حقِیر جانتا ہے، اِفتخار مانگتا ہے
وہ زہر بانٹتا ہے اور پیار مانگتا ہے
ذلِیل کر کے رکھا اُس کو، اُس کی بِیوی نے
(ابھی دُعا میں) مِعادی بُخار مانگتا ہے
ابھی تو ہاتھ میں اُس کے ہے خاندان کی لاج
گریباں سب کے جو اب تار تار مانگتا ہے
بِچھا کے رکھتا ہے وہ سب کی راہ میں کانٹے
صِلے میں لوگوں سے پُھولوں کے ہار مانگتا ہے
میں اپنے وعدے پہ قرضہ چُکا نہِیں پایا
مُعافی دِل سے ابھی شرمسار مانگتا ہے
حواس جب سے مِلے تب سے اِضطراب میں ہُوں
مِرے خُدا، مِرا دِل بھی قرار مانگتا ہے
امیرِ شہر نے چِھینا ہے مُنہ کا لُقمہ بھی
پِھر اُس پہ قہر ابھی اعتبار مانگتا ہے
ابھی یہ اہلِ سِیاست کے بس کا روگ نہِیں
ابھی یہ مُلک نیا شہسوار مانگتا ہے
بجا کے طائرِ چشمِ حسین ہے مشّاق
دل و نظر کا مگر یہ شکار چاہتا ہے
میں دیکھتا ہوں کہ زلفیں تری سنوارتا ہوں
ہے خواب اچّھا مگر انتظار مانگتا ہے
رشِیدؔ اُن پہ مِرا نغمہ کارگر ہی نہِیں
یہ گیت وہ ہے کہ جو دِل کے تار مانگتا ہے
رشِید حسرتؔ
بیڑی یہ مِرے پاؤں میں پہنا تو رہے ہو
پِھر عہد خُودی توڑ کے تُم جا تو رہے ہو
پلکوں کی مُنڈیروں پہ پرِندوں کو اُڑاؤ
تسلِیم کیا تُم مُجھے سمجھا تو رہے ہو
پچھتاوا نہ ہو کل، یہ قدم سوچ کے لینا
جذبات میں اُلفت کی قسم کھا تو رہے ہو
سمجھایا تھا کل کِتنا مگر باز نہ آئے
کیا ہو گا ابھی مانا کہ پچھتا تو رہے ہو
رہنے بھی ابھی دِیجِیے اشکوں کا تکلُّف
جب جانتے ہو دِل پہ سِتم ڈھا تو رہے ہو
اب ایک نئے طرزِ رفاقت پہ عمل ہو
تُم بِیچ میں لوگوں کے بھی تنہا تو رہے ہو
کل ٹھوکروں میں جگ کی کہِیں چھوڑ نہ دینا
اِک درد زدہ شخص کو اپنا تو رہے ہو
اِنسان کبھی رِزق سے بھی سیر ہُؤا ہے؟
تقدِیر میں تھا جِتنا لِکھا پا تو رہے ہو
اِس میں بھی کوئی رمز، کوئی فلسفہ ہو گا
حسرتؔ جی ابھی جھوم کے تم گا تو رہے ہو
رشِید حسرتؔ
—