ٹرانس جینڈر ایکٹ

In عوام کی آواز
October 20, 2022
ٹرانس جینڈر ایکٹ

ٹرانس جینڈر ایکٹ

تحریر : مسز علی گوجرانوالہ

ایک انٹر نیشنل رپورٹ کے مطابق پاکستان یورپ کے بعد پہلا اسلامی ملک بن گیا ہے جس میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت مل گئی ہے ۔ جن صاحب نے یہ بل پاس کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی بل پاس کرنے سے پہلے سینس آف دی ہاؤس لیا جاتا ہے اگر میجورٹی کا یہ سینس ہو کہ ہم نے پاس کرنا ہے اور گورنمنٹ بھی ایگری کرے تو اس کو کمیٹی میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ یعنی اس بل کی منظوری ثابت کرتی ہے کہ ،،ہاؤس از فل ودھ میجورٹی نان سینس پرسنز،،

ہم نے اللہ کے قانون کے آگے اپنے قانون رکھ دیے ہیں

نیشنل اسمبلی نے اس بل کو منظور کیا ہے۔ یہ بل بظا ہر خواجہ سراؤں کےحقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے اور اس بل کی آڑ میں ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اس ایکٹ کے 21 سیکشنز ہیں۔ سیکشن 2 میں جینڈر یعنی جنس کو ڈیفائن کیا گیا ہے۔ جنس کا تعین یا شناخت کسی شخص کی اندرونی یا خود کی محسوسات-اس ایکٹ کی رو سے کسی بھی مرد یا عورت کو قانونی تحفظ حاصل ہے کہ وہ نادرا آفس جا کر اپنی جینڈر جو مرضی رجسٹر کروا سکتا ہے۔مرد خود کو عورت اور عورت خود کو مرد رجسٹر کروا سکتا ہے،ناٹ مینشن۔

انڈیا،برطانیہ امریکہ اور یورپ سے بھی آگے پاکستان نے جمپ کیا ہے یعنی ان ممالک میں بھی اگر کوئی اپنی جنس تبدیل کرے تو اس کو میڈیکل بورڈ ایگزمن کرتا ہے کہ اس کا دعویٰ درست ہے یا نہیں لیکن پاکستان تو ایکسٹرا آرڈنیری لبرل ہے کہ طبی معائنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اپنا جسم اپنی مرضی ہے خود کو جو مرضی رجسٹر کروائیے۔یہ ایک شرمناک ایکٹ ہے اس سے عائلی زندگی اور وراثت کے قوانین بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔ قوم لوط کا عمل دہرایا جائے گا۔ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔ معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گا

سنہ 2018کو یہ بل پاس ہوا تھا۔ جون 2021 تک کے فگرز نادرا نے دیے ہیں کہ تقریباً تیس ہزار کے قریب لوگوں نے جنس بدلنے کی درخواست دی۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہ بل جن کے لیے پا س ہوا ہے وہ خود اس کے خلاف ہیں۔ اس سے ان کے حقوق بھی متاثر ہوں گے جو مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی ٹرانس جینڈر ہیں۔

اس بل میں ترمیم کی جاۓ اسے اسلام کے اصولوں کے مطابق بنایا جائے تو منظور ہے ورنہ نہیں ۔ خواجہ سرا اسی معاشرے کے افراد ہیں ان کو تعلیم،سفر،روزگار رہائش،ملازمت وراثت کے حق دیے جائیں ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے۔ان کو عزت دی جائے۔ لیکن ان کی آڑ میں معاشرے میں غلاظت نہ پھیلائی جائے۔

3 comments on “ٹرانس جینڈر ایکٹ
Leave a Reply