Skip to content

۔۔۔۔تعصب۔۔۔

۔۔۔۔تعصب۔۔۔

 

 

از۔۔۔۔۔ارم رحمٰن ایڈووکیٹ
لاہور

ہمارے معاشرے میں خصوصی طور پر اور دیگر معاشروں میں عمومی طور پر تعصب نامی عفریت کا وجود تقريبا ہر جگہ پایاجاتا ہے ۔ اس کاسبب اور محرکات جاننے کے لیے سب سے پہلے اس کا مطلب اور مفہوم سمجھناہوگا ۔

تعصب کا مطلب ہے کسی بھی انسان یا گروہ کے تعلق سے منفی ، معاندانہ یا مشکوک رویہ رکھنا ،اسے خود سے کمتر یا حقیر سمجھنا یا اس کے لیے ایسا سلوک اختیار کرنا جس میں عزت، احترام ،خلوص اور بھلائی کاپہلو نہ نکلتا ہو ۔ اس تعصب کو اگر دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو اس کامفہوم کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ اپنے پسندیدہ انسان یا گروہ کو ایسی مراعات اور سہولیات دینا جن کا وہ حقدار نہ ہو، اور اتنا احترام اور اہمیت دیناجس کاوہ اہل نہ ہو ۔ الغرض تعصب کی بے انتہا اقسام ہیں اور مزید بن سکتی ہیں ۔

تعصب کی بہت اہم اور نمایاں وجوہات میں سب سے چند درج ذیل ہیں

نمبر1.عدم مساوات
زندگی کے ہر پہلو میں ناہمواری اور غیر برابری ،چاہے وہ کسی بھی شکل وصورت میں ہو، چاہے لسانی تعصب ہو یا پھر ذات اور برادری سے متعلق ہو یا پھر معاشی اور سماجی ۔ یہ سب عدم مساوات کی مثالیں کہلاتی ہیں اور تقریباً ہر انسان ان تعصبات میں الجھا نظر آتا ہے یا الجھا دیا جاتا ہے ۔

نمبر2. مذہبی عقائد
اکثر دیکھا گیا ہے کہ مختلف مذاہب اور ان کے پیروکار اپنے علاوہ کسی دوسرے کے عقائد کو عزت اور اہمیت نہیں دیتے ۔ انھیں اپنے سوا دوسرے عقائد جھوٹ اور غلط دکھائی دیتے ہیں اور مبینہ طور پر ان مذہبی عقائد کی عجیب و غریب توجیحات و توضیحات پیش کی جاتی ہیں ۔ اور اکثریت مسلک، فرقہ اور عقائد پر ایک دوسرے سے برتری اور سبقت لے جانا اپنا حق سمجھتی ہے ۔

نمبر3.عدم انصاف
قانون کی بالا دستی اور اس کا ایک ہی ملک کے باشندوں پر یکساں اطلاق نہ ہونا تعصب کی بدترین اور اذیت ناک قسم ہے جس سے سماجی بگاڑ میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے ۔ عوام اس ناانصافی کے ہاتھوں پستے ہوئے بغاوت پر اتر آتی ہے ۔ اکثر قانون شکنی کرتے ہوئے قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ یا تو انصاف نہیں ہوگا یا پھر امیر اور بااثر طبقہ دولت اور اثرورسوخ سے انصاف خرید سکتا ہے یا اپنے ضمیر کا سودا کرسکتا ہے ۔ اصل حقدار اور مظلوم انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے ۔

اسی تعصب کی وجہ سے بہت سی نیکیاں اور بھلائیاں پس پشت رہ جاتی ہیں یا انہیں بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرناپڑجاتا ہے ۔ کوئی بھی معاشرہ کسی عدم توازن کی صورت میں کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیتا ہے لیکن عدم انصاف پر مبنی معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا ۔ اس کے حکمران کبھی بھی وفادار اور عوام کبھی خوددار نہیں ہوسکتے ۔ جب محروم طبقے کو پتہ چلتا ہے کہ کہیں بھی اس کی دادرسی نہیں ہوگی تو اس کی وفادرای بھی متزلزل ہوجاتی ہے ۔

تعصب کی نفسیاتی وجوہات
کچھ تعصب خالصتاً نفسیاتی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔
کوئی انسان اپنی بد فطرتی اور جبلت کے پیش نظر کسی دوسرے کو خود سے بہتر نہیں سمجھتا یا بہتر نہیں سمجھ پاتا ۔ اس کے سامنے کتنا بھی معزز اور قابل شخص آجائے وہ اس کا احترام نہیں کرتا اور اپنی جھوٹی انا اور ضد میں لوگوں سے تعلقات خراب کرلیتاہے اور ایسی کئی حرکات کر گزرتا ہے جو صرف ایک دو ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے باعث تکلیف واذیت کا سبب بنتی ہیں ۔

اب سوال یہ اٹھتاہے کہ

کیا مذہبی تقلید کا پیروکار رہ کر اس تعصب سے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے ؟
تو یہاں بھی صورتحال مبہم اور بے اثر محسوس ہوتی ہے کیونکہ ایک ہی ملک میں مختلف مذاہب کے پیرو کار اپنی زندگی گزارتے ہیں اور بہت لوگ تو مذہب کی بھی مزید شاخیں بنا دیتے ہیں اور بہت سی ایسی بدعتیں کو چلن اور رواج میں لاتے ہیں جن کا اصل میں مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔

اب اس باریکی کو سمجھنے کے لیے جتنا علم اور عمل درکار ہے وہ معاشرے میں مفقود ہے ۔

کیا نفسیاتی ماہرین کے پاس تعصب کا علاج ہے ؟
ہمارے معاشرے میں نفسیاتی ماہرین نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ بڑے محدود پیمانے پر علاج کر پاتے ہیں اور ان کا علم اتنا وسیع اور عام فہم نہیں ہوتا کہ سب سمجھ سکیں ۔دوسری بات کہ نفسیاتی ماہرین سے رجوع کرنے والوں کو ہمارے اطراف اور ہمارے سماج کے لوگ پاگل سمجھنے لگتے ہیں جبکہ یہ بھی ایک طریقہء علاج ہے اور انسانی سوچ اور رویوں کو درست سمت میں لانے کے لیے مؤثر لائحہ عمل ہے ۔

لیکن تا حال ہمارے معاشرے میں اسے ابھی تک شرف قبولیت حاصل نہیں ہوسکا ہے ۔ اکثریت ایسی بھی ہے جو اسے مذہب کے مخالف سمجھتی ہے اور ہر مسئلے کا حل مذہبی نکتہ نظر سے اخذ کرنے کو ترجیح دیتی ہے پھر چاہے خود مذہب نے ہی اس مخصوص طریقہ علاج کی اجازت کیوں نہ دے رکھی ہو ۔

کیا قانونی طور پر تعصب کو کم سے کم کرنے کا حل نکل سکتا ہے ؟
تو اس کا جواب کسی حد تک ہاں میں ہے ۔
کیونکہ جب سب لوگ اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر معاشرے اور سماج میں کام کرتے نظر آئیں گے تو عوام کے شعوری اور لاشعوری رویوں میں لازماً تبدیلی آئے گی ۔ کسی غریب کو کوئی امیر بے جا اور ناجائز تنگ نہیں کر سکے گا ۔ ثروت مند اور اثرورسوخ والے لوگ بے سبب کسی معمولی غریب کا حق نہیں ماریں گے تو بہت سے ذہن اس بات کو فوری تسلیم کرلیں گے کہ صرف اہلیت اور قابلیت ہی کام آئے گی ۔

سماجی رویوں میں برابری اور معاشرتی نا ہمواریوں کو دور کرنے کے لیے قانون بہت ٹھوس اقدام کرسکتا ہے ۔عوام کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دینا قانونی اور اخلاقی پستی کا سبب بنتا ہے ۔ اخلاقی اقدار کا جنازہ غربت یاکم تعلیم ہونے سے نہیں نکلتا بلکہ عدم مساوات سے نکلتا ہے ۔

شکل وصورت ،نسل ،ذات برادری فرقے مسلک ، مسجد مندر چرچ سب اخلاقیات اور اتفاق کا درس دیتے ہیں ۔کوئی بھی مذہب کبھی بھی کمتری اور حقارت کی تائید و تلقین نہیں کرتا بلکہ سچا پکا مذہبی انسان خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اس کا پہلا درس انسانیت ہوتا ہے ۔

چھوٹا بڑا ،کمتر برتر، امیر غریب، کالا گورا ، سب انسان کی خود ساختہ مشکلات ہیں جن سے باہر نکلنے کا حل صرف اعتدال ہے ، اپنی سوچ اپنی ذہنیت اور اپنی زبان سب کا استعمال سوچ سمجھ کر اور اعتدال سے کیا جائے ۔تعلیم وتربیت صرف ڈگری اور اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے سے نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ذہنی مشق ہے جو انسان کے ذہن کو تندرست رکھتی ہے

جسم بیمار ہو تو صرف خود کو تکلیف پہنچتی ہے لیکن ذہن بیمار ہو تو بہت دور دور لوگ اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں ،تعصب ذہنی ہو سماجی ہو معاشی ہو, بیمار ذہن کا عکاس ہے ،تعصب سے بچنے کا واحد حل اپنے دماغ کو منفی اور بے تکی سوچوں سے آزاد کرنا ہے ۔ بیمار ذہن سارے معاشرے کی خوشیوں کا دشمن ہوتا ہے اور معمولی سی شخصی بیماری ناسور بن جاتی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *