دہاڑی رکھتا ہے۔

In ادب, عوام کی آواز
November 19, 2022
دہاڑی رکھتا ہے۔

وہ اپنے کاندھے پہ اب تک کُہاڑی رکھتا ہے
مگر وہ دوست ہی سارے کِھلاڑی رکھتا ہے

بس اِتنی بات پہ بِیوی خفا ہے شوہر سے
کہ ماں کے ہاتھ پہ لا کر دِہاڑی رکھتا ہے

ابھی تو قبر بھی محفُوظ نا رہی، اِنساں
کِسی کو دفن جو کرتا ہے، جھاڑی رکھتا ہے

ہزار تِیس ہے اُس کی پگھار جانتا ہُوں
کمال ہے کہ وہ اِس میں بھی گاڑی رکھتا ہے

اُتارا شِیشے میں اُس نے، فریب دے کے مُجھے
وُہ ایک شخص جو خُود کو اناڑی رکھتا ہے

بنا لِیا ہے جو کچّا مکاں کِسی نے یہاں
(وہ جھونپڑا بھی اگر ہے تو) ماڑی رکھتا ہے

کبھی رشِید کے من کو ٹٹول کر دیکھو
یہ دِل کا موم ہے، چہرہ پہاڑی رکھتا ہے

رشید حسرتؔ