جہاں میرے وطن عزیز کو بہت سے مسائل درپیش ہیں ۔ غربت اور مہنگائ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔ عام انسان غربت کو رو رہا ہے ۔ ہر ضرورت کی اشیاء انسانی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئ آبادی ہے ۔ یہ بات غور و فکر کی ہے کہ مہنگائ سے زیادہ آبادی بڑھ رہی ہے ۔ جس کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ پچھلے آٹھ ، نو سالوں میں آبادی بہت زیادہ تعداد میں بڑھی ہے ۔ جس پر کوئ بھی انسان غور و فکر کرتا نظر نہں آہا ۔ ہر انسان صرف حکومت ہی کو ذمہ دار ٹھرار ہا ہے ۔ کوئ بھی انسان بڑ ھتی ہوئ آبادی پر بات تک کرنا گوارا نہیں کرتا ۔ سوچنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ کیا یہ صرف حکومت کا ہی کام ہے ؟ نہیں حکومت سے لے کر ہر عام انسان کے لیے فکر کی بات ہے ۔ یہ بات تو ہمارا مزہب بھی کہتا ہے کہ : “چادر دیکھ کر پاو پھیلاو ” ۔ اگر آبادی اسی طرح بڑ ھتی رہی تو اب تک تو لوگ کھانے پینے کی اشیاء کو روتے ہوۓ نظر آ رہے ہیں ۔ ایک وقت ایسا ہو گا کہ ریہائش کیلیے جگہ تک میسر نہ ہو گی ۔ جو کام سب سے اہم اور مشکل ہے ۔ وہ ہے لوگوں کے درمیان کنبے کو محدود کرنے کی خواہش پیدا کرنا ۔ تقر یبا 2011ء کی بات ہے کہ جب بھی اکثر گھر میں اکتاہٹ محسوس ہوتی تو ہم سیر کے لیے گھر سے باہر نکلتے ہمارے گھر سے کچھ فاصلہ پر زمین تھی جس میں کاشت کاری ہوتی تھی فصلیں دیکھ کر طبیعت خوش ہو جاتی اور دل و دماغ بھی پر سکون ہو جاتا ۔ پھر کجھ عرصہ مصروفیات کی بنا پر نہیں جا سکے۔ تو اب ایک دن جا رہے تھے ۔ تو دیکھ کر حیرانگی ہوئ ۔ اب ہر جگہ ٹاؤن بن چکے تھے ۔ دور دور تک ٹاؤن ہی نظر آرہے تھے ۔ مجھے یہ مناظر دیکھ کر عجیب سی گھبراہٹ سی محسوس ہوئ اور ذہن میں اک سوال آیا : کہ آگر یہ آبادی اسی طرح برھتی رہی تو کاشت کاری کہاں پر ہوگی اور لوگ کیا کھایئں گے ؟ سبزیاں ، گندم یا پھر کماد وغیرہ کیا لوگ اپنی چھتوں پر اگائیں گے ۔
اس کے لیے حکموت کو بہت زیادہ اقدامات کرنے ہوں گے ۔ عوام میں فیملی پلا ننگ اور منصوبہ بندی کے عمل کو اجاگر کرنا ہو گا ۔ مہنگائ سے زیادہ بڑھتی ہوئ آبادی کو قابو میں کرنا ہو گا ۔ ورنہ ایک دن ایسا آۓ گا کہ فصلیں تو کیا قدم رکھنے کی بھی جگہ نہیں ہو گی ۔
حکومت کو چائیے کہ منصوبہ بندی اور فیملی پلاننگ کے ادارے ہر اس جگہ قائم کیے جائیں گے جہاں پر شرح پیدائش زیادہ ہو اور تعلیم و شعور کی کمی ہو ۔ جہاں پر عورت کی بات کو کوئ اہمیت نہ دی جاتی ہو ۔ وہاں پر ایسی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو کہ عورت اور مرد میں فمیلی منصوبہ بندی کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لائق بناسکے اور ان میں سمبھ پیدا کر سکیں ۔
جن گھروں میں آبادی زیادہ ہے ۔ مہنگائ کو بھی وہی لوگ رو رہے ہیں کیونکہ جس گھر میں آٹھ سے دس بچے ہوں گے ۔ نہ تو وہاں پر تعلیم میئسو ہو گی نہ ہی ضرورت کی کوئ اشیاء ہو گی اور نہ ہی دین کا علم ہو گا ۔ جہاں پر یہ سب چیزیں نہین ہو گی ۔ وہاں پر احساس اور انسانیت کو سمجھنے کا علم کبھی نہیں ہو گا ۔
کبھی چینی ، کبھی گندم کا رونا ۔ کیا کبھی سب نے مل کر یہ سوچا ہے کہ آنے والے وقت میں ہماری نئی نسلون کو اتنی خوراک مل سکے گی یا نہیں ؟
صرف اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آبادی کے بڑھنے سے مہنگائ ہو ئ ہے ۔ یہ اکیلا حکومت کا کام نہیں ۔ ہم اس ملک میں رہتے ہیں ۔ اپنے لیے نہ سہی لیکن اس ملک کی فکر ضرور کریں ۔ اگر آبادی اسی طرح بڑھے گی تو ہمارا وطن ترقی یافتہ ممالک میں کیسے شامل ہو پاۓ گا ؟ اس وطن نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے لیکن ہم نے اسے کیا صلہ دیا ؟ کیا صرف کھانے پینے کی فکر ہے ہمیں ؟ اس وطن عزیز پر بوجھ نہ بنیے ۔ اس وطن کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے دیں ۔
طبعیت
Awesome