“اگر میں کہوں پہاڑی کے اُس پار لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے مان لوگے؟ بالکل کیونکہ ہم نے آج تک آپ کو جھوٹ بولتے نہیں سُنا۔ تو کہو
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
کہاہم نہیں مانتے”
اس کے بعد وہ جادوگر بھی کہلائے، لوگوں کو ان کے مذہب سے ورغلانے والا بھی کہلائے، اپنوں کی دشمنی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور غیروں کی منافقت کا بھی۔ایسی گندی سوچ کے مالک ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ قائدِ اعظم کو بھی شیعہ اور کافر جیسے القابات دیئے جا چکے ہیں ماضی میں، اُسکی بہن فاطمہ جناح پر غداری کا الزام اور مقدمات کیے گئے، علامہ محمد اقبال پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ بلکہ کچھ لوگ تو انہیں آج بھی کافر قرار دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں نہیں یقین تو یوٹیوب پر سرچ کر لیں۔ آج بھی کچھ لوگ اُسی سوچ پر عمل کر رہے ہیں۔
ایک ایسا شخص جو پیدائشی امیر تھا، اعلیٰ اداروں میں تعلیم حاصل کی، بچپن سے ہی شہرت کی بلندیوں پر رہا، ملک کے لیے وہ ایوارڈ لایا جو اُس سے پہلے اور بعد (آج تک) کوئی نہ لا سکا۔ پیسہ، عزت، شہرت اپنے عروج پر ملی ہوئی تھی۔ قوم اُسے اپنا ہیرو مان چکی تھی۔ حاکمِ وقت اُس کے ساتھ چلنا، ملنا اپنے لیے فخر محسوس کرتے تھے۔ خود حاکمِ وقت اسے اپنے فیلڈ میں آنے کی دعوت دیتےرہے مگر وہ شخص انکار کرتا رہا۔ مشرف نے تو اُسے وزیرِ اعظم تک بنانے کی آفر دے دی مگر وہ بِکا نہیں۔ قدرت نے اس کی سب سے پیاری چیز (ماں) چھین لی۔ اس سے وہ بہت اداس ہوا اور ملک کے بارے میں سوچنے لگا۔ ملک کی غریب عوام کے بارے میں سوچنے لگا۔ سب کچھ بیچ کر ملک والوں کے لیے کچھ کرنے کے عزم سے نکلا۔
باہر جائیدادیں نہیں ہیں، بیوی بچے ملک کے لیے چھوڑ دیئے، اپنی ذاتی کمائی بھی عوام کے لیے وقف کر دی، ہسپتال بنائے، یونیورسٹی بنائی، کالج بنایا، الگ پارٹی بنائی، شہرت دولت عزت سب دائو پر لگا دی۔ حتیٰ کہ جان بھی خطرے میں ہے مگر پھر کچھ لوگ کہہ رہے ہیں۔۔۔ ڈرامے باز ہے، گولی لگی ہی نہیں، چار نہیں ایک لگی، گولی نہیں چھرے لگے، چھرے نہیں ٹکرے لگے، مارچ ٹھس ہوگیا، ایک سو بیس لوگ ہیں، دو سے چار ہزار لوگ ہیں، ملک دشمن ہے، اسلام دشمن ہے، یہودی ایجنٹ ہے، پہلے کہتے تھے فوج لائی، پھر کہا فوج کا لاڈلا ہے اب کہتے ہیں فوج کا دشمن ہے فوج کو کمزور کرنا چاہتا ہے، پہلے کہتے تھے بدلے کی سیاست کر رہا ہے، اب کہتے ہیں بدلہ لیں گے،ہمارے لیڈر کہیں تو خود اپنے ہاتھ سے گولی ماریں گے، سلمان اور شاہ رخ سے بھی بڑا ایکٹر ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تم کیا ہو؟ تم نے آج تک کیا کِیا ہے ملک کے لیے؟ اپنی جیب سےایک ڈھیلا بھی ملک کے لیے خرچ کیا؟ کل تم سب ایک دوسرے کےپیٹ پھاڑنے کی بات کرتے تھے آج تم سب نیک و پارسا ہوگئےہو؟
کل وہ فضلو فوج کو کہہ رہا تھا بیچ میں مت آنا۔ کھیلنے کا اتنا شوق ہے تو اتارو وردی اور آئو میدان میں دیکھ لیتے ہیں کس میں کتنا ہے دم؟ زرداری جو فوج کے بڑے عہدے داروں کا نام لیکر کہتا تھا ہم سے مت ٹکرانا پاش پاش ہوجائو گے۔ ہم نے بڑے بڑے ڈکٹیٹروں کو اپنے انجام تک پہنچایا ہے۔ نواز جس نے خود ہی کمیٹی تشکیل دی، خود ہی دعویٰ کیا کہ کچھ بھی ثابت ہوا تو ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا خود چلا جائوں گا۔ پھر کہتا تھا مجھے کیوں نکالا؟
عوام سے گذارش ہے کہ کب تک اپنی آنکھیں بند رکھو گے؟ آخر کب تک؟ عمران نے تیل مہنگا کیا تو یہ روئے، پھر سستا کیا تو یہ روئے؟ وہ سیاست میں آیا تو یہ روئے، حاکم بنا تو یہ روئے، آج باہر ہے تو یہ رو رہے ہیں۔ اُس کے دور میں کسی کو ننگا نہیں کیا گیا، نہ کسی کو مجبور کیا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر چلاجائے، نہ اُس کے دور میں کسی میڈیا چینل پر پابندی لگائی گئی، نہ کسی لانگ مارچ کا راستہ روکا گیا۔ یہ اب اتفاق نہیں اپنی آنکھیں کھولیں، سوچیں، کیا یہ لوگ آپ کو بے وقوفِ اعظم تو نہیں بنا رہے؟؟؟
آخر مِیں ایک درخواست پہ اختتام کروں گا کہ بے شک آپ عمران کو پسند نہیں کرتے مت کریں، مگر عمران کی دشمنی میں آکر ملک دشمنوں کو فائدہ بھی مت پہنچائیں۔ عمران سچا ہے یا نہیں اس سے یہ لوگ تو سچے ثابت نہیں ہوتے، عمران لائق ہے یا نہیں، اسکا مطلب یہ نہیں کہ یہ لائق ہیں اب ان کو حکمران بنا دیا جائے؟ فیصلہ خود کریں سوچ کے کریں کیونکہ یہ آپ کی آنے والی نسلوں کی بھلائی کا سوال ہے ملک کا سوال ہے۔
ہمیشہ کی غلامی یا ہمیشہ کی آزادی؟
بکواس تحریر۔کشمیر فروش ملک دشمن پاک فوج کے خلاف جعل سازی سے خودساختہ منصوبوں سے دوسروں پر بہتان لگا رہا ہے۔ چار سال میں ملک کی جڑیں کھوکھلی کرگیا۔