(حصہ اول)
تحریر ۔۔۔۔ مسز علی گوجرانوالہ
وفاؤں میں اول نام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا ہے، جنہوں نے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری زندگی وفا نبھائی اور وفاؤں کی انتہا کر دی۔ وفاؤں میں اول و آخر نام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور کا ہو ہی نہیں سکتا۔
ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جو حق کا ترجمان ہے۔ نبی کا رازدان ہے، جو غار کا بھی رفیق ہے اور مزار کا بھی رفیق ہے، سب سے پہلے جس نے کعبہ میں خطبہ دیا،سب سے پہلے جو مومن کہلایا، سب سے پہلے جو صحابی کہلایا، آقا ﷺ جس کے دروازے پر چل کر گئے، آقا ﷺ کو جس نے اپنے کندھے پر اٹھایا، جو غار میں سب سے پہلے داخل ہوا، وہ ابو بکر صدیق ہی ہے۔ پہلوں میں پہل کرنے والا۔
وہ پہلا مدد گا ر، وہ پہلا صحابی
نبی ﷺ نے جسے ہر قدم پر دعا دی
وہ افضل بشر بعد ا ز انبیاء ہے
وہ جان صداقت جان وفا ہے
فرشتے اسی کی دعاؤں پر عاشق
اسی کی نمازوں اداؤں پر عاشق
نبیوں سے کمتر اماموں سے اعلٰی
محمد ﷺ سے ہر دم وفا کرنے والا
خدا اس پر راضی ہوا وہ خدا پر
کہیں قدسی آمین اس کی دعا پر
وہی ثانی الثنین کا ہے مخاطب
جھکاتا تھا نظریں عمر اس کے آگے
رسالت کے قدموں پر رکھ دے وہ لا کر
چلے گھر کا گھر اپنے سر پر اٹھا کر
بجز انبیاء سب سے بہتر وہی ہے
وہی صرف صدیق اکبر وہی ہے
مکہ مکرمہ سے یمن کے راستے میں ایک سرنگ ، ایک ٹنل جو کہ ،،نفق ھادی،، کے نام سے مشہور ہے اپنی ایک مکمل تاریخ رکھتی ہے ۔ نفق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ٹنل، اور ہادی کہا جاتا ہے گائیڈ ، رہنما یا راستہ دکھانے والے کو۔ چنانچہ ،،نفق ہادی،، سے مراد ہے ایک ایسی ٹنل یا گزرگاہ جس پر ایک رہبر يا رہنما نے رہنمائی کی۔ کائنات کے عظیم ترین رہنما رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس نفق ہادی سے گزرتے ہوئے کسی پوچھنے والے کو بتایا تھا کہ جو اعلیٰ ترین ہستی میرے ساتھ موجود ہے یہ میرا ہادی، میرا گائیڈ ہے جو مجھے راستہ بتا رہا ہے۔
واقعہ یوں ہے کہ جب مکہ مکرمہ کے حالات کٹھن ہو گئے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو امر الہٰی ہوا کہ آپ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چانچہ آپ ﷺ نے بحکمِ خدا اپنے بستر پر حضرت علی المرتضیٰ کو چھوڑا کہ یہ مکہ کے لوگوں کو ان کی امانتیں جو حضرت محمد ﷺ کے پاس تھیں لوٹا کر مدینہ منورہ تشریف لے آئیں گے۔ آپ ﷺ نے اپنے رفیق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو سفر ہجرت کے لیے منتخب کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے دوستی اور وفا خوب نبھائی اور کیا عمدہ پہرے داری کی کہ وفاؤں کی انتہا کر دی۔سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی پالیسی ملاحظہ فرمائیے کہ مکہ سے ڈائریکٹ مدینہ نہیں گئے اور تین دن غار ثور میں پناہ گزین رہے، غار ثور مدینہ کے راستے میں نہیں ہے بلکہ یمن کے راستے میں ہے۔ یہ پالیسی اس لیے اختیار کی کہ دشمن دھوکہ میں رہے۔ کیونکہ دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ نبی کریم ﷺ مکہ سے نکلیں گے تو مدینہ ہی جائیں گے کہ آپ ﷺ کے اکثر ساتھی ایک ایک کر کے مدینہ جا چکے ہیں۔بیعت عقبہ اولی ہو چکی ہے، بیعت عقبہ ثانیہ ہو چکی ہے۔ مدینہ کے لوگ آپ ﷺ کو آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
کفار مکہ نے آپ ﷺ کی گرفتاری کی قیمت سو سرخ اونٹ رکھی تھی۔جب سیدنا صدیق اکبر اور حضرت محمد ﷺ سفرہجرت کے لیے نکلے تو راستے میں ان کو ایک شخص ملا جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو تو جانتا تھا لیکن حضرت محمد ﷺ کو چہرے سے نہ جانتا تھا اسے شک گزرا کہ یہ وہی نہ ہوں جن کو کفار مکہ ڈھونڈھ رہے ہیں اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر یہ بڑا ٹف ٹائم تھا سچائی اور وفاداری کا امتحان تھا کہ اگر سچ بولوں تو یہ دوست کو گوارہ نہیں کہ گرفتاری عمل میں آئے اور اگر جھوٹ کہوں تو یہ صدیق کی صداقت کو گوارہ نہیں پھر کیا خوبصورت جواب دیا
،،ھذا هادی یھدی،،
،،یہ میرا رہنما ہے جو مجھے راستہ دکھا رہا ہے،،
وہ سمجھا کہ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بزنس مین ہے بڑا مالدار تاجر ہے، لمبے ٹورز پر جاتا رہتا ہے گائیڈ ساتھ رکھتا ہے۔ لیکن ابو بکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تو کچھ اور بتا رہے تھے یہ کچھ اور سمجھا، ابو بکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تو کہہ رہے تھے کہ مجھے دنیا بھی اسی سے ہے، دین بھی اور آخرت بھی۔یہ میرا رہنما ہے۔
اس وقت لوگ یا تو قافلوں کی صورت سفر کرتے تھے یا پھر اگر ہنگامی حالات میں کہیں جانا پڑتا تو گائیڈ ساتھ رکھتے جو راستے کی رہنمائی کرتا۔ کہ گوگل میپ تب متعارف نہیں ہوا تھا۔ سعودی حکومت کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ اس بات کی یاد میں اس گزرگاہ کا نام ،،نفق ھادی رکھ دیا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
Ma Sha allah
Very informative article
Keep it up
Agreed ????