Skip to content

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

تحریر : مسز علی گوجرانوالہ

*بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق*

جب بابل شہر میں نمرود کی جھوٹی خدائی کا نقارہ بج رہا تھا اور شہر کے ہر دروازے پر اس کے ہم شکل بت رکھے تھے اور شہر میں ہر داخل ہونے والے کے لیے لازم تھا کہ وہ اس بت کو سجدہ کرے۔اس ماحول میں جبکہ کفر ہر سمت پھیلا ہوا تھا اور جھوٹے خداؤں کی فسوں کاری لوگوں کو جکڑے ہوئے تھی اس زمانے میں ایک شخص پیدا ہوا جسے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں۔جنہوں نے نہ صرف نمرود کی جھوٹی خدائی کا انکار کیا بلکہ ان کے اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے بتوں اور جھوٹے معبودوں کا بھی انکار کیا اور دنیا کے سامنے توحید پرستوں کی بے مثال تصویر پیش کی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا سالانہ میلہ لگتا تھا جس میں پوری قوم کا ہر فرد شرکت کرتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کا پیغام واضح کرنے کے لیے کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھے کہ جھوٹے خداؤں کا خاتمہ کرنے کا پلان بھی ترتیب دیا جا سکے۔ان کی قوم چونکہ ستارہ پرست بھی تھی۔ یہ لوگ کسی اچھے یا برے کام کے شگون کے طور پر بھی ستاروں سے رہنمائی لیتے تھے۔ لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کا حربہ ان پر آزمایا۔ انہوں نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی میلے میں جانے کا کہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستارے کی طرف دیکھ کر کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں، میں نہیں جا سکوں گا۔ چانچہ یہ لوگ ان کو پیچھے چھوڑ کر خود میلے میں چلے گئے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام بت خانے میں چلے گئے۔ اور طنز کے طور پر بتوں سے گفتگو کی کہ یہ جو تمہارے آگے پھل اور مٹھائیاں ہیں ان کو کھاؤ۔اب انہوں نے جواب کیا دینا تھا اور کہا کہ جواب کیوں نہیں دیتے۔ پھر انہوں نے پوری قوت کے ساتھ کلہاڑے سے سارے بت توڑ دیے اور بڑے بت کو رہنے دیا اور کلہاڑا اس بت کے کندھے پر رکھ دیا ۔ان کی قوم جب میلے سے رنگ رلیاں منا کر واپس آئی اور اپنے معبد خانے میں اپنے خداؤں کا یہ حال دیکھا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے استفسار کرنے لگے کہ ہمارے معبودوں کا یہ حال کس نے کیا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے کہ اس بڑے بت سے پوچھ لو کیا پتہ اسی نے دوسرے بتوں کا یہ حال کر دیا ہو کیونکہ کلہاڑا تو اسی کے کندھے پر موجود ہے۔

وہ کہنے لگے کہ اے ابراہیم تمہیں تو پتہ ہے یہ بول نہیں سکتے اور نہ حرکت کر نے کے قابل ہیں۔(اسی نکتے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو لانا چاہ رہے تھے) تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس موقع پر خطبہ توحید دیا کہ افسوس ہے تم لوگوں پر ان بے جان بتوں کو پوجتے ہو جو نہ بول سکتے ہیں،نہ سن سکتے ہیں نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ اللّٰہ واحده لا شریک ہی تمہارا خالق ہے جس نے سب کو تخلیق کیا۔ تمہارے جھوٹے معبود تو خود اپنا دفاع نہیں کر سکتے تمہیں کچھ دینے پر قادر نہیں۔یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلائل کے قائل تو ہو گئے لیکن حالت کفر پر بدستور قائم رہے چانچہ انہوں نے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام کو ان کے معبودوں کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں آگ میں ڈال دیا جائے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کا بہت بڑا الاؤ روشن کروایا گیا مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ اتنا بڑا الاؤ تھا کہ اس کے اُوپر سے جو پرندہ گزرتا وہ آگ کی حرارت سے جل بھن کر کباب بن جاتا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں کیسے پھینکا جائے کیونکہ آگ کے قریب تو جایا نہیں جا سکتا تھا لہٰذا ان کو منجنیق میں بٹھا کر آگ میں ڈالنے کا فیصلہ ہوا۔

اب یہاں پہ عقل اور عشق کا مقابلہ تھا۔ کسی ایک کا چناؤ ہونا تھا۔عقل کہتی ہے جان بچے کیسے،عشق کہتا ہے جان جائے کیسے۔عجیب دوراہے پہ کھڑے تھے عقل اور عشق۔ یہ جو آگ میں کھڑا ہے وہ پیکر عشق ہے۔ کارکنان قضاء قدر میں کہرام مچ گیا کہ اے رب رحمان زمین پر تیرا ایک ہی توحید کا پرستار ہے یہ بھی آگ میں ڈال دیا گیا تو تیری توحید کا پرچار کون کرے گا۔لیکن فطرت مسکرا کر کچھ اور ہی کہہ رہی تھی کہ جلیل امتحان لے اور خلیل امتحان پاس نہ کر سکے۔یہ ممکن نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا خیال تھا کہ وہ اپنے موقف سے ہٹ جائیں گے کہ آگ تو ان کو جلا کر راکھ کر دے گی لیکن توحید پرست کا لہجہ اور ارادہ عشق سے بھرپور تھا۔اسی موقع کی علامہ اقبال رحمتہ علیہ نے خوب ترجمانی کی ہے

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

وہ عشق تھا جس نے ابراہیم علیہ السلام کو آتش نمرود میں بھیج دیا اور پھر اس عشق کا امتحان ہوا اور جب ابراھیم علیہ السلام عین آگ کے وسط میں پہنچ گئے انہیں آگ میں پھینک دیا گیا تو اللّٰہ رب العزت نے ایک فرشتے کو بھیجا اور فرشتے سے فرمایا کہ جا کر ابراہیم سے اپنی طرف سے پوچھ اور میرا پیغام دے کہ اس وقت آپ کو میری مدد کی ضرورت ہے تو میں جلنے سے بچا لوں۔تو اس فرشتے نے جا کے پوچھا ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ نہیں اگر تو سوال کرنا ہے تجھ سے تو پھر کوئی سوال نہیں ۔چلا جا مجھے کوئی حاجت نہیں اور اگر سوال کرنا ہے اس اللہ سے، تو وہ میرے سوال سے زیادہ میرے حال کو جانتا ہے۔

عشق کے طریقے اور ہوتے ہیں سوچنے کے۔اگر وہاں پیکر عقل ہوتا تو کہتا اللہ نے فرشتہ بھیج دیا اور فرشتہ پوچھ رہا ہے اگر آپ چاہیں تو میں آگ بجھا دوں اور آگ میں پھینکنے والوں کو جلا دوں۔عقل کا پیکر ہوتا تو کہتا ٹھیک ہے آگ بجھا دے تاکہ ان کو پتہ چل جائے کہ میں حق پر ہوں اور اللہ کا پیغام حق ہے یہ وقت ہے حق کی کرامت دکھانے کا مگر یہاں آگ میں جو کھڑا ہے وہ پیکر عشق ہے ۔اس نے کہا کہ فرشتے سے سوال کروں تو یہ میرے عشق کی ہتک ہے عاشق کو زیب نہیں دیتا کہ آسانیاں مانگے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرشتے سے پوچھا کہ ان مشرکوں کے دل میں یہ بات کس نے ڈالی ہے کہ ابراہیم کو آگ میں ڈال دو تو فرشتے نے کہا کہ رب جلیل نے۔تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ ،،اگر جلیل کی یہی مرضی ہے تو پھر خلیل کی بھی یہی مرضی ہے،،

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل

عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی

کیا خبر وہ جلانا چاہتا ہو اور میں بچنے کی دعائیں مانگوں ۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں وہ میری رہنمائی کرے گا

بے شک میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور وہ میرے لیے کافی ہے۔

سورۃ الانبیاء میں اس آگ کو گلزار بنا دینے کا ذکر بیان ہوا ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ

،،اے آگ ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی ہو جا سلامتی کے ساتھ اور سلامتی بن جا۔باہر بظا ہر آگ جل رہی تھی لیکن الاؤ کے اندر جنت کی ہوائیں چل رہی تھیں۔

ایک روایت کے مطابق توحید کا یہ متوالا چالیس دن تک آگ کے اندر رہا،بت پرستوں کا خیال تھا کہ اب تک تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جل گئے ہوں گے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کوئلوں پر چلتے ہوئے باہر ایسے تشریف لائے جیسے پھولوں پر چل رہے ہوں۔

اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد بھی توحید کے کسی حد تک قائل ہو گئے اور کہنے لگے کہ اے ابراہیم علیہ السلام تیرے رب کے کیا کہنے، تیرا رب تو بڑی طاقتور ذات ہے ۔

2 thoughts on “بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *