Skip to content
  • by

مری کا سفر

میں اور میرے گھر والے کافی عرصہ سے سوچ ہی رہے تھے کہ ہم مری کی سیر کو جائیں،لیکن ہر بار کوئی نہ کوئ کام آ جاتا۔خیر ایک دن آخر کار ہم نے فیصلہ کر ہی لیا کہ ہم جا کر ہی رہیں گے،جمعہ کی صبح ہم اپنے گھر سے مری کی طرف روانہ ہوئے۔

چونکہ ہم راولپنڈی میں رہتے ہیں تو مری وہاں سے اتنا دور نہیں تھا تقریباً دو سے تین گھنٹے کا راستہ تھا۔ہم نے راستے میں بہت سے خوبصورت مناظر دیکھے،،اور راستے میں ایک جگہ پر بارش شروع ہو گئی پھر ایک جگہ پر ہم نے گاڑی روک سکتی یہ وہاں پر پر ایک ہوٹل سے کھانا کھایا یا کھانا کافی اچھا تھا تھا کھانے کے بعد ہم نے ادھر نماز پڑھی بڑی اور آگے کی طرف روانہ ہوئے ایک ہی گھنٹے بعد ہم مری پہنچ گئے وہاں پہنچ کر ہم نے دیکھا کی ہر طرف بادل ہی بادل ہے ہے اور دھند نے پورے مری کو گھیرا ہوا ہے ہم یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوئے کیونکہ ستمبر کے مہینے میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ہم کشمیر پوائنٹ میں ایک ڈھابے پر چائے پی رہے تھے اور ساتھ گرما گرم پکوڑے کھا رہی تھے کہ میرے سے چٹنی گر گئی اور جب ہم نے ان سے ایک پیالی چٹنی اور مانگی تو وہ غصہ کرنے لگے اور چٹنی دینے سے صاف انکار کر دیا ہمارے کافی اصرار کرنے پر انہوں نے آدھی پیالی دی اور اس کے بھی پورے پیسے وصول کئے۔اس بات سے ہمیں اندازہ تو ہو گیا کی یہاں کے لوگ اچھے نہیں ،،لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔رات ہوئی تو ہم مال روڈ گئے تاکہ رہائش کے لیے کوئی ہوٹل دیکھ سکیں۔

لیکن بارش کا موسم تھا تو ہوٹلوں کے مالکان نے اس بات کا خوب فائدہ اٹھایا کہ جو فیملیز ہیں وہ تو ہر صورت رہیں گی کیونکہ موسم بھی خراب تھا اور ان کے ساتھ بچے بھی تھے لیکن ہم نے جوں توں ایک ہی کمرا لیا رات گزاری اور اگلے دن ہی وہاں سے نکل پڑے اور واپسی پر پتریاٹا چئیر لفٹ میں بیٹھے اور وہاں سے واپس آئے اور دوبارہ کبھی وہاں جانے کا دل بھی نہیں کیا۔مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی اتنا خود غرض کیسے ہو سکتا ؟؟کیا صرف پیسا ہی سب کچھ ہے؟؟ کسی کی مشکل پریشانی کا کوئی احساس نہیں؟؟لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس قوم کا ضمیر مر چکا ہے۔ان کے لیے صرف پیسا اہمیت رکھتا ہے انسان نہیں!!!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *