*دسمبر لہولہو۔۔۔۔۔۔* *سانحہ پشاور

In عوام کی آواز
December 09, 2022
*دسمبر لہولہو۔۔۔۔۔۔* *سانحہ پشاور

*دسمبر لہولہو۔۔۔۔۔۔*
*سا نحہ پشاور*۔

*تحریر : مسز علی گوجرانوالہ*

بچے اسکول جائیں اور واپس نہ آئیں
ایسا دسمبر یا اللہ پھر کبھی نہ آ ئے

کچھ خاص دن لوح تاریخ پر اس طرح رقم ہو جاتے ہیں کہ آنے والے زمانے کی دھول بھی انہیں دھندلا نہیں کر پاتی۔ 16 دسمبر کا دن بھی ایسے ہی دنوں میں سے ایک ہے۔اس دن نے ہماری تاریخ میں ایک ایسا باب رقم کیا جو ظلم و بربریت سے بھرا ہوا تھا۔ ہاں یہی وہ دن ،یہی مہینہ،یہی وہ لمحے تھے جب فلک سے فرشتوں کو فرشتے لینے آئے تھے۔ہاں یہی وہ دن تھا کہ جب ما ئیں دروازے تکتے رہ گئیں تھیں اور بچے اسکول سے جنت چلے گئے تھے۔

جن بچوں کا خون ملک و قوم پر قرض ہے۔

اس دن بھی معمول کے دنوں کی طرح ماؤں نے بچوں کو اسکول کے لیے تیار کر کے چومتے ہوئے خدا کی امان میں دیا تھا بچے بھی مسکراتے ہوئے خدا حافظ کہہ گئے تھے۔ مستقبل کے حسین خواب دیکھنے والی معصوم آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں تھیں۔کتابوں کے سیاہ الفاظ ننھے پھول کلیو ں کے لہو سے بھیگ گئے تھے۔ سرد دسمبر لہو سے نہا گیا تھا۔ اور میرے وطن کی معصوم کلیاں اور پھول اپنے مالیوں کو ابدی صدمے و غم دے کر مرجھا گئے تھے۔

سولہ دسمبر 2014 کی صبح تقریباً ساڑھے نو بجے پشاور کی وارسک روڈ آرمی پبلک اسکول پشاور سے متصل آبادی بہاری کالونی سے 8 دہشت گرد اسکول میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے سب سے پہلے آڈیٹوریم پر حملہ کیا اور اسکول کے باقی حصوں میں موجود طلباء کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نشانہ بنایا۔ اپنی اس گھناؤنی کارروائی کے دوران پورے اسٹاف کو یرغمال بنائے رکھا۔144 معصوم بچے اس دہشت گردی کا شکار ہو گئے۔اس سانحے میں کم سنوں کی عمریں 6سال سے 20 تک تھیں۔ ان ننھے شہیدوں میں 6 سالہ خولہ بھی شامل تھی ۔ خولہ کا اسکول میں یہ پہلا اور آخری دن تھا۔جو اپنے داخلہ کے لیے اسکول آفس ائی ہوئی تھی۔ ظالموں نے خولہ کے ماتھے کو نشانہ بنایا۔

کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ 16 دسمبر کی صبح گھر سے نکلنے والے آرمی پبلک اسکول کے بچے گھر تابوت میں لوٹیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ وزن باپ کے کندھے پر بیٹے کے جنازے کا ہوتا ہےاور پشاور میں 144 خاندانوں نے یہ وزن کلمہ شہادت بلند کرتے ہوئے اٹھایا ۔

جنازوں پر پھول کئی بار دیکھے ہیں
پھولوں کے جنازے کا عجب ہی منظر تھا

ظالم دہشت گردوں نے قتل گاہوں میں اور درس گاہوں میں کوئی فرق نہ رہنے دیا۔پوری قوم وہ ٹرپتے ہوئے بچے اور ظلم کبھی نہیں بھول سکتی ۔
والدین کا اکلوتا بیٹا محمد یاسین 16دسبمر کو چھٹی کرنا چاہتا تھا۔
اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا فہد حسین جس کی ماں آج تک ڈپریشن کا شکار ہے۔
16سالہ مبین آفریدی اپنے باپ کی طرح ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔
منیب اور شہیر دو بھائی آرمی پبلک اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔ چھوٹا بھائی شہادت کا مرتبہ پا گیا۔

شہید محمد علی خان خاندان کا چہیتا اور والدین کا اکلوتا بیٹا جو اپنی ماں کو کہا کرتا تھا کہ ماں میں اسٹڈیز میں ٹاپ کروں گا کہ دنیا یاد رکھے گی۔
ٹیچر سعدیہ گل خٹک نے اپنے فرائض منصبی ایسے ادا کئے کہ اپنے طالب علموں کے ساتھ ہی جام شہادت نوش کیا ۔اسی ادارے کی پرنسپل طاہرہ قاضی اپنے اسکول کے بچوں کے دفاع میں ان پر فدا ہوئیں ۔ سیکورٹی فورسز کے ریسکیو کرنے تک کتنی قیمتی جانوں کا ضیاع ہو چکا تھا۔ وقت کے دھارے میں ماہ و سال تو کیا صدیاں بھی بہتی جاتی ہیں لیکن بچوں کی ماؤں کے لیے تو وقت رک سا گیا ہے۔خاص بات یہ کہ شہید ہونے والے بچوں کی اکثریت پوزیشن ہولڈر تھی ۔کوئی کمانڈو، کوئی ڈاکٹر،کوئی انجینئر کوئی ایئر فورس پائلٹ اور کوئی ایس ایس جی کمانڈوز بننا چاہتا تھا۔

اطلاع ملتے ہی والدین اسکول کی طرف بھاگے اور بے بسی میں اپنے دلاروں کی تلاش میں مختلف ہسپتالوں میں پہنچنے لگے۔ وہ بچے کتنی دیر تڑپے ہوں گے۔ اس سانحے کو بیتے آٹھ سال گزر گئے۔لیکن ننھے شہیدوں کے والدین کے لیے کوئی لمحہ ایسا نہیں جب انہوں نے اپنے پیاروں کو یاد نہ کیا ہو۔ ان کے لیے تو ہر دن 16 دسمبر ہے۔ دہشت گرد خون ناحق کے یہ دھبے خدا سے کیسے چھپائیں گے۔معصوموں کی قبر پر چڑھ کر جنت میں کیسے جائیں گے دہشت گردوں کی بربریت کی گواہی اسکول کے در و دیوار چیخ چیخ کر دے رہے تھے ۔یہ کیسے دشمن تھے جو بچوں سے ڈرتے تھے ان بچوں کے پاس کاپی قلم کتاب بستے کے سوا اپنے دفاع کے لیے کچھ بھی نہ تھا ۔وہ بوسے لینے والے ماتھے گولیوں سے چھلنی کر دیے گئے۔ اپنے باپ کا فخر بنے سینے لہو لہان کر دیے گئے ۔

اسکول کے در و دیوار نہ صرف ظلم کے گواہ ہیں بلکہ اساتذہ اور طلباء کی عزم و ہمت کے بھی گواہ ہیں جو نئے حوصلے سے اپنے سفر پر گامزن ہیں۔ یہ بچے تو سارے دسمبر بھیگے کر گئے ۔یہ بچے نئے روپ لے کر اس دھرتی کی شان بن کر دلوں میں زندہ رہیں گے۔اے پرچم عزیز تو کیوں سرنگوں ہے کہ تیرے دلارے شہادتوں کے جام پی کر تیرا سر بلند کرتے رہیں گے۔ اس دنیا میں کون سی آزمائش اولاد سے بڑھ کر ہو سکتی ہے۔ والدین نے اپنے بچوں کو اس قوم پر قربان کیا ہے لیکن اس قربانی کے بعد ان کے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند ہے ان کو یقین ہے کہ ان کے پیاروں کے خون سے علم کی شمع اور زیادہ روشن ہو گی اور زیادہ بلند ہو کر رہے گی۔ بچوں نے اپنی زندگی دے کر قوم کو زندگی دی،اللّٰہ کرے یہ قوم زندہ رہے دوبارہ مردہ نہ ہو جائے۔

مت سمجھو ہم نے بھلا دیا۔۔۔۔۔۔ ۔
مت سمجھو ہم نے بھلا دیا۔ ۔۔ ۔۔۔
یہ مٹی تم کو پیاری تھی
سمجھو مٹی میں سلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