اِنتظام کھانے کا
ہے اِنتظار فقط پِھر بہار آنے کا
پتہ لگائے گا صیّاد آشیانے کا
بُلایا بزم میں، پِھر آنکھ بھر نہِیں دیکھا
ملال کیا مِرے مایُوس لوٹ جانے کا
مَرا جو گاؤں میں فاقوں سے، اُس کا سوئم ہے
کِیا ہے مِیر نے یہ اِنتظام کھانے کا
بدل گیا ہُوں، کہ حالات کا تقاضہ تھا
جواز کوئی نہِیں پاس تیرے آنے کا
ہُؤا ہُوں دُور جو اپنوں سے، سر پہ بن آئی
بڑا جُنُون تھا پردیس میں کمانے کا
گِرانی ہونٹوں کی مُسکان لے اُڑی یارو
بہانہ ڈُھونڈ کے لایا ہوں مُسکرانے کا
پڑا ہے اُوندھا، محبّت کا شہسوار تھا جو
بڑا تھا شوق اُسے بخت آزمانے کا
کہا سُنا جو کبھی، تُم مُعاف کر دینا
خیال دِل سے نکالا ہے تُم کو پانے کا
کبھی تو بِن کہے بھی بات مان لیتا تھا
رشِیدؔ گُر اُسے آیا ہے اب ستانے کا
(رشِید حسرتؔ )