ڈیرہ بگٹی کا سیاسی منظرنامہ۔
نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد ضلع ڈیرہ بگٹی میں ایک سیاسی خلا پیدا ہو چکا تھا۔نواب بگٹی کا سارا خاندان علاقے سے باہر تھا
اس وقتی خلا کو پُر کرنے کے لیے نواب اکبر بگٹی کے کچھ سیاسی حریف میدان میں اترے۔2008کے انتخابات میں میر طارق صوبائی اسمبلی اور میر احمدان قومی اسمبلی میں ڈیرہ بگٹی کی نمائندگی کرنے پہنچ گئے۔
بطور ایم پی اے اور ایم این اے ان دونوں نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔میر طارق نے پانچ سال کے سارے فنڈز ایک سڑک کی تعمیر میں استعمال کیئے۔104 کلومیٹر طویل یہ سڑک ان کے علاقے بیکڑ کو رکھنی سے ملاتی ہے۔بقول ان کے یہ سڑک بیکڑ کو دیگر علاقوں سے ملانے کا واحد ذریعہ ہے ۔میر احمدان بگٹی نے بھی چھوٹے سکیموں کے علاؤہ ڈیرہ بگٹی عوام کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔2013 کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر سرفراز بگٹی اور قومی اسمبلی کی نشست پر میر دوستین ڈومکی کامیاب ہوئے۔
میر دوستین ڈومکی نے ڈیرہ بگٹی کے لیے کچھ نہ کیا نہ بگٹی عوام کو کچھ توقع تھی۔
۔
گزشتہ دور کے میر طارق اور میرا احمدان بگٹی کی نسبت میر سرفراز بگٹی نے علاقے کے لیے کچھ ترقیاتی کام کیئے۔انھوں نے گلی محلوں کی سڑکیں پختہ کرائیں۔پولیس اور لیویز میں لوگوں کو بھرتی کیا۔مگر کوئی بڑا منصوبہ نہیں دیا۔جن کو دیکھ کر لوگ سرفراز بگٹی کے دور حکومت کو یاد کرتے۔2018 کے الیکشن میں نواب اکبر بگٹی کے پوتے نواب زادہ گہرام بگٹی صوبائی اسمبلی کی نشست پر اور ان کے بڑے بھائی نواب زادہ شاہ زین بگٹی قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ڈھائی سال کا عرصہ پورے ہونے کو ہے لیکن ان دونوں بھائیوں نے بھی ڈیرہ بگٹی اور بگٹی عوام کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیے۔ا ن کی حکومت اور وزارتوں کا کاروان ابھی تک رواں دواں ہے ۔ابھی دو سال سے زائد کا عرصہ ابھی بھی باقی ہے۔ہوسکتا ہے آگے چل کر کوئی اپنی ٹھوس نشانی چھوڑ جائیں۔ان کی کارکردگی اور عوامی خدمت سے لوگ کتنے مطمئن ہیں یہ 2023 کے انتخابات بتائیں گے۔
بہرحال سیاست کے متعلق کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔ آنے والے وقتوں میں ڈیرہ بگٹی کا کیاسیاسی منظرنامہ سامنے آتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
Right
good work
بہت بہترین لکھا ہے
اللہ تعالی ڈیرہ بگٹی کا امن و امان ہمیشہ قائم رکھے