عوام کی آواز
November 21, 2022

مری کا سفر

میں اور میرے گھر والے کافی عرصہ سے سوچ ہی رہے تھے کہ ہم مری کی سیر کو جائیں،لیکن ہر بار کوئی نہ کوئ کام آ جاتا۔خیر ایک دن آخر کار ہم نے فیصلہ کر ہی لیا کہ ہم جا کر ہی رہیں گے،جمعہ کی صبح ہم اپنے گھر سے مری کی طرف روانہ ہوئے۔ چونکہ ہم راولپنڈی میں رہتے ہیں تو مری وہاں سے اتنا دور نہیں تھا تقریباً دو سے تین گھنٹے کا راستہ تھا۔ہم نے راستے میں بہت سے خوبصورت مناظر دیکھے،،اور راستے میں ایک جگہ پر بارش شروع ہو گئی پھر ایک جگہ پر ہم نے گاڑی روک سکتی یہ وہاں پر پر ایک ہوٹل سے کھانا کھایا یا کھانا کافی اچھا تھا تھا کھانے کے بعد ہم نے ادھر نماز پڑھی بڑی اور آگے کی طرف روانہ ہوئے ایک ہی گھنٹے بعد ہم مری پہنچ گئے وہاں پہنچ کر ہم نے دیکھا کی ہر طرف بادل ہی بادل ہے ہے اور دھند نے پورے مری کو گھیرا ہوا ہے ہم یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوئے کیونکہ ستمبر کے مہینے میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ہم کشمیر پوائنٹ میں ایک ڈھابے پر چائے پی رہے تھے اور ساتھ گرما گرم پکوڑے کھا رہی تھے کہ میرے سے چٹنی گر گئی اور جب ہم نے ان سے ایک پیالی چٹنی اور مانگی تو وہ غصہ کرنے لگے اور چٹنی دینے سے صاف انکار کر دیا ہمارے کافی اصرار کرنے پر انہوں نے آدھی پیالی دی اور اس کے بھی پورے پیسے وصول کئے۔اس بات سے ہمیں اندازہ تو ہو گیا کی یہاں کے لوگ اچھے نہیں ،،لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔رات ہوئی تو ہم مال روڈ گئے تاکہ رہائش کے لیے کوئی ہوٹل دیکھ سکیں۔ لیکن بارش کا موسم تھا تو ہوٹلوں کے مالکان نے اس بات کا خوب فائدہ اٹھایا کہ جو فیملیز ہیں وہ تو ہر صورت رہیں گی کیونکہ موسم بھی خراب تھا اور ان کے ساتھ بچے بھی تھے لیکن ہم نے جوں توں ایک ہی کمرا لیا رات گزاری اور اگلے دن ہی وہاں سے نکل پڑے اور واپسی پر پتریاٹا چئیر لفٹ میں بیٹھے اور وہاں سے واپس آئے اور دوبارہ کبھی وہاں جانے کا دل بھی نہیں کیا۔مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی اتنا خود غرض کیسے ہو سکتا ؟؟کیا صرف پیسا ہی سب کچھ ہے؟؟ کسی کی مشکل پریشانی کا کوئی احساس نہیں؟؟لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس قوم کا ضمیر مر چکا ہے۔ان کے لیے صرف پیسا اہمیت رکھتا ہے انسان نہیں!!!

ادب, عوام کی آواز
November 19, 2022

دہاڑی رکھتا ہے۔

وہ اپنے کاندھے پہ اب تک کُہاڑی رکھتا ہے مگر وہ دوست ہی سارے کِھلاڑی رکھتا ہے بس اِتنی بات پہ بِیوی خفا ہے شوہر سے کہ ماں کے ہاتھ پہ لا کر دِہاڑی رکھتا ہے ابھی تو قبر بھی محفُوظ نا رہی، اِنساں کِسی کو دفن جو کرتا ہے، جھاڑی رکھتا ہے ہزار تِیس ہے اُس کی پگھار جانتا ہُوں کمال ہے کہ وہ اِس میں بھی گاڑی رکھتا ہے اُتارا شِیشے میں اُس نے، فریب دے کے مُجھے وُہ ایک شخص جو خُود کو اناڑی رکھتا ہے بنا لِیا ہے جو کچّا مکاں کِسی نے یہاں (وہ جھونپڑا بھی اگر ہے تو) ماڑی رکھتا ہے کبھی رشِید کے من کو ٹٹول کر دیکھو یہ دِل کا موم ہے، چہرہ پہاڑی رکھتا ہے رشید حسرتؔ

عوام کی آواز
November 19, 2022

Writing a Research Paper – Writing Tips For Your Essay

For your own research document, you must keep in mind certain critical points that can prove very valuable. In reality, these points are very helpful for almost any type of data, especially those that handle psychology, philosophy, and law. These things are usually found within the bible of the research document, and that’s your argument and conclusion. Bear in mind, you must stick to the general rules when writing your own paper. It is essential that you set out your key things clearly, without giving the reader some time to question the assumptions or consider other ideas. The first point you have to think about when writing a research paper is your primary message or even the most important idea. For this reason, you have to use significant words to be able to convey the ideal thought and avoid confusingly worded sentences. You may wish to consider including a footnote to choose your writing, so you can provide a better explanation of the rationale for what you have written. The next thing is the basis of your key purpose. For this reason, you have to think carefully about what you would like to say and how to do this objective. Compose carefully, and be sure you consistently follow a conclusion or a decision that you know is read by the reader. There are two ways that you can make sure that your research document is successful. First, you can always write more than one page and contain various sections that will assist you to keep an eye on your data. Secondly, you can use an online instrument, or software program, to compose your research paper. When utilizing a site’s database, it’s essential that you be sure your essay does not contain plagiarism. That is because, if you have committed plagiarism, it won’t only cause you to shed your article, but additionally, it will lead to your article submission being reversed. With online tools, you can easily create a high-quality research paper, since it’s going to be formatted for you personally, and some other formatting that you may have used in your writing will be carried over for your research document. With this technique, you can save yourself a lot of time by not having to know about the syntax or writing software and may simply focus on writing the very best research paper potential. Finally, make sure that you adhere to those basic principles when composing a research paper, aactofloveadoptions.com, and employ a fantastic research assistant to assist you. It’s necessary that you focus on writing your research paper rather than on considering how to make it appear impressive.

دھوکا

ذکیہ پانی پلا دے راحت بیگم چارپائی پر بیٹھے بیٹھے چیخیں آرہی ہوں اماں… شائستہ جو اسٹول پر چڑھی برابر پڑوسن کہ گھر میں تانکا جھانکی میں لگی ہوئی تھی ساس کی آواز پر بد مزہ ہوکر جھنجھلا کر بولی۔۔ لو اماں وہ پانی کا گلاس پکڑاتے ہوۓ بولی۔”کتنی بار منع کیا ہے یوں دوسروں کے گھروں میں نہیں جھانکتے اپنا گھر کا تو تجھے ہوش ہوتا نہیں بچے گلی میں ایسے ہی پھرتے رہتے ہیں بس تجھے سارے محلے کی فکر ہوتی ہے”راحت بہو کو گھورتے ہوۓ بولیں – اندروں شہر میں رہائش پذیر راحت جو اپنے اکلوتے بیٹے ارشد کے ساتھ رہتی تھیں ،اپنے بیٹے ارشد کا بیاہ انہوں نے اپنے ہی محلے کی رہنے والی شائستہ سے کیا تھا ۔ شائستہ کہ حالات بھی راحت کے گھر کے حالات سے ملتے جلتے تھے وہی غربت تنگدستی ہر وقت کی فکریں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں ۔کبھی کبھی شائستہ کا دل چاہتا وہ اس محلے سے نکل جاۓ اور کسی اچھی جگہ رہے.یہ خواب وہ سوچتی تھی نجانے کب سچ ہوگا اب تو اس کے چار بچے بھی ہوگئے تھے۔۔دو بیٹے اور دو بیٹیاں ، سب سے بڑا بیٹا بھی گیارہ سال کا ہوگیا تھا۔ارشد کی چھوٹی سی پرچون کی دکان تھی جس سے ان کا بمشکل گزر بسر ہورہا تھا ۔ کیا بات ہے بڑے خوش ہو کیا لوٹری نکل آئی ہے۔ شائستہ ارشد کے چہرے پر پھیلی خوشی دیکھ کے بولی۔ آج ارشد دکان سے آیا تو بے حد خوش تھا۔ ایسا ہی  سمجھو  لوٹرنکل آئی ہے۔ ارشد خوش ہوتے ہوئے بولا۔ “اماں میرا دوست ہے  نہ محمود اس کا کوئی رشتے دار باہر ملک میں ہے وہ اپنا گھر بیچ رہا ہے سستے داموں اور گھر بھی بہت اچھے علاقے میں ہے میں سوچ رہا ہوں کہ ہم چل کر دیکھ لیں “ارشد کی بات پر تو شائستہ کی خوشی دیکھنے والی تھی- اس کا برسوں پرانا خواب سچ ہونے والا تھا۔ جب سب لوگ وہ گھر دیکھنے گئے تو ان کی تو آنکھیں حیرت سے پھٹ گئی۔ اتنا شاندار گھر اتنے سستے داموں بیٹا مجھے تو ہضم نہیں ہورہا راحت بیگم بیٹے سے بولیں ۔ ارے اماں قسمت ہم پر مہربان ہے تم کیوں سوچ رہی ہو بس تیاری کرو میں یہ گھر اور دکان بیچ رہا ہوں۔۔ محمود نے اپنے آفس بات کرلی ہے وہ وہیں مجھے نوکری دلا دے گا.بیٹا تو سب جمع کنجی دے رہا ہے راحت بیگم کہ لہجے میں اندیشے بول رہے تھے۔ارے اماں بس اب اس گندے گٹر زدہ ماحول سے نکلنے کی کرو میں تو جب سے اپنا حسین گھر دیکھ کہ آئی ہوں تب سے  مجھے  یہاں ایک ایک پل بھاری پر رہا ہے. شائستہ حقارت سے بولی۔ ایسے مت بولو۔ شائستہ کی بات راحت بیگم کو ناگوار گزری۔ میں تو اب خوب ماڈرن کپڑے بناؤں گی وہاں ایسے گھٹیا کپڑے کون پہنتا ہوگا ۔ شائستہ بولی ۔ انسان کو اپنا اصل نہیں بھولنا چاہیے راحت بیگم اس کی بات پر افسوس سے بولیں ۔ شائستہ اب پورے محلے میں ایک ایک گھر میں جا کر بتاتی رہی کہ وہ لوگ اس غریب محلے سے جا رہے ہیں.جس محلے میں وہ پیدا ہوئی تھی اب اس کو برا بھلا بولتی پھر رہی تھی۔ محلے والوں کو شائستہ کی یہ باتیں اچھی نہیں لگ رہی تھی کہ مگر شائستہ کو اب کسی کی پرواہ نہیں تھی اسے اب وہ لوگ بھی غریب نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔گھر چھوڑتے وقت سب سے زیادہ دکھی راحت بیگم تھیں بار بار ان کی آنکھیں نم ہورہی تھیں ۔ جب ان کی ٹیکسی اس گھر کے پاس آکر رکی شائستہ سمیت پورے گھر کی خوشی دیکھنے والی تھی ۔ وہ لوگ سامان لے کر گیٹ کی طرف بڑھے۔ اوئے کہاں جاتے ہو خانہ خراب پٹھان چوکیدار جلدی سے راستہ روکتا ہوا بولا۔ ہمارا گھر ہے یہ ارشد پٹھان کی بات پر غصّے سے بولا۔ اوہ تمہارا دماغ خراب ہے یہ صارم صاحب کا گھر ہے وہ پٹھان گھورتے ہوئے ارشد کو بولا ۔مگر ہم نے تو یہ گھر خریدا ہے ارشد اس کی بات پر چکرا کر رہ گیا.چوکیدار اس کو اندر لے گیا جہاں پر ارشد کو پتا چلا کہ اس کو اس کے دوست محمود نےدھوکا دیا تھا۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ اتنا بڑا فراڈ ہوا ہے کہ نقلی کاغذات اس کو گھر کے دئیے گئے تھے ۔ اس کو لگ رہا تھا اس کی دنیا اندھیر ہوگئی ہے-ارشد محمود کے آفس گیا تو وہاں پر پتا چلا محمود   آفس چھوڑ چکا ہے اور ملک سے فرار ہوگیا ہے ۔ اس سے پہلے بھی وہ لوگوں کہ ساتھ دھوکہ  کر چکا ہے ۔ ارشد کو یقین نہیں آرہا تھا اس کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کر گیا اس کا اپنا دوست، اب تو وہ سب کچھ گنوا چکا تھا- شائستہ ایک بار پھر اس ہی گٹر زدہ ماحول میں لوگوں کی تمسخر اڑاتی نگاہوں کا سامنا کرتے ہوئے سر جھکائے کھڑی تھی جہاں سے وہ اتنے دعوے سے کہہ کر نکلی تھی کہ میں تو کبھی اب اس گندے ماحول میں نہ آؤں مگر کون جانتا ہے کہ وقت کس کو دوبارہ کہاں لا کھڑا کرے ۔۔

ادب, عوام کی آواز
November 19, 2022

سرد مہری بے سبب

کیوں روا رکھتے ہو مُجھ سے سرد مہری بے سبب بِیچ میں لانا پڑے تھانہ کچہری بے سبب میں نے اُس رُخ سے اِسے جِتنا الگ رکھا عبث آنکھ تھی گُستاخ میری جا کے ٹھہری بے سبب ناں کِسی پائل کی چھن چھن، ناں کہِیں دستک کوئی کر رہی ہے وار گہرے رات گہری بے سبب اِس کے بھاگوں میں عُروسی پُھول لِکھے ہی نہ تھے جاگتی رہتی ہے شب میں اِک مسہری بے سبب پیڑ سے رِشتہ ہے اِس کا، اور زمِیں کے ساتھ بھی دے رہی پِھر بھی دُہائی ہے گلہری بے سبب اپنے حق کے واسطے سب ہی وہاں موجُود تھے آ گیا زد میں مگر اشرف سلہری بے سبب سچ کو سُننے کا بھلا کب حوصلہ اِس میں رشِیدؔ بن رہی ہے کیوں حکُومت ایسی بہری بے سبب رشید حسرتؔ

عوام کی آواز
November 12, 2022

Cholesterol Facts

Cholesterol Facts Cholesterol Real factor With all the news and cautions about the dangers of raised cholesterol, numerous people view cholesterol as a “horrendous” substance that should be discarded absolutely from our lives. In truth, cholesterol serves a couple of critical capacities in the body. To understand how cholesterol affects the body, one must first grasp what cholesterol is. Cholesterol is a waxy substance that is associated with the fats in our circulatory framework and is accessible in every one of the cells of the body. Cholesterol comes from food that we eat, as well as being created straight by the liver. Cholesterol is a huge regulator in the dissemination framework, as it helps with dealing with the plan of various cells as well as synthetic substances. Regardless, to have unnecessarily high or exorbitantly low cholesterol remember for the blood can be a very unsafe part, regularly provoking a respiratory disappointment or a stroke. Regardless of the way that cholesterol is unavoidable in the circulatory framework, it can’t dissipate in the blood. The cholesterol moves generally through the body annexed to lipids (fats). There are two chief kinds of cholesterol. The chief kind is called LDL cholesterol, and the other is HDL cholesterol. LDL cholesterol, likewise called low-thickness lipoprotein, is considered to be the “risky” cholesterol. LDL cholesterol can foster on the course walls. After some time, this plaque blocks the circulatory system, reducing course, making tension, and damaging the heart. This raises circulatory strain, and finally prompts coronary disease or cardiovascular disappointment. Individuals that have more raised degrees of LDL run a much higher bet of having coronary sickness. Notwithstanding the way that inherited characteristics influence LDL, there are a couple of prudent steps that individuals can take toward being cautious of LDL levels. The other kind of cholesterol is HDL or high-thickness lipoprotein. HDL is viewed as the “expected gain” cholesterol. HDL cholesterol is basic for the body to have as this kind of cholesterol channels through LDL cholesterol from the covering of the ways, as well as transportation fat in the course structure (oily oils) to the liver with the objective that it will overall be let out of the body. It is recognized that notwithstanding, having raised degrees of HDL is defended, as it can assist with shielding one’s heart from a coronary episode or stroke. Low counts of HDL could truly incite cardiovascular disillusionment and stroke, yet this is exceptional for individuals eating a western-style diet, which is reliably high in the two kinds of cholesterol. An immense piece of the cholesterol in our bodies comes from the food sources we eat. Food varieties high in fats, especially doused and Trans fats, add to raised degrees of LDL cholesterol. Meat and dairy things are the fundamental wellsprings of LDL cholesterol, while verdant vegetables, ordinary things, and nuts are more nutritious decisions that have more raised levels of HDL cholesterol. While hereditary qualities expect a part in cholesterol levels, a difference in diet is the best system for chopping down dangerous cholesterol levels and lessening your bet of coronary disorder and related diseases. Certain ordinary substances found in Vaccaro, including plant sterols, fish oils, and policosanol have been displayed in various clinical evaluations to make enduring progress in serious areas of strength for pushing levels, especially with a sound eating routine and exercise. Assuming that you are worried about your cholesterol levels, this second is an ideal opportunity to complete an improvement, and Vaccaro can help.

عوام کی آواز
November 10, 2022

محبت کا دھوکا

محبت کا دھوکا جون کےگرم مہینے کی ٹھنڈی صبح کے وقت سورج افق سے جھانکتے ہوئے  ہلکی ہلکی کرنیں زمین کے مکینوں پر بکھیر رہا تھا۔ کم گہرے بادل دوڑ دوڑ کر سورج کو پردۂ اخفا میں ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔سورج کبھی بادلوں کے دامن میں  چھپ جاتا تو کبھی بادلوں کو چیر کر اپنی کرنیں زمین پر پھیلانے میں کامیاب ہوجاتا۔ بادلوں اور سورج کی اس آنکھ مچولی میں رقص کرتے ہوئے صبح کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے گاؤں کے لوگوں کو غنودگی آمیز سرور بخش رہے تھے۔ گاؤں کے سارے کھیت پانی سے لبالب تھے۔ سورج کی وقتاًفوقتاً پڑنے والی ترچھی شعاعوں سے کھیتوں کا سارا پانی آئینے کی طرح چمک رہا تھا۔ لوگ اپنے اپنے کھیتوں میں دھان کی بیجائی میں محو تھے۔ چودھری فضل دین کا وسیع و عریض کھیت ایک ہی لڑی میں پرویا ہوا تھا، البتہ درمیان میں مختلف فاصلے پر بنائی گئی ہلکی ہلکی پگڈنڈیاں اس کھیت کو عارضی حصوں میں تقسیم کر رہی تھیں۔ان پگڈنڈیوں کو بنانے کا بنیادی مقصد پانی کے بہاؤ کو یک طرفہ ہونے سے بچانا تھا۔چودھری فضل دین کے مزارع رحیمو کا بیٹا دلشاد دیگر لوگوں کی طرح  دھان کی فصل بونے میں مصروف تھا۔وہ متوسط گھرانے کا نوخیز جوان تھا۔ شاداب چہرہ، بھرے ہوئے رخسار، کتھئی رنگت کے بال اور  جواں ڈیل ڈول اسے ایسے پرکشش بنائے ہوئے تھے جیسے موسم بہار میں کھلے پھول لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ گھر میں ضروریات زندگی اسے آسانی کے ساتھ میسر تھیں اور لوگ پیار سے اسے شادن کے نام سے پکارتے تھے۔ کھیتوں کے داہنی جانب ایک ندی بہ رہی تھی جو کھیتوں کو سیراب کرتی تھی۔ ندی کے ایک  کنارے پر پختہ لنک روڈ  بنا ہوا تھا جو گاؤں کے لوگوں کی آمدورفت میں نہایت آسانی پیدا کر رہا تھا جبکہ دوسرے کنارے کے نشیب میں چودھری فضل دین کا خالی پلاٹ کھلے میدان کی شکل میں موجود تھا۔ اس پلاٹ کا عرض جہاں ختم ہو رہا تھا اس کے آگے تاحد نگاہ گاؤں والوں کے گھر آباد تھے۔ پلاٹ کو خالی پا کر ایک خانہ بدوش گھرانے نے وہاں اپنا عارضی ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔سرکنڈوں سے بنے چھپر کے ساتھ پرانا اور میلا کچیلا خیمہ اور خیمے کے سامنے کچھ فاصلے پر موجود پیپل کا درخت، جس کی گھنی چھاؤں میں ننگے پیر اور صرف شلوار پہنے سانولی رنگت کے بچے سادہ زندگی کی روشن مثال ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی احساس دلا رہے تھے کہ صرف ان کی رہائش گاہ ہی عارضی نہیں بلکہ دنیا میں سب کا سفر و حضر بھی وقتی ہے، اس لیے اس دنیا میں اتنا زادِ راہ پیدا کیا جائے جتنا یہاں رہنا ہے۔ اسی خیمے میں سراپا حسن ، سرو قد اور  سیماب صفت ایک جواں لڑکی بھی موجود تھی جو اکثر و بیشتر  اپنی شوخ اداؤں کے ساتھ چھوٹے بچوں میں اچھل کود رہی ہوتی تھی۔ کھیتوں کی طرف آتے ہوئے  دلشاد کی طائرانہ نگاہ جب اس لڑکی پر پڑی تو وہ ایک ہی لمحے میں  اس کی آنکھوں میں بس گئی۔ وہ پہلی ہی نظر میں اس لڑکی  پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔سادہ سرخ لباس پہنے خوب رو جوان لڑکی  اسے یوں لگی جیسے انار کی ابھرتی ہوئی کلی ہو۔ چھدے ہوئے ناک میں ہیرے کی لونگ، ہوا کے نرم جھونکوں میں رقص کرتی زیرِ کمر سیاہ زلفیں اور غربت کے احساس میں جھلکتا ہوا حسن اس نے شاید پہلی بار ہی دیکھا تھا۔  ایک لمحے کو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ قدرت نے اسے گدڑی میں لعل دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ کھیتوں میں دھان کی بوائی کرتے وقت بھی اس کے دل و دماغ میں وہی لڑکی سموئی ہوئی تھی۔ تازہ ہوا کے محسور کن جھونکوں میں وہ  اسے اپنے تصورمیں لائے ہوئے تھا اور اس کی لہراتی زلفوں کے لمس کا احساس حاصل کرکے دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔وہ وقت گزرنے اور دھوپ کی شدت سے گرمی بڑھنے کا منتظر تھا تاکہ فصل کی بوائی کے کام میں سہ پہر تک کےلیے وقفہ کرکے گھر جائے تو اس کے حسن کا دیدار کرکے جائے کیونکہ وہ اس پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔ سورج  بڑھتے ہوئے وقت کے دھارے میں بہ کر بلند ہوتا گیا اور لوگوں کو ایسے آنکھیں دکھانے لگا جیسے قدیم زمانے کا متکبر بادشاہ  اونچی مسند پر بیٹھ کر اپنی رعایا پر بادشاہت کا رعب جما رہا ہو۔ سورج کا یہ رویہ کھیت میں کام کرنے والوں کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا اس لیے سب اپنا کام چھوڑ کر گھروں کو روانہ ہونے لگے۔ دلشاد تو پہلے ہی اس وقت کا شدت سے منتظر تھا۔ گھر جاتے ہوئے اس کے دل میں حسرت پل رہی تھی کہ راستے میں وصلِ محبوب ہو یا نہ ہو لیکن اس کے حسن کا دیدار ضرور نصیب ہو ورنہ بےچین دل کے کرب کو قابو میں رکھنا اس کے بس سے باہر ہوجائے گا۔ اسے لگتا تھا کہ اس کا دل ایک چھوٹے بچے کی مانند ہےجو کسی بات پر اڑ جائے تو کسی لمحے چین نہیں لینے دیتا جب تک کہ اس کی دلی مراد پوری نہ ہوجائے۔اس کا دل اس لڑکی پر اڑ چکا تھا۔ خیمے کے پاس آتے ہی اسے یوں لگا جیسے اس کی چاہت اس کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہوگی اس لیے اس کے بڑھتے  قدم سست پڑ گئے۔اس کی آنکھیں لڑکی کے دیدار کےلیے ملتجی نظر آ رہی تھیں اور دل وصل کی تمنا لیے تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ پسینے میں ڈوبا ہوا  تھا۔ گرمی کی شدت میں چلنے والی لُو بھی اس کے پسینے کو خشک نہیں کر پا رہی تھی۔ وصلِ محبوب کی دلی تمنا کی قبولیت سے پہلے  اس کی آنکھوں کو دیدارِ یار نصیب ہو گیا۔اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے لڑکی کی نظروں میں اپنی نظریں جمائیں تو لڑکی نے بھی اپنے رخساروں پر خوب صورت مسکراہٹ  بکھیرتے ہوئے اس سے آنکھیں چار کیں۔ یہ منظر دلشاد کے دل کو شاد کرگیا۔اسے یقین ہوگیا کہ لڑکی بھی مائل بہ الفت ہے۔ اس کا یقین سچ میں بدل چکا

عوام کی آواز
November 09, 2022

“یہ تحریر آپ کی سوچ بدل سکتی ہے”

“اگر میں کہوں پہاڑی کے اُس پار لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے مان لوگے؟ بالکل کیونکہ ہم نے آج تک آپ کو جھوٹ بولتے نہیں سُنا۔ تو کہو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہاہم نہیں مانتے” اس کے بعد وہ جادوگر بھی کہلائے، لوگوں کو ان کے مذہب سے ورغلانے والا بھی کہلائے، اپنوں کی دشمنی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور غیروں کی منافقت کا بھی۔ایسی گندی سوچ کے مالک ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ قائدِ اعظم کو بھی شیعہ اور کافر جیسے القابات دیئے جا چکے ہیں ماضی میں، اُسکی بہن فاطمہ جناح پر غداری کا الزام اور مقدمات کیے گئے، علامہ محمد اقبال پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ بلکہ کچھ لوگ تو انہیں آج بھی کافر قرار دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں نہیں یقین تو یوٹیوب پر سرچ کر لیں۔ آج بھی کچھ لوگ اُسی سوچ پر عمل کر رہے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو پیدائشی امیر تھا، اعلیٰ اداروں میں تعلیم حاصل کی، بچپن سے ہی شہرت کی بلندیوں پر رہا، ملک کے لیے وہ ایوارڈ لایا جو اُس سے پہلے اور بعد (آج تک) کوئی نہ لا سکا۔ پیسہ، عزت، شہرت اپنے عروج پر ملی ہوئی تھی۔ قوم اُسے اپنا ہیرو مان چکی تھی۔ حاکمِ وقت اُس کے ساتھ چلنا، ملنا اپنے لیے فخر محسوس کرتے تھے۔ خود حاکمِ وقت اسے اپنے فیلڈ میں آنے کی دعوت دیتےرہے مگر وہ شخص انکار کرتا رہا۔ مشرف نے تو اُسے وزیرِ اعظم تک بنانے کی آفر دے دی مگر وہ بِکا نہیں۔ قدرت نے اس کی سب سے پیاری چیز (ماں) چھین لی۔ اس سے وہ بہت اداس ہوا اور ملک کے بارے میں سوچنے لگا۔ ملک کی غریب عوام کے بارے میں سوچنے لگا۔ سب کچھ بیچ کر ملک والوں کے لیے کچھ کرنے کے عزم سے نکلا۔ باہر جائیدادیں نہیں ہیں، بیوی بچے ملک کے لیے چھوڑ دیئے، اپنی ذاتی کمائی بھی عوام کے لیے وقف کر دی، ہسپتال بنائے، یونیورسٹی بنائی، کالج بنایا، الگ پارٹی بنائی، شہرت دولت عزت سب دائو پر لگا دی۔ حتیٰ کہ جان بھی خطرے میں ہے مگر پھر کچھ لوگ کہہ رہے ہیں۔۔۔ ڈرامے باز ہے، گولی لگی ہی نہیں، چار نہیں ایک لگی، گولی نہیں چھرے لگے، چھرے نہیں ٹکرے لگے، مارچ ٹھس ہوگیا، ایک سو بیس لوگ ہیں، دو سے چار ہزار لوگ ہیں، ملک دشمن ہے، اسلام دشمن ہے، یہودی ایجنٹ ہے، پہلے کہتے تھے فوج لائی، پھر کہا فوج کا لاڈلا ہے اب کہتے ہیں فوج کا دشمن ہے فوج کو کمزور کرنا چاہتا ہے، پہلے کہتے تھے بدلے کی سیاست کر رہا ہے، اب کہتے ہیں بدلہ لیں گے،ہمارے لیڈر کہیں تو خود اپنے ہاتھ سے گولی ماریں گے، سلمان اور شاہ رخ سے بھی بڑا ایکٹر ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تم کیا ہو؟ تم نے آج تک کیا کِیا ہے ملک کے لیے؟ اپنی جیب سےایک ڈھیلا بھی ملک کے لیے خرچ کیا؟ کل تم سب ایک دوسرے کےپیٹ پھاڑنے کی بات کرتے تھے آج تم سب نیک و پارسا ہوگئےہو؟ کل وہ فضلو فوج کو کہہ رہا تھا بیچ میں مت آنا۔ کھیلنے کا اتنا شوق ہے تو اتارو وردی اور آئو میدان میں دیکھ لیتے ہیں کس میں کتنا ہے دم؟ زرداری جو فوج کے بڑے عہدے داروں کا نام لیکر کہتا تھا ہم سے مت ٹکرانا پاش پاش ہوجائو گے۔ ہم نے بڑے بڑے ڈکٹیٹروں کو اپنے انجام تک پہنچایا ہے۔ نواز جس نے خود ہی کمیٹی تشکیل دی، خود ہی دعویٰ کیا کہ کچھ بھی ثابت ہوا تو ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا خود چلا جائوں گا۔ پھر کہتا تھا مجھے کیوں نکالا؟ عوام سے گذارش ہے کہ کب تک اپنی آنکھیں بند رکھو گے؟ آخر کب تک؟ عمران نے تیل مہنگا کیا تو یہ روئے، پھر سستا کیا تو یہ روئے؟ وہ سیاست میں آیا تو یہ روئے، حاکم بنا تو یہ روئے، آج باہر ہے تو یہ رو رہے ہیں۔ اُس کے دور میں کسی کو ننگا نہیں کیا گیا، نہ کسی کو مجبور کیا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر چلاجائے، نہ اُس کے دور میں کسی میڈیا چینل پر پابندی لگائی گئی، نہ کسی لانگ مارچ کا راستہ روکا گیا۔ یہ اب اتفاق نہیں اپنی آنکھیں کھولیں، سوچیں، کیا یہ لوگ آپ کو بے وقوفِ اعظم تو نہیں بنا رہے؟؟؟ آخر مِیں ایک درخواست پہ اختتام کروں گا کہ بے شک آپ عمران کو پسند نہیں کرتے مت کریں، مگر عمران کی دشمنی میں آکر ملک دشمنوں کو فائدہ بھی مت پہنچائیں۔ عمران سچا ہے یا نہیں اس سے یہ لوگ تو سچے ثابت نہیں ہوتے، عمران لائق ہے یا نہیں، اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہ لائق ہیں اب ان کو حکمران بنا دیا جائے؟ فیصلہ خود کریں سوچ کے کریں کیونکہ یہ آپ کی آنے والی نسلوں کی بھلائی کا سوال ہے ملک کا سوال ہے۔ ہمیشہ کی غلامی یا ہمیشہ کی آزادی؟

عوام کی آواز
November 09, 2022

پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم کرنا کیوں ضروری ہے ؟

پاکستان اور بھارت کو علیحدہ ہوئے 75 سال ہو گئے لیکن آج تک ان دو ممالک کے درمیان امن قائم نہیں ہو سکا۔ آزادی سے اب تک یہ دونوں ممالک آپس میں چار جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن دونوں ملکوں کا جانی و مالی نقصان ہی ہوا اس کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوا ۔ کھیلوں کے میدانوں سے لے کر میدانِ جنگ تک یہ دونوں ملک ایک دوسرے کو اپنا دشمن ہی سمجھتے ہیں ۔ دونوں ممالک اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ دفاع پر خرچ کر دیتے ہیں جب کے انہی پیسوں کو اگر ملک کے دیگر مسائل حل کرنے پر لگایا جائے تو ملک کا کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان سالانہ تقریباً 7.5 ارب ڈالر اپنے دفاع پر خرچ کرتا ہے اور بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان سے دس گنا زیادہ ہے جو کے تقریباََ 70.6 ارب ڈالر ہے. اگر بھارت اور پاکستان اپنے تعلقات کو معمول پر لائیں تو اس کے فوائد حیران کن ہوسکتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے 2018 کے جائزے کے مطابق، اگر دونوں ممالک تجارت کی رکاوٹوں، سخت ویزا پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں تو بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت 2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 37 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کا تجارت پر بہت بڑا اثر پڑے گا، غریب کو غربت سے نکلنے میں مدد ملے گی دونوں ممالک کی معیشت بہتر ہوگی اور بین الاقوامی دنیا پر بھی اسکا مثبت اثر پڑے گا ۔ اگر ہم بات کریں تعیلم کی تو تقریباً 22 ملین بچے پاکستان میں جن کی عمر پانچ سال سے سولہ سال کے درمیان ہے وہ سکول نہیں جاتے اور اگر بھارت کی بات کریں تو وہاں پر تقریباً 35 ملین بچے سکول نہیں جاتے اور وجہ دونوں ممالک میں ایک ہے اور وہ ہے غربت اور بیروزگاری۔ ہم امریکہ اور روس سے جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی لینے کے لیے تو اربوں ڈالر خرچ کر دیتے ہیں لیکن اپنے ملک میں تعلیمی نظام کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔ جنگوں سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا سوائے تباہی کے ۔ دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں اسی لیے جنگ کسی بھی صورت میں حل نہیں ہو سکتی۔ یورپ سے ہی کچھ سیکھ لیں ، 30 سالہ جنگ ، جنگ عظیم اول اور پھر جنگ عظیم دوم ، 200 سال تک جنگ کر کے بھی یورپ نے کچھ حاصل نہیں کیا لیکن کروڑوں لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ اور اگر آج کے یورپ کو دیکھیں تو لگتا ہی نہیں کے ان ممالک کے درمیان کبھی جنگیں بھی ہوئیں تھیں۔ امریکہ اور چین کے بعد یوروپین یونین دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ، مسئلہ کشمیر ہے اور اگر دونوں ممالک باہمی رضا مندی سے اس مسئلہ کو حل کر لیں تو بہت ترقی کر سکتے ہیں۔ جو پیسہ پاکستان اور بھارت اپنے دفاع پر خرچ کرتے ہیں اگر وہی پیسہ اپنی تعلیم پر خرچ کریں اپنے ہسپتالوں پر خرچ کریں بے روزگاری کو کم کرنے کی کوشش کریں تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان اور بھارت دونوں کا شمار دنیا کی بڑی طاقتوں میں ہوگا

