اووربلنگ اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ
تحریر : *مسزعلی*
*گوجرانوالہ*
تیرے محلوں کی تکمیل
ہمارے خون پسینے سے ہے
پھر بھی امیر شہر تُجھے
تکلیف ہمارے جینے سے ہے
ملک میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔بجلی کی بچت بھی کی جاتی ہے تاکہ بل کم آئے پھر بھی 8,000 والا بل 20,0000 ہے۔ گھریلو بلز اور کمرشل بلز میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔اگر ایوریج بل 10،000 تک آتا تھا تو یہی بل 35،000 تک پہنچ گیا ہے۔ عوام کا میٹر بجلی کے بلوں میں اس اضافے سے گھوم کر رہ گیا ہے۔ 90 کی دہائی میں بجلی کے بلوں پر ایک جذباتی سی سٹیٹمنٹ ہوتی تھی لوگوں کو بجلی کی بچت کی موٹیوشن دینے کے لیے۔ بجلی سے روشن بلب کی تصویر بنا کر نیچے لکھا ہوتا تھا
،،یہ بلب بجلی سے نہیں آپ کے خون پسینے کی کمائی سے جلتا ہے،،
غریبوں کے خون پسینے کی کمائی حکومت کھا رہی ہے عوام سے بلوں کی وصولی کی مد میں۔ عوام اتنا خون پسینہ کہاں سے جنریٹ کرے کہ ان بلوں کی ادائیگی کر سکے۔ بجلی کا بل ہر مہینے ہر گھر میں ایک تھریٹ بن کر آتا ہے۔ ایک تو بل کے واجبات بہت زیادہ ہوتے ہیں دوسرا بل کی ادائیگی کے لیے صرف ایک سے دو دن کا ٹائم ہوتا ہے۔پھر ایل پی سرچارج کی فکر الگ سے۔ موجودہ بلوں پر بھی ایک ڈپلومیٹ سا فقرہ لکھا ہوا ہے پاکستانی جھنڈے کی تصویر کے ساتھ ،، اوور بلنگ کے خاتمے کے لیے پر عزم ،،جب کہ حکومت اوور بلنگ کے عروج کے لیے پر عزم ہے۔فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ یعنی ایف پی اے جیسے ٹیکس لگا کر۔
ہم گھروں میں جو بجلی استعمال کر رہے ہیں اس کی قیمت حکومت کو ادا کرنی ہی ہےلیکن ساتھ ساتھ ایف پی اے کی مد میں جو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے جو تیل بجلی کی جنریشن میں استعمال ہو رہا ہے اس کی قیمت بھی ادا کرنی ہےحکومتِ پاکستان نے قدرتی وسائل سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے پرائیویٹ کمپنیز کو ہائر کیا جن کو آئی پی پی ایس کا نام دیا گیا جو انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر کا مخفف ہے ۔ان کمپنیوں نے مہنگے تیل سے بجلی پیدا کرنی شروع کر دی۔یہ مہنگا تیل زمین سے نکلتا ہے اور انٹر نیشنل لیول پر جیسے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ایف پی اےبھی بڑھ جاتا ہے۔ قدرتی وسائل سے جو بجلی پیدا کی جاتی ہے ہوا سے،پانی سے اور دھوپ سے اس کی نسبت یہ بجلی انتہائی مہنگی ہوتی ہے۔
سو یونٹ بجلی استعمال کرنے کے چارجز علیحدہ ہوتے ہیں دو سو یونٹ پر علیحدہ اور تین سو یونٹس پر چارجز ڈیفرینٹ ہیں اور یونٹ کی کاسٹ بھی۔ ایک بل پر دو طرح کے ے واجبات ہوتے ہیں مثلاً گیپکو) ,لیسکو ،فیسکو وغیرہ ) چارجز اور گورنمنٹ چارجز۔یہ ٹیکسز کاسٹ آف الیکٹرسٹی،میٹر رینٹ کیو ٹیرف ایڈجسٹمنٹ،فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ،الیکٹرسٹی ڈیوٹی،ٹیلی ویژن فیس،جنرل سیلز ٹیکس،ایف سی سرچار ج فنانسانگ کاسٹ سرچارج یعنی پاور سیکٹر اربوں روپے کے جو قرضے لیتا ہے ان قرضوں کو اتارنے کی مد میں ایف سی سر چارج لیا جاتا ہے یہ بھی بلوں میں لگ کے آ تا ہے۔
لہٰذا استعمال شدہ بجلی کی قیمت بھی صارفین ادا کریں اور بجلی کی پروڈکشن یا جنریشن کا خرچہ بھی صارفین ٹیکسز ادا کر کے پورا کریں ۔ اتنی رقم بل کی نہیں ہوتی جتنی ٹیکسز کی ہوتی ہے۔ جو لوگ سولر پینل پر شفٹ ہو گئے ہیں ان کو بھی اتنا ہی بل دیا گیا ہے۔بلوں پر نظر ثانی کی جاۓ۔ اور بجلی کے محکمہ کے متعلق جو بھی پالیسی بنتی ہیں ان کو ریویو بھی کیا جائے ۔ بلوں میں اضافے کے زمہ دار پالیسی میکرز بھی ہیں جو غلط پالیسیاں بناتے ہیں ۔صارفین کو بل ان کی ماہانہ آمدنی اور استعمال شدہ یونٹس کے تناسب سے چارج کیا جائے۔امیر اور غریب دونوں ہی طبقے بجلی کے بلوں میں اضافے سے پریشان حال ہیں غریب آدمی اتنا زیادہ بل کہاں سے ادا کرے اگر بل مشکل سے ادا کر بھی لے تو باقی اخراجات کہاں سے پورے کرے ۔عوام کو بلوں میں ریلیف چاہیے۔ حکومت سستی بجلی پیدا کرنے کی پالیسیز بنائے نہ کہ عوام کو بجلی کے بلوں پر ٹیکس لگا کے مہنگی بجلی فراہم کرے۔
اہم نوٹ : ایسے معزز صارفین جنہیں میٹرنگ،بلنگ اور ٹیر ف کی درستگی کے حوالے سے شکایات ہیں وہ براہِ مہربانی بجلی جیسی چیز کو استعمال ہر گز نہ کریں۔
Good work. Keep it up
100% Right ????
great