،،،لا تحزن،،
تحریر : مسز علی گوجرانوالہ
انسانی زندگی غم اور خوشی سے عبارت ہے۔زندگی کی دھوپ چھاؤں میں گرمی کو ٹھنڈک سے بجھائیے ۔تاکہ آپ تلخیوں سے بچ جائیں۔یہ مشیت کا فیصلہ ہے کہ یہاں گرم سرد،خیر ،شر دونوں ہوں۔اچھائی ہو برائی ہو ۔خوشی کے ساتھ غم بھی ہو۔
زندگی کے مسائل ہمیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں، کیونکہ ان سے نبرد آزما ہو کر ہی یقینی کامیابی ممکن ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسائل ہی زندگی کو با مقصد اور کامیاب بناتے ہیں ۔مہشور مصنف نارمن ونسنٹ لکھتا ہے کہ اس کی ملاقات نیویارک کے ایک انتہائی مسائل میں گھرے شخص سے ہوئی ،اس نے نارمن سے پوچھا کہ میری مدد کرو،میں مسائل کا شکار ہوں ،مجھے کوئی جگہ بتاؤ جہاں مسائل نہ ہوں میں وہاں چلا جاؤ ں نارمن نے جواب دیا میں ایک ایسی جگہ سے واقف ہوں جہاں کی آبادی پندرہ ہزار سے زائد ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی مسئلہ کا شکار نہیں ہے، خدارا مجھے بتاؤ وہ جگہ کہاں ہے میں وہاں جا کر رہنا پسند کروں گا،اس نے بے اختیار کہا۔ نارمن بولا: وہ جگہ نزدیکی قبرستان ہے جہاں کے لوگوں کو کوئی الجھن کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ انسان مرنے کے بعد ہی دنیا کے ہنگاموں اور مسائل سے بچ سکتا ہے یہاں اگر وہ زندہ ہے تو اسے بدلتے موسموں ،دکھ ،سکھ اور مختلف مسائل کا سامنا کرنا ہے کیونکہ یہی زندگی ہے۔
ہمیں زمین میں یا ہمارے نفسوں میں جو تکلیف پہنچتی ہے۔وہ ہماری پیدائش سے پہلے ہی ایک ریکارڈ میں درج کر لی گئی ہے ۔قلم سوکھ چکا،صحیفے اٹھا لیے گئے ،معاملہ طے پا گیا،تقدیر لکھی جا چکی اور وہی ہمیں پہنچتا ہے جو ہمارے لیے لکھا جا چکا ہے ۔جب یہ عقیدہ دل میں بیٹھ جائے تو تکلیف عطیہ اور مصیبت انعام بن جائے جو گزرے اسے انعام سمجیں ۔اللّٰہ جس کے ساتھ خیر چاہتا ہے اسے اس میں حصہ ملتا ہے ۔قرآنِ پاک میں ارشاد ہے عسر کے ساتھ یسر ہے،یعنی تنگی کے بعد آسانی ہے۔بہترین عبادت اللّٰہ کی رحمت اور آسانی کا انتظار ہے ۔کیسے بھی حالات ہوں خود کو ان کے مطابق ڈھالیں کہ پھول ہی پھول حاصل ہوں ۔
ہم سب اور فرض ہے کہ آسانی و ترشی سختی اور تنگی میں بس رحمان و رحیم اللہ کو پکاریں،ساری مخلوق جس سے مانگے ،زبانوں پر جس کہ ذکر ہو ،دلوں میں جو گھر کرے وہ اللہ اور صرف اللہ ہے صرف اس کا وسیلہ چاہیں ۔وہ پوچھتا ہے کہ اس کے علاوہ کون ہے جو مصیبت زدہ کی پکار سنے ۔وہ تو کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری پکار سنوں گا۔خدا سے بات کریں،اس سے سرگوشی کریں،اس سے دعا کریں اس سے امید کریں آپ سب پا جائیں تو ہر چیز کو پا جائیں گے اس پر ایمان میں کمزوری آ گئی تو سمجھو ہر چیز کھو گئی۔ رب سے دعا کرنا بھی تو عبادت ہے،اس سے حسنِ ظن رکھنا چاہیئے اس کے کلام پاک کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ تم مجھے جیسا سوچو گے ،ویسا ہی پاؤ گے۔ ہمیں اپنے پیدا کرنے والے سے اچھا گمان رکھنا چاہیے۔مایوسی گناہ ہے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے اگر کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے تو صبر سے کام لینا چاہیے کہ وہ رب رحیم خود کہ رہا ہے ،،میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں،، اس سے بڑھ کر کیا گارنٹی ہو سکتی ہے۔قرآنِ پاک میں واضح الفاظ میں یہ تسلی دی گئی ہے ،،لا تحزن ،، غم نہ کر۔
یہ تو سید الخلائق محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو غار میں اپنے ساتھی سے کہہ رہے ہیں
،، گھبراؤ نہیں یقیناً اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے،،
،،کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے،،
قرآنِ کہتا ہے
،،جو میں نے تمہیں دیا ہے وہ لے لو اور شکر گزاروں میں سے ہو جاؤ،،
ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ
،،پریشانیوں کا شاہی علاج مذھب ہے،،
چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے بحثیت مسلمان ہمارا عقیدہ اس بات پر پختہ ہونا چاہیے کہ اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوا جائے،کہ بے شک اس کی رحمت حاوی ہے اس کے غضب پہ۔ دور حاضر کا تقریباً ہر انسان ٹینشن،ڈپریشن، ا ئنگزا ائٹی اور نا امیدی کا شکار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اس کو حاصل ہے وہ اس پہ مطمئین ہی نہیں ہے بس اس کو رونا اسی کا ہے جو حاصل یا میسر نہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے جو نعمتیں میسر کی ہیں پہلے ان پر تو شکرگزاری کی جائے، پھر اس سے شکوے کیے جائیں۔اللّٰہ کی رضا پہ راضی رہنا ہی تو ایمان ہے۔
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کہ ناصر ۔۔۔۔۔۔
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے ۔۔۔۔
امام شافعی کا قول ہے ،،گردشِ زمانہ کو اپنا کام کرنے دو،جو تقدیر ہو اس پر راضی رہو ،جب کسی قوم کے بارے میں کوئی فیصلہ ہو جاتا ہے تو نہ اسے زمین پناہ دے سکتی ہے نہ آسمان ۔ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ کوئی نفس اس وقت تک نہیں مر سکتا جب تک اپنے مقدر میں لکھی ہوئی روزی اور عمر کی تکمیل نہ کر لے ۔رنج ،فکر، تکان، دکھ ،تکلیف یہ سب تو گناہوں کا کفارہ ہے جو صبر کرے،ثواب کی امید رکھے اور یہ یقین رکھے کہ اس کا معاملہ اللّٰہ واحد وہاب سے ہے تو کیسی ائینگزا ائیٹی ؟ کیسا ڈپریشن؟
ایک حکیم نے کہا کہ لیموں سے میٹھا شربت بنائیے
اللہ تعالیٰ نے جو ہمارے مقدر میں لکھ دیا ہے اسے قبول کر نا ہمارا فرض ہے۔زندگی گزارنا ایک فن ہے اور ہمیں یہ فن اسلام کے راستے پر چل کر سیکھنا ہو گا اور اس میں مہارت حاصل کرنا ہو گی۔ جو ہے ،جیسا ہے اسے قبول کرنا ہو گا ۔ انسان ہونے کے ناطے اللہ رب کریم سے یہ دعا نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی کی دکھوں اور آزمائشوں سے نجات مل جائے بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ہمیں برداشت کرنے کی ہمت، اور حوصلہ دے ،اپنی بیش بہا نعمتوں کے صدقے ہمیں پر سکون اور متقی بنا دے ذہنی خلفشار اور انتشار سے نجات دے ۔زندگی گزارنے کے لئے ہمیشہ پر امید اور مثبت انداز اختیار کرنا چاہئے کہ واہمے اور نا امیدی انسان کو کمزور کر دیتی ہے ۔
بقول عربی شاعر
تنگ و تاریک زمانہ اور مصیبتوں کے بادلوں میں ،میں نے دعائے نیم شبی میں تیرا نام لیا تو ہر صبح روشن و تابناک ہو گئی ۔