Skip to content

منفی میں مثبت بات

ہم روزمرہ کی زندگی میں بہت سی باتوں کی شکایت کرتے ہیں اور ان پر پریشانی محسوس کرتے ہیں لیکن اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ ہر منفی بات میں مثبت پہلو ہوتا ہے اگر انسان اپنا دل صاف کرلے اور جو باتیں میں نے نیچے بیان کی ہیں ان پر عمل کرکے زندگی خوشگوار گزر سکتی ہیں ۔منفی سوچ کی وجہ سے خاندان کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں اور زندگی جہنم سے بھی بدتر بن جاتی ہے اور منفی سوچ کی وجہ سے ذہن پر دباؤ ہوتا ہے جس سے انسان میں چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے اور یہ بہت سے ذہنی بیماریوں کا سبب بنتا ہے ۔ آیے دیکھتے ہیں وہ کون سے منفی باتیں ہیں جن سے ہم مثبت پہلو نکال سکتے ہیں :

نمبر1۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب مرد گہری نیند میں ہوتا ہے تو وہ زور زور کے خراٹے لیتا ہے اس سے اس سے اس کی بیوی بہت پریشان ہوتی ہے اور اور اکثر اسی بات پر میاں بیوی میں جھگڑا رہتا ہے۔خراٹے لینا تو ایک فطری بات ہے تو اگر بیوی یہ سوچ لے کہ :میں شکر گزار ہوں اپنے خاوند کی جو اگرچہ رات پر خراٹے بھرتا ہے ،لیکن وہ رات کو ہوتا تو میرے ساتھ ہے نا،نہ کہ کسی اور کے ساتھ۔یہ بات سوچنے کی وجہ سے کئ گھر میں امن و سکون ہو جائے گا ۔

نمبر2۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے ہے کہ بیٹی اپنے گھر کا سارا کام کاج کرتی ہے مگر اس سے کوئی غلطی یا کوتاہی ہو جائے تو اس کی ‏ماں اسے بہت سی باتیں سناتی ہے آپ کبھی کبھار مار بھی دیتی ہے مگر اس کی بجائے اگر ایک ماں یہ سوچ لے کہ:میں شکر گزار ہوں اپنی بیٹی کی جو گھر کا کام کرتے ہوئے اگرچہ بڑھاتی ہے اگر اس سے تھوڑی سی غلطی بھی ہو گئی تو کیا ہوا ،لیکن وہ گھر پر ہے نہ کہ باہر کسی کے ساتھ پینگیں لڑا رہی ہے

نمبر3۔اکثر لوگوں کو دیکھا اور سنا گیا ہے جو کہ ہم بھی اکثر کرتے ہیں کہ ہم حکومت کا گلہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم ٹیکس کیوں دے رہے ہیں اور ٹیکس کے خلاف طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اس سے اکثر معاشرے میں بدسکونی پھیلی رہتی ہے ٹیکسوں کا گلہ کرنے کے بجائے اگر ہم یہ کہہ دیں کہ:ان ٹیکسوں کا شکر گزار ہوں جو ادا کرتا ہوںکیونکہ اس کا مطلب ہے میں ملازمت کر رہا ہوں ہو اور ملک کے خزانے میں اپنے حصے کی رقم ادا کر رہا ہوں

نمبر4۔بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں ہیں ان کو ہم خوامخواہ سوچ کر میں آپ کو پریشان کرتے رہتے ہیں جیسا کہ ہم اکثر دیکھتے ہیں شادی بیاہ اور دعوتوں میں لوگ گند پھیلاتے رہتے ہیں اور ہم پھر ہم ان کے خلاف منفی باتیں سوچتے رہتے ہیں مگر ہم خود صفائی کریں اور یہ سوچیں کہ:میں شکر گزار ہوں اس دعوت کے بعد صفائی کرنے کی ضرورت کا ۔اس کا مطلب ہے میرے اردگرد ایک حلقہ احباب ہے جن کی خاطر مدارت کا مجھے موقع ملا ہے

نمبر5۔ہم اکثر دیکھتے ہیں ہمارے کھڑکیاں اور دروازے پر بہت سی مٹی اور گند جمع ہوتا ہے ہمیں دیکھ کر بہت برا لگتا ہے اور بجاۓ اس کے کہ ہم خود صفائی کریں ہم اکثر ماں بہن یا نوکرانی کو برا بھلا کہ خود کو ذہنی اذیت دیتے رہتے ہیں اور اس کی بجائے اگر ہم یہ سوچ لیں کہ:میں اپنے فرج اور لڑکیوں کا شکرگزار ہوں جنکی مجھے صفائی اور جھاڑ پھونک کرنی پڑتی ہے اس کا مطلب ہے میرا اپنا ایک گھر ہے

نمبر6۔اکثر لوگ ہوتے ہیں جو ملک میں عدم انصاف اور بہت سارے مسئلے مسائل کی وجہ سے حکومت کے شکوہ گلہ کرتے رہتے ہیں اور اگر ہم اس حکومت کے ماننے والے ہوتے ہیں تو اس شکایت کرنے والے شخص کو برا بھلا کہتے ہیں اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشان کرتے ہیں اور طرح طرح کی منفی سوچ ان کے بارے میں رکھنے لگتے ہیں مگر اس کی بجاے اگر ہم یہ سوچ لیں کہ:میں ان شکایات کا بھی شکر گزار ہوں ہو جو میں حکومت کے بارے میں سنتا ہوں ،اس کا مطلب ہے ہمارے ہاں آزادی رائے ہے

نمبر7۔اکثر نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لیے قوم یا شہر سے دور جاتے ہیں اور پھر پردیس میں چھوٹے موٹے مسائل کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں اور ذہنی دباؤ کا شکار اس سے ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں مگر ان پریشانیوں کو سوچنے کے بجائے اگر وہ طالب علم یہ سوچ لے کہ:میں شکر گزار ہوں اپنے والدین کا جو مجھے اس مشکل دور میں تعلیم کے ساتھ ساتھ میری ہر ضروریات پوری کر رہے ہیں

نمبر8۔ہم اکثر محنت کرنے کی وجہ سے تھک جاتے ہیں اور پھر اللہ تعالی کا گلا شکوہ کر کے اپنے آپ کو ذہنی مریض بنا لیتے ہیں مگر اس گلے شکوے کی بجائے ہم یہ سوچ لیں کہ:دن کے آخر میں اس تھکاوٹ اور جسم میں درد کا بھی شکر گزار ہوں اس کا مطلب ہے میں محنت کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو

نمبر9۔اکثر جب ہم گھر سے دور ہوتے ہیں تو گھر والے اور دوست ہمارے بارے میں پریشان ہوتے ہیں تو یا تو ہمیں خطوط بھیجتے ہیں یا آج کے دور میں کال یا ایس ایم ایس کرتے ہیں تو اس وجہ سے ہم یہ سوچ لیتے ہیں کہ وہ ہمیں بار بار تنگ کرتے ہیں مگر اس کے بجائے اگر ہم یہ سوچ لیں کہ:شکر گزار ہوں کہ آپنی فیملی کا اور دوستوں کا جو مجھے خطوط یا ایس ایم ایس کر تے ہیں اس کا مطلب ہے میرے دوست ہیں جو میرے بارے میں سوچتے ہیں

نمبر10۔آخری بات ہم اپنے ملک کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے اور اگر اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ہم پر رزق کی تنگی ہو جائے تو ہم اپنے رب کے گلے شکوے کرنا شروع کر دیتے ہیں مگر اس کی بجائے اگر ہم یہ کہہ دیں کہ:ان سب نعمتوں کے لیے اپنے خالق اور مالک کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے بہت سی نعمتوں سے نوازا اور ان کے ادراک اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کی ۔

دیکھیں دوستو لاعلمی میں ہم بہت سے منفی کام کر رہے ہوتے ہیں اور غلط باتیں سوچتے رہتے ہیں جس وجہ سے ہمیں بہت سی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ہم اپنے الفاظ کا چناؤ صحیح سے کریں اچھا سوچیں اچھے کام کریں تو ہمیں اچھی اور خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں ۔شکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *