Home > Articles posted by Baqa Muhammad
FEATURE
on Jan 19, 2021

اپالو 8 کے تین خلائی مسافر 27 دسمبر 1968 کو بحر الکاہل میں اترے تھے۔زمین سے چاند تک کا سفر کرنے میں ان امریکی خلابازوں کو چھ دن تین گھنٹے لگے اور انہوں نے تقریباً پانچ لاکھ 47 ہزار میل کا سفر طے کیا۔ان کے سفر کا سب سے زیادہ نازک لمحہ وہ تھا جب کہ ان کا چھ ٹن وزنی جہاز ساٹھ میل کے فاصلے سے چاند کا چکر لگا کر دوبارہ زمین کے قریب واپس پہنچا۔ امریکی خلائی راکٹ جب زمین کی بیرونی فضاء میں داخل ہوا تو زمین کی کشش کی وجہ سے اس کی رفتار غیر معمولی طور پر بڑھ کر 39 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگئی۔چاند کے مقابلہ میں اس کو سات گنا زیادہ قوت کششِ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنا تھا۔ اس غیر معمولی رفتار کی وجہ سے خلائی جہاز انتہائی خوفناک قسم کی گرمی سے دوچار ہوا۔کرہ فضاء میں داخل ہوتے ہی خلائی جہاز ہوا کی رگڑ سے گرم ہونا شروع ہوا۔یہاں تک کہ وہ آگ کے انگارے کی طرح سرخ ہوگیا۔اس وقت خلائی جہاز کے بیرونی حصہ کی تپش تین ہزار تین سو گریڈ (چھ ہزار ڈگری فارن ہائٹ) تھی،جبکہ صرف سو ڈگری کی حرارت پر پانی ابلنے لگتا ہے۔ تین ہزار تین سو ڈگری سینٹی گریڈ کی حرارت میں کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔پھر اس غیر معمولی تپش تینوں خلائی مسافر کس طرح زندہ سلامت رہ کر واپس آگئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جس خلائی جہاز کے اندر وہ بند تھے،وہ خاص طور پر اس ڈھنگ سے بنایا گیا تھا کہ وہ باہر کی شدت کو اندر نہ پہنچنے دے۔چنانچہ سخت گرمی کے باوجود اس کے اندر کا درجہ حرارت 21 ڈگری سینٹی گریڈ سے آگے نہیں بڑھا۔باہر کا درجہ حرارت تین ہزار تین سو اور اندر کا درجہ حرارت 21 ڈگری سینٹی گریڈ۔ خلائی سفر کا یہ واقعہ اپنے اندر بڑا سبق رکھتاہے۔انسانی زندگی میں بھی بار بار ایسے سخت مرحلے آتے ہیں۔جب بیرونی ماحول انتہائی طور پر آپ کے خلاف ہوجاتا ہے۔اس وقت حالات کی شدت سے بچنے کی صرف ایک سبیل ہوتی ہے۔وہ یہ کہ آپ اپنے اندرونی جذبات کو دبائیں اوراپنے اندر محبت اور درگذر کے جذبات کی پرورش کریں۔ باہر کی دنیا آپ کے ساتھ برائی کا معاملہ کرے تو آپ بھلائی کی صورت میں اس کا جواب دیں۔یہی طریقہ زندگی اور کامیابی کا طریقہ ہے۔اگر آپ بھی ویسے ہوگئے جیسا ماحول تھا تو یقیناً آپ مقابلہ کی اس دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