عوام کی آواز
November 09, 2022

صراط مستقیم اور پل صراط

*صراط مستقیم اور پل صراط* تحریر: مسز علی گوجرانوالہ صراط مستقیم ایک ایسا راستہ جس پر چل کر پاکیزہ لوگ انعام یافتہ کہلائے۔ یقیناً سب سے بڑا خوش بخت انسان وہی ہے جس نے اپنے خالق کی رضا اور ناراضگی کا باعث بننے والے افعال کو پہچانا اور رب کے حکم کے مطابق زندگی بسر کی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کی پہچان کے لیے کوشاں ہونے کی توفیق دے۔انسان کی یہ فانی زندگی آزمائش ہے اس کڑے امتحان کا رزلٹ یا تو ہمیشہ ہمیشہ کی راحتوں اور خوشیوں کی جگہ جنت کی صورت میں یا ہمیشہ کی ذلت و رسوائی کی جگہ جہنم کی صورت میں نکلنے والا ہے۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خدائی دین کو کتابی صورت میں محفوظ کر دیا گیا قیامت تک تمام انسانوں کیلئے محفوظ دین، دین اسلام ہے۔ اور اسی دین خداوندی کو قرآن پاک میں صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں سورۃ فاتحہ میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے پر چلنے کی دعا مانگیں اور یہ دعا ہماری نماز کا حصہ بھی ہے۔ ،،اهدنا الصراط المستقیم،، اے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا، راستہ ان لوگوں کا جن پر تیرا انعام ہوا۔ مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر ایک سیدھی لکیر کھینچی پھر اور ٹیڑھی لکیریں کھینچیں۔ آپ نے سیدھی لکیر پر انگلی رکھ کر سورۃ الانعام کی آیت پڑھی جس کا مفہوم ہے اور یہ ہے وہ سیدھا راستہ جو میرا راستہ ہے سیدھا،مستقیم ۔ سیدھا راستہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے، اے اللہ ہمیں بچانا اس راستے سے جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔ اسی راستے پر چلنا سیکھو جو راستہ اللہ سے ملوا دے۔ زندگی سفر ہے منزل نہیں منزل پہ جانے کے لئے راستہ درکار ہے سیدھا راستہ، صراط مستقیم ۔دنیا میں سنبھل سنبھل کر چل لیا تو پل صراط پر سنبھل کر نہیں چلنا پڑے گا۔ صراط مستقیم پل صراط نہیں ہے۔ پل صراط ایک چوڑا راستہ ہے جس پر ہم اپنے مزاج کے مطابق چل سکتے ہیں لیکن اس کی حد سے باہر نہیں نکل سکتے۔ وہ جو حد ہے مقرر ہے صراط مستقیم کی لیکن پل صراط کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بخار ی اور مسلم میں پل صراط کے حوالے سے حدیث ہے جس کا مفہوم ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنم کے دونوں سروں پر ایک پل رکھیں گے جو کہ پل صراط ہے۔ جہنم کو پار کرنے کے لیے ایک بہت بڑا پل۔ جس کی پتہ نہیں کتنی مسافت ہے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اس پل کی لمبائی اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ پل صراط کا ذکر قرآن مجید میں بھی اشارتاً موجود ہے سورۃ مریم کی آیت نمبر ۷۱ کا مفہوم ہے اور کوئی بھی تم میں سے ایسا نہیں ہے کہ اسے اس پر سے نہ گزرنا پڑے یہ تمہارے رب کی طرف سے طے شدہ بات ہے ،مقرر ہے۔ پھر ہم نجات دیں گے اہل تقویٰ کو اور جو ظالم ہوں گے ان کو گھٹنوں کے بل اسی دوزخ میں رہنے دیں گے- صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری سے حدیث مروی ہے کہ یہ پل تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہو گا،، اللہ اکبر! اس پل پر سے تو کوئی مہارت کے ساتھ بھی نہیں گزر سکتا مگر جس کو اللہ نجات دے۔ سورۃ مریم کی آیت کے کے حوالے سے امام ترمذی کا بھی یہی فہم ہے کہ یہ پل جہنم پر رکھا ہوا ایک پل ہے جس پر سے لوگوں کو گزرنا پڑے گا اور ہر شخص اپنے اعمال کے مطابق گزرے گا۔ بعض لوگ بجلی کی سی تیزی سے گزریں گے بعض ہوا کی تیزی سے، بعض گھڑ سوار کی رفتار سے، بعض بھاگتے ہوئے ،بعض پیدل چلتے ہوئے اور بعض گھسٹتے ہوئے اور پھر لوگ کٹ کٹ کر دوزخ میں گر رہے ہوں گے۔ پھر وہ دوزخ میں رہیں گے یہاں تک کہ اللہ ان کے لیے کوئی فیصلہ نہ فرما دے ۔ بُخاری مسلم کے الفاظ ہیں کہ جب لوگ پل صراط کے اوپر سے گزر رہے ہوں گے۔پل صراط کی دونوں جانب انکڑے لگے ہوں گے جس طرح کانٹے ہوتے ہیں اور وہ گزرنے والوں کو زخمی کر رہے ہوں گے اور اٹھا اٹھا کر مجرمین کو دوزخ میں پھینک رہے ہوں گے،، پل صراط پر گھپ اندھیرا ہے جس کے پاس ایمان کی روشنی ہو گی اس کے لیے تو راستہ واضح ہوتا جائے گا کہ ایمان ایک نور ہے روشنی ہے اور یہ نور راستے کو روشن کر دے گا۔اور جو اس نور سے محروم ہو گا وہ ڈگمگا جائے گا۔پل صراط کو کراس کرنے کے لیے دنیا میں صراط مستقیم پر چلنا ہو گا۔ صراط مستقیم کی پیروی کرنی ہو گی۔ادھر اُدھر کے راستے تو ہمیں بھٹکا دیں گے۔صرف صراط مستقیم کی پیروی۔ بخاری مسلم میں موجود حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ،، سب سے پہلے میں اپنی امت کو لیکر اس کے اُوپر سے گزروں گا اور اس کے بعد باقی انبیاء بھی اپنی امت کے لوگوں کو اپنے ساتھ لیکر گزریں گے اور ہر نبی کی زبان پر رب سلم، رب سلم ہو گا۔ اے اللہ سلامتی ہو، اے اللہ سلامتی ہو ۔اے سلامتی فرمانے والے رب سلامتی فرما۔ یہ کلام صرف انبیاء کر رہے ہوں گے۔ انبیاء کے علاوہ کسی کو اجازت نہیں ہو گی۔ باقی سب کی زبانیں گم ہوں گی۔ سارے نبیوں سے ہوتے ہوئے لوگ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے بس ایک ہی شخص ہے جسے یہ عمل ملا ہوا ہے تم محمد رسول اللہ کے پاس جاؤ وہ شفاعت کریں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنی امت سے اعلان برات کر دیں گے، حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہه رہے ہوں گے اے اللہ میری امت،اے اللہ میری امت۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں بھی رو رو کر ہمارے لیے دعائیں کیں اور

عوام کی آواز
November 04, 2022

کس عمر میں بچوں کا ذاتی موبائل ہونا چاہیے؟

کس عمر میں بچوں کا ذاتی موبائل فون ہونا چاہیے ؟ یو-کے کی ایک ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں۶۰ فیصد بچے نو سال کی عمر میں موبائل فونز کا استعمال باآسانی کر سکتےہیں، اور۹۱ فیصد بچے گیارہ سال کی عمر میں اپنے ذاتی موبائل کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ جدید دور کا معمہ ہے کہ کیا بچوں کو جلد از جلد سمارٹ فون متعارف کروانا چاہیے یا پھر جتنی دیر ممکن ہو سکے اس سے دور رکھنا چاہیے؟ سمارٹ فونز اورکے بچوں اور نوجوانوں پراثرات پر ابھی بھی بہت سے سوالات کےجوابات ںہیں مل سکے۔ اکثر والدین موبائل ایپس اور سوشل میڈیا کے استعمال کو اپنے بچوں کے لیے دنیا بھر کی برائی کا پنڈورا باکس کھولنےکے مترادف سمجھتے ہیں، کیونکہ اس سے مرتب ہونے والے اثرات نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں، اس کے برعکس بہت سے والدین بچوں کو شروع سے ہی ٹیکنالوجی کا عادی بنانے کے حق میں ہوتے ہیں تاکہ وہ زمانے میں ہونے والی تبدیلیوں سے پوری طرح واقف رہیں۔اور باقی بچوں سے کسی بھی فیلڈ میں پیچھے نہ رہیں ۔ ماہر نفسیات کے مطابق ہر بچے اور نوجوان پر موبائل اور سوشل میڈیا کے اثرات مختلف انداز میں مرتب ہوتے ہیں،اوران پر مثبت یا منفی اثرات کا بہترین اندازہ والدین لگاسکتےہیں۔ اور وہ ہی انہیں ان نتائج سےآگاہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ ۱۷،۱۸ سال کے نوعمر لڑکے اور لڑکیوں کے لیے یہ عمر ذہنی اور جسمانی بڑھوتری کی ہوتی ہے۔اس عمر کے نوجوان بہت حد تک دوسروں سے متاثر ہوتے ہیں، دنیا ان کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے انہیں ہمہ وقت لوگوں سے اپنی ذات کی توثیق درکار ہوتی ہے ،لہذا سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں ہر اںسان آئیڈیل نظر آنے کی تگ و دو میں ہے نو عمر افراد کو بآسانی حقیقت سے دور کر سکتا ہے۔اس صورتحال میں بچوں کواسکول اور کالجز کے علاوہ ارد گرد کے لوگوں سے میل جول رکھنے میں میں مدد دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عام لوگوں سے ملکرعملی زندگی میں درپیش چیلنجزکو سمجھ سکیں۔ اسکے علاوہ جیسے روزمرہ زندگی میں والدین موبائل فون کا استعمال اپنے لیے ناگزیر سمجھتےہیں مثلا پیشہ ورانہ امور،بلوں کی ادائیگی، آ ن لائن شاپنگ، وڈیو کالز اورتصاویرکا یستعمال وغیرہ،اسی طرح بچوں کی روزمرہ زندگی بھی بہت حد تک موبائل فون کی مرہون منت ہے۔جیسا کہ کوویڈ -۱۹ کے دوران بچوں کا تعلیمی سلسلہ آن لائن کلاسز کے ذریعے جاری رہا ۔اسکےعلاوہ بہت سی ایپس ایسی بھی ہیں جو خاص بچوں کی ذہنی اور تعلیمی ترقی کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یو ٹیوب کی بہت سی ویڈیوز معلوماتی اور دینی مواد پر مشتمل ہوتی ہیں۔ موبائل کے بے جااستعمال سے دوررہیں اگر آپ خود بلاضرورت گھنٹوں فون کا استعمال کریں گے تو بچوں کو اس سے پذیرائی ملے گی اور آپ کے اور بچوں کے مابین ایک دوستانہ ماحول قائم نہیں ہو سکے گا۔ والدین کا اپنے بچوں کی آن لائن مصروفیت سے واقفیت رکھنا بہت ضروری ہےوہ موبائل پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں، اس میں کون کون سی ویڈیوز اور ایپس موجود ہیں ،یا ان کا کن دوستوں سے رابطہ ہے۔ والدین کو بچوں کے ساتھ ملکر موبائل ایکٹیویٹیس کرنی چاہیے تاکہ بچوں کے اندر اعتماد پیدا ہواور وہ کسی بھی قسم کی الجھن کا حل تلاش کرنے کے لیے والدین کا ہی سہارا لیں.اس طرح بتدریج ہر بچہ اور نوجوان اپنے لیئے خود وقت کی حد مقرر کرسکے گاکہ وہ کس سرگرمی میں کتنا وقت صرف کرنا چاہتا ہے۔ والدین کے مثبت تعاون سے بچے اور نوعمرافراد موبائل فونز کے صحیح استعمال سے دوسروں کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔

ادب, عوام کی آواز
November 01, 2022

کہاں سے ہو گی

بال آنکھوں میں ہے، مِیزان کہاں سے ہو گی کھرے کھوٹے کی ہی پہچان کہاں سے ہو گی جِس کی بُنیاد فقط جُھوٹ سہارے پہ رکھی چِیز تسکِین کا سامان کہاں سے ہو گی ماپنے کا ہی نہِیں خُود کو میسّر آلہ اور کی پِھر ہمیں پہچان کہاں سے ہو گی خُود پرستی ہو جہاں، لوگ مُنافع دیکھیں زِندگی ایسے میں آسان کہاں سے ہوگی راہ تکتے ہُوئے اِک عُمر گُزاری ہم نے دُور اِک ہستی ہے مہمان کہاں سے ہو گی آگہی ہم نے اِسے کاہے کو تعبِیر کیا کج روی باعثِ عِرفان کہاں سے ہو گی تُم نے بیکار سمجھ لی ہے حیاتی حسرتؔ اِتنی بے ربط مِری جان کہاں سے ہو گی رشِید حسرتؔ

عوام کی آواز
November 01, 2022

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

تحریر : مسز علی گوجرانوالہ *بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق* جب بابل شہر میں نمرود کی جھوٹی خدائی کا نقارہ بج رہا تھا اور شہر کے ہر دروازے پر اس کے ہم شکل بت رکھے تھے اور شہر میں ہر داخل ہونے والے کے لیے لازم تھا کہ وہ اس بت کو سجدہ کرے۔اس ماحول میں جبکہ کفر ہر سمت پھیلا ہوا تھا اور جھوٹے خداؤں کی فسوں کاری لوگوں کو جکڑے ہوئے تھی اس زمانے میں ایک شخص پیدا ہوا جسے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں۔جنہوں نے نہ صرف نمرود کی جھوٹی خدائی کا انکار کیا بلکہ ان کے اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے بتوں اور جھوٹے معبودوں کا بھی انکار کیا اور دنیا کے سامنے توحید پرستوں کی بے مثال تصویر پیش کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا سالانہ میلہ لگتا تھا جس میں پوری قوم کا ہر فرد شرکت کرتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کا پیغام واضح کرنے کے لیے کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھے کہ جھوٹے خداؤں کا خاتمہ کرنے کا پلان بھی ترتیب دیا جا سکے۔ان کی قوم چونکہ ستارہ پرست بھی تھی۔ یہ لوگ کسی اچھے یا برے کام کے شگون کے طور پر بھی ستاروں سے رہنمائی لیتے تھے۔ لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کا حربہ ان پر آزمایا۔ انہوں نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی میلے میں جانے کا کہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستارے کی طرف دیکھ کر کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں، میں نہیں جا سکوں گا۔ چانچہ یہ لوگ ان کو پیچھے چھوڑ کر خود میلے میں چلے گئے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام بت خانے میں چلے گئے۔ اور طنز کے طور پر بتوں سے گفتگو کی کہ یہ جو تمہارے آگے پھل اور مٹھائیاں ہیں ان کو کھاؤ۔اب انہوں نے جواب کیا دینا تھا اور کہا کہ جواب کیوں نہیں دیتے۔ پھر انہوں نے پوری قوت کے ساتھ کلہاڑے سے سارے بت توڑ دیے اور بڑے بت کو رہنے دیا اور کلہاڑا اس بت کے کندھے پر رکھ دیا ۔ان کی قوم جب میلے سے رنگ رلیاں منا کر واپس آئی اور اپنے معبد خانے میں اپنے خداؤں کا یہ حال دیکھا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے استفسار کرنے لگے کہ ہمارے معبودوں کا یہ حال کس نے کیا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے کہ اس بڑے بت سے پوچھ لو کیا پتہ اسی نے دوسرے بتوں کا یہ حال کر دیا ہو کیونکہ کلہاڑا تو اسی کے کندھے پر موجود ہے۔ وہ کہنے لگے کہ اے ابراہیم تمہیں تو پتہ ہے یہ بول نہیں سکتے اور نہ حرکت کر نے کے قابل ہیں۔(اسی نکتے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو لانا چاہ رہے تھے) تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس موقع پر خطبہ توحید دیا کہ افسوس ہے تم لوگوں پر ان بے جان بتوں کو پوجتے ہو جو نہ بول سکتے ہیں،نہ سن سکتے ہیں نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ اللّٰہ واحده لا شریک ہی تمہارا خالق ہے جس نے سب کو تخلیق کیا۔ تمہارے جھوٹے معبود تو خود اپنا دفاع نہیں کر سکتے تمہیں کچھ دینے پر قادر نہیں۔یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلائل کے قائل تو ہو گئے لیکن حالت کفر پر بدستور قائم رہے چانچہ انہوں نے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام کو ان کے معبودوں کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں آگ میں ڈال دیا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کا بہت بڑا الاؤ روشن کروایا گیا مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ اتنا بڑا الاؤ تھا کہ اس کے اُوپر سے جو پرندہ گزرتا وہ آگ کی حرارت سے جل بھن کر کباب بن جاتا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں کیسے پھینکا جائے کیونکہ آگ کے قریب تو جایا نہیں جا سکتا تھا لہٰذا ان کو منجنیق میں بٹھا کر آگ میں ڈالنے کا فیصلہ ہوا۔ اب یہاں پہ عقل اور عشق کا مقابلہ تھا۔ کسی ایک کا چناؤ ہونا تھا۔عقل کہتی ہے جان بچے کیسے،عشق کہتا ہے جان جائے کیسے۔عجیب دوراہے پہ کھڑے تھے عقل اور عشق۔ یہ جو آگ میں کھڑا ہے وہ پیکر عشق ہے۔ کارکنان قضاء قدر میں کہرام مچ گیا کہ اے رب رحمان زمین پر تیرا ایک ہی توحید کا پرستار ہے یہ بھی آگ میں ڈال دیا گیا تو تیری توحید کا پرچار کون کرے گا۔لیکن فطرت مسکرا کر کچھ اور ہی کہہ رہی تھی کہ جلیل امتحان لے اور خلیل امتحان پاس نہ کر سکے۔یہ ممکن نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا خیال تھا کہ وہ اپنے موقف سے ہٹ جائیں گے کہ آگ تو ان کو جلا کر راکھ کر دے گی لیکن توحید پرست کا لہجہ اور ارادہ عشق سے بھرپور تھا۔اسی موقع کی علامہ اقبال رحمتہ علیہ نے خوب ترجمانی کی ہے بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی وہ عشق تھا جس نے ابراہیم علیہ السلام کو آتش نمرود میں بھیج دیا اور پھر اس عشق کا امتحان ہوا اور جب ابراھیم علیہ السلام عین آگ کے وسط میں پہنچ گئے انہیں آگ میں پھینک دیا گیا تو اللّٰہ رب العزت نے ایک فرشتے کو بھیجا اور فرشتے سے فرمایا کہ جا کر ابراہیم سے اپنی طرف سے پوچھ اور میرا پیغام دے کہ اس وقت آپ کو میری مدد کی ضرورت ہے تو میں جلنے سے بچا لوں۔تو اس فرشتے نے جا کے پوچھا ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ نہیں اگر تو سوال کرنا ہے تجھ سے تو پھر کوئی سوال نہیں ۔چلا جا مجھے کوئی حاجت نہیں اور اگر سوال کرنا ہے اس اللہ سے، تو وہ میرے سوال سے زیادہ میرے حال کو جانتا ہے۔ عشق کے طریقے اور ہوتے ہیں سوچنے کے۔اگر وہاں پیکر عقل ہوتا تو کہتا اللہ نے فرشتہ بھیج دیا اور فرشتہ پوچھ رہا ہے اگر آپ چاہیں تو میں آگ بجھا دوں اور آگ میں پھینکنے والوں کو جلا دوں۔عقل کا پیکر ہوتا تو

عوام کی آواز
November 01, 2022

How to Research and Write a Research Paper

So as to successfully write a research paper, you first have to decide on what your study subject is. Identify your target audience. Determine your readership and the rechtschreibprufung audience you intend to attain. Describe your research work. It is necessary to consider which type of paper writing you are doing: an essay, a research report, or a review. Identify if you have to include testimonials or use footnotes in your essay or research work. Choose your title page and other page design. The title page is the very first thing your reader will observe if the paper comes across their desk. If you’re writing an essay, the title page will display the major focus of your work. In the case of a research paper, your title page must act as the thesis statement which summarizes the whole research paper or the newspaper as a whole. Use proper language and proper formatting for your name page and other page design. Choose your sources. Your sources should be properly acknowledged. You have to recognize who gave you the information or quote you’re using. Also include sources that encourage and check the information you’ve obtained from the sources. When composing a research paper, your sources must be referenced within the text. For instance, if your sources are quoting from a resource, it’s appropriate to quote the origin or at the very least include a brief acknowledgment of the source in your text. Outline your thesis statement. Your outline should give a clear image of this newspaper and its main points. Include all the details necessary to encourage and fortify your statements. Ensure that you create a clear plan of action from the introduction to the conclusion of your newspaper. Proofread your work. A well-written essay is simple to read. To make sure you are on the right path with your study, make sure that thesis statements are correct and current. This will aid the reader to comprehend the fundamental concepts of your job better. In the end, edit and review your essay before it is finally submitted to the journal. Revising and editing are also significant parts of the writing process and should be done by every author regardless of the type of paper they are writing. Utilize a paper outline to start your research. As stated above, writing a thesis statement is essential for your essay. A newspaper outline will make it simpler to make the arrangement that best suits your requirements. It is going to also help you avoid overlooking key characteristics of your topic. Having a paper summary, you have a guide that will direct your study, organize your thoughts, and provide supporting evidence and cite your resources. A thesis statement in one’s essay is one of the most difficult aspects of writing a newspaper. This announcement, if it’s properly researched, written, and supported properly, can take the day and win the prize. Writing a thesis statement isn’t quite as easy as many writers think. The typical student might need to spend hours upon orthographe correcteur hours in the library and online researching and writing their own paper.

عوام کی آواز
October 30, 2022

Strategies For Sale – The Way to Write an Essay For Sale

If you have ever wondered what’s the ideal type of essay for sale, the answer lies in the topic of the article for sale. Essays can be a useful tool in the company, a first-class gift for a kid, or a form of resistance to prevent you from talking too much. They can also be utilized as an effective method to alter the narrative or debate for them to believe in a different way. All in all, the essays available are definitely worth a look at. Some of the most creative strategies to offer your essay are utilizing it as a form of resistance, explaining things, and allowing them to guess what you mean. By studying your essay for sale and making sure that they understand it entirely, it is going to permit them to compose their own mind. Using essays for sale as a creative means to communicate with them in their terms is a wonderful means to proceed in the composing process. Additionally, there are many individuals who do not even have to read your article for sale but only take away the document to begin another one. You might be surprised by how simple it’s to get the viewers to obey your essay available. Provided that you make sure that you listen attentively to everything that you say, you should discover that it comes across as if a person has opened a door for you to talk into. When the words on your paper are as apparent as the ones you’re studying, it makes it that much simpler to receive your point across. Essays for sale are not tough to compose, and it doesn’t take a unique talent to do so. Anybody can produce a sentence or two regarding exactly what they need, however, there’s a reason why they chose to take the opportunity to create it and the reason why they want other people to read it. To be able to make sure you supply the reader with what they’re looking for, you need to concentrate on these factors. A significant element is that the essay ought to interest the reader. If the primary objective is to sell your article, then the more intriguing and successful the writing becomes, the easier it will sell. In order to get this point across, you should add a small bit of your own personality to which you write. Adding a personal touch to what you’re attempting to sell is significant for several reasons. You want to have the ability to connect with your reader and get their attention when you begin to talk about your subject. When your essay is full worter zahlen of a feeling of fascination, it is going to be a lot easier to get them to listen to everything you need to say. Additionally, you wish to be sure that you express exactly what you want the reader to understand without becoming monotonous or boring. There are lots of places where you can write your composition for sale. If you write it on paper or digitally, then make sure you remember a digital essay is actually easier to sell than one which is printed. The fact that it is written down makes it possible to go over your thoughts clearly and to bring an individual touch to the written work. Essays available are an excellent way to write a creative, original, and persuasive piece that may be used in marketing and sales. It enables you to connect with your reader and entice them to ask questions or simply take a look at everything you have to say. In order to take the whole benefit of the, you need to contador de palavras online begin by identifying the subject and make positive it is something which is intriguing enough to provide something that is unique. Following these guidelines can allow you to recognize how to write an essay available and make sure that you market your idea to the reader.

صِرف راست گوئی تھی

جو رات تیرے لیئے قُمقُموں سموئی تھی وہ رات میں نے فقط آنسُوؤں سے دھوئی تھی رفِیق چھوڑ گئے ایک ایک کر کے مُجھے نہِیں تھا جُرم کوئی، صِرف راست گوئی تھی وہِیں پہ روتے کھڑے رہ گئے مِرے ارماں خُود اپنے ہاتھ سے کشتی جہاں ڈبوئی تھی جہاں سے آج چُنِیں سِیپِیاں مسرّت کی وہاں پہ فصل کبھی آنسُوؤں کی بوئی تھی شبِ فراق تُجھے کیا خبر، کوئی وحشت تمام رات مِرے بازُووں میں سوئی تھی تُمہارے بعد تو سکتہ ہُؤا ہے یُوں طاری سُوی سی آنکھ میں جیسے کوئی چُبھوئی تھی رشِیدؔ فرق نہِیں شعر میں ہے دم کہ نہِیں مہک تھی یار کی زُلفوں کی، عقل کھوئی تھی رشِید حسرتؔ

کہکشاں میں ملی

ایک تِتلی مُجھے گُلستاں میں مِلی ظُلم کی اِنتہا داستاں میں مِلی غُسل دو جو نہ ہاتھوں سے اپنے کیے زِندگانی فقط درمیاں میں مِلی بعد مُدّت اذاں اِک اذانوں میں تھی رُوح سی اِک بِلالی اذاں میں مِلی کل کہا اور تھا، آج کُچھ اور ہے کیسی تفرِیق اُس کے بیاں میں مِلی پر کٹا اِک پرِندہ تھا قیدی کہِیں اِک دبی چِیخ سی بے زُباں میں مِلی میں سِتاروں میں قِسمت کو ڈُھونڈا کرُوں بے کلی ہی مگر کَہکشاں میں مِلی اُس کے چہرے پہ ہیبت نمایاں رہی اور ٹھنڈک سی آتِش فِشاں میں مِلی جیسی صُورت سے اُن کو نوازا گیا کب کِسی کو زمِین و زماں میں مِلی میں زمِیں پہ محبّت کی سِیڑھی بنا داد حسرتؔ مُجھے آسماں میں مِلی رشِید حسرتؔ

عوام کی آواز
October 27, 2022

مجھے ہے حکم اذاں

مجھے ہے حکم اذاں ٹرانس جینڈر ایکٹ پر سینٹ کے دو ممبران سینیٹرمشتاق احمد اور اس ایکٹ کی اسپوک پرسن سینیٹر شیریں مزاری کے درمیان ایک مکالمہ تحریر : مسز علی گوجرانوالہ سینیٹر مشتاق احمد محترمہ شیریں مزاری صاحبہ آپ پر واضح کرتا چلوں کہ امریکہ نے ۲۰۱۵ میں یہی بل زمبابوے پر بھی اپلائی کیا تھا لیکن زمبابوے کے عیسائی صدر رابرٹ موگابے اس کے سخت مخالف تھے امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ہمارا مذہب اس عمل سے روکتا ہے تو خود کو عیسائی کہنے والے اس عمل کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ شیریں مزاریمسٹر مشتاق احمد ہم نے یہ قانون بڑی مشکل سے پاس کروایا ہے اور یہ آپریشنل بھی ہو گیا ہے۔ یہ واحد لا ہے جسے امریکہ نے ایپرشیٹ کیا ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد میڈم صاحبہ کیا ہم میں عیسائی صدر رابرٹ موگابے جتنی بھی غیرت نہیں ہے جس نے اپنے ملک میں غیر فطری عمل کے نفاذ کا سوچا تک نہیں ہے ہمارا ملک تو پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں ۹۱٪ مسلمان ہیں۔ شیریں مزاری سر جینڈر کی شناخت ایک پرسنل ایشو ہے ۔ یہ اس کی اپنی چوائس ہے۔ یہ رائٹ ہر کسی کو ہے کہ وہ اپنی آئیڈنٹٹی خود چوز کرے۔ آپ خواجہ سرا وں کے حقوق کے خلاف ہیں۔میڈیکل بورڈ کی پریوزن سراسر غلط ہے یہ ائبيوز ہو گا۔ سینیٹر مشتاق احمد محترمہ خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں بے حیائی اور ہم جنس پرستی کو فروغ مل رہا ہے یہ فطرت اور اسلام کے خلاف بل ہے۔ یہ بل اللہ کے عذاب کو چیلنج ہے۔ اس سےLGBT کو پاکستان میں انٹر کیا جا رہا ہے۔میڈیکل بورڈ ایگزمن کرنے میں کیا حرج ہے شیریں مزاری سر آپ اس بل میں امنڈ منٹ کرکے اسے ابیوز کر رہے ہیں ۔یہ مذہبی دقیانوسی ہے۔اب ہیومن رائٹس میں ڈسکشن ہو گی۔ سینیٹر مشتاق احمد محترمہ یہ ثقا فتی، مغربی، تہذیبی جارحیت ہے ہیومن رائٹس کا تو معاملہ ہے ہی نہیں۔ اسلام اور قرآن و سنت کے علاوہ عقل کی روشنی میں بھی اس بل کے جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ تاریخ اسلام میں قوم لوط علیہ السلام کا تذکرہ اور تباہی عبرت کے لیے کافی نہیں ہے جسے اللّٰہ تعالٰی نے اٹھا کر پٹخ دیا تھا. شیریں مزاری سر جب امریکہ جیسی سپر پاور ہمیں سپورٹ کر رہی ہے تو ہماری عوام اور آپ جسے لوگوں کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔ سینیٹر مشتاق احمد ہمارے قوانین امریکہ میں بنتے ہیں ہماری اسمبلی فقط اسے قانون کی کتاب میں لکھ دیتی ہے ۔ ہم نےفیڈرل شریعت کورٹ میں اپیل کی ہے۔میں اپنے علماء اور عوام کو بھی اپیل کرتا ہوں جب یہ بیدار ہوں گے تو آپ جیسے غلام ذہنیت لوگ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔غیرت مند خون رگوں میں رکھنے والا پاکستانی ایسے غلیظ غیر فطری بل کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہم جنس پرستی تو جانور بھی نہیں کرتے۔ مجھے چراغ جلانا ہو گا ، مجھے اپنی قوم کو بیدارکرنا ہے اسلام کے حقوق و نفاذ کے لیے کہ ،،مجھے ہے حکم اذاں

عوام کی آواز
October 24, 2022

بڑا آدمی

تحریر : مسز علی ،،بڑا آدمی،، آدھی سے زیادہ رات بیت چُکی تھی۔ گھر کے تمام افراد گہری نیند سو رہے تھے۔اسی گھر کے ایک کمرے کی روشنی جل رہی تھی اور ایک بچہ پڑھنے میں مصروف تھا۔ بچہ نہایت انہماک سے پڑھائی میں مشغول تھا کہ اس کی بہن گہری نیند سے اٹھ کے بھائی کے کمرے میں آئی اور کہا کہ ،،بھائی وقت بہت ہو گیا ہے اب آرام کرو اور سو جاؤ ,,بچے نے جواب دیا کہ ،،مجھے بڑا آدمی بننا ہے ،پڑھوں گا نہیں تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا،،۔ یہ گفتگو قائد اعظم اور ان کی بہن فاطمہ جناح کے مابین ہوئی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس بچے نے سخت محنت کر کے اپنے مقصد کو پا لیا۔اور اتنے بڑے آدمی بنے کہ لوگ ان کو قائد اعظم کے نام سے جانتے ہیں۔۔ اس شخص نے دنیا کے آگے ہم سب کی وکالت ایسے کی دنیا کی عدالت میں وہ لوگو ہم سب کی پہچان بنا اِک فہم و فراست سے اس نے جذبوں کی قیادت ایسے کی –وہ قائداعظم کہلایا ،بانی پاکستان بنا-شیکسپیئر کہتا ہے کچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد اور کارناموں کی بدولت عظمت حاصل کر لیتے ہیں ۔قائداعظم میں یہ خوبیاں پیدائشی بھی موجود تھیں اور کچھ سخت محنت اور لگن سے مقام حاصل کیا بیسویں صدی کا سب سے بڑا انسان قائد اعظم محمد علی جناح ،اس نے ایک بکھرے ہجوم کو قوم بنایا،پھر اس قوم کی قوت کے ساتھ ایک نئی مملکت (پاکستان)کی تخلیق کی اور تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔اور یہ سب کچھ ایک دستوری اور قانونی جدوجھد کے ساتھ حاصل کیا۔میرے قائد نے تدبر سے کام لیا اور ایک نئی بستی (پاکستان) بسا کر دکھا دی واقعی وہ شخص عظمتوں کا پیکر تھا۔ بستی بسانا کھیل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بستے بستے ،بستی بستی ہے۔۔۔۔۔ ہم نے اس بستی کواس طرح نہیں سنبھالا جس طرح ہمارا قائد چاہتا تھا۔ ہم نے اس کے بعد ایک دفعہ پھر پستیوں کی راہ اختیار کر لی۔ہم نے نشانِ منزل بھی کھو دیا اور منزل بھی گم کر دی ۔ کیا واپسی کا کوئی راستہ ہے, ہاں ہے،ضرور ہے اور وہ ہے قائد کا راستہ ۔اللّٰہ تعالیٰ نے جو کام محمد علی جناح سے لیا وہ اعزاز کسی اور کو نہیں مل سکا ۔اسٹینلے والپر اپنی معرکہ آراء ،،جناح آف پاکستان,, میں لکھتے ہیں ،، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کے دھارے کو بخوبی بدل سکتے ہیں۔اس سے بھی کم وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کے نقشے کو بدل سکیں اور شاید کوئی مائی کا لال ایسا ہو جسے قومی ریاست بنانے کا اعزاز ملا ہو ۔محمد علی جناح دنیا کی وہ واحد ہستی ہے جس نے یہ تینوں کام کر دکھائے ،،۔ قائد اعظم نے پاکستان کو جنم دیا ۔پاکستان محض ایک زمین کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ ایک بھرپور تخلیق ہے زمین تو صرف ایک پہناوا ہے اور مسلم قومیت اس کی روح ہے اور یہ سب کچھ محمد علی جناح کی دین ہے۔ اسی لیے مسلمانانِ ہند نے آپ کو قائد اعظم کا خطاب دیا کیونکہ وہ اس کے مستحق تھے ۔پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اسے با قاعدہ سرکاری حیثیت دی کہ چشمِ فلک نے اس سے بڑا لیڈر کبھی نہیں دیکھا تھا۔شاید اسی لیے ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائد اعظم کی وفات کے بعد کہا تھا کہ اگر مجھے بروقت پتہ چل جاتا کہ محمد علی جناح تپ دق جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہیں اور اتنی جلدی انھیں موت آ لے گی تو وہ ہندوستان کی آزادی کا وقت آگے بڑھا دیتا اور محمد علی جناح کی موت کا انتظار کرتا اور پھر کبھی پاکستان نہ بن سکتا تھا ۔ میں کلیوں کو سینے کا لہو دے کے چلا ہوں۔۔۔۔۔ برسوں مجھے گلشن کی فضا یاد رکھے گی۔۔۔۔۔۔ آپ اندازہ کریں کہ تخلیق و استحکام میں ایک شخص کا کتنا کلیدی کردار ہے کہ مخالف بھی اس کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ہاں انگریز اور ماؤنٹ بیٹن اس تخلیق کے مخالف تھے انہوں نے بار بار اس کا اعلان کیا ہے کہ قائد اعظم کی مدلل اور مضبوط شخصیت کے سامنے سب چراغ گُل ہو گئے۔ نوجوان جناح نے ،،لنکزان ،، کے دروازے پر بڑے بڑے قانون عطا کرنے والوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ مبارک سب سے اوپر دیکھا تو فوراً فیصلہ کر لیا کہ اسی دبستان سے قانون کی ڈگری لیکر بیرسٹر بنیں گے۔ہندوستان کا بہترین وکیل، نڈر سچا بیباک ،قابل انسان جسے خریدنا نا ممکن تھا۔قائد اعظم تو عظیم تھا اور وہ ہے وہ تو بہت بڑا انسان تھا ہم فقیروں كو بھی بڑا بنا گیا،ہمیں ایک پہچان اور شان دے گیا ۔ قائد اعظم پاکستان کو اسلام کی لیبارٹری اور تجربہ گاہ کا نام دیتے تھے۔وہ ملت اسلامیہ کو آزاد اور سربلند دیکھنا چاہتے تھے۔ان کی فکر کی بس ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے ۔ 21اکتوبر 1939 کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،، میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں میں چاہتا ہوں کہ جب میں مروں تو یہ یقین اور اطمینان لیکر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی ،تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کیا ۔میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلبگار نہیں ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم تک میرا دل، میرا ایمان اور میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا،تم مسلمانوں کی تنظیم ،اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے ۔میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو سر بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے،، ۔ ان کے ایک ایک لفظ سے اسلام کی محبت جھلکتی ہے۔قائد نے اسی طاقت کے بل بوتے پر اس وقت کی سپر پاور برطانیہ کو ان کے میدان میں ان ہی کے انداز میں شکست فاش دی۔ آل انڈیا

عوام کی آواز
October 23, 2022

مشکل وقت میں عزم و ہمت کی مثال،ایک کسان اور اس کے گھوڑے کی کہانی

مشکل وقت میں عزم و ہمت کی مثال،ایک کسان اور اس کے گھوڑے کی کہانی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گھوڑا ایک بہت گہرے گڑھے کے اندر جا گرا اور بہت زور زور سے آوازیں نکالنے لگا اس گھوڑے کا مالک ایک کسان تھا جو اس گڑھے کے کنارے پہ کھڑا اس کو بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا-جب اس کسان کو کوئی طریقہ سمجھ نہیں آیا تو وہ ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بہت بوڑھا ہو چکا ہے لہٰذا یہ گھوڑا اب میرے کسی کام کا نہیں رہا تو چلو اسے یوں ہی مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، اور اس گڑھے کو بھی آخر ایک نہ ایک دن بند کرنا ہی تھا تو اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو گا. یہ بات سوچ کر اس کساان نے اپنے پڑوسیوں کو بلایا اور ان کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا. سب لوگوں کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی اور کوڑا کرکٹ گڑھے میں ڈال رہے تھےگھوڑا یہ سب کچھ دیکھ کر بہت زیادہ پریشان ہوا. اس نے پریشانی کے عالم میں اور تیز تیز آوازیں نکالنا شروع کر دیں. کچھ ہی دیر بعد گھوڑا بالکل خاموش ہو گیا. جب کسان نے گڑھے کے اندر جھانک کر دیکھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب اس گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تو وہ اسی وقت اسے جھٹک کر اپنے جسم سے گرا دیتا ہے اور پھر وہ اس گری ہوئی مٹی اور کچرے کے اوپر کھڑا ہو جاتا ہے. یہ سلسلہ بہت دیر تک چلتا رہا. کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا اس گھوڑے پر پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا کر نیچے گراتا اور اس مٹی اور کچرے کے اوپر کھڑا ہو جاتا، اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے وہ اوپر تک پہنچ گیا اور گڑھے سے باہر نکل آیا. یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی بہت زیادہ حیران ہوئے. زندگی میں کبھی کبھی ہمارے ساتھ بھی ایسے ہی واقعات رونما ہو جاتے ہیں کہ ہمارے اوپربھی کچرا اچھالا جائے، اور ہماری کردار کشی کی جائے ، ہمارے دامن کو بھی داغدار کیا جائے، ہم کو بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے،لیکن اس گندگی کے گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ ہرگز نہیں کہ ہم اس گندگی اور غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں، بلکہ ہم سب کو بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے. زندگی میں ہمیں جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ان مشکلات سے ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یا ان کو جھٹک کر نیچے گرائیں اور اوپر کی طرف چڑھ کر اس مشکل کے کنویں سے باہر نکل آئیں۔ آپ پر خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں مگر ایک پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی بھی نہیں بدلتا..

عوام کی آواز
October 20, 2022

لا تحزن

،،،لا تحزن،، تحریر : مسز علی گوجرانوالہ انسانی زندگی غم اور خوشی سے عبارت ہے۔زندگی کی دھوپ چھاؤں میں گرمی کو ٹھنڈک سے بجھائیے ۔تاکہ آپ تلخیوں سے بچ جائیں۔یہ مشیت کا فیصلہ ہے کہ یہاں گرم سرد،خیر ،شر دونوں ہوں۔اچھائی ہو برائی ہو ۔خوشی کے ساتھ غم بھی ہو۔ زندگی کے مسائل ہمیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں، کیونکہ ان سے نبرد آزما ہو کر ہی یقینی کامیابی ممکن ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسائل ہی زندگی کو با مقصد اور کامیاب بناتے ہیں ۔مہشور مصنف نارمن ونسنٹ لکھتا ہے کہ اس کی ملاقات نیویارک کے ایک انتہائی مسائل میں گھرے شخص سے ہوئی ،اس نے نارمن سے پوچھا کہ میری مدد کرو،میں مسائل کا شکار ہوں ،مجھے کوئی جگہ بتاؤ جہاں مسائل نہ ہوں میں وہاں چلا جاؤ ں نارمن نے جواب دیا میں ایک ایسی جگہ سے واقف ہوں جہاں کی آبادی پندرہ ہزار سے زائد ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی مسئلہ کا شکار نہیں ہے، خدارا مجھے بتاؤ وہ جگہ کہاں ہے میں وہاں جا کر رہنا پسند کروں گا،اس نے بے اختیار کہا۔ نارمن بولا: وہ جگہ نزدیکی قبرستان ہے جہاں کے لوگوں کو کوئی الجھن کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ انسان مرنے کے بعد ہی دنیا کے ہنگاموں اور مسائل سے بچ سکتا ہے یہاں اگر وہ زندہ ہے تو اسے بدلتے موسموں ،دکھ ،سکھ اور مختلف مسائل کا سامنا کرنا ہے کیونکہ یہی زندگی ہے۔ ہمیں زمین میں یا ہمارے نفسوں میں جو تکلیف پہنچتی ہے۔وہ ہماری پیدائش سے پہلے ہی ایک ریکارڈ میں درج کر لی گئی ہے ۔قلم سوکھ چکا،صحیفے اٹھا لیے گئے ،معاملہ طے پا گیا،تقدیر لکھی جا چکی اور وہی ہمیں پہنچتا ہے جو ہمارے لیے لکھا جا چکا ہے ۔جب یہ عقیدہ دل میں بیٹھ جائے تو تکلیف عطیہ اور مصیبت انعام بن جائے جو گزرے اسے انعام سمجیں ۔اللّٰہ جس کے ساتھ خیر چاہتا ہے اسے اس میں حصہ ملتا ہے ۔قرآنِ پاک میں ارشاد ہے عسر کے ساتھ یسر ہے،یعنی تنگی کے بعد آسانی ہے۔بہترین عبادت اللّٰہ کی رحمت اور آسانی کا انتظار ہے ۔کیسے بھی حالات ہوں خود کو ان کے مطابق ڈھالیں کہ پھول ہی پھول حاصل ہوں ۔ ہم سب اور فرض ہے کہ آسانی و ترشی سختی اور تنگی میں بس رحمان و رحیم اللہ کو پکاریں،ساری مخلوق جس سے مانگے ،زبانوں پر جس کہ ذکر ہو ،دلوں میں جو گھر کرے وہ اللہ اور صرف اللہ ہے صرف اس کا وسیلہ چاہیں ۔وہ پوچھتا ہے کہ اس کے علاوہ کون ہے جو مصیبت زدہ کی پکار سنے ۔وہ تو کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری پکار سنوں گا۔خدا سے بات کریں،اس سے سرگوشی کریں،اس سے دعا کریں اس سے امید کریں آپ سب پا جائیں تو ہر چیز کو پا جائیں گے اس پر ایمان میں کمزوری آ گئی تو سمجھو ہر چیز کھو گئی۔ رب سے دعا کرنا بھی تو عبادت ہے،اس سے حسنِ ظن رکھنا چاہیئے اس کے کلام پاک کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ تم مجھے جیسا سوچو گے ،ویسا ہی پاؤ گے۔ ہمیں اپنے پیدا کرنے والے سے اچھا گمان رکھنا چاہیے۔مایوسی گناہ ہے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے اگر کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے تو صبر سے کام لینا چاہیے کہ وہ رب رحیم خود کہ رہا ہے ،،میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں،، اس سے بڑھ کر کیا گارنٹی ہو سکتی ہے۔قرآنِ پاک میں واضح الفاظ میں یہ تسلی دی گئی ہے ،،لا تحزن ،، غم نہ کر۔ یہ تو سید الخلائق محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو غار میں اپنے ساتھی سے کہہ رہے ہیں ،، گھبراؤ نہیں یقیناً اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے،، ،،کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے،، قرآنِ کہتا ہے ،،جو میں نے تمہیں دیا ہے وہ لے لو اور شکر گزاروں میں سے ہو جاؤ،، ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ،،پریشانیوں کا شاہی علاج مذھب ہے،، چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے بحثیت مسلمان ہمارا عقیدہ اس بات پر پختہ ہونا چاہیے کہ اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوا جائے،کہ بے شک اس کی رحمت حاوی ہے اس کے غضب پہ۔ دور حاضر کا تقریباً ہر انسان ٹینشن،ڈپریشن، ا ئنگزا ائٹی اور نا امیدی کا شکار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اس کو حاصل ہے وہ اس پہ مطمئین ہی نہیں ہے بس اس کو رونا اسی کا ہے جو حاصل یا میسر نہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے جو نعمتیں میسر کی ہیں پہلے ان پر تو شکرگزاری کی جائے، پھر اس سے شکوے کیے جائیں۔اللّٰہ کی رضا پہ راضی رہنا ہی تو ایمان ہے۔ پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کہ ناصر ۔۔۔۔۔۔ غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے ۔۔۔۔ امام شافعی کا قول ہے ،،گردشِ زمانہ کو اپنا کام کرنے دو،جو تقدیر ہو اس پر راضی رہو ،جب کسی قوم کے بارے میں کوئی فیصلہ ہو جاتا ہے تو نہ اسے زمین پناہ دے سکتی ہے نہ آسمان ۔ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ کوئی نفس اس وقت تک نہیں مر سکتا جب تک اپنے مقدر میں لکھی ہوئی روزی اور عمر کی تکمیل نہ کر لے ۔رنج ،فکر، تکان، دکھ ،تکلیف یہ سب تو گناہوں کا کفارہ ہے جو صبر کرے،ثواب کی امید رکھے اور یہ یقین رکھے کہ اس کا معاملہ اللّٰہ واحد وہاب سے ہے تو کیسی ائینگزا ائیٹی ؟ کیسا ڈپریشن؟ ایک حکیم نے کہا کہ لیموں سے میٹھا شربت بنائیے اللہ تعالیٰ نے جو ہمارے مقدر میں لکھ دیا ہے اسے قبول کر نا ہمارا فرض ہے۔زندگی گزارنا ایک فن ہے اور ہمیں یہ فن اسلام کے راستے پر چل کر سیکھنا ہو گا اور اس میں مہارت حاصل کرنا ہو گی۔ جو ہے ،جیسا ہے اسے قبول کرنا ہو گا ۔ انسان ہونے کے ناطے اللہ رب کریم سے یہ دعا نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی کی دکھوں اور آزمائشوں سے نجات مل جائے بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ہمیں برداشت کرنے کی ہمت، اور حوصلہ دے ،اپنی بیش بہا نعمتوں کے صدقے ہمیں پر سکون اور متقی بنا دے ذہنی خلفشار اور انتشار

عوام کی آواز
October 20, 2022

ٹرانس جینڈر ایکٹ

ٹرانس جینڈر ایکٹ تحریر : مسز علی گوجرانوالہ ایک انٹر نیشنل رپورٹ کے مطابق پاکستان یورپ کے بعد پہلا اسلامی ملک بن گیا ہے جس میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت مل گئی ہے ۔ جن صاحب نے یہ بل پاس کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی بل پاس کرنے سے پہلے سینس آف دی ہاؤس لیا جاتا ہے اگر میجورٹی کا یہ سینس ہو کہ ہم نے پاس کرنا ہے اور گورنمنٹ بھی ایگری کرے تو اس کو کمیٹی میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ یعنی اس بل کی منظوری ثابت کرتی ہے کہ ،،ہاؤس از فل ودھ میجورٹی نان سینس پرسنز،، ہم نے اللہ کے قانون کے آگے اپنے قانون رکھ دیے ہیں نیشنل اسمبلی نے اس بل کو منظور کیا ہے۔ یہ بل بظا ہر خواجہ سراؤں کےحقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے اور اس بل کی آڑ میں ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اس ایکٹ کے 21 سیکشنز ہیں۔ سیکشن 2 میں جینڈر یعنی جنس کو ڈیفائن کیا گیا ہے۔ جنس کا تعین یا شناخت کسی شخص کی اندرونی یا خود کی محسوسات-اس ایکٹ کی رو سے کسی بھی مرد یا عورت کو قانونی تحفظ حاصل ہے کہ وہ نادرا آفس جا کر اپنی جینڈر جو مرضی رجسٹر کروا سکتا ہے۔مرد خود کو عورت اور عورت خود کو مرد رجسٹر کروا سکتا ہے،ناٹ مینشن۔ انڈیا،برطانیہ امریکہ اور یورپ سے بھی آگے پاکستان نے جمپ کیا ہے یعنی ان ممالک میں بھی اگر کوئی اپنی جنس تبدیل کرے تو اس کو میڈیکل بورڈ ایگزمن کرتا ہے کہ اس کا دعویٰ درست ہے یا نہیں لیکن پاکستان تو ایکسٹرا آرڈنیری لبرل ہے کہ طبی معائنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اپنا جسم اپنی مرضی ہے خود کو جو مرضی رجسٹر کروائیے۔یہ ایک شرمناک ایکٹ ہے اس سے عائلی زندگی اور وراثت کے قوانین بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔ قوم لوط کا عمل دہرایا جائے گا۔ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔ معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گا سنہ 2018کو یہ بل پاس ہوا تھا۔ جون 2021 تک کے فگرز نادرا نے دیے ہیں کہ تقریباً تیس ہزار کے قریب لوگوں نے جنس بدلنے کی درخواست دی۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہ بل جن کے لیے پا س ہوا ہے وہ خود اس کے خلاف ہیں۔ اس سے ان کے حقوق بھی متاثر ہوں گے جو مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی ٹرانس جینڈر ہیں۔ اس بل میں ترمیم کی جاۓ اسے اسلام کے اصولوں کے مطابق بنایا جائے تو منظور ہے ورنہ نہیں ۔ خواجہ سرا اسی معاشرے کے افراد ہیں ان کو تعلیم،سفر،روزگار رہائش،ملازمت وراثت کے حق دیے جائیں ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے۔ان کو عزت دی جائے۔ لیکن ان کی آڑ میں معاشرے میں غلاظت نہ پھیلائی جائے۔

عوام کی آواز
October 19, 2022

ایان علی. ڈالر گرل

ایان علی دبئی جانے کے لیے اسلام آباد ائرپورٹ پر پہنچی جسکا نام اس وقت بے نظیر ائرپورٹ تھا. وہ وی آئی پی لاؤنج تک آئی اور اپنا لیگیج کاونٹر پر رکھا تو کسٹم حکام نے اسکا بیگ چیک کرنا چاہا، ایان علی نے لاپروائی سے بیگ کھولا اور اعجاز چوہدری نامی کسٹم انسپکٹر نے بیگ میں پڑے دو کپڑے ہٹائے تو نیچے ڈالروں کی گڈیاں پڑی ہوئی تھیں، انسپکٹر نے ایان علی سے استفسار کیا تو اس نے لاپروائی سے کہا کہ یہ میرے ہیں، اس نے کہا میڈم مجھے یہ رقم زیادہ لگ رہی ہے، کم و بیش پانچ ہزار ڈالرز سے زیادہ کیش لے جانا غیر قانونی ہے پھر اس نے گڈیاں گنی تو وہ 5 لاکھ ڈالرز تھے ،کسٹم انسپکٹر نے اپنے سنئئر کو مطلع کیا اور ایان علی کوصوفے پر بٹھا دیا، ایان علی کو کوئی پریشانی نہیں تھی، اسکے لئے یہ روز کا معمول تھا لیکن اعجاز چوہدری کے لئے یہ معمولی بات نہیں تھی ،وہ جانتا تھا کہ ایان علی ہفتے میں دو مرتبہ دبئی جاتی ہے اور اسکے سامان کی کوئی خاص چیکنگ نہیں ہوتی اور کسٹم کا عملہ ہی اسکو ہینگر تک لے کے جاتا ہے ،سنئیر حکام آ گئے اور انہوں نے اعجاز چوہدری کو ایک طرف لے جا کر کچھ سمجھانے کی کوشش کی، اعجاز چوہدری اکھڑ گیا اور اپنی قانونی پوزیشن بتانے لگا، نیز اس نے اس دوران سی اے اے اور نارکوٹیکس کے افسران کو بھی مطلع کیا، دوسری ایان علی بے زاری سے صوفے پر بیٹھ کر مسلسل فون پر بات کرتی رہی. اسی دوران کسٹم ہی کے کسی فرد نے میڈیا کو خبر دی اور چند گھنٹوں میں پورے میڈیا میں خبر پھیل گئی کہ مشہور ماڈل ایان علی پانچ لاکھ ڈالر سمگل کرتے ہوئے پکڑی گئی اور پکڑنے والا کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری ہے بات چونکہ اب پھیل گئی تھی لہذا کسٹم حکام کو بھی مجبور ہوکر سٹینڈ لینا پڑا، انہوں نے ایان علی کہ سفری دستاویزات اور ڈیٹا کی انکوائری کی تو صرف ایک سال میں ایان علی 43 مرتبہ دبئی کا سفر کر چکی تھی ایان علی نے دوران تفتیش اقرار کیا کہ وہ اپنے ذاتی اخراجات اور شاپنگ کے لیے ڈالر ہی لے کر جاتی تھی، یہ 43 ویں مرتبہ پکڑی گئی تھی جب اس سے پوچھا گیا کہ اتنے ڈالر اسکے پاس کہاں سے آئے اور وہ ڈالر ہی کیوں لے کے جاتی ہے تو اسکے پاس صرف ایک جواب تھا. یہ میری اپنی کمائی ہے،ایان علی کی گرفتاری کے فورا بعد پیپلز پارٹی کی لیگل ٹیم نے اسکا کیس لیا، سردار لطیف کھوسہ اسکا وکیل بنا، ملک کے چوٹی کے وکیلوں نے بیٹھک کی اور مختلف قانونی نقاط اور پوائنٹس اکھٹے کئے، انہی وکیلوں میں آج تحریک انصاف کے لئے ہیرو کا درجہ دینے والا اعتزاز احسن بھی شامل تھے انہوں نے ایان علی کے کیس کی پوری پیروی کی، ہر ہر قدم پر وہ لطیف کھوسہ کو گائیڈ کرتے رہے خالانکہ یہ سو فیصد اوپن اینڈ شٹ کیس تھا، شریف خاندان کے میڈیا سیل اور زرداری مخالف صحافیوں اور تحریک انصاف کے کارکنوں اور سوشل میڈیا نے ایان علی کا نام زرداری سے جوڑا۔ ٹاک شوز ہونے لگے، پیپلز پارٹی کے لیڈروں سے سوال جواب ہونے لگے تو وہ ٹاک شوز میں بلکل باولے ہوجاتے تھے شرمیلا فاروقی سے لے کر شہلا رضا تک اور مصطفی کھوکھر سے لے کر سعید غنی تک نے مریم صفدر اور کلثوم نواز کے کپڑے اتار دئیے، دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکن سوشل میڈیا پر چھائے رہے، انہوں نے بھٹو تک کو قبر سے نکال دیا، آج بھی پیپلز پارٹی کے وزیروں مشیروں سے ایان علی کا پوچھا جائے تو انہیں دورے پڑ جاتے ہیں، انکے منہ سے رال نکلتی ہے ،وہ پاگل کتوں کی طرح کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں. بہرحال ایان علی کی گرفتاری سے اس ریاست اور اسکے اداروں کا اصل امتحان شروع ہوا وہ جیل گئی، پھر جب پیشیوں پر آتی تھی تو پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ میک اپ کرکے آتی تھی، اسے جیل کے فائیو سٹار بیرک میں رکھا گیا، کمرے میں دنیا کی ہر سہولت موجود تھی، وہ منرل واٹر پیتی تھی اور ناشتے میں امریکن و چائنیز فوڈ کھاتی تھی ،اسے ورزش کی مشینیں مہیا کی گئیں، اسکا فون اور لیپ ٹاپ کسٹم حکام کے پاس تھا لہذا اسے ایک اور فون دیا گیا، اسکی خدمت کے لیے پورے جیل کا عملہ وقف تھا، ایان علی کے پورے کیس اور قید میں سب سے زیادہ چاندی وکیلوں کی ہوئی، دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ فائدہ جیل حکام اور پولیس والوں کو ہوا، تیسرے نمبر پر میڈیا تھا جس نے زرداری اور ملک ریاض دونوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا ساتھ شریفوں سے بھی زرداری کی مخالفت میں فائدہ اٹھاتے رہے ایان علی ملکی تاریخ کی پہلی قیدی تھی جسے جیل میں فائیو سٹار ہوٹل کی سہولیات دی گئی، ایسی سہولیات ذوالفقار علی بھٹو جیسے شخص اور نصرت بھٹو و بے نظیر بھٹو سمیت آصف زرداری اور نواز شریف تک کو نہیں دی گئی تھیں، حتی کہ جتنی بھی بڑی بڑی سیاسی شخصیات جیل گئی ہیں انہیں یہ سہولیات نہیں ملیں، مریم نواز سمیت جسکے پاس آدھے پاکستان کی پورن ویڈیوز ہیں اور آدھا لندن اسکے جائیداد میں آتا ہے-دوران تفتیش جو کچھ ہوا اس سے ہر شخص باخبر ہے ، لیکن اس سب کے بیچ جو سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری تھا، اسکے افسران اسے ملامت کرتے ،اسکے کولیگز اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھتے، دوران جرح ایان علی کے وکیل اسے گالیاں اور جھڑکیاں دیتے، عدالت کے احاطے میں اسے دھمکیاں دیتے، اسے نا معلوم نمبروں سے کالیں آتی، اسے قتل کرنے کی دھمکیاں دی جاتی لیکن وہ اپنی جگہ کھڑا رہا، اسے ہر قسم کا لالچ دیا گیا لیکن وہ کیس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا، اسکی ترقی روک دی گئی اور بجائے اسکے کہ اسے انعام دیا جاتا، اسے پابند کیا کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہی ہوتا وہ کسٹم کاونٹر پر خدمات نہیں دے گا۔ اس نے تمام ثبوت اکھٹے کئے اور عدالت کو دے دئیے، جب فرد جرم لگنے

عوام کی آواز
October 18, 2022

خواتین کے حقوق کیا ہیں؟آنے والی جنریشن کے لیے یہ جاننا کتنا ضروری ہے؟

خواتین کے حقوق کیا ہیں؟آنے والی جنریشن کے لیے یہ جاننا کتنا ضروری ہے؟ .خواتین کے حقوق بین الاقوامی انسانی حقوق کی روشنی میں      بین الاقوامی انسانی حقوق پر بنائے جانے والے قوانین 2013 خواتین کے حقوق پر بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق خواتین کو مناسب رہائش ،خوراک، کپڑا ، صاف پینے کا پانی ،جائیداد میں حصہ اور ان کے درپیش ہر قسم کے سماجی و معاشرتی مسائل کو ختم کرنے کی منطور ی دی گئی ہے۔لیکن بد قسمتی سے نصف سے زائد خواتین کو اپنے بنیادی حقوق کی آگاہی ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ان بنیادی سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسی مشکلات کو برداشت کر رہی ہیں۔ خواتین کی ضروریات کیا ہیں؟      خواتین مردوں سے مختلف ہیں اس لیے ان کی ضروریات بھی مختلف ہیں ۔اسلام میں عورت کو بے حد احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔عورتوں کے حقوق کے متعلق قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ: لوگوں عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈور۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ عورتوں کی ضروریات کو سمجھیں انہیں تحفظ فراہم کریں۔عورت کی بنیادی ضرورت اسے ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہے جہاں اسے تحفظ کا احساس ہو۔ خواتین کے خلاف تشدد      خواتین کے خلاف تشدد سے مراد صنفی امتیاز پر مبنی ایسا فعل ہے جس سے خواتین کو نفسیاتی ،جسمانی یا جنسی نقصان پہنچے کا احتمال ہو۔اجتماعی زندگی میں بھی دھمکیاں ،دباو یا اآزادی سلب کرنے جیسے اقدامات بھی اس تعریف کے زمرے میں آتے ہیں  -خواتین کے خلاف تشدد ایک ایسا عمل ہے جس کے نتیجے میں عورتیں جسمانی ،ذہنی،جنسی یا نفسیاتی تکلیف کا شکار ہوتی ہیں اور ایسے واقعات گھروں کے اندر یا باہر واقع ہوتے ہیں۔ نمبر1:گھریلو سطح پر اس میں جسمانی اور ذہنی جارحیت جذباتی اور نفسیاتی دباو دھمکیاں جنسی تشدد ،تعلق اور عزت سے منسلک جرائم،اور روایات مثلا شادیاں ،کاروکاری وغیرہ شامل ہیں۔ نمبر2:معاشرے کی سطح پر تعلیمی اداروں اور کام کی جگہ پر جنسی تشدد اور ہراساں کر نا شامل ہے۔  نمبر3: ریاست کی سطح پر تشدد میں اداروں کا نامناسب رویوں اور سلوک کو نظر انداز کرنا شامل ہے۔  خواتین کے خلاف تشدد کی 4 اقسام      خواتین پر تشدد ذیل صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔لیکن یہ صرف یہاں تک محدود نہیں۔ نمبر1:گھر وں میں ہونے والا جنسی اور جسمانی تشدد جیسے تھپڑمارنا، جنسی استحصال کرنا،زبردستی شادی کرنا،جائیداد میں حصہ نہ دینا،شوہر یا شوہر کے گھروالوں کی طرف سے تشدد اس میں شامل ہے۔ نمبر2:سماجی سطح پر ہونے والا جسمانی ،جنسی اور نفسیاتی تشدد جیسے کام کی جگہ یا تعلیمی اداروں میں زنا بالجبر،جنسی طور پر ہراساں کرنا،خواتین کی خرید وفروخت اور سمگلنگ اور زبردستی جسم فروشی جیسے تشدد شامل ہیں۔ گھریلو تشدد کیا ہے؟ گھریلو تشدد سے مراد ایسا عمل ہے جس میں خاندان کا ایک فرد دوسرے فرد پر اپنی برتری استعمال کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے۔یہ طاقت جسمانی بھی ہو سکتی ہے اور ایسا عمل بھی جس سے دوسرے فرد کی عزت نفس  اور خوداری کو نقصان پہنچے۔کوئی بھی فرد اس کا شکار ہوسکتا ہےمگر عام طور دیکھا گیا ہے کہ گھریلو خواتین ہی اس کا نشانہ بنتی ہیں۔خواتین کی شکایات کو بھی گھریلو مسلہ کی طرح دیکھا جاتا ہے لہذا تشدد کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔خواتین پر گھریلو تشدد کی مزید ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں نمبر1:جسمانی تشدد                جسمانی تشدد کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔اس قسم  کے تشدد میں مارنا ،جسمانی ایذا پہنچانا،دھکا دینا،جلانا ،تیزاب پھینکناحتی کہ قتل کردینا شامل ہے ۔ اس تشدد میں مرد واضع طور پر جسمانی اور معاشرتی برتری کو بروے کار لاتا ہے۔تشدد چاہے کسی بھی قسم کا ہو اس میں اس میں طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔جو کہ معاشرہ عموماً مردوں کو دیتا ہے۔یہ ایک سوچا سمجھا اور سیکھا ہوا رویہ ہوتا ہے۔اس کی ایک عام مثال یہ ہے کہ گھروں میں تشدد کرنے والے مرد دوسرے مردوں کے ساتھ یا اپنے سے زیادہ طاقت والے مرد یا عورت کے ساتھ اس قسم کا سلوک نہیں کرسکتے مگر گھر میں جہاں ان کی حثییت سب سے مستحکم ہوتی ہےوہاں وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نمبر2: معاشی تشدد     معاشی تشدد سے مراد عورتوں کو معاشی خودمختاری نہ دینا ہے اور ان کی معاشی سر گرمیوں پر پابندی لگانا ہے۔اس قسم کے تشدد میں عورتوں کے لیے چند مخصوص پیشوں کو ہی قابل ترجیح سمجھنا جو کہ عام طور پر کم منافع بخش ہوتے ہیں ۔ان کی کمائی ہوئی رقم کو اہمیت نہ دینا،ان سے رقم چھین لینا یا پھر ایسی عورتیں جو براہ راست مردوں کے پیداواری کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہوں کو آمدنی میں حصہ نہ دینا شامل ہے۔اس سلسلہ میں دیہی عورتوں کی مثال لی جاسکتی ہے۔ایک کسان عورت پیداواری کاموں میں مرد کسان کے ساتھ ملکر کام کرتی ہے اور اس کے علاوہ گھر کا سارا کام کرتی ہے مگر اجرت اس کے نہیں بلکہ مرد کے ہاتھ میں آتی ہےاور اس آمدنی کو خرچ کرنے کا اختیار بھی مرد ہی کے پاس ہوتا ہے۔اس کے علاوہ خواتین کو گھر کے اخراجات کے لیے رقم نہ دینا بھی معاشی تشدد کی ایک قسم ہے اور اس کا مقصد بھی خواتین کو محکوم رکھنا ہوتا ہے۔خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ دے کر بھی ان پر معاشی تشدد کیا جاتا ہے۔ نمبر3:   نفسیاتی و ذہنی تشدد اس قسم کے تشدد میں عورتوں پر کہیں آنے جانے میں پابندیاں لگانا،دھمکیاں دینا،انہیں نظر انداز کردینا ،عزیز اقارب سے ملنے پر پابندی ،پسند کی شادی پر روک،بدکرداری کے الزامات لگانا، تنہائی یا محفل میں توہین کرنا،گالیاں دینا   شامل ہے۔یہ تشدد کی انتہائی خطرناک شکل ہے۔چونکہ اس قسم کے تشدد میں بظاہر جسمانی طور پر کوئی تکلیف نہیں ہوتی یا پھر کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جو کہ بظاہر نظر آسکے۔اس لیے اس کے خلا ف مدد حاصل کرنا سب سے مشکل ہوتا ہے۔نفسیاتی تشدد میں اکثر عورتوں کو دھمکایا جاتا ہےکہ اس کے بچوں کو اس سے جدا کردیا جائے گا اور یوں عورت ایسے حالات میں بھی مرد کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔نفسیاتی تشدد میں زبان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔طنز آمیز گفتگو،راہ

عوام کی آواز
October 18, 2022

میرا سوہنا نبی صلی االلہ علیہ وسلم

*میرا* *سوہنا* *نبی* صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تحریر: مسز علی گوجرانوالہ وہ صبح ربی کی سحر کا اجالا وہ جس کو بہاروں نے صدیوں میں پالا جسے حق نے خود آپ سانچے میں ڈھالا وہ جس نے اندھیروں سے ہم کو نکالا وہ برکت کا پردہ وہ رحمت کا اجالا وہ آدم تا عیسیٰ سبھی کا حوالہ فلک چاند سورج ستارے گواہ ہیں وہ آیا ہے جس نے جہاں کو سنبھالا وہ ہر معجزے میں نبیوں سے اعلیٰ توحید رب کی سنانے ہے آیا وہ امت کو سینے سے لگانے ہے آیا وہ آباد کرنے جہاں آ گیا وہ سب کی خوشی کاسامان آ گیا یہ کون آ گیا وہ کسری کے کنگرے گرے جا رہے ہیں یہودی بھی دیکھو مرے جا رہے ہیں یہ کون آ گیا جمال معلی،کمال تعالیٰ نگاہوں کی جنت نبوت کا تا لا بڑی معتبر ہے ذات نبی میرا سوہنا نبی حنیل مخزومی کے حوالے سے روایت کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی رات کسری کا محل زلزلہ کی وجہ سے ہلا اور اس محل کے چودہ کنگرے زمین بوس ہو گئے ۔ایرانی دیوتاؤں کی آگ جو ایک ہزار سال سے مسلسل جل رہی تھی بجھ گئی۔ایران میں سوا جھیل خشک ہو گئی یہ اتنی وسیع جھیل تھی کہ اس میں بادبانی جہاز تیرا کرتے تھے ۔آسمان کو شہاب ثاقب سے محفوظ کر دیا گیا۔ سنہ571عیسوی میں ربیع الاول اپریل کے مہینے میں صبح صادق کے وقت عرب کے معزز ترین خاندان میں معزز ترین شخص عبدالمطلب کے ہاں پوتا پیدا ہوا۔دادا اس پوتے کو خوشی میں خانہ کعبہ لے گئے اور اپنے پوتے کا نام ،،محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،،رکھا۔ محمد کے معنی ہیں سب سے زیادہ تعریف کیا گیا ۔عربوں کے لیے یہ نام با لکل نیا تھا۔ لوگوں نے حضرت عبد المطلب سے یہ نام رکھنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے۔ وضا حت کی کہ ،،۔میری خواہش ہے کہ میرے پوتے کی دنیا میں سب سے زیادہ تعریف ہو،تاریخ شاہد ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سب سے زیادہ تعریف کیے گیے انسان ہیں ۔ تاریخ ڈھونڈے گی اگر ثانی محمد ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ بھی نہ ملے گا حب رسول صل اللہ علیہ وسلم ہمارا جینا ہے اور آپ کی محبت کی خاطر مرنا ہمارے لیے اعزاز ہے۔آپ ہمیں اپنی زندگیوں سے زیادہ عزیز ہیں ایک پیالہ جسے ہمارے محبوب رسول نے استعمال کیا تھا آپ پر اللہ کی ان گنت رحمتیں ،بے شمار درود و سلام ہوں اس کو برٹش میوزیم سے چچنیا لایا گیا اسے ایک ریاست کے سربراہ سے زیادہ پروٹوکول دیا گیا ہم مسلمان اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ ان خوش نصیب لوگوں پر رشک کرتے ہیں جنہیں اس پيالے میں پانی پینے کی سعادت حاصل ہوئی ان کے لبوں نے ان جگہوں جو چھوا ہو گا۔ جہاں رحمت العالمین کے مبارک لبوں نے چھوا تھا یہ اللہ تعالیٰ کی خاص نوازش اور رحمت ہے کہ اس نے اپنے آخری نبی اور رسول کو ہمیں صرا ط مستقیم کی طرف ہدایت دینے کے لیے بھیجا تاکہ ہم جہنم کی آگ سے بچ جائیں ان کا پیروکار ہونا ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ اے اللہ ہمارے نبی پر بے انتہا درود و سلام بھیج۔آمین،ہمارے نبی پر جو ہم سے بہت محبت کرتے ہیں اور ہمیں ان کا پکا اور راسخ پیروکار بنا دے،اے اللہ تو ہم سے راضی ہو جا اور ہمارے نبی کو بھی ہم سے راضی کر دے ۔اے اللہ ہم خوش ہیں تُجھے اپنا رازق مان کر،اسلام کو اپنا دین ما ن کر،اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی اور ہادی ما ن کر۔ با با جی صما م رح فرماتے ہیں محمد دا رتبہ پا کوئی نئیں سکدا جہاناں دی رحمت کہا کوئی نئیں سکدا چن انگلی دے نال دو ٹکڑے کر کے وکھا کوئی نئیں سکدا روڑاں نوں کلمہ پڑھا کوئی نئیں سکدا محمّد د ا رتبہ پا کوئی نئیں سکدا اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم المرسلین کی حیثیت سے انتخاب کیا اور سلسلہ نبوت کا آپ پر اختتام کیا آپ کو مقام محمود اور حوض کوثر عطا کیا ۔اللّٰہ تعالی نے زمانوں پر محیط اپنے دین اسلام کی تکمیل آپ پر کی۔ آپ وہ انعام کی گئی ہستی ہیں، جن کی آمد کے متعلق اللہ سبحانہ وتعالی کی نازل کردہ تمام آسمانی کتابوں میں بشارتیں دی گئی ہیں۔ تمام انبیاء کو ایک ایسی دعا دی گئی تھی جس کو پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا ۔تمام انبیاء نے سوائے رسول اللہ کے اپنی اس دعا کو دنیا میں استعمال کر کیا تھا ۔ ہمارے نبی نے اس دعا کو آخرت کے لیے محفوظ کر رکھا ہے۔ آپ اس دعا کو اپنے گناہ گار پیروکار وں کی بخشش اور جہنم کے عذاب سے نجات کے لیے مانگیں گے ۔ اے اللہ ہم شرمسار ہیں ،ہمارے نبی کو سب سے بلند مرتبہ عطا کر ۔اے اللہ ہم اپنے آپ سے شرمندہ ہیں کہ ہم نے رسول اللہ کی محبت کا حق ادا نہیں کیا جس طرح کرنے کا حق تھا ۔ اے اللہ ہمارے نبی پر بے حد و شمار درود سلام بھیج۔اے اللہ ہمارے اخلاقی معیار کو بلند کر دے تا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے راضی ہو جائیں۔ آمین

سجاتا بھی مجھے ہے

ناز اُس کے اُٹھاتا ہُوں رُلاتا بھی مُجھے ہے زُلفوں میں سُلاتا بھی، جگاتا بھی مُجھے ہے آتا ہے بہُت اُس پہ مُجھے غُصّہ بھی لیکِن پیار اُس پہ کبھی ٹُوٹ کے آتا بھی مُجھے ہے در پے ہے مِری جان کے، جو پِیچھے پڑا ہے وُہ دُشمنِ جاں دوستو بھاتا بھی مُجھے ہے انجان بنا رہتا ہے، بیزار دِکھے، پر وحشت میں، وہ تنہائی میں پاتا بھی مُجھے ہے گر آئے جفا کرنے پہ، تَوبہ مِری تَوبہ وُہ قِصّے وفاؤں کے سُناتا بھی مُجھے ہے جنّت کی کوئی سیر کراتا ہے رفِیقو دوزخ میں مگر کھینچ کے لاتا بھی مُجھے ہے میں اُس کی دُعا بن کے مچلتا ہُوں لبوں پر دِن رات وُہ ہونٹوں پہ سجاتا بھی مُجھے ہے جو اسپ سمجھتا ہے لگاموں کو پکڑ کر پِھر شخص وُہی ایڑھ لگاتا بھی مُجھے ہے وُہ جِیت کی اسناد مِرے نام لگا کر خنجر سے کوئی گھاؤ لگاتا بھی مُجھے ہے آتا ہے مِرے گھر کو سجانے کے لِیئے بھی جب نِیند کُھلے چھوڑ کے جاتا بھی مُجھے ہے پہلے تو بُلاتا ہے بڑے شوق سے حسرتؔ پِھر ڈانٹ کے محفِل سے اُٹھاتا بھی مُجھے ہے رشِید حسرتؔ

عوام کی آواز
October 18, 2022

اُس کی رضا میں رب کی رضا

اس کی رضا میں رب کی رضا تحریر : مسز علی گوجرانوالہ میں اس شرط پر کھیلوں گی پیا پیار کی بازی جیتیوں تو تُجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جو سب سے پہلا رشتہ بنایا وہ میاں بیوی کا تھا اور پھر سارے رشتے بعد میں۔اس رشتے کی اہمیت کا اندازہ اس کے اولین نمبر پر ہونے سے لگایا جا سکتا ہے۔یہ رشتہ ایسا ہے کہ اس میں کتنی بھی دھوپ چھاؤں آئے اس رشتے میں ایک دوسرے کے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔ قرآنِ پاک نے میاں بیوی کے بارے میں جو تصور دیا آج تک کوئی دوسرا معاشرہ پیش نہیں کر سکا۔قرآنِ پاک نے میاں بیوی کے بارے میں کہا کہ ،،وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو ،، لباس سے تشبیہ دینے میں حکمتیں ہیں ایک یہ کہ لباس سے انسان کو زینت ملتی ہے، لباس سے اس کے عیب چھپتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ انسان کے جسم کے سب سے زیادہ قریب اس کا لباس ہوتا ہے۔تو بیوی کو خاوند کے لئے لباس کہا کہ تم دونوں ایک دوسرے کے اتنا قریب ہو جتنا لباس ہوا کرتا ہے۔قرب کا اس سے بہتر تصور کوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے طریقوں میں سے ایک خوبصورت ترین طریقہ اپنے شوہر سے محبت کرنا ہے۔میاں بیوی کا ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا نا بھی صدقہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت تشریف لائی اور پوچھنے لگی میری شادی ہونے والی ہے مجھے نصیحت فرمائیں کہ میرے خاوند کا مجھ پر کیا حق ہے-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،،تیرے خاوند کے سارے جسم میں پیپ پڑ جائے اور تو اپنی زبان سے چاٹ چاٹ کر صاف کرے تب بھی تو نے اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کیا۔ اللّٰہ اکبر! اتنا بڑا مرتبہ اور عزت ہے خاوند کا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے،، سبحان االلہ۔ سوچنے کا مقام ہے کہ آجکل ہم عورتیں اس درجہ کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ ،،مجھے دوزخ دکھلائی گئی۔ میں نے وہاں رہنے والوں میں خواتین کی کثرت دیکھی وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کرتی ہیں عرض کیا گیا کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں تو آپ نے فرمایا کہ شوہر کا کفر (نا شکری) کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں۔ اے شخص اگر تو کسی عورت کے ساتھ زمانہ دراز تک احسان کرتا رھے اس کے بعد وہ کوئی بات اس کے خلاف تجھ میں دیکھ لے تو فوراً کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی آرام نہیں پایا،، ہاں ہم میں سے اکثر عورتیں اپنے محافظ کا کفر کرتی ہیں ۔ایسا محافظ جس نے بیک وقت ہمیں سب کچھ مہیا کرنے کا زمہ لیا ہوتا ہے۔بنیادی ضرورتوں سے لیکر فرمائشوں تک۔کیونکہ شریعت نے اسے پابند کر دیا ہے کہ بیوی کے جتنے بھی اثاثے ہوں مگر اس کے اخراجات شوہر ہی پورا کرے -حضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت کردہ حدیثِ کا مفہوم ہے کہ عورت اس حال میں انتقال کرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش ہو تو وہ عورت جنتی ہے۔یہ رشتہ صرف دنیا تک ہی محدود نہیں۔جنت تک کا بھی ساتھ ہوتا ہے دونوں کا۔عورت کے چہرے کے سارے رنگ اس کے شوہر کی وجہ سے ہیں وہ خوشی کے رنگ ہوں یا غم کے۔کہا جاتا ہے کہ ہر رشتہ سوتیلا ہو سکتا ہے،سوتیلی ماں،سوتیلا باپ،سوتیلا بھائی وغیرہ لیکن شوہر سوتیلا نہیں ہو سکتا وہ ہمیشہ ،،اپنا،، ہی ہوتا ہے۔وہ اپنی بیوی کی لائف لائن ہوتا ہے۔وہ ہے تو بیوی ہر فکر سے آزاد ہے، گھر،بچوں اوردنیا داری کی ہر فکر سے آزاد۔وہ سب کچھ اپنے زمہ لے لیتا ہے۔وہ اپنا نام جب دیتا ہے تو یہ نام دے کر پوری زندگی کے لیے پابند ہو جاتا ہے ہر ممکن سہولت مہیا کرنے کے لئے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا نکاح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کرتے وقت نصیحت فرمائی۔فاطمہ اپنے شوہر کی خوب خدمت کرنا کہ شوہر کی رضا میں خدا اور اس کے رسول کی رضا ہے۔اور اپنی رضا کو شوہر کی رضا میں گم کر لینا۔ ،،گم رضایش در رضاے شوھرش ،، اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے گھریلو امور میں ہی اتنا ثواب کمانے کے مواقع دیے ہیں کہ وہ بے شمار نیکیاں کما سکتی ہیں جیسا کہ خاوند گھر آئے تو اس کو محبت بھری نگاہ سے دیکھنے کا ثواب جہاد کے برابر ہے-اللہ تعالیٰ تمام زوجین میں پیار محبت بڑھائے،سروں کے تاج سلامت رکھے اور گھروں میں خیر و برکت رکھے۔آمین میرا سوچنا تیری ذات تک میری گفتگو تیری بات تک نہ تم ملو کبھی مجھے میرا ڈھونڈنا تُجھے پار تک کبھی فرصتیں جو ملیں تو آ میری زندگی کے حصار تک میں نے جانا کہ میں تو کچھ نہیں تیرے پہلے سے تیرے بعد تک

عوام کی آواز
October 17, 2022

پولیس فورس اور عوامی رویے

پولیس فورس اور عوامی رویے تحریر: مسز علی گوجرانوالہ ہم کو خدمت کا موقع دیجئے ہم پر بھروسہ کیجئے ہم حاضر ہیں نصب العین ہماری زندگی کا ہے خدمت آپ کی آپ کی خدمت کے اس فرض کو جانیں ہم عبادت جان کر دیں گے قربان ہم ہیں آپ کے نگہبان راتوں کو پولیس جاگتی ہے آپ کے سکھ کی خاطر آپ کے امن و سکون پر ہے جان بھی اپنی حاضر اپنے عمل سے ہے عیاں ہم ہیں آپ کے نگہبان ہم کو خدمت کا موقع دیجئے ہم پر بھروسہ کیجئے ہم حاضر ہیں پولیس فورس، افواج پاکستان کے بعد ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔پاکستان میں جہاں کوئی ادارہ یا سرکاری دفتر موجود نہیں پولیس وہاں بھی ہوتی ہے۔ملک کے اندر امن و امان اور انصاف کے اداروں سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ادارہ ہماری پولیس فورس ہے۔پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جو انسانی دوستی کی بنیاد پر انسانی ہمدردی کے جذبات کے تحت بنایا گیاہے۔ جو اپنی صلاحیت و تربیت کے پیشِ نظر معاشرے کے اندر بگڑے ہوئے عناصر کی اصلاح میں ہمہ تن مگن رہتے ہیں۔ یہ وہ محکمہ ہے جو اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر مجر م اور جرم کے خلاف تیار رہتے ہیں اور وقت آنے پر عملاً ثابت کر دیتے ہیں کہ ہم انسانی معاشرے میں بننے والے بگاڑ کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پولیس لوگوں کی عزت اور جان و مال کی محافظ ہوتی ہے پولیس جو ہر جگہ سب سے پہلے عوام کی پکار پر پہنچتی ہے۔پولیس کا جتنا مشکل کام ہے اتنا کسی اور کا نہیں۔ امن و امان میں ہی کسی بھی ملک کی بقاء اور استحکام اور ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔ جب تک امن و امان کی صورتحال بہتر نہ ہو اس وقت تک کسی بھی معاشرے میں بہتری کا تصور ممکن نہیں۔پولیس کا سلوگن ہے ،،پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی،، پولیس معاشرے سے جرائم کے خاتمے،امن کے قیام اور قانون کی بالا دستی کے لیے اپنا متعین کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہے۔وقت کے تقاضوں کے مطابق اس قومی ادارے کو مناسب وسائل کی فراہمی،قوانین میں تبدیلی،میرٹ کی بالا دستی ،تربیت کی مناسب سہولتیں،آزادی عمل اور پوسٹنگ ،ٹرانسفر ز میں برسرِ اقتدار طبقات سے وہ آزادی حاصل نہیں ہو سکی جو کسی بھی جمہوری اور فلاحی ادارے کا امتیاز ہوتی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے ایک عام سوال جو پولیس کے حوالے سے ذہن میں آتا ہے کہ پولیس فورس ہے یا سروس۔ جواب یہ ہے کہ پولیس بیک وقت فورس بھی ہے اور سروس بھی جو کہ ملک کے ہر خاص و عام فرد کو میسر ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے فورس کی بجائے خدمت گار ادارہ سمجھا جائے۔ عوام کا اعتماد پولیس پر بحال کیا جائے۔ ملک میں کرو نا وائرس ایشو ہو،ڈینگی مہم ہو یا پولیو مہم یا الیکشن کے انعقاد کے لیے سیکورٹی درکار ہو پولیس ہمہ وقت آگاہی دینے کے لیے حاضر خدمت۔ پاکستانی پولیس بیک وقت غربت نفرت اور حکومتی عدم توجہ کا شکار ہے۔جس ادارے پر جتنی زیادہ انویسٹمنٹ ہو گی اس ادارے کی کارکردگی کی آؤٹ پٹ بھی اتنی ہی ملے گی۔پولیس کو ریسورسز دیے جائیں اور اکاؤنٹ ایبل انوسٹمنٹ کی جائے۔ وی آئی پیز موومنٹ کے لیے پولیس کی پہروں ڈیوٹیاں،پوسٹنگ، ٹرانسفر میں سیاسی مداخلت،نچلی سطح کے پولیس اہکاروں کی گھروں سے سینکڑوں میل دور تقرریاں ڈیوٹی کے دوران مناسب آرام کے لیے وقفہ نہ ملنا اور ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے پولیس کا بے دریغ استعمال ملازمین 20 گھنٹے ڈیوٹی کرتے ہیں مگر ان کے خاندان کے لیے کوئی تحفظ نہیں۔اس کے اختیارات فوج کے اختیارات سے زیادہ ہیں لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ پولیس کے پاس اپنی فیملیز کے لیے بھی فنڈز موجود نہیں۔پولیس کو صرف اور صرف پولیس ہی ٹھیک کر سکتی ہے لہذا پولیس قیادت کو سامنے آنا ہو گا۔پولیس اگر ادارے کے اندر ڈولفن فورس،ایلیٹ کمانڈوز،ٹریفک پولیس،ایف سی،ایس ایس یو،ایس پی یو،سے آئی ڈی اور این سی ایم سی جیسے سیمی انسٹیٹیوٹ بنا اور کامیابی سے چلا سکتی ہے تو پولیس قیادت کو آرمی سی ایم ایچ طرز کے پولیس ہسپتال اور کیڈٹ طرز کے سکول اور کالجز بھی بنانے چاہیے جس سے عوام الناس اور خود پولیس فیملیز کو بھی فائدہ ہو۔ اس سے پولیس کا ریوینیو بھی بڑھے گا اور امیج بھی اچھا ہو جائے گا۔حیرت ہے کہ عوام تنقید بھی اسی پہ کرے اور تحفظ کے لیے کال بھی اسے ہی کرے۔ عوام کو چاہیے کہ پولیس کو اپنا دوست سمجھے اور اپنے ساتھ ہونے والے مسائل سے ان کو آگاہ کرے ارد گرد کے معاشرے پر نظر رکھے کسی بھی قسم کی غیراخلاقی و قانونی سرگرمی کے بارے میں اپنے حامی و مدد گار ادارے کو اطلاع دے کیونکہ یہ عوام کا بھی فرض ہے کہ جرائم کے خاتمے کے لیے اپنا حق ادا کرے سارا کام پولیس کا ہی نہیں کچھ تو عوام کے بھی حقوق ہیں ۔ سوئے ہوئے لوگوں کی بھی کرتے ہیں حفاظت پولیس کی خدمات کا معیار تو دیکھو پولیس اہل کار سڑکوں پر افطاری کرتے ہیں تاکہ شہری گھروں میں افطاری کر سکیں۔ عیدین کی نماز میں سیکیورٹی ڈیوٹی کرتے ہیں تاکہ شہری بحفاظت نماز ادا کر سکیں۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو میری ناقص رائے کے مطابق تین عناصر ٹرانسپیرنٹ بنا سکتے ہیں۔ پہلے نمبر پہ حکومتی توجہ( پولیس ویلفیئر فنڈز ) دوسرا عوام اور تیسرا میڈیا۔ہمارےملک کا سب سے بڑا المیہ حسد اور منفی سوچ ہے جسے بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ پولیس فورس زندہ باد

عوام کی آواز
October 16, 2022

اوور بلنگ اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ

اووربلنگ اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ تحریر : *مسزعلی* *گوجرانوالہ* تیرے محلوں کی تکمیل ہمارے خون پسینے سے ہے پھر بھی امیر شہر تُجھے تکلیف ہمارے جینے سے ہے ملک میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔بجلی کی بچت بھی کی جاتی ہے تاکہ بل کم آئے پھر بھی 8,000 والا بل 20,0000 ہے۔ گھریلو بلز اور کمرشل بلز میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔اگر ایوریج بل 10،000 تک آتا تھا تو یہی بل 35،000 تک پہنچ گیا ہے۔ عوام کا میٹر بجلی کے بلوں میں اس اضافے سے گھوم کر رہ گیا ہے۔ 90 کی دہائی میں بجلی کے بلوں پر ایک جذباتی سی سٹیٹمنٹ ہوتی تھی لوگوں کو بجلی کی بچت کی موٹیوشن دینے کے لیے۔ بجلی سے روشن بلب کی تصویر بنا کر نیچے لکھا ہوتا تھا ،،یہ بلب بجلی سے نہیں آپ کے خون پسینے کی کمائی سے جلتا ہے،، غریبوں کے خون پسینے کی کمائی حکومت کھا رہی ہے عوام سے بلوں کی وصولی کی مد میں۔ عوام اتنا خون پسینہ کہاں سے جنریٹ کرے کہ ان بلوں کی ادائیگی کر سکے۔ بجلی کا بل ہر مہینے ہر گھر میں ایک تھریٹ بن کر آتا ہے۔ ایک تو بل کے واجبات بہت زیادہ ہوتے ہیں دوسرا بل کی ادائیگی کے لیے صرف ایک سے دو دن کا ٹائم ہوتا ہے۔پھر ایل پی سرچارج کی فکر الگ سے۔ موجودہ بلوں پر بھی ایک ڈپلومیٹ سا فقرہ لکھا ہوا ہے پاکستانی جھنڈے کی تصویر کے ساتھ ،، اوور بلنگ کے خاتمے کے لیے پر عزم ،،جب کہ حکومت اوور بلنگ کے عروج کے لیے پر عزم ہے۔فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ یعنی ایف پی اے جیسے ٹیکس لگا کر۔ ہم گھروں میں جو بجلی استعمال کر رہے ہیں اس کی قیمت حکومت کو ادا کرنی ہی ہےلیکن ساتھ ساتھ ایف پی اے کی مد میں جو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے جو تیل بجلی کی جنریشن میں استعمال ہو رہا ہے اس کی قیمت بھی ادا کرنی ہےحکومتِ پاکستان نے قدرتی وسائل سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے پرائیویٹ کمپنیز کو ہائر کیا جن کو آئی پی پی ایس کا نام دیا گیا جو انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر کا مخفف ہے ۔ان کمپنیوں نے مہنگے تیل سے بجلی پیدا کرنی شروع کر دی۔یہ مہنگا تیل زمین سے نکلتا ہے اور انٹر نیشنل لیول پر جیسے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ایف پی اےبھی بڑھ جاتا ہے۔ قدرتی وسائل سے جو بجلی پیدا کی جاتی ہے ہوا سے،پانی سے اور دھوپ سے اس کی نسبت یہ بجلی انتہائی مہنگی ہوتی ہے۔ سو یونٹ بجلی استعمال کرنے کے چارجز علیحدہ ہوتے ہیں دو سو یونٹ پر علیحدہ اور تین سو یونٹس پر چارجز ڈیفرینٹ ہیں اور یونٹ کی کاسٹ بھی۔ ایک بل پر دو طرح کے ے واجبات ہوتے ہیں مثلاً گیپکو) ,لیسکو ،فیسکو وغیرہ ) چارجز اور گورنمنٹ چارجز۔یہ ٹیکسز کاسٹ آف الیکٹرسٹی،میٹر رینٹ کیو ٹیرف ایڈجسٹمنٹ،فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ،الیکٹرسٹی ڈیوٹی،ٹیلی ویژن فیس،جنرل سیلز ٹیکس،ایف سی سرچار ج فنانسانگ کاسٹ سرچارج یعنی پاور سیکٹر اربوں روپے کے جو قرضے لیتا ہے ان قرضوں کو اتارنے کی مد میں ایف سی سر چارج لیا جاتا ہے یہ بھی بلوں میں لگ کے آ تا ہے۔ لہٰذا استعمال شدہ بجلی کی قیمت بھی صارفین ادا کریں اور بجلی کی پروڈکشن یا جنریشن کا خرچہ بھی صارفین ٹیکسز ادا کر کے پورا کریں ۔ اتنی رقم بل کی نہیں ہوتی جتنی ٹیکسز کی ہوتی ہے۔ جو لوگ سولر پینل پر شفٹ ہو گئے ہیں ان کو بھی اتنا ہی بل دیا گیا ہے۔بلوں پر نظر ثانی کی جاۓ۔ اور بجلی کے محکمہ کے متعلق جو بھی پالیسی بنتی ہیں ان کو ریویو بھی کیا جائے ۔ بلوں میں اضافے کے زمہ دار پالیسی میکرز بھی ہیں جو غلط پالیسیاں بناتے ہیں ۔صارفین کو بل ان کی ماہانہ آمدنی اور استعمال شدہ یونٹس کے تناسب سے چارج کیا جائے۔امیر اور غریب دونوں ہی طبقے بجلی کے بلوں میں اضافے سے پریشان حال ہیں غریب آدمی اتنا زیادہ بل کہاں سے ادا کرے اگر بل مشکل سے ادا کر بھی لے تو باقی اخراجات کہاں سے پورے کرے ۔عوام کو بلوں میں ریلیف چاہیے۔ حکومت سستی بجلی پیدا کرنے کی پالیسیز بنائے نہ کہ عوام کو بجلی کے بلوں پر ٹیکس لگا کے مہنگی بجلی فراہم کرے۔ اہم نوٹ : ایسے معزز صارفین جنہیں میٹرنگ،بلنگ اور ٹیر ف کی درستگی کے حوالے سے شکایات ہیں وہ براہِ مہربانی بجلی جیسی چیز کو استعمال ہر گز نہ کریں۔

عوام کی آواز
October 16, 2022

How to Pick the Best Research Papers For Your Instruction

If you’re struggling with thoughts for your research papers, the first step you should take is to find a source of information. Though this might sound obvious, it’s amazingly easy to get lost in the huge cluster of information available to students and faculty members now. The ideal place to begin is a library, and if you can’t track down some titles, many libraries will have copies of old books available. Another good idea would be to check out used bookstores. These might be the ideal source of research papers for sale, but there are also many secondhand shops that specialize in teaching and research papers. Additionally, there are many sites devoted solely to the sale of study papers available. In addition punctuation checker online to offering an extensive inventory of present and used texts, these sites offer a wide array of papers on several topics. Along with allowing you to browse a large inventory of papers, some of these websites enable you to read reviews from other users, letting you find a better feel for the quality of the information offered in these newspapers. While this can be an efficient way to decide which papers are right for you, it’s not as precise or up-to-date as a library or used bookstore. You also need to consider your personal needs before browsing through the research papers available. Are you seeking a fast, easy read, or do you require more in-depth info? If you need more detailed advice, you will want to navigate through newspapers that focus on that topic alone. If you are a quick reader, a research paper focusing on line charts, numbers, or other easily read content is most likely best for you. Likewise, if you need a simpler read, a paper with many illustrations, charts, or graphs is the greatest. For example, if you are writing an essay and require an easy-to-read review, a research paper that presents results in bar charts is likely to be very effective in your individual assignment. You could be overwhelmed by all of the research papers available at your regional university, college, or higher school. There are many distinct subjects, you could choose from like history, math, English, science, and lots of more. It might be tough to narrow down your choice, but it’s worth it to make sure the newspaper you purchase is appropriate to your requirements. After all, you’ll be stuck with it for quite a while! Try to choose a topic that interests you, one that you know a thing about, and one that you believe you’ll enjoy learning about. This will help make it more enjoyable when you finally sit down to compose. If you have trouble choosing a topic for the research document, there are a couple of things you can do in order to narrow down your selections. First, look at your key field (such as biology or chemistry) and also figure out whether or not there aren’t any research papers on that topic. Chances are, there are plenty of them covering a huge array of topics within those fields. If you’re unsure about what type of research paper you might like writing, this will allow you to choose the topic you’re most interested in learning more online comma checker about. The next step is to pick a name for your research paper. Try to pick a catchy title that will instantly draw attention. If you aren’t the best author on the planet, it might take a while to think of a proper name, but it is worth the attempt. After all, nobody will read your research paper if they don’t have to. You should try to use as many distinct keywords within the newspaper as possible since this will allow it to be much easier to find the info you are looking for in a short amount of time.

عوام کی آواز
October 16, 2022

Finding the Ideal Research Paper Writing Service

Why Use a Research Paper Writing Service Today? Well, the truth is that lots of students nowadays rely on cheap term papers as a means to better their grades. And obviously, because all of them have access to the very best paper writing companies, it is hard for you to find good ones. Luckily there are lots of benefits to having reliable, fast, low cost and affordable online research essay corrector paper service providers. First, large-name businesses can be expensive. Not only do they provide a great deal of top excellent paper, but they also charge a bunch of money for advertising. This usually means you will spend more on newspapers from these companies than you would from smaller companies. It is simply not worthwhile. On the other hand, smaller companies typically don’t need to devote a great deal to advertising and will not have to deal with large corporations because they are usually only small companies themselves. Therefore, they can offer lower prices to their customers. Second, many of these smaller search paper writing services also supply solutions for editing, proofreading, plagiarism tests, etc. If your paper is not really ready yet, it’s possible to still get an edit to it. Third, many of these providers can offer you multiple papers. This means you can acquire unique grades for the same document. This means that you can get your papers rated by other professors and this also offers you more choices when it comes to deciding on your professor to get the essay you are going to submit. Finally, you can locate a fantastic research paper writing company on the web. All you have to do is enter the search phrase”research free grammar checker online paper writing service” and then you’re going to be bombarded with sites that will enable you to compare prices and discover the right service to your requirements. By comparing the costs and the quality of services provided by each company, you will have the ability to pick the right company to work with. Besides, you’ll get several bundles at a very affordable price. So, regardless of what your motives for using a study paper writing service are, these few tips should help you find the best one. Even when you’re a complete beginner when it comes to writing essays, finding one that is in a position to assist you to get your essays composed quicker and simpler will provide you greater grades and increase your chances of getting an essay accepted by your professor. Bear in mind, getting fantastic research paper writing support may make a massive difference when it comes to getting your essay approved by the professor. After all, getting a fantastic grade is the trick to creating any errors you might have made during the writing process.

عوام کی آواز
October 15, 2022

Research Papers For Sale

The end result of running research papers for sale is the comprehension of an experienced prospective customer. A good result in this technique will be rewarded and recognized. To start with, find the manner in which you can find the job done effortlessly. You ought to be aware of all the methods. Choose the one that is going to be the most suitable rechtschreibpr�fung online for you. Make certain you have a good footing in composing first-hand accounts of your adventures in the respective professions and how the subjects have aided you. Here is the base that will cause an advertising service. Papers available are sales papers that you’re able to promote to the industry community. All these are made available to clients who wish to acquire assistance and perspectives on particular products or solutions. These papers will provide the customer with an overview of the consumer reports which are done by the merchandise. Many cases demonstrate that the newspaper has achieved better outcomes than those provided through several websites or agencies. To sell your research papers for sale, there are two forms you may utilize: a cover letter and a leaflet. It’s ideal to use the cover letter for a review of the advice to be exhibited. In the event of a booklet, it may be used to set a relationship with the customer. The brochure will help the consumer to understand your own customs. Whatever format you go on, your search papers for sale will certainly ensure more sales! Find the appropriate templates which are provided with a URL to buy. Your sales letter ought to be brief, sweet, and to the purpose. You can use this to make a long-lasting impression. Even though it may seem this can be quite straightforward, for nearly all of us who have no idea about layman’s terms, it can be particularly difficult. On the flip side, do not worry. A good sales letter will give you the info that you need on how to collect a fantastic marketing strategy. Research papers available and an outstanding sales letter will surely property you a successful client. The absolute most crucial thing to do is to make a great impression, get in contact with them by phone or email, and then be honest about what you need to give. If you can employ appropriate research papers available, your clients will certainly react to your recommendations. Research papers available are necessary for a firm’s marketing campaigns, for effective product advertising, as well as to make a more positive product image. They are also a necessary component of the appropriate training of new products. Research papers for sale are a very simple way to improve sales. Most businesses are only now starting to see that the promotion of these products is so critical. It is not just the internet market correcteur orthographe allemand that is thriving, but these things are as well.

عوام کی آواز
October 15, 2022

غذا اور طرز زندگی

غذا اور لائف سٹائل تحریر : مسز علی گوجرانوالہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے پوچھا کہ اے رحمان و رحیم رب اگر آپ کا بھی کوئی رب ہوتا تو آپ اس سے کیا مانگتے۔اللّٰہ تعالی نے جواب دیا کہ میں اپنے رب سے صحت مانگتا۔ صحت اتنی قیمتی چیز ہے۔زندگی کا دوسرا نام صحت ہے۔ اگر ہم صحت مند ہیں تو ہم زندہ ہیں اور زندگی جیسی نعمت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ صحت مند زندگی کا راز صحت مند کھانا ہے۔ جبکہ ہم ضرورت سے زیادہ کھا رھے ہیں اور جو کھانا چاہیے اس کے علاوہ کھا رہے ہیں۔ انسان دنیا کا وہ واحد جاندار ہے جسے اپنے قد اور وزن کے لحاظ سے انتہائی کم خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ زندہ رہنے کے لیے کھایا جائے جب کہ ہم لوگ کھانے کے لئے زندہ ہیں شاید۔ شادی بیاہ یا کسی اور سماجی تقریب میں لوگوں کےکھانے کے پلیٹر دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہےاور کہ پہلی اور آخری دفعہ کھانا کھایا جا رہا ہے۔اس میں مہذب اور غیر مہذب لوگوں کی تفریق نہیں ہے۔ ایک زمانے میں لوگ بھوک کی وجہ سے مرتے تھے یعنی قحط کی وجہ سے۔ جتنے لوگ بھوک کی وجہ سے مرتے تھے اب اس سے زیادہ لوگ زیادہ کھانے سے مر رہے ہیں۔موٹاپا ، ذیابطیس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کی صورت میں اور بنیادی وجہ فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ ہے۔ اسلامی تعلیمات میں زندگی گزارنے کے بڑے سنہرے اصول پیش ہوئے ہیں مثلاً صالح اور متوازن غذا کی تاکید کے ساتھ غذا کے استعمال میں افراط و تفریط سے بچنے کی ہدایات ملتی ہیں۔پرو فیتٹک میڈیسن یا طب اسلامی کا امتیاز دراصل وہ پہلو ہیں جو ہیلتھ پرنسپلز سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کمانے اور حلال کھانے اور کس طرح کھانے کی تعلیم دی ہے اگر طب نبوی کے غذائی چارٹ کو فالو کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم عہد حاضر کی امراض میں مبتلا ہوں۔ یورپ کے ایک غیر مسلم ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ..میں حیران ہوتا ہوں کہ مسلمان اگر اپنے نبی کے بتائے ہوئے غذائی چارٹ کے مطابق کھاتے ہیں تو بیمار کیوں ہوتے ہیں,, مثلاً ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب روٹی کھاتے تھے تو دودھ نہیں پیتے تھے جب گوشت کھاتے تھے تو دودھ نہیں پیتے تھے مچھلی کھاتے تو بھی دودھ نہیں پیتے تھے۔دو سالن اکھٹے نہیں کھاتے تھے۔آپ نے ساری زندگی چھنا ہوا آٹا نہیں کھایا۔فائبر سے بھرپور کھایا۔ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے ،،سب سے بد ترین برتن جسے انسان بھرتا ہے وہ اس کا پیٹ ہے اے آدم کی اولاد تیری کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے کافی ہیں- لہٰذا اچھا کھائیں لیکن کم کھائیں۔ جب تک بھوک نہ لگے نہیں کھانا چاہیے اور پیٹ بھر کر بھی نہیں کھانا چاہیے۔ طب نبوی کے غذائی چارٹ کے مطابق غذا کے لیے پیٹ کے تین حصے ہوں یعنی خوراک کھانے کے دوران ایک حصہ غذا کے لیے، ایک حصہ پانی کے لیے اور ایک حصہ ہوا کے لیے۔ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی حدیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہے جس کا مفہوم ہے ،،خوراک کی کثرت ہو گی لیکن یہ خوراک اثر نہیں کرے گی۔ یعنی جنک فوذ ۔یہ کس قدر چونکا دینے والی حدیث ہے کہ انسان خوراک تو کثرت کے ساتھ کھائے گا لیکن خوراک فائدہ نہیں دے گی۔ یہ جتنی مقدار میں بھی کھا لی جاۓ صحت کو فائدہ نہیں دے گی بلکہ نقصان زیادہ کرے گی۔ مصنوعی جو سز نیکٹرز ،بیکری آئٹمز ،ریفائیند شوگر، کولڈ ڈرنکس، کوکیز سویٹس۔یہ ساری اقسام کی خوراک جسم کو کوئی توانائی نہیں دیتی۔وائٹ شوگر کو تو وائٹ پیوائزن کہا جاتا ہے۔ بیکریز چلتی رہیں گی تو کلینکس آباد رہیں گے۔بہت سی بیماریوں کا تعلق خو ردو نوش کی عادات سے ہے۔پانی، پھل سبزیاں دنیا کی بہترین ادویات ہیں۔ جو چیز زندہ اور اوریجنل ہے وہ خوراک ہے یعنی جو غذا پروسیسڈ نہیں مصنوعی طور پر نہیں بنی پلانٹ پر وہ فریش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ غذاؤں کی قسم کھائی،والتین والزیتون قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔ پھل کی قسم کھائی، روٹی ،گوشت،برگر ،پزا، شوارما کی نہیں کھائی۔انجیر ایک بہترین پھل ہے جس میں نہ چھلکا ہے اور نہ گھٹلی یہ جنت کے پھلوں کی صفت ہے۔سب سے بہترین تیل زیتون ہے اس کے علاوہ دودھ بھی مکمل غذا ہے ان تمام چیزوں کو بیمار انسانیت کے سامنے لانا پیشہ وارانہ تقاضا ہی نہیں بلکہ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے اسلام نے انسان کی روحانی ترقی کے ساتھ اس کی جسمانی صحت کو بھی اہمیت دی ہے وہ اسے اعلی اقدار کا حامل ہی نہیں صحت مند اور توانا بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام میں احتیاطی تدابیر کو اہمیت دی گئی ہے۔ہیومن باڈی کا فیول بیلنس ڈائیٹ ہے۔ ( جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

عوام کی آواز
October 14, 2022

کبھی نہ تھا

بِچھڑا وہ گویا زِیست میں آیا کبھی نہ تھا اُس نے مِرے مِزاج کو سمجھا کبھی نہ تھا لہجے میں اُس کے تُرشی بھی ایسی کبھی نہ تھی دِل اِس بُری طرح مِرا ٹُوٹا کبھی نہ تھا گو اِضطراب کی تو نہ تھی وجہ ظاہری دِل کو مگر قرار کبھی تھا، کبھی نہ تھا مانا کہ زِندگانی میں آئے، گئے ہیں لوگ کوئی بھی اُس گلاب نُما سا کبھی نہ تھا آیا بھی میرے شہر، مِلے بِن بھی جا چُکا جیسا ہُؤا ہوں آج، میں تنہا کبھی نہ تھا گُھٹنے ہی اُس نے ٹیک دِیئے، ہار مان لی لوگو! وہ ایک شخص جو ہارا کبھی نہ تھا راہِ وفا میں دشت بھی تھے، وحشتیں بھی تِھیں گر کُچھ نہ تھا تو زُلف کا سایہ کبھی نہ تھا جھیلا ہے درد ہنستے ہُوئے، کھیلتے ہُوئے کیا شخص تھا جو شِکوہ سراپا کبھی نہ تھا راتیں کٹی ہیں، دِن بھی گُزارے گئے رشِیدؔ دیتا جو دُکھ میں ساتھ سہارا کبھی نہ تھا رشِید حسرتؔ

عوام کی آواز
October 14, 2022

غزوہ ہند

غزوہ ہند مسلمانوں کی نظر میں تحریر : مسز علی گوجرانوالہ نازل کر اب عیسیٰ کو اب بھیج خدایامہدی کو دیکھ دجال آزاد ہوئے اورپھولوں کےکیاحال ہوئے غزوه ہند محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں میں مذکور ایک جہاد ہے ۔ برصغیر میں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ایک جنگ ہو گی جس میں مسلمان فتح یاب ہوں گے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا مفہوم ہے، کہ ،،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا ہے اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کر دوں گا، مارا گیا تو میں افضل ترین شہداء میں ہو ں گا اگر واپس لوٹ آیا تو میں جہنم کی آگ سے آزاد ابو ہریرہ ہوں گا نبی اکرم صلی اللہ وسلم کی بشارت اور وعدہ غزوہ ہند ہے, مبارک الہامی پیش گوئی ۔سورج کا مقام تو بدل سکتا ہے لیکن حدیث کا مقام کبھی نہیں،جب آپ نے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا ہے تو یہ انشاء االلہ وقوع پزیر ہو کر رہے گا۔محمد بن قاسم ،شہاب الدین غوری،احمد شاہ ابدالی سلطان محمود غزنوی اور کشمیری مجاہدین کو سلام حق پہنچے۔ غزوہ ہند کے مجاہدین کے لیے بشارت ہے کہ اگر وہ اس میں شہید ہو جائیں تو وہ افضل الشہداء ہیں اور اگر غازی ہوں تو ان کے تمام گناہ معاف ۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ،،میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں جن کو اللہ نے آگ سے آزاد کر دیا،پہلا گروہ جو غزوہ ہند میں شامل ہو گا اور دوسرا جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہو گا،، حدیث شریف کے مطابق غزوہ ہند کی تکمیل امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک سے ہو گی جس میں ہندوستان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر ان کے سامنے پیش کیا جائے گا اور ہندوستان اسلام کے تحت آ جائے گا۔جس خطہ زمین کو اللہ رب العزت نے اسلام کی سر بلندی ،حرم کی پاسبانی اور عالم اسلام کی قیادت کیلیے منتخب کیا ہے وہ پاکستان ہے۔اے عالم کفر وہ وقت یاد رکھو جب ایک جرنیل اٹھتا تھا جو کبھی سو منا ت کے مندر گراتا تھا ،کبھی پانی پت کے میدان میں ذلیل کرتا تھا اور کبھی پرتھوی راج کی گردن اڑاتا تھا ۔ پاکستان کے جوہری میزائل جن کے نام بھی غزوہ ہند کے مجاہدین کے نام پر رکھے گئے ہیں، یہود و ہنود کو شکست دینے کے لیے غزنوی،غوری اور ابدالی ہیں۔ ،،لبیک غزوہ ہند،، اے عالم کفر تم جو ظلم و ستم کے پہاڑ اہل کشمیر پر توڑ رہے ،، غزوہ ہند،، کے لیے تیار رہو ۔ کہ مسلمان ۳۱۳ ہو کر بھی ایک ہزار پر غالب رہتے ہیں۔ غزوه ہند اس امت کی تقدیر بھی ہے ، تاریخ بھی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان بھی ،،لبیک غزوہ ہند،، سنا ہے یہ میں نے قدسیوں سے وہ شیر پھر ہوشیا ر ہو گا