محبت کا دھوکا
جون کےگرم مہینے کی ٹھنڈی صبح کے وقت سورج افق سے جھانکتے ہوئے ہلکی ہلکی کرنیں زمین کے مکینوں پر بکھیر رہا تھا۔ کم گہرے بادل دوڑ دوڑ کر سورج کو پردۂ اخفا میں ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔سورج کبھی بادلوں کے دامن میں چھپ جاتا تو کبھی بادلوں کو چیر کر اپنی کرنیں زمین پر پھیلانے میں کامیاب ہوجاتا۔ بادلوں اور سورج کی اس آنکھ مچولی میں رقص کرتے ہوئے صبح کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے گاؤں کے لوگوں کو غنودگی آمیز سرور بخش رہے تھے۔ گاؤں کے سارے کھیت پانی سے لبالب تھے۔ سورج کی وقتاًفوقتاً پڑنے والی ترچھی شعاعوں سے کھیتوں کا سارا پانی آئینے کی طرح چمک رہا تھا۔ لوگ اپنے اپنے کھیتوں میں دھان کی بیجائی میں محو تھے۔
چودھری فضل دین کا وسیع و عریض کھیت ایک ہی لڑی میں پرویا ہوا تھا، البتہ درمیان میں مختلف فاصلے پر بنائی گئی ہلکی ہلکی پگڈنڈیاں اس کھیت کو عارضی حصوں میں تقسیم کر رہی تھیں۔ان پگڈنڈیوں کو بنانے کا بنیادی مقصد پانی کے بہاؤ کو یک طرفہ ہونے سے بچانا تھا۔چودھری فضل دین کے مزارع رحیمو کا بیٹا دلشاد دیگر لوگوں کی طرح دھان کی فصل بونے میں مصروف تھا۔وہ متوسط گھرانے کا نوخیز جوان تھا۔ شاداب چہرہ، بھرے ہوئے رخسار، کتھئی رنگت کے بال اور جواں ڈیل ڈول اسے ایسے پرکشش بنائے ہوئے تھے جیسے موسم بہار میں کھلے پھول لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ گھر میں ضروریات زندگی اسے آسانی کے ساتھ میسر تھیں اور لوگ پیار سے اسے شادن کے نام سے پکارتے تھے۔
کھیتوں کے داہنی جانب ایک ندی بہ رہی تھی جو کھیتوں کو سیراب کرتی تھی۔ ندی کے ایک کنارے پر پختہ لنک روڈ بنا ہوا تھا جو گاؤں کے لوگوں کی آمدورفت میں نہایت آسانی پیدا کر رہا تھا جبکہ دوسرے کنارے کے نشیب میں چودھری فضل دین کا خالی پلاٹ کھلے میدان کی شکل میں موجود تھا۔ اس پلاٹ کا عرض جہاں ختم ہو رہا تھا اس کے آگے تاحد نگاہ گاؤں والوں کے گھر آباد تھے۔ پلاٹ کو خالی پا کر ایک خانہ بدوش گھرانے نے وہاں اپنا عارضی ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔سرکنڈوں سے بنے چھپر کے ساتھ پرانا اور میلا کچیلا خیمہ اور خیمے کے سامنے کچھ فاصلے پر موجود پیپل کا درخت، جس کی گھنی چھاؤں میں ننگے پیر اور صرف شلوار پہنے سانولی رنگت کے بچے سادہ زندگی کی روشن مثال ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی احساس دلا رہے تھے کہ صرف ان کی رہائش گاہ ہی عارضی نہیں بلکہ دنیا میں سب کا سفر و حضر بھی وقتی ہے، اس لیے اس دنیا میں اتنا زادِ راہ پیدا کیا جائے جتنا یہاں رہنا ہے۔
اسی خیمے میں سراپا حسن ، سرو قد اور سیماب صفت ایک جواں لڑکی بھی موجود تھی جو اکثر و بیشتر اپنی شوخ اداؤں کے ساتھ چھوٹے بچوں میں اچھل کود رہی ہوتی تھی۔ کھیتوں کی طرف آتے ہوئے دلشاد کی طائرانہ نگاہ جب اس لڑکی پر پڑی تو وہ ایک ہی لمحے میں اس کی آنکھوں میں بس گئی۔ وہ پہلی ہی نظر میں اس لڑکی پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔سادہ سرخ لباس پہنے خوب رو جوان لڑکی اسے یوں لگی جیسے انار کی ابھرتی ہوئی کلی ہو۔ چھدے ہوئے ناک میں ہیرے کی لونگ، ہوا کے نرم جھونکوں میں رقص کرتی زیرِ کمر سیاہ زلفیں اور غربت کے احساس میں جھلکتا ہوا حسن اس نے شاید پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ ایک لمحے کو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ قدرت نے اسے گدڑی میں لعل دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