FEATURE
on Jan 12, 2021

کووڈ_19سے بچاؤ کے لیے ناک کے اندر سپرے کرنے والی ویکسین کا تجربہ آئندہ ماہ برطانیہ میں شروع ہونے کا امکان ہے۔اس تجرباتی ویکسین کو جنوری کے پہلے ہفتے میں لندن میں 48افرد پر آزمایا جائے گا۔کووی ویک ایک قسم کی ویکسین ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس تجربے میں شریک افراد میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ کووڈ وائرس کی ایک قسم داخل کی جائے گی جو اصل وائرس سے کمزور ہو گی اس میں بھی انفیکشن میں مبتلا کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ خسرہ کن پھیڑ اور جرمن خسرہ یا روبیلا سے بچوں کو بچانے کے لیے جو ایم ایم آر ویکسین لگائی جاتی ہے وہ بھی اس قسم کی ویکسین ہوتی ہے۔ لیکن ویکسین کے ذریعے جو وائرس جسم میں داخل کیا جاتا ہے وہ اتنا طاقتور نہیں ہوتا کہ سنگین نوعیت کی کسی بیماری میں مبتلا کرے۔کووی ویک کو استعمال کرنے کے لیے کوئی سوئی یا سرنج کی ضرورت نہیں ہوتی ہے،نا ہی ٹھنڈے کولڈ سٹوریج میں رکھنے کی ضرورت ہوگی۔کوڈاجینکس کمپنی کا کہنا ہے کہ جانوروں پر تجربات کے دوران ان کی ویکسین کی ایک خوراک کامیاب ریکارڈ ہوئی تھی اور اسے اس قسم کا بنایا گیا ہے جو کورونا وائرس کے مختلف حصوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرسکتی ہے۔اگر یہ وائرس خود کو تبدیل بھی کر دیتا ہے جیسا کہ حال ہی میں برطانیہ سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں، تو اس صورت میں یہ ویکسین کارگر ہو گی۔کوڈاجینکس کی ویکسین میں وائرس کی جو کمزور قسم استعمال کی جارہی ہے وہ وائرس کی اصل قسم کے رفتار کے مقابلے میں تقریباً ایک ہزار ویں رفتار سے اثر دکھا سکتی ہے۔ نوٹ۔ یہ نیزل کووڈ ویکسین ابھی تجرباتی مراحل میں ہے۔ کووڈ ویکسین کیا ہوتا ہے ؟ ویکسین میں وائرس کے جینیاتی کوڈ کے ذرات استعمال کیئے جاتے ہیں تاکہ جسم کے مدافعتی نظام کو بیدار کیا جاسکے۔یہ ویکسین ایم آر این اے کہلاتا ہے۔اس سے انسانی خلیات تبدیل نہیں ہوتے بلکہ یہ ذرات جسم کو یہ ہدایت کرتے ہیں کہ وہ کووڈ کے خلاف مدافعت کرے۔ ویکسین کی منظوری کون دیتا ہے؟ برطانیہ میں ویکسین کے استعمال کی منظوری طبی قانونی ادارہ اس وقت دیتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ محفوظ اور موثر ہے۔ویکسی نیش اور امیو نائزشن پر مشترکہ کمیٹی کے آزاد ماہرین ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ویکسین کو کس طرح بہتر طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ ویکسین کسے دی جانی چاہیے۔

FEATURE
on Jan 9, 2021

ڈیرہ بگٹی کا سیاسی منظرنامہ۔ نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد ضلع ڈیرہ بگٹی میں ایک سیاسی خلا پیدا ہو چکا تھا۔نواب بگٹی کا سارا خاندان علاقے سے باہر تھا اس وقتی خلا کو پُر کرنے کے لیے نواب اکبر بگٹی کے کچھ سیاسی حریف میدان میں اترے۔2008کے انتخابات میں میر طارق صوبائی اسمبلی اور میر احمدان قومی اسمبلی میں ڈیرہ بگٹی کی نمائندگی کرنے پہنچ گئے۔ بطور ایم پی اے اور ایم این اے ان دونوں نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔میر طارق نے پانچ سال کے سارے فنڈز ایک سڑک کی تعمیر میں استعمال کیئے۔104 کلومیٹر طویل یہ سڑک ان کے علاقے بیکڑ کو رکھنی سے ملاتی ہے۔بقول ان کے یہ سڑک بیکڑ کو دیگر علاقوں سے ملانے کا واحد ذریعہ ہے ۔میر احمدان بگٹی نے بھی چھوٹے سکیموں کے علاؤہ ڈیرہ بگٹی عوام کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔2013 کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر سرفراز بگٹی اور قومی اسمبلی کی نشست پر میر دوستین ڈومکی کامیاب ہوئے۔ میر دوستین ڈومکی نے ڈیرہ بگٹی کے لیے کچھ نہ کیا نہ بگٹی عوام کو کچھ توقع تھی۔ ۔ گزشتہ دور کے میر طارق اور میرا احمدان بگٹی کی نسبت میر سرفراز بگٹی نے علاقے کے لیے کچھ ترقیاتی کام کیئے۔انھوں نے گلی محلوں کی سڑکیں پختہ کرائیں۔پولیس اور لیویز میں لوگوں کو بھرتی کیا۔مگر کوئی بڑا منصوبہ نہیں دیا۔جن کو دیکھ کر لوگ سرفراز بگٹی کے دور حکومت کو یاد کرتے۔2018 کے الیکشن میں نواب اکبر بگٹی کے پوتے نواب زادہ گہرام بگٹی صوبائی اسمبلی کی نشست پر اور ان کے بڑے بھائی نواب زادہ شاہ زین بگٹی قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ڈھائی سال کا عرصہ پورے ہونے کو ہے لیکن ان دونوں بھائیوں نے بھی ڈیرہ بگٹی اور بگٹی عوام کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیے۔ا ن کی حکومت اور وزارتوں کا کاروان ابھی تک رواں دواں ہے ۔ابھی دو سال سے زائد کا عرصہ ابھی بھی باقی ہے۔ہوسکتا ہے آگے چل کر کوئی اپنی ٹھوس نشانی چھوڑ جائیں۔ان کی کارکردگی اور عوامی خدمت سے لوگ کتنے مطمئن ہیں یہ 2023 کے انتخابات بتائیں گے۔ بہرحال سیاست کے متعلق کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔ آنے والے وقتوں میں ڈیرہ بگٹی کا کیاسیاسی منظرنامہ سامنے آتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے۔

FEATURE
on Jan 8, 2021

میں پاکستان کا عام شہری ہوں۔ میرا تعلق کسی امیر گھرانے سے نہیں۔میں انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتا ہوں۔میرے بہت سے مسائل ہیں۔مجھے اکثر بتایا جاتا ہے کہ میرا ملک ایک نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔لیکن اس نظریے کا کیا فائدہ جس کا نفاذ نہ ہو سکے۔ معاشرتی اور سماجی انصاف کا خواب میرے لیے ابھی تک خواب ہے۔میرے وطن کو آزاد ہوئے کئی دہائیاں بیت گئیں لیکن میں آج بھی انصاف سے محروم ہوں۔ میں ابھی تک آزاد نہیں ہوا۔نہ ڈھنگ کی ملازمت نہ روزگار۔مہنگائی کا دیو ہر روز مجھے ڈرانے آتا ہے۔ میں جو رقم ایک ماہ میں کماتا ہوں اتنی رقم لوگ ایک وقت کے کھانے میں خرچ کر ڈالتے ہیں۔تعلیم،صحت،پانی آور چھت یہ سب سہولتیں میرے لیے نہیں ہیں۔ہسپتال جاؤں تو میرے لیے دوا نہیں۔سکول جاؤں تو میرے بچے کو داخلہ نہیں ملتا۔روزگار تلاش کروں تو میرے لیے نوکری نہیں۔افسروں اور وزیروں کے پاس میری بات سننے کا وقت نہیں۔مجھے پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔مجھے ملاوٹ سے پاک خوراک نہیں ملتی۔عدم تحفظ کا احساس لمحہ لمحہ ڈستا ہے۔میری زندگی کو کئی خطرہ لاحق ہیں۔نہ میرے لیے سڑکیں محفوظ ہیں نہ گھر کی چار دیواری۔ ضرورت کے وقت نہ مجھے قانون کی پناہ ملتی ہے۔نہ کوئی عدالت انصاف دیتی ہے۔ستم یہ ہے کہ مذہبی رہنما مجھ عذاب آخرت سے ڈراتے ہیں۔کیا یہ سارے عزاب سہہ کر بھی مجھ پہ کوئی عذاب آئے گا۔یہ ساری باتیں ایک عام پاکستانی کی ہیں۔ریاست نے ایک عام شہری کی زندگی کو کس طرح نظر انداز کر رکھا ہے۔پولیس، عدالتیں ، ڈاکخانہ ، واپڈا ،محکمہ صحت اور ایسے کئی ادارے یہ سب مل کر لوگوں کو آہنی شکنجے میں کس چکے ہیں۔ عام آدمی کبھی وطن کے نام پر لوٹا گیا اور کبھی کبھی مذہب کے نام پر۔ حالت کی سفاکیت اور اہل اقتدار کی سنگدلی۔ان سب نے اس دکھ کو اور گہرا کردیا اب تو اپنا حق مانگتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔دراصل میں دوسرے آدم کی اولاد ہوں۔میں جوہڑ کا پانی پیتا ہوں۔ میرا بھائی منرل واٹر پیتا ہے۔میں روٹی کو ترستا ہوں اور میرا بھائی کتے کو ڈبل روٹی کھلاتا ہے۔میں ننگے پاؤں چلتا ہوں اور میرا بھائی اٹالین جوتے پہنتا ہے۔۔مجھے سرکاری سکول میں داخلہ نہیں ملتا اور میرا بھائی بیرون ممالک میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔میں ایک عام پاکستانی ہوں ۔میں ادھوری تخلیق ہوں۔ میں دوسرے آدم کی اولاد میں سے ہوں اور میرا بھائی صدر ہے ، وزیر اعظم ہے، جج ، جنرل اور سرمایہ دار ہے۔ہاں میرا بھائی بلاول ہے ،شریف ہے اور خان ہے۔سنا ہے یہ سلسلہ بہت دور تک جاتاہے۔