش گوئی
اپنے لہجے کو کبھی دھات نہِیں ہونے دے گا
ہم نے سوچا تھا کہ آسان رہے گی منزِل
پر حرِیف ایسا ہے بد ذات، نہِیں ہونے دے گا
دِل عجب چِیز ہے یہ خُود تو رہے شِکوہ کُناں
میں کرؤں تُم سے شکایات، نہِیں ہونے دے گا
سانپ کی طرح مِرا بھاگ بدلتا ہے کھال
تیرے ہاتھوں میں مِرا ہات نہِیں ہونے دے گا
جِس کی بیٹی کی کبھی لوٹ گئی ہو حسرتؔ
خالی لوٹے کوئی بارات، نہِیں ہونے دے گا
رشِید حسرتؔ