کھیتوں میں دھان کی بوائی کرتے وقت بھی اس کے دل و دماغ میں وہی لڑکی سموئی ہوئی تھی۔ تازہ ہوا کے محسور کن جھونکوں میں وہ اسے اپنے تصورمیں لائے ہوئے تھا اور اس کی لہراتی زلفوں کے لمس کا احساس حاصل کرکے دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔وہ وقت گزرنے اور دھوپ کی شدت سے گرمی بڑھنے کا منتظر تھا تاکہ فصل کی بوائی کے کام میں سہ پہر تک کےلیے وقفہ کرکے گھر جائے تو اس کے حسن کا دیدار کرکے جائے کیونکہ وہ اس پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔
سورج بڑھتے ہوئے وقت کے دھارے میں بہ کر بلند ہوتا گیا اور لوگوں کو ایسے آنکھیں دکھانے لگا جیسے قدیم زمانے کا متکبر بادشاہ اونچی مسند پر بیٹھ کر اپنی رعایا پر بادشاہت کا رعب جما رہا ہو۔ سورج کا یہ رویہ کھیت میں کام کرنے والوں کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا اس لیے سب اپنا کام چھوڑ کر گھروں کو روانہ ہونے لگے۔ دلشاد تو پہلے ہی اس وقت کا شدت سے منتظر تھا۔ گھر جاتے ہوئے اس کے دل میں حسرت پل رہی تھی کہ راستے میں وصلِ محبوب ہو یا نہ ہو لیکن اس کے حسن کا دیدار ضرور نصیب ہو ورنہ بےچین دل کے کرب کو قابو میں رکھنا اس کے بس سے باہر ہوجائے گا۔ اسے لگتا تھا کہ اس کا دل ایک چھوٹے بچے کی مانند ہےجو کسی بات پر اڑ جائے تو کسی لمحے چین نہیں لینے دیتا جب تک کہ اس کی دلی مراد پوری نہ ہوجائے۔اس کا دل اس لڑکی پر اڑ چکا تھا۔
خیمے کے پاس آتے ہی اسے یوں لگا جیسے اس کی چاہت اس کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہوگی اس لیے اس کے بڑھتے قدم سست پڑ گئے۔اس کی آنکھیں لڑکی کے دیدار کےلیے ملتجی نظر آ رہی تھیں اور دل وصل کی تمنا لیے تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ گرمی کی شدت میں چلنے والی لُو بھی اس کے پسینے کو خشک نہیں کر پا رہی تھی۔ وصلِ محبوب کی دلی تمنا کی قبولیت سے پہلے اس کی آنکھوں کو دیدارِ یار نصیب ہو گیا۔اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے لڑکی کی نظروں میں اپنی نظریں جمائیں تو لڑکی نے بھی اپنے رخساروں پر خوب صورت مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے اس سے آنکھیں چار کیں۔ یہ منظر دلشاد کے دل کو شاد کرگیا۔اسے یقین ہوگیا کہ لڑکی بھی مائل بہ الفت ہے۔ اس کا یقین سچ میں بدل چکا تھا کیونکہ لڑکی بھی سچ مچ دلشاد کو دل دے بیٹھی تھی۔ایک دوسرے سے نظریں چار ہوتے ہی دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کےلیے محبت کی لہر جاگ چکی تھی۔ ہلکی ہوا کا ہر جھونکا انھیں ایک دوسرے کے لمس کا احساس دلاتا تھا۔ یوں دو دلوں کے ایک ساتھ دھڑکنے کا آغاز ہوا تو دلشاد کے دل میں اس خواہش نے انگڑائی لی کہ وہ اپنی محبت کو اپنی پسینے سے تر باہوں میں تھما لے اور اسے اتنا پیار کرے کہ وہ تھک کر رو دے۔ روتی ہوئی لڑکی کا حسن اس کے دل پر اس شدت سے برستا تھا کہ اس کا دل چاہتا تھا کہ اسے اپنے پیار میں اس قدر مسل ڈالے کہ اس کی آنکھیں اپنے آنسوؤں کے سفید موتی اس کے سینے پر بکھیرتی رہیں۔
اس نے اپنی اس خواہش کا عارضی طور پر دم گھوٹ کر لڑکی کو اشارے کنایوں میں اپنی سچی محبت کا احساس جتلایا اور اس سے ملنے کا وقت بھی مانگ لیا۔ لڑکی جو پہلی نظر میں اس کی پرکشش آنکھوں، خوب صورت شکل و صورت اور جواں ڈیل ڈول پر فریفتہ ہوچکی تھی۔ اس لیے اس نے اسی رات کے چند لمحات اسے دینے میں ذرا بھی تامل نہ کیا۔ سورج دن بھر کی مسافت طے کرتے کرتے تھک چکا تھا اس لیے جھٹ پٹے کا وقت ہوتے ہی وہ اپنی روشنی کھونے لگا اور بالآخر بادلوں کی چادر اوڑھ کر مغرب کی سمت سو گیا۔ رفتہ رفتہ چھانے والا اندھیرا دلشاد کا وفادار بن کر اس کی لڑکی سے ملاقات کی حسین محفل سجانے کا انتظام کر رہا تھا۔ جلد ہی یہ انتظام بھی آب وتاب کے ساتھ پورا ہو چکا تھا۔ وہ رات کے اندھیرے اور فضا میں چھائے سناٹے میں پیپل کے درخت کے پاس موجود تھا جہاں اس کے دل کی راج کماری پہلے ہی اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ پیار بھری باتوں کے دوران دلشاد پر پہلی بار اپنی محبت کا نام آشکارا ہوا۔ ” حسینہ ” کتنا پیارا نام ہے۔ بالکل میری چاہت کے عین مطابق اور ” حسینہ دلشاد” کتنا خوب صورت نام ہوگا جب تم میری زندگی کے ساتھ جڑ جاؤ گی۔” دلشاد نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
” بہت ہی پیارا ” لڑکی نے پیار بھری مسکراہٹ سے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
محبوب کی کالی گھٹا جیسی زلفوں کے سائے میں رازو نیاز اور محبت بھری باتیں ہو رہی ہوں تو وقت گزرنے کا احساس ہوتا ہے اور نہ اجازت طلب کرنے کی خواہش دل میں جاگتی ہے مگر کوئی نہ کوئی سبب اچانک سامنے آکر رخصت چاہنے کا وسیلہ ضرور بن جاتا ہے۔ رات کافی ڈھل جانے کی مجبوری نے بھی حسینہ اور دلشاد کو جدا ہونے پر مجبور کردیا اور دلشاد نہ چاہتے ہوئے بھی گھر جانے پر مجبور ہوگیا۔ اس نے اپنی محبت کو اپنے گلے لگایا اور پیار بھری آنکھوں سے اپنی بھرپور چاہت کا اظہار کیا اور گھر آ کربستر پر لیٹ گیا۔ وہ بڑی دیر تک حسینہ کے ساتھ گزری پُرلطف یادوں میں کھویا رہا اور ان یادوں میں کھوئے لمحوں میں اسے پتا ہی نہ چلا کہ وہ کب نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔
اگلی رات بھی پیپل کا درخت دونوں کے وصل کا میزبان بنا مگر اب کی رات میں پہلی رات والی رونق نہیں تھی کیونکہ دلشاد کی حسینہ کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔وہ کسی گہری فکر میں مبتلا تھی۔فکر و پریشانی اس کے چہرے پر نمایاں پڑھی جاسکتی تھی۔وہ دلشاد کو فون پر اپنی فکرمندی کے متعلق وہاں آنے سے پہلے ہی اچھی طرح آگاہ کر چکی تھی۔ دلشاد کو اس کی پریشانی کا مکمل احساس تھا اس لیے وہ اس کا حوصلہ بڑھانے اور اس سے مکمل ہمدردی جتانے کے ساتھ ساتھ اپنا بھرپور ساتھ دینے کی یقین دہانی میں مصروف تھا۔ حسینہ کے چہرے پر عیاں اداسی اور فکرمندی اس کے دل کو کاٹنوں کی طرح چبھ رہی تھی۔ اس نے حسینہ کے کندھوں پر پیار بھرے ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی اور کہا: ” مجھے مرجھائے پھول اچھے نہیں لگتے اس لیے میں تمھارا پھولوں جیسا چہرہ مرجھایا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔ تمھارے باپ کے دل کا آپریشن صدمے کی بات ضرور ہے لیکن اس پر تم ہمت ہار کر اداس رہو یہ مجھے گوارہ نہیں۔ آپریشن کےلیے مطلوب تین لاکھ کی رقم کا بندوبست تو میں کرکے ہی آیا ہوں۔ باقی اللہ پاک کرم فرمائے گا، آپریشن کامیاب ہوگا اور تمھارے والد جلد صحت یاب ہوں گے اس لیے تم ہرگز اداس مت ہو۔کم ازکم میرے سامنے تو بالکل بھی نہیں۔اس تھیلے میں پورے تین لاکھ روپے ہیں۔یہ میری سچی محبت کا حقیقی تحفہ ہے جو کسی کی جان بچانے کےلیے کام آ رہا ہے۔میرے لیے اس سے بڑھ کر خوشی اور اطمینان کی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ تمھارے باپ کے آپریشن اور ان کے صحت مند ہونے کے بعد میں تمھیں ہمیشہ کےلیے اپنے دل کی ملکہ بنا کے لے جاؤں گا۔ یہ کہ کر دلشاد نے رقم کا تھیلا حسینہ کے ہاتھ میں تھما دیا جسے حسینہ نے نم آنکھوں کے ساتھ قبول کر لیا۔ اس کی آنکھوں میں دکھ اور خوشی کے ملے جلے جذبات تھے مگر وہ دلشاد کی باتیں سن کر فرطِ مسرت کےساتھ اس کے گلے سے لپٹ گئی اور کہنے لگی:” تمھارا یہ احسان میں کبھی بھلا نہ سکوں گی۔میرے دل میں تمھاری محبت اب پہلے سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ میرا جینا مرنا اب ہمیشہ تمھارے ہی ساتھ ہوگا”۔
کون کہتا ہے کہ محبت کے صلےمیں صرف بےوفائی ملتی ہے۔ سچی محبت تو جنگلی درندوں کو بھی رام کر دیتی ہے انسان تو پھر بھی احساس ،ہمدردی اور احسان مندی جیسے وسیع جذبات رکھتا ہے۔ ان خیالات کے ساتھ دلشاد گھر آ کر مکمل قلبی اطمینان کے ساتھ سوگیا۔ صبح ہوتے ہی اس نے کھیتوں کا رخ کیا تاکہ فصل کی باقی ماندہ بوائی کے ساتھ ساتھ راستے سے گزرتے ہوئے حسینہ سے اس کے والد کی خیریت بھی پوچھ سکے اور پریشانی کی اس گھڑی میں اس کی ڈھارس بھی بندھا سکے اور اسے مزید حوصلہ بھی دے سکے۔ اسی بامقصد سوچ کے ساتھ وہ ایک پل میں پیپل کے درخت کے نیچے موجود تھا مگر سامنے کے منظر نے اس کا دل دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس درخت کے نیچے اب کی بار کوئی رونق تھی اور نہ ہی اس کے سامنے کوئی خیمہ تھا، البتہ سرکنڈوں سے بنا خالی اور ویران چھپر اس کی محبت کی آخری نشانی کے طور پر موجود تھا۔ وہ اپنا دل حسینہ پر مکمل ہار چکا تھا۔اس نے حسینہ سے سچی محبت کی تھی لیکن دوسری طرف سچی محبت نہیں تھی بلکہ اس کی محبت سے فائدہ اٹھانے کےلیے بچھا ہوا جال تھا جس میں پھنس کر وہ اپنے گھر والوں کی برسوں کی جمع پونجی بھی لٹا بیٹھا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ حسینہ کا پیار و محبت سے لبریز معصوم چہرہ یوں ملمع ثابت ہوگا۔ وہ اپنی محبت کے ہاتھوں دھوکا کھا کر لٹ چکا تھا۔ اس کا محبت پر سے اعتبار تو اٹھ گیا تھا لیکن حسینہ سے جڑی محبت میں گزرا ایک ایک پل اس کی یادوں میں بس کر اس کے دل پر کاری ضرب لگا رہا تھا۔اب اس کے پاس سوائے اپنی بےبسی پر ماتم کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
تحریر: محمد امیرعمرفاروق سہرانی، چوک قریشی، تحصیل و ضلع مظفرگڑھ۔